برائے اصلاح...فاصلوں سے کہہ دو نا

عینی خیال

محفلین
فاصلے ہمیشہ سے قربتوں کے قاتل ہیں
فاصلوں نے ہر باری قربتوں کو روندا ہے
بے یقینی کا منظر دل کو گھیرے رہتا ہے
آس کے سبھی بندھن ٹوٹ کر بکھیرتے ہیں
دل کے نرم گوشوں میں بے بسی یہ بھرتے ہیں
غم کے گہرے دریا میں اشک کے ہرے پتھر
دکھ کی تیز لہروں سے اپنا سر پٹختے ہیں
بے سبب الجھتے ہیں
راستے نہیں ملتے،منزلیں نہیں ملتیں
یاد گدگداتی ہے،ہر گھڑی رلاتی ہے
موسموں کی نیت کچھ اس طرح بدلتی ہے
راس ہی نہیں آتیں دل کو یہ بہاریں پھر
کچھ کمی سی رہتی ہے عمر بھر ہمیشہ پھر
فاصلوں سے کہہ دو نا،
اسطرح سے راہوں میں تاک نہ لگائے پھر
پھر نہ راستہ بدلیں چاہتوں کے دریا کا
پھر سبب نہ بن جائیں یہ کسی جدائی کا
فاصلوں سے کہہ دو نا
اب کی بار رخ بد لیں،پھر نہ لوٹ کر آیئں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے عینی۔
فاصلوں نے ہر باری قربتوں کو روندا ہے​
÷÷یہاں باری بمعنی ’بار‘ استعمال ہوا ہے جو درست نہیں۔ اور ’فاصلے‘ دونوں مصرعوں میں بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے​
ہر دفعہ انہوں نے ہی قربتوں کو روندا ہے​
(اس سے بہتر بھی ممکن ہے،یہ تو فوراً سوجھ گیا ہے)​

اشک کے ہرے پتھر؟؟؟؟​

راس ہی نہیں آتیں دل کو یہ بہاریں پھر​
کچھ کمی سی رہتی ہے عمر بھر ہمیشہ پھر​
دونوں مصرعوں میں پھر‘ دہرانا اچھا نہیں۔ اور اس کی تشست بھی ایسی ہے کہ ردیف محسوس ہوتی ہے۔ لیجن قوافی نہیں۔ اس کو یوں کر دو تو​
دل کو یہ بہاریں بھی​
راس ہی نہیں آتیں​
عمر بھر ہمیشہ​
پھر​
کچھ کمی سی رہتی ہے​

اسی طرح یہ مصرع​
پھر سبب نہ بن جائیں یہ کسی جدائی کا​
یوں بدلا جا سکتا ہے تو بہتر اور رواں ہو۔​
پھر​
کسی جدائی کا​
یہ​
سبب نہ بن جائیں​

مزید مصرع بھی رواں ہو سکتے ہیں۔ آزاد نظم ہے، اتنی تو آزادی ہونا چاہئے کہ مصرعوں کی نثر آسانی سے بنائی جا سکے۔ غزل تو نہیں کہ ردیف قوافی کی مجبوری ہو۔​
 
Top