بدل کے بھی روش ، اکتا رہی ہے۔۔۔برائے اصلاح

نمرہ

محفلین
اصلاح اور مرمت وغیرہ کے لیے ایک غزل پیش خدمت ہے۔

بدل کے بھی روش ، اکتا رہی ہے
طبیعت پھر سے پلٹا کھا رہی ہے
شمع دل کی جو بجھتی جا رہی ہے
سیاہی چار سو منڈلا رہی ہے
جہاں میں شور بڑھتا جا رہا ہے
دلوں پر اک خموشی چھا رہی ہے
کوئی رستہ تو روکے آرزو کا!
یہ ناداں اب کدھر کو جا رہی ہے؟
تخیل لے گیا آگے ہی آگے
فراست راہ میں سستا رہی ہے
گزاری عمر یو ں تیرہ شبی میں
تصور میں سدا فردا رہی ہے
لیے ہاتھوں میں ٹکڑے سب، کھڑی ہے
مجھے امید پھر بہلا رہی ہے
ہجوم ِ دوستاں میں روح اپنی
رہی اکثر ہے اور تنہا رہی ہے
تھا دعوا خود شناسی کا ہمیں بھی
اب اپنی طبعہی سہمارہی ہے
کہیں نقصاں نہ ہو جائے دوبارہ
مروت پھر سے آڑے آ رہی ہے
کہاں اتنی جگہ تھی زندگی میں؟
عداوت جو رہی ، بے جا رہی ہے
یہ دنیا فہم کا دھوکا سہی ، پر
بخوبی ہم کو یہ الجھا رہی ہے
دریچہ کھل رہا ہے رفتہ رفتہ
صبا پھر سے قفس میں آ رہی ہے
ہماری برق رفتاری کے آگے
سمے کی نبض بھی پتھرا رہی ہے
 

فاتح

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔۔۔
چونکہ اصلاح سخن کے زمرے میں "مرمت وَ غیرہْ" کے لیے ارسال کی گئی تھی اور پھر نایاب بھائی نے اپنی محبت کے باعث ہمیں بھی ٹیگ کر دیا تو چند ایک مقامات کی جانب توجہ دلاتے چلیں کہ
شمع دل کی جو بجھتی جا رہی ہے
شمع بر وزن فاع ہوتا ہے جب کہ یہاں بر وزن فعو باندھا گیا ہے۔
اب اپنی طبع ہی سہما رہی ہے
لفظ سہمنا ہے نا کہ سہمانا۔ نیز پہلے مصرع کے مضمون کی روشنی میں جو کہنا چاہا ہے دوسرے مصرع میں کا مضمون اتنا خوبی سے ادا بھی نہیں ہوا،مصرع ہی تبدیل کر دیں تو بہتر ہے۔
سمے کی نبض بھی پتھرا رہی ہے
اردو محاورے کے مطابق نبض ڈوبتی ہے جب کہ آنکھ پتھراتی ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
گزاری عمر یو ں تیرہ شبی میں
تصور میں سدا فردا رہی ہے ÷÷÷÷
فردا مذکر ہے یا مونث؟؟؟
لیے ہاتھوں میں ٹکڑے سب، کھڑی ہے
مجھے امید پھر بہلا رہی ہے۔۔۔ کس چیز کے ٹکڑے؟ کچھ واضح نہیں۔
درج بالا دو سوالوں کے علاوہ مجھے کچھ نہیں سوجھا اور جو کچھ اور سوجھنا تھا وہ اساتذہ بہتر بتا سکتے ہیں۔۔
باقی غزل بلا شبہ اچھی ہے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
بدل کے بھی روش ، اکتا رہی ہے
طبیعت پھر سے پلٹا کھا رہی ہے
//بہترہو کہ یوں کر دیا جائے
روش بدلی، مگر اکتا رہی ہے
طبیعت پھر سے پلٹا کھا رہی ہے

شمع دل کی جو بجھتی جا رہی ہے
سیاہی چار سو منڈلا رہی ہے
// جو دل کی شمع بجھتی جا رہی ہے
سیاہی چار سو منڈلا رہی ہے

جہاں میں شور بڑھتا جا رہا ہے
دلوں پر اک خموشی چھا رہی ہے
//درست

کوئی رستہ تو روکے آرزو کا!
یہ ناداں اب کدھر کو جا رہی ہے؟
//’کدھر کو‘ ذرا نا گوار گزرتا ہے
یہ ناداں کس طرف اب جا رہی ہے؟

تخیل لے گیا آگے ہی آگے
فراست راہ میں سستا رہی ہے
////درست

گزاری عمر یو ں تیرہ شبی میں
تصور میں سدا فردا رہی ہے
//’یوں ‘ کی بجائے ’یوں تو‘ کا محل ہے۔ یا اس طرح کر دو۔ فردا واقعی مذکر ہے۔ اس لئے اس شعر کو بدلنے کی ہی ضرورت ہے۔ پہلا مصرع یوں درست ہو گا۔
گزاری عمر گو تیرہ شبی میں

لیے ہاتھوں میں ٹکڑے سب، کھڑی ہے
مجھے امید پھر بہلا رہی ہے
//ٹکڑے کس شے کے، یہ کہیں واضح نہیں۔ اسے پھر سے کہو۔ ساتھ ہی پہلے مصرع میں ایسا کچھ نہ ہو کہ ردیف قافیے کا احساس ہو۔ جیسے اس مصرع کو بھی۔
کھڑی ہے ہاتھ میں ٹکرے لئے سب
تاکہ ’کھڑی ہے‘ اور ’رہی ہے‘ زمین ہے، یہ غلط فہمی دور ہو جائے۔

ہجوم ِ دوستاں میں روح اپنی
رہی اکثر ہے اور تنہا رہی ہے
//درست

تھا دعوا خود شناسی کا ہمیں بھی
اب اپنی طبعہی سہمارہی ہے
//سہما پر بات ہو چکی ہے۔ یہ قافیہ بدلا جائے تو کچھ مشورہ دوں

کہیں نقصاں نہ ہو جائے دوبارہ
مروت پھر سے آڑے آ رہی ہے
//کہیں نقصان ہو جائے دوبارہ!!‘ کیا جا سکتا ہے؟؟؟

کہاں اتنی جگہ تھی زندگی میں؟
عداوت جو رہی ، بے جا رہی ہے
//درست

یہ دنیا فہم کا دھوکا سہی ، پر
بخوبی ہم کو یہ الجھا رہی ہے
//مفہوم؟ دھوکا بھی تو الجھا سکتا ہے۔ لیکن ’پر‘ کچھ اور سجھا رہا ہے۔

دریچہ کھل رہا ہے رفتہ رفتہ
صبا پھر سے قفس میں آ رہی ہے
//درست، ویسے’پھر سے‘ کی جگہ محض پھر آ سکے تو بہتر ہے۔

ہماری برق رفتاری کے آگے
سمے کی نبض بھی پتھرا رہی ہے
//نبض پتھرانے کی بات ہو چکی ہے۔ اس کو بدلا جائے تو کچھ سوچیں
مجموعی طور پر کاوش تو اچھی ہے لیکن غزل میں کوئی خاص بات کہنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اس کو مشق کے طور پر لے لو۔ اور مزید کہو، تم اس سے بہتر کہہ سکتی ہو۔
 

نمرہ

محفلین
شمع بر وزن فاع ہوتا ہے جب کہ یہاں بر وزن فعو باندھا گیا ہے۔
لفظ سہمنا ہے نا کہ سہمانا۔ نیز پہلے مصرع کے مضمون کی روشنی میں جو کہنا چاہا ہے دوسرے مصرع میں کا مضمون اتنا خوبی سے ادا بھی نہیں ہوا،مصرع ہی تبدیل کر دیں تو بہتر ہے۔

اردو محاورے کے مطابق نبض ڈوبتی ہے جب کہ آنکھ پتھراتی ہے۔
پڑھنے اور اصلاح وغیرہ (سپیس کے بغیر) کرنے کے لیے بہت شکرگزار ہوں۔ شمع کے بارے میں یہیں کہیں پڑھا تھا کہ اسے اس طرح بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اب تبدیل کر لیتی ہوں، شکریہ۔
 

نمرہ

محفلین
گزاری عمر یو ں تیرہ شبی میں
تصور میں سدا فردا رہی ہے ÷÷÷÷
فردا مذکر ہے یا مونث؟؟؟
لیے ہاتھوں میں ٹکڑے سب، کھڑی ہے
مجھے امید پھر بہلا رہی ہے۔۔۔ کس چیز کے ٹکڑے؟ کچھ واضح نہیں۔
درج بالا دو سوالوں کے علاوہ مجھے کچھ نہیں سوجھا اور جو کچھ اور سوجھنا تھا وہ اساتذہ بہتر بتا سکتے ہیں۔۔
باقی غزل بلا شبہ اچھی ہے۔۔۔
خوب نشاندہی کی آپ نے، میرا اس طرف دھیان نہیں گیا تھا، بہت شکریہ۔
 

نمرہ

محفلین
گزاری عمر یو ں تیرہ شبی میں
تصور میں سدا فردا رہی ہے
//’یوں ‘ کی بجائے ’یوں تو‘ کا محل ہے۔ یا اس طرح کر دو۔ فردا واقعی مذکر ہے۔ اس لئے اس شعر کو بدلنے کی ہی ضرورت ہے۔
یہاں 'صبح فردا' مفہوم کے لحاظ سے مناسب ہے ، مگر 'صبح' کسی طرح بحر میں نہیں آتی۔

لیے ہاتھوں میں ٹکڑے سب، کھڑی ہے
مجھے امید پھر بہلا رہی ہے
//ٹکڑے کس شے کے، یہ کہیں واضح نہیں۔ اسے پھر سے کہو۔ ساتھ ہی پہلے مصرع میں ایسا کچھ نہ ہو کہ ردیف قافیے کا احساس ہو۔ جیسے اس مصرع کو بھی۔
کھڑی ہے ہاتھ میں ٹکرے لئے سب
تاکہ ’کھڑی ہے‘ اور ’رہی ہے‘ زمین ہے، یہ غلط فہمی دور ہو جائے۔
ٹکڑے کسی بھی شکستہ شے کے ، کیا اس طرح شعر زیادہ جامع نہیں ہے؟


تھا دعوا خود شناسی کا ہمیں بھی
اب اپنی طبع ہی سہمارہی ہے
//سہما پر بات ہو چکی ہے۔ یہ قافیہ بدلا جائے تو کچھ مشورہ دوں
قافیے کے لیے تھوڑا غور کرنا پڑے گا۔

یہ دنیا فہم کا دھوکا سہی ، پر
بخوبی ہم کو یہ الجھا رہی ہے
//مفہوم؟ دھوکا بھی تو الجھا سکتا ہے۔ لیکن ’پر‘ کچھ اور سجھا رہا ہے۔
مطلب یہ تھا کہ ممکن ہے کہ دنیا کا وجود صرف میرے ذہن میں ہی ہو، حقیقت سے اس کا تعلق نہ ہو، مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔


ہماری برق رفتاری کے آگے
سمے کی نبض بھی پتھرا رہی ہے
//نبض پتھرانے کی بات ہو چکی ہے۔ اس کو بدلا جائے تو کچھ سوچیں
میرا خیال تھا کہ پتھرانے کو شاید رک جانے کے معنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہو ، کیا یہاں 'سمے کی نبض تھمتی جا رہی ہے' درست ہو گا؟
ویسے اتنی زیادہ اصلاح کی ہے آپ نے، بہت شکریہ استاد محترم۔ مشق ہو گئی میری۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
گزاری عمر یو ں تیرہ شبی میں
تصور میں سدا فردا رہی ہے

۔۔۔ دوسرا مصرع اسی تصور سے ضروری نہیں۔۔۔ تصو ر بدلا جاسکتا ہے، موضوع کچھ اور ہوسکتا ہے۔۔ جیسے
گزاری عمر جب تیرہ شبی میں۔۔
تصور میں سحر کیوں آرہی ہے؟؟

گزاری عمر بھی تیرہ شبی میں۔۔۔
سحر بھی ذہن میں مسکا رہی ہے (مسکرا کو مختصر کر کے لکھا ہے۔ اس کی جگہ کوئی اور فعل استعمال ہوسکتا ہے)
 

فاتح

لائبریرین
پڑھنے اور اصلاح وغیرہ (سپیس کے بغیر) کرنے کے لیے بہت شکرگزار ہوں۔ شمع کے بارے میں یہیں کہیں پڑھا تھا کہ اسے اس طرح بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اب تبدیل کر لیتی ہوں، شکریہ۔
انتہائی احمق ہے جس نے کہا ہے کہ شمع بر وزن فعو استعمال ہو سکتا ہے۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اعتراض نہیں، سوال ہے اور استاد محترم جناب اعجاز (الف عین)صاحب نے اسے مذکر کہا ہے۔۔۔ اس کا مطلب مستقبل ہے اور مستقبل تو مذکر ہوتا ہے، اسی بنیاد پر میرا سوال تھا۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
اعتراض نہیں، سوال ہے اور استاد محترم جناب اعجاز (الف عین)صاحب نے اسے مذکر کہا ہے۔۔۔ اس کا مطلب مستقبل ہے اور مستقبل تو مذکر ہوتا ہے، اسی بنیاد پر میرا سوال تھا۔۔۔
فردا کا مطلب "کَل"، "آیندہ روز" اور "یومِ قیامت" ہوتا ہے ارو ہمارے خیال میں فردا ہر دو مونث اور مذکر طور پر لکھا جاتا ہے۔
 
Top