برائے اصلاح - اک پھول کل چمن میں کہنے لگا خزاں سے

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گزارش ہے۔
چند اشعار ایک نئے انداز سے لکھنے کی کوشش کی ہے۔ کیا ایسی کوئی صنف شاعری کی موجود ہے؟ اگر ہے تو اس کو کیا کہیں غزل، نظم یا کچھ اور؟

اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے
گلشن میں بن بلائے، آئی ہے تو کہاں سے

موسم بہار کا تھا، ہر شے پہ تازگی تھی
پھولوں کی مسکراہٹ، ہر صبح دیدنی تھی
شبنم کے پانیوں سے، سبزہ چمک رہا تھا
بلبل کی راگنی میں، پُر کیف نغمگی تھی
تیرے سبب نہ جائے، رونق یہ گلستاں سے

اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے
گلشن میں بن بلائے، آئی ہے تو کہاں سے

چھائی تھی آسماں پر، پیاری سی بدلیاں بھی
پھولوں کو چومتی تھیں، اڑ اڑ کے تیلیاں بھی
قرطاس گل کدے کا، رنگوں سے سج گیا تھا
مسرور بھنوروں کی، پھرتی تھی ٹولیاں بھی
بادل بھی رنگ بن کر، چمٹے تھے آسماں سے

اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے
گلشن میں بن بلائے، آئی ہے تو کہاں سے

باغوں میں جھولتے تھے، بچے خوشی سے جھولے
اترائے پھر رہے تھے، آسودگی سے پھولے
بچوں کو دیکھ کر خوش، مستی میں جھومتے تھے
خوشبو بھری ہوا کے، اڑتے ہوئے بگولے
بے طمع ہو گیا تھا، ہر شخص دو جہاں سے

اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے
گلشن میں بن بلائے، آئی ہے تو کہاں سے

گل تتلیاں پرندے، دیتے ہیں سب دہائی
تیرے سبب تباہی، باغ و چمن میں آئی
بھولے ہوئے تھے سارے، سچ کو فنائیت کے
دنیا کی بے ثباتی، آ کر تو نے دکھائی​
گو ظاہراً تو کچھ بھی کہتی نہیں زباں سے
اک پھول کل چمن میں کہنے لگا خزاں سے
گلشن میں بن بلائے آئی ہے تو کہاں سے​
 
یہ پانچ مصروں والی مخمّس ہے ۔نہ جانے ایسی کوئی صنف ہے یا نہیں ۔ میرا خیال ہے کچھ لوگوں نے اس طرح لکھا ہے ۔مگر ہے بہت خوب ۔آپ نے تسلسل ٹوٹنے نہیں دیا ۔ پوری کہانی بیان کر دی۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی قطعہ بند نظم ہے، ابتداً اس طرح کی نظمیں بہت کہی جاتی تھیں نظیر اور اختر شیرانی وغیرہ کے دور میں۔ نظیر کی نظموں میں قطعے میں اکثر چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتے تھے۔ تم نے چوتھے مصرع میں یہ التزام نہیں رکھا ہے۔
صرف دو اغلاط محسوس ہوتی ہیں۔
بھنوروں میں معلنہ ن نہیں ہے، تم نے فاعلن بنایا ہے جب کہ یہ فعلن کے وزن پر ہے
دوسرے، فنائیت کوئی لفظ نہیں محض فنا ہی کافی ہے اسم کے لیے بھی
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
بھنوروں میں معلنہ ن نہیں ہے، تم نے فاعلن بنایا ہے جب کہ یہ فعلن کے وزن پر ہے
گڑبڑ تو لگ رہی تھی، لیکن عروض کی سائٹ پر فعلن پر درست نہیں دکھا رہا تھا اس لیے ایسا کیا۔ متبادل سر یوں ٹھیک رہے گا۔

مسرور پھر رہی تھیں بھنوروں کی ٹولیاں بھی

دوسرے، فنائیت کوئی لفظ نہیں محض فنا ہی کافی ہے اسم کے لیے بھی
ٹھیک ہے سر اس کا یہ متبادل ٹھیک ہے

بھولے ہوئے تھے سارے سچائی کو فنا کی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی قطعہ بند نظم ہے، ابتداً اس طرح کی نظمیں بہت کہی جاتی تھیں نظیر اور اختر شیرانی وغیرہ کے دور میں۔ نظیر کی نظموں میں قطعے میں اکثر چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتے تھے۔ تم نے چوتھے مصرع میں یہ التزام نہیں رکھا ہے۔
نظیر ،اسمعیل اوراختر شیرانی صاحب نے بہت منظومات ایسی کہی ہیں ۔ لیکن یہاں تیسرا مصرع رباعی کے طرز پر آزاد کیا گیا ہے جو ٹھیک نہیں ۔
بہت اچھی نظم ہے لیکن کمزور ساخت پر استوار ہونے کی وجہ سے واقعی کچھ بے تکی لگ رہی ہے ۔
میرا مشورہ ہو گا کہ چار مصرع مقفی کر کے پانچویں مصرع کے ساتھ ٹیپ کا مصرع (شروع والا) جوڑ دیں اس طرح ایک اچھی قطعہ بند مسدس شکل کی بن جائے گی ۔
یعنی کسی مستحکم ڈھانچے پر رکھ کر اسے اچھی صورت دی جاسکتی ہے ۔ باقی ملاحظات بھی ہیں لیکن وہ چیزیں ثانوی ہیں ۔
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
نظیر اور اسمعیل اختر شیرانی صاح نے بہت منظومات ایسی کہی ہیں ۔ لیکن یہاں تیسرا مصرع کو رباعی کے طرز پر آزاد کیا گیا ہے جو ٹھیک نہیں ۔
بہت اچھی نظم ہے لیکن کمزور ساخت پر استوار ہونے کی وجہ سے واقعی کچھ بے تکی لگ رہی ہے ۔
میرا مشورہ ہو گا کہ چار مصرع مقفی کر کے پانچویں مصرع کے ساتھ ٹیپ کا مصرع (شروع والا) جوڑ دیں اس طرح ایک اچھی قطعہ بند مسدس شکل کی بن جائے گی ۔
یعنی کسی مستحکم ڈھانچے پر رکھ کر اسے اچھی صورت دی جاسکتی ہے ۔ باقی ملاحظات بھی ہیں لیکن وہ چیزیں ثانوی ہیں ۔
شکریہ عاطف بھائی۔ اگر میں ٹھیک سمجھا ہوں تو کیا یہ ترتیب درست ہے؟


اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے
گلشن میں بن بلائے، آئی ہے تو کہاں سے

موسم بہار کا تھا، ہر شے پہ تازگی تھی
پھولوں کی مسکراہٹ، ہر صبح دیدنی تھی
سبزے کی پتیوں پر، شبنم چمک رہی تھی
بلبل کی راگنی میں، پُر کیف نغمگی تھی

تیرے سبب نہ جائے، رونق یہ گلستاں سے
اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے
 

الف عین

لائبریرین
معذرت کہ میں نے چوتھے مصرع کو بغیر قافیہ لکھا تھا، یہ در اصل تیسرا تھا۔ عاطف بھائی کی بات درست ہے کہ اس طرح مروجہ فارمیٹ میں ڈھل جائے گی نظم
 

فلسفی

محفلین
سر الف عین ، سید عاطف علی بھائی، تبدیلیوں کے بعد حاضر ہے

اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے
گلشن میں بن بلائے، آئی ہے تو کہاں سے

موسم بہار کا تھا، ہر شے پہ تازگی تھی
پھولوں کی مسکراہٹ، ہر صبح دیدنی تھی
سبزے کی پتیوں پر، شبنم چمک رہی تھی
بلبل کی راگنی میں، پُر کیف نغمگی تھی

تیرے سبب نہ جائے، رونق یہ گلستاں سے
اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے

اٹھکھیلیاں فضا میں، کرتی تھی بدلیاں بھی
ہر گل کو چومتی تھیں، اڑ اڑ کے تتلیاں بھی
پھولوں نے سیکھ لیں تھیں، رنگوں کی بولیاں بھی
مسرور پھر رہی تھیں، بھنوروں کی ٹولیاں بھی

بادل بھی روئی بن کر، چمٹے تھے آسماں سے
اک پھول کل چمن میں کہنے لگا خزاں سے

باغوں میں کھیلتے تھے، بچے خوشی سے پھولے
دیتے تھے باریوں میں، اک دوسرے کو جھولے / دیتے تھے باری باری، اک دوسرے کو جھولے
مستی میں گل کدے کے، سارے اصول بھولے
خوشبو بھری ہوا کے، اڑتے ہوئے بگولے

بے طمع ہو گیا تھا، ہر شخص دو جہاں سے
اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے

گل تتلیاں پرندے، دیتے ہیں سب دہائی
تیرے سبب تباہی، باغ و چمن میں آئی
موسم بدل کے خوشبو، ہر پھول سے مٹائی
دنیا کی بے ثباتی، آ کر تو نے دکھائی

گو ظاہراً تو کچھ بھی، کہتی نہیں زباں سے
اک پھول کل چمن میں، کہنے لگا خزاں سے​
 

الف عین

لائبریرین
دیتے تھے باری باری، اک دوسرے کو جھولے
یہ مصرع بہتر ہے

کچھ مجھ سے صرف نظر ہو گیا تھا
بے طمع ہو گیا تھا، ہر شخص دو جہاں سے
بے فکر ہی کہو، سامنے کا لفظ ہے

دنیا کی بے ثباتی، آ کر تو نے دکھائی
تُنے تقطیع ہونا درست نہیں
پھر تو نے آ دکھائی. .. شاید بہتر ہو
 

فلسفی

محفلین
دیتے تھے باری باری، اک دوسرے کو جھولے
یہ مصرع بہتر ہے

کچھ مجھ سے صرف نظر ہو گیا تھا
بے طمع ہو گیا تھا، ہر شخص دو جہاں سے
بے فکر ہی کہو، سامنے کا لفظ ہے

دنیا کی بے ثباتی، آ کر تو نے دکھائی
تُنے تقطیع ہونا درست نہیں
پھر تو نے آ دکھائی. .. شاید بہتر ہو
بہت شکریہ سر۔
 
Top