برائے اصلاح۔ تم سے الفت مرے سرکار ہوئی جاتی ہے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ


تم سے الفت مِرے سرکار ہوئی جاتی ہے
زندگی اور بھی دشوار ہوئی جاتی ہے

اجنبی ہونے لگے ہیں ترے چہرے کے نقوش
گفتگو پھر تری تکرار ہوئی جاتی ہے

بات کرنے کا نہیں اذن تری محفل میں
کیا کسی شاہ کا دربار ہوئی جاتی ہے

مثلِ خورشید ہوئے جاتے ہو تم، اور مری
زندگی سایہِ دیوار ہوئی جاتی ہے

مجھ کو حالات کی چکی نے یوں پیسا کہ مری
سلب سب طاقتِ گفتار ہوئی جاتی ہے

پھر یہاں حاجتِ اقدار بھی کیا انساں کو
جب مشیں قوم کی معمار ہوئی جاتی ہے

بک گئی تو یہی ٹھیلوں پہ دکھائی دے گی
شرم جو زینتِ بازار ہوئی جاتی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خوب ہے ما شاء اللہ غزل -
حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ، سلامت رہیں
یہاں کیا مراد ہے شاعر کی ؟
شاعر ☺️
شاعر تو میں خود کو تب مانوں گا جب آپ شعراء دوستوں کے معیار کے مطابق کوئی ایک غزل ہی کہہ لی۔
یہاں پر شاید عجزِ بیان ہے جس کی تشریح کا حکم ہوا۔ دراصل میں نے اپنے مخاطب کی بلاوجہ کی ناگواری کی کیفیت پر تأثرات دئیے ہیں کہ۔
پھر( تو برہم ہے تو) تیرے چہرے کے نقوش بدل گئے۔ بالکل اجنبی سا لگنے لگا ہے تیری گفتگو بھی تکرار بن گئی ہے۔
 
Top