بدنامی باغ - سلمان حیدر (ڈان اردو)

حسان خان

لائبریرین
بادامی باغ کے درختوں پر لگنے والے بادام کے پھول تو ہماری نسل کے لیے افسانہ ہی ہیں لیکن جوزف کالونی کے مکینوں کو انتہا پسندی کے جس کسیلے پھل کا ذائقہ گذشتہ دنوں چکھنا پڑا ہے وہ آج کے پنجاب کی ایک تلخ حقیقت ہے۔

جوزف کالونی میں مسیحی دوستوں کے گھروں کو لگائی جانے والی آگ نے بادامی باغ کو ہمارے جرائم کی فہرست اور شرمندگی کی وجوہات میں اضافہ کرتے ہوئے بدنامی باغ بنا دیا ہے۔ یہ اور بات کے بدنامی کا یہ داغ بھی جاتی ہوئی پنجاب حکومت کو آنے والے دنوں میں انتہا پسندی کے خلاف اقدامات پر مجبور نہ کر سکے۔

ٹینٹ خیمے، سیمنٹ کی بوریاں، امداد کے چیک، تسلیاں، ہمدردی، اظہار یکجہتی، یہاں تک کے بپھرے ہوئے مجاہدوں کی گرفتاریاں اگر مسیحی دوستوں کے زخموں کا مرہم بن بھی جائیں تب بھی انتہا پسندی کے رستے ہوئے ناسور کا علاج نہیں ہو سکتیں۔

بادامی باغ پنجاب میں مذہبی انتہا پسندی کا پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ گوجرہ میں مسیحی بھائیوں کی بستی جلانے والے تمام مجاہد بھائی آج تک آزاد ہیں اور مقدمے کا مدعی اپنی جان کے خوف سے چھپتا چھپاتا کسی کافر ملک میں پناہ لے چکا یعنی انصاف کے تقاضے پورے ہوئے۔

پنجاب کے جس امن و امان کا ترانہ خادم اعلی اور ان کی جماعت کورس میں بڑے زور شور سے پنجاب کے علاوہ ہر دوسرے صوبے میں ہونے والے دھماکے کے بعد بجاتے ہیں اس کی وجہ پنجاب حکومت اور انتظامیہ کا انتہا پسندی کے سانپ کو دیکھ کے رستہ بدل لینا ہے نا کہ اس کا سر کچل دینا۔

مذہبی انتہا پسندی کا جو عفریت ریاست نے عوام کا خون پلا پلا کر پالا تھا وہ اب اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ منہ کا ذ ائقہ بدلنے کو ریاست کا لہو چاٹنے سے بھی باز نہیں آتا۔

اس مذہبی انتہاپسندی کو امیر المومنین حضرت ضیا الحق نے اجتماعی زندگی میں اس پردے کے طور پر متعارف کروایا تھا جسے رمضان میں کھانا کھانے جیسی دہشت گردی کرنے سے پہلے ریستوران کے دروازے پر ڈالنا ضروری ہوتا تھا۔

ضیا کے جانے کے بعد یہ انتہاپسندی رفتہ رفتہ وہ رومال بن گئی جسے جماعت اسلامی والے فحش بل بورڈ پر سیاہی پھینکنے سے پہلے منہ پر لپیٹنا ضروری سمجھتے تھے۔

وقت کچھ اور گزرا ہے تو یہ مذہبی انتہاپسندی عام لوگوں کے لیے وہ بیج بن گئی ہے کہ جسے سینے پر لگانے کے بعد کافروں کے گھر جلانے کے لیے نے منہ چھپانے کو رومال کا انتظام کرنا پڑتا ہے اور نہ رات کے پردے کا انتظار۔

ریاست سے مذہبی تنظیموں اور مذہبی تنظیموں سے عام لوگوں تک کے اس سفر میں انتہاپسندی کے ہشت پا نے معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور ریاست اپنے پالے ہوئے اس عفریت کا سر کچلنا تو کجا اس کی گرفت کو اپنی مٹھی چاپی سمجھ کر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔

اس انتہاپسندی نے معاشرے کو اس حد تک اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے کہ اب بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے نام بھی الیکشن یاترا سے پہلے ان انتہا پسندوں کے چرن چھونا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ وہ ان کا راستہ نا کاٹیں اور انہیں حکومت کے ایوانوں تک پہنچنے دیں۔

ریاست سے سیاست اور سیاست سے سماج تک انتہاپسندی کا یہ سفر کیسے طے ہوا یہ ایک لمبی کہانی ہے جس میں مدرسوں اور سکولوں کے نصاب سے ریالوں اور دیناروں کے حساب تک بہت کچھ آتا ہے لیکن اس کہانی کے مختلف کرداروں سے قطع نظر اگر ریاست اور حکومتیں انتہاپسندی کے آکٹوپس کے پاؤں کاٹنے کے بجائے ان پر نیل پالش لگاتی رہیں تو بادامی باغ سے رائیونڈ دور ہے نہ لاہور سے پنڈی۔

ربط
 

ساجد

محفلین
سلمان حیدر نے کچھ حقائق بیان کئے ہیں جن سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کی تحریر میں الجھاؤ بہت نمایاں ہے۔ وہ دہشت گردی کو بہت ہلکا لے رہے ہیں اور اپنے نظریاتی حریفوں پر اس کا ملبہ ڈال کر اپنے کالم کا پیٹ بھرتے دکھائی دے رہے ہیں حالانکہ بقول ان کے یہ ایک ریاستی مسئلہ ہے ۔
اللہ کی شان ہے کہ میڈیا پر کالم نگاری میں کیسے کیسے نمونے منظر عام پر آ رہے ہیں۔
 
Top