برائے اصلاح - تیری یادوں سے تیرہ ماضی کا

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
استادِ محترم الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل:

تیری یادوں سے تیرہ ماضی کا
ہے منور نصیبہ ماضی کا

غرقِ دریائے حال ہو گیا وہ
جس نے چھوڑا سفینہ ماضی کا

جب بھی تیرا خیال آیا ہے
کھل گیا اک دریچہ ماضی کا

بھر گئی ہے زمیں تعفن سے
جاں فزا ہے جزیرہ ماضی کا

جب ملا ہوں پرانے یاروں سے
وا ہوا اک دفینہ ماضی کا

یادِ ماضی سے میرے رخ پر ہے
اک تبسم کشیدہ ماضی کا

مڑ کے دیکھا تو بت بنا دے گی
کہ یہی ہے قرینہ ماضی کا

عاشقوں کے لیے دسمبر ہے
اک مہینہ، مہینہ ماضی کا

تو بھی رہنے لگا جو ماضی میں
پھٹ نہ جائے گا سینہ ماضی کا؟

چند گھڑیاں تو جی لے اے غافل
گا کے تو بھی قصیدہ ماضی کا
 
تیری یادوں سے تیرہ ماضی کا
ہے منور نصیبہ ماضی کا
نصیبا کو الف سے ہی لکھنا چاہیے ، یہ دیسی اختراع ہے :)
ویسے مجھے لگ رہا ہے کہ یہ قافیہ بندی ٹھیک نہیں ۔۔۔ میرے خیال میں تیرہ کی ہ ہائے ہوز ملفوظی ہے ۔۔۔ ہائے ہوز کا قافیہ الف کے ساتھ ملانا تب درست ہوتا ہے جب ہ کی آواز خفی ہو ۔۔۔ جیسے دریچہ، شکستہ وغیرہ میں (بٹ آئی ایم ناٹ شیور اباؤٹ دس :) )
مطلع مجھے دو لخت بھی لگا ۔۔۔

غرقِ دریائے حال ہو گیا وہ
جس نے چھوڑا سفینہ ماضی کا
پہلے مصرعے کی روانی مخدوش لگی مجھے ۔۔۔

جب ملا ہوں پرانے یاروں سے
وا ہوا اک دفینہ ماضی کا
دونوں مصرعوں میں ایک ہی ٹینس استعمال کریں تو بہتر ہے، دوسرے مصرعے ماضی کا صیغہ ہے تو پہلے میں بھی ماضی کا صیغہ ہی استعمال کریں ۔۔۔ جیسے، جب ملا میں پرانے یاروں سے

مڑ کے دیکھا تو بت بنا دے گی
کہ یہی ہے قرینہ ماضی کا
میرے خیال میں یہاں بنا دے گی کے بجائے بنا دے گا کہیں تو بہتر ہے ۔۔ ۔ماضی کو بطور اسم مونث شاید ہی کوئی اب استعمال کرتا ہو۔
کس کو بت بنا دے گا؟ یہ نکتہ بھی ڈبیٹ ایبل ہو سکتا ہے۔

عاشقوں کے لیے دسمبر ہے
اک مہینہ، مہینہ ماضی کا
بھرتی کا شعر لگا مجھے ۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نصیبا کو الف سے ہی لکھنا چاہیے ، یہ دیسی اختراع ہے :)
ویسے مجھے لگ رہا ہے کہ یہ قافیہ بندی ٹھیک نہیں ۔۔۔ میرے خیال میں تیرہ کی ہ ہائے ہوز ملفوظی ہے ۔۔۔ ہائے ہوز کا قافیہ الف کے ساتھ ملانا تب درست ہوتا ہے جب ہ کی آواز خفی ہو ۔۔۔ جیسے دریچہ، شکستہ وغیرہ میں (بٹ آئی ایم ناٹ شیور اباؤٹ دس :) )
مطلع مجھے دو لخت بھی لگا ۔۔۔
پھر استاد صاحب کی رائے کا انتظار کر لیتے ہیں۔
ویسے نثر کچھ اس طرح بنے گی شاید: "تیری یادوں سے تیرہ ماضی کا نصیبا منور ہے"
پہلے مصرعے کی روانی مخدوش لگی مجھے ۔۔۔
"غرقِ دریائے حال ہے وہ شخص"
اب دیکھیے گا۔
دونوں مصرعوں میں ایک ہی ٹینس استعمال کریں تو بہتر ہے، دوسرے مصرعے ماضی کا صیغہ ہے تو پہلے میں بھی ماضی کا صیغہ ہی استعمال کریں ۔۔۔ جیسے، جب ملا میں پرانے یاروں سے
بہت بہتر۔
"جب ملا میں پرانے یاروں سے
وا ہوا اک دفینہ ماضی کا"
میرے خیال میں یہاں بنا دے گی کے بجائے بنا دے گا کہیں تو بہتر ہے ۔۔ ۔ماضی کو بطور اسم مونث شاید ہی کوئی اب استعمال کرتا ہو۔
کس کو بت بنا دے گا؟ یہ نکتہ بھی ڈبیٹ ایبل ہو سکتا ہے۔
بت بنے مڑ کے دیکھنے والے
کیسا ہے یہ قرینہ ماضی کا

اور بھرتی والے شعر کو نکال دیا۔
 
ویسے مجھے لگ رہا ہے کہ یہ قافیہ بندی ٹھیک نہیں ۔۔۔ میرے خیال میں تیرہ کی ہ ہائے ہوز ملفوظی ہے ۔۔۔ ہائے ہوز کا قافیہ الف کے ساتھ ملانا تب درست ہوتا ہے جب ہ کی آواز خفی ہو ۔۔۔ جیسے دریچہ، شکستہ وغیرہ میں (بٹ آئی ایم ناٹ شیور اباؤٹ دس :) )
ہائے خفی ہی ہے، فیضی کا مصرع ہے:
من بی تو تیرہ روز و تو بی من چگونہ ای

بھر گئی ہے زمیں تعفن سے
جاں فزا ہے جزیرہ ماضی کا
جاں فزا اور تعفن کا باہمی ربط بہت ژولیدہ سا ہے۔ دوسرا یہ کہ بحر اور جزیرے کی دوگانگی سمجھ میں آتی ہے، زمین اور جزیرے کی نہیں۔

جب بھی تیرا خیال آیا ہے
کھل گیا اک دریچہ ماضی کا
یہاں بھی دونوں مصرعوں میں فعل کا زمانہ موافق نہیں۔ کچھ ایسے کہا جا سکتا ہے:

جب بھی آیا ترا خیال مجھے
کھل گیا اک دریچہ ماضی کا
تو بھی رہنے لگا جو ماضی میں
پھٹ نہ جائے گا سینہ ماضی کا؟
ماضی کے سینے سے کیا مراد ہے اور وہ پھٹتا کیونکر ہے؟
جب ملا ہوں پرانے یاروں سے
وا ہوا اک دفینہ ماضی کا
دفینہ وا ہونا کیا محاورہ ہے؟

چند گھڑیاں تو جی لے اے غافل
گا کے تو بھی قصیدہ ماضی کا
یہ بھی محض بھرتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جاں فزا اور تعفن کا باہمی ربط بہت ژولیدہ سا ہے۔ دوسرا یہ کہ بحر اور جزیرے کی دوگانگی سمجھ میں آتی ہے، زمین اور جزیرے کے نہیں۔
بحر و بر میں ہے اک تعفن سا
جاں فزا ہے جزیرہ ماضی کا
یہاں بھی دونوں مصرعوں میں فعل کا زمانہ موافق نہیں۔ کچھ ایسے کہا جا سکتا ہے:
جب بھی آیا ترا خیال مجھے
کھل گیا اک دریچہ ماضی کا
بہت بہتر
دفینہ وا ہونا کیا محاورہ ہے؟
جب ملا میں پرانے یاروں سے
مل گیا اک دفینہ ماضی کا
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر
کیا ایک غزل میں یہ دو بحریں آسکتی ہیں۔
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
 
الف عین سر
کیا ایک غزل میں یہ دو بحریں آسکتی ہیں۔
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
صرف اول الذکر مانوس بحر ہے اور اس میں مفعول کو مفاعیل سے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ آخر الذکر بحر بھی میں نے استعمال ہوتے دیکھی ہے مگر اس پر تجربے صرف ماہرینِ عروض کے لیے ہی چھوڑ دینے چاہیئیں۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع مجھے تقابل قبول لگ رہا ہے، دو لختی کا عیب اتنا نا گوار نہیں
باقی تو اب غزل مکمل ہو ہی گئی، الحمد للہ، میری ضرورت نہیں ہے یہاں اب۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مطلع مجھے تقابل قبول لگ رہا ہے، دو لختی کا عیب اتنا نا گوار نہیں
باقی تو اب غزل مکمل ہو ہی گئی، الحمد للہ، میری ضرورت نہیں ہے یہاں اب۔
اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔ آپ کی رائے کے بغیر ایک تشنگی سی رہتی ہے۔
آپ کی ہمیشہ سے بے پناہ توجہ اور عنایات کا بہت شکریہ
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تیری یادوں سے تیرہ ماضی کا
ہے منور/چمکتا نصیبا ماضی کا

غرقِ دریائے حال ہے وہ شخص
جس نے چھوڑا سفینہ ماضی کا

جب بھی آیا ترا خیال مجھے
کھل گیا اک دریچہ ماضی کا

بحر و بر میں ہے اک تعفن سا
جاں فزا ہے جزیرہ ماضی کا

جب ملا ہوں پرانے یاروں سے
مل گیا اک دفینہ ماضی کا

یادِ ماضی سے میرے رخ پر ہے
اک تبسم کشیدہ ماضی کا

بت بنے مڑ کے دیکھنے والے
کیسا ہے یہ /کیا عجب ہے قرینہ ماضی کا
 
آخری تدوین:
تیری یادوں سے تیرہ ماضی کا
ہے منور/چمکتا نصیبا ماضی کا
میرے خیال میں منور زیادہ بہتر ہے

بت بنے مڑ کے دیکھنے والے
کیسا ہے یہ /کیا عجب ہے قرینہ ماضی کا
کیا عجب ہے ٹھیک رہے گا۔
 
Top