بد تمیزی بہت ہوچکی!

بچے سنبھالنا آسان کام نہیں، خاص طور پر جب ان کی عمر دو سے تین سال کے درمیان ہو، ایسے وقت میں تو بچوں کو قابو کرنا نہایت مشکل ہے۔ قابو غالباً ایک منفی لفظ ہے، بری بات کہنے، بدتمیزی اور غلطی سے روکنے کی کوشش دراصل درست اصطلاح ہے۔ کوئی بھی ماں یہ نہیں چاہتی کہ اس کے بچے کو بدتمیزی سمجھا یا کہا جائے، بچے کو کسی بھی قسم کا منفی رویہ اپنانے سے روکنے کا کام دن میں کسی ایک وقت نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ تو ایک مسلسل کام ہے، دن بھر آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ بچہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے، اس کا رویہ کیسا ہے، وہ آپ کے ساتھ اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ کیسے برتائو کر رہا ہے۔ دن بھر بچے مختلف رویّے کا مظاہرہ کرتے ہیں، ایسے میں ماں کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ دن بھر اس رویّے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو اور مناسب ردعمل بھی جانتی ہو۔ عام طور پر والدین بچوں کی بدتمیزی پر ان کو ڈانٹ ڈپٹ کر یا سزا دے کر چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ سزا اور ڈانٹ کتنے بچوں کو تمیز اور آداب سے متعارف کرتی ہے؟ شاید بہت کم یا بالکل نہیں۔ آپ کو غصہ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ایسی تکنیک اپنانے کی ضرورت ہے جو بچے کی عمر کے مطابق، تمیز و آداب سکھانے کے لیے کار آمد ہو۔ یہ تکنیک کیا ہے؟ آئیے جانتے ہیں:
یاد رکھیں، آپ کے سامنے کون ہے:اپنے تین سال کے بچے کا رویّہ آپ کے لیے مشکل اور پریشانی کا سبب ہے؟ یہ مشکل مرحلہ ہے، اس کے لیے بھی، آپ کے لیے بھی۔ دن بھر اس کے ہر غلط قدم پر دھیان دیجئے، لیکن سب سے پہلے یہ جان لیجئے کہ اس کی کون سی حرکات آپ کو سب سے زیادہ نامناسب محسوس ہوتی ہیں؟ ایسی باتیں جن پر آپ کئی بار پابندی لگا چکی ہیں، جیسے گھر سے باہر سائیکل چلانا یا اکیلے گھر سے باہر نکل جانا وغیرہ۔ وہ بری بات جو آپ کے لیے تکلیف دہ، پریشان کن اور بچے کے لیے خطرناک ہے، کیا وہ اس سے روکنے پر عادت ترک کر رہا ہے؟ کیا وہ آپ کی نصیحت پر عمل کر رہا ہے؟ سادہ اور آسان اصول متعین کیجئے، جن کا نتیجہ منطقی ہو، جو بات کہئے، اس پر عمل بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر بچے دانت کاٹنے کی عادت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل سزا نہیں، بلکہ یہ سمجھانا بہتر ہے کہ دانت کاٹنا اچھا کیوں نہیں، اس سلسلے میں سزا کے طور پر کھیلنے پر پابندی لگائیے، ان کی پسند کا کام کرنے نہ دیجئے، اس طرح بچے میں یہ احساس اجاگر ہوگا کہ دانت کاٹنا غلط ہے، جس پر سزا ملے گی۔ بچوں کو مستقل مزاجی سے سمجھائیے، جب آپ نے کہہ دیا کہ دانت کاٹنے پر یہ سزا ملے گی تو اس پر عمل بھی کیجئے۔ والدین کی غیر مستقل مزاجی، بچوں کو خودسر اور ضدی بنادیتی ہے اور وہ ان کی ڈانٹ اور نصیحت پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتے۔ جھوٹ بولنا، گالی دینا، بدتمیزی اور نافرمانی جیسی باتوں کے لیے سزا مخصوص ہونا چاہئے۔ اس طرح بچے کو احساس ہوگا کہ وہ بدتمیزی کے بعد سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ یہ خیال بھی رہے کہ اکثر بچے، تھکن کی وجہ سے بدتمیز ہوجاتے ہیں، کبھی کبھی بھوک یا بیماری بھی ان کو چڑچڑا بنادیتی ہے۔ یاد رکھئے، آپ ماں ہیں، بچے کی ضرورت اور مسئلے کو بہتر انداز میں سمجھ سکتی ہیں۔
احتیاط کا دامن تھام لیجئے:صبح باورچی خانے میں آپ ناشتہ تیار کر رہی ہیں، اس دوران آپ کا بچہ کیبنٹ کے دروازے کھولتا ہے، سامان نکال کر پھینکتا ہے، پیاز، آلو کی ٹوکری گرادیتا ہے، اور آپ کے غصے کی انتہا نہیں رہتی۔ اب ذرا سوچئے کہ جب یہ باتیں معمول ہیں تو آپ اس سلسلے میں کچھ کرتی کیوں نہیں؟ کیا دو سے چار سال کے بچے کو یہ سمجھنا ممکن ہے کہ وہ جاننے کی کوشش نہ کرے؟ کسی سامان کو ہاتھ نہ لگائے؟ یا کیبنٹ کے دروازے کھولنے سے اسے چوٹ لگ سکتی ہے؟ اگر سمجھانا ممکن نہیں تو احتیاط کیجئے۔ اپنا باورچی خانہ اس انداز میں سجائیے کہ بچہ سامان نہ بکھیر سکے۔ کیبنٹ کے دروازوں پر بے بی لاک کا استعمال کیجئے۔ چائلڈ پروفنگ آپ کے بہت سے مسائل کا حل ہے، بچے کی فطرت ہے کہ وہ اپنے اردگرد موجود چیزوں کو جاننا چاہتا ہے، اور آپ کا کام یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں جو اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یوں آپ پریشانی سے بچ جائیں گی اور بچہ، بد تمیز اور نافرمان بھی نہ لگے گا۔
بچے کےمزاج کو سمجھئے:ممکن ہے آپ کا بچہ صبح بیدار ہو تے ہی اچھے موڈ میں ہو، لیکن دوپہر میں تھک جانے پر چڑچڑا پن کا مظاہرہ کرے، ایسی صورت میں بہتر ہے کہ آپ سیر و تفریح، خریداری یا ڈاکٹر سے ملاقات کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کریں، جب اس کا موڈ اچھا ہو۔ اس وقت بچے سے بات کرنا بھی ممکن ہوگا، اسے نئی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں، نئے کھیل سے متعارف کروایا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی بہترین طرز عمل ظاہر کرنے کی تربیت بھی دی جاسکتی ہے۔ جب آپ بچے کو گھر سے باہر جانے والے کسی منصوبے سے آگاہ کریں گی تو وہ اس کام کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوجائے گا اور آپ کو باہر جانے پر بدترین رویّے کا سامنا نہیں ہوگا۔ بچے اچانک بہت سے نئے افراد کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں۔ اس موقع پر بدتمیزی یا ضد اور چڑچڑا پن فطری ہے، آپ صورتحال کو سمجھ کر بہتر انداز اپناسکتی ہیں۔
تحمل کا دامن نہ چھوڑیئے:کیا صرف بچے بد تمیز ہوتے ہیں؟ ہم بڑے بھی اکثر ایسی حرکت کر جاتے ہیں، جو بے حد عجیب ہوتی ہے۔ یاد رکھئے، جس طرح بچے کا رویہ آپ کو تکلیف دیتا ہے، اسی طرح آپ کی کوئی سخت بات ان کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچا سکتی ہے۔ اکثر مائیں کہتی ہیں، میں بدتمیزی برداشت نہیں کر سکتی۔ ہمارا مشورہ ہے، بدتمیزی کا سامنا تحمل سے کیجئے، تحمل میں ہی آسانی ہے۔ نرم، دھیمی آواز، شفقت بھرا انداز اور لہجہ مثبت ہو گا تو وہ حکم اور ڈانٹ سے زیادہ اثر دکھائے گا۔ کھانا کھانے کا وقت ہوگیا ہے، لیکن بچہ کھیلنے میں مصروف ہے۔ اس موقع پر آپ کا چیخنا، چلّانا کام نہیں آئے گا۔ آرام سے کہہ دیجئے، ’’کھانا لگنے والا ہے، ہاتھ دھو آئو‘‘ یہ مثبت انداز بچے کے لیے مناسب ہے، البتہ ایسے جملے کہنا جن سے غصہ ظاہر ہو مثلاً ’’جائو فوراً ہاتھ دھو کر آئو‘‘ یا جن میں تنقید ہو، ’’تمہارے ہاتھ اور پیر کتنے گندے ہو رہے ہیں‘‘ نامناسب ہیں، بچے کے ساتھ ایسے جملے استعمال کرنا ہی دراصل اسے بدتمیز بنانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

ماخد
 
آپا ، صنان کی وجہ سے آج کل بچوں کی نیچر اور تربیت کے حوالے سے اسے آرٹیکلز کا مطالعہ کرتی رہتی ہوں،
ویسے بھی صنان اور آیان کی عادات میں زمین آسمان کا کا فرق ہے صنان کی موجودہ عمر میں آیان نے بولنا سیکھ لیا تھا، لیکن صنان نے ابھی تک بولنا شروع نہیں کیا اپنی طرف متوجہ کرنا ہو تو چیخ مار کر متوجہ کرتا ہے.
عدنان کہتے ہیں ہر بچے کی بولنے کی ٹائمنگ مختلف ہوتی ہے اپنے موڈ میں ہو تو ماما، بابا بولتا ہے ورنہ بس چیختا ہے
 

فاخر رضا

محفلین
آپا ، صنان کی وجہ سے آج کل بچوں کی نیچر اور تربیت کے حوالے سے اسے آرٹیکلز کا مطالعہ کرتی رہتی ہوں،
ویسے بھی صنان اور آیان کی عادات میں زمین آسمان کا کا فرق ہے صنان کی موجودہ عمر میں آیان نے بولنا سیکھ لیا تھا، لیکن صنان نے ابھی تک بولنا شروع نہیں کیا اپنی طرف متوجہ کرنا ہو تو چیخ مار کر متوجہ کرتا ہے.
عدنان کہتے ہیں ہر بچے کی بولنے کی ٹائمنگ مختلف ہوتی ہے اپنے موڈ میں ہو تو ماما، بابا بولتا ہے ورنہ بس چیختا ہے
آپ کو چاہیے کہ بچے کو اشارہ میں کہی گئی بات کا جواب نہ دیں اور اس کا اشارے سے کہا گیا کام نہ کریں

دوسرے بچے کو گونگے کارٹون دیکھنے سے روکیں مثلاً مسٹر بین، پنک پینتھر وغیرہ وغیرہ

بچے کو موبائل وغیرہ سے دور رکھیں اور اس سے بات کریں

ان تین باتوں پر عمل کرنے سے بچہ بولنے لگے گا. امید ہے کہ اس کی قوت سماعت آپ نے چیک کرا لی ہوگی
 
آپ کو چاہیے کہ بچے کو اشارہ میں کہی گئی بات کا جواب نہ دیں اور اس کا اشارے سے کہا گیا کام نہ کریں

دوسرے بچے کو گونگے کارٹون دیکھنے سے روکیں مثلاً مسٹر بین، پنک پینتھر وغیرہ وغیرہ

بچے کو موبائل وغیرہ سے دور رکھیں اور اس سے بات کریں

ان تین باتوں پر عمل کرنے سے بچہ بولنے لگے گا. امید ہے کہ اس کی قوت سماعت آپ نے چیک کرا لی ہوگی
عدنان بھی چائلڈ سپیشلسٹ ہیں انہوں نے مجھے صنان کو موبائل یا ٹیبلٹ دینے سے سختی سے منع کیا ہے، کچھ کھلانے لگے موبائل دیتی ہوں ورنہ نہیں،
جی الحمداللہ قوت سماعت بلکل ٹھیک ہے نام پکارنے سے فوراً متوجہ ہوتا ہے
 
Top