بخیل یا کنجوس ہونے کا طعنہ دینا

بخیل یا کنجوس ہونے کا طعنہ دینا

اکثر خاندانوں میں کسی نہ کسی کو بخیل یا کنجوس سمجھا جاتا ہے جبکہ بعض مرد حضرات کو خود ان کی اپنی بیویوں کی طرف سے بخیل ہونے کا طعنہ ملتا رہتا ہے۔

بخل ایک مذموم صفت ہے۔ کنجوسی اور تنگ دلی دونوں ہی بخل میں شامل ہیں۔ یہ اسراف کی ضد ہے۔ یعنی اپنے حاصل شدہ مال کو وہاں خرچ کرنے سے روکنا جہاں اسے روکنا نہیں چاہیے‘‘۔

بخیلی ایک بڑی بیماری ہے لیکن جس میں یہ صفت موجود نہیں، اسے بخیل کہنا یا سمجھنا اس سے بڑی بیماری ہے کیونکہ یہ تہمت اور بہتان لگانا ہے۔

اس لئے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ شریعت کے مطابق بخیل کس کو کہا جا سکتا ہے، تاکہ ہم سب کسی پر تہمت اور بہتان لگانے جیسے کبیرہ گناہ سے بچ سکیں۔

قرآن حکیم میں بخل کا ذکر 10مقامات پر واضح طور پر جب کہ 6 مقامات پر ضمناً آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’جو لوگ مال میں، جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا کیا ہے، بخل کرتے ہیں، وہ اس بُخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں بلکہ اُن کے لیے بُرا ہے۔ وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں، قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا اور آسمانوں اور زمین کا وارث اللہ ہی ہے اور جو عمل تم کرتے ہو اللہ کو معلوم ہے۔‘‘ (آل عمران: 180)

لہذا اس آیت مبارکہ کے مطابق بخیل وہ ہے جو اللہ کے دیے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا، حتیٰ کہ اس میں سے وہ اپنے اوپر عائد زکوٰۃ ، جو کہ اس پر فرض ہے، نہیں نکالتا۔

چناںچہ اسی ضمن میں ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور خوف ناک سانپ بنا کراس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری)

بخیل کواللہ کی مخلوق اور اللہ کی راہ میں کیے جانے والے کاموں سے بالکل رغبت نہیں ہوتی۔ اُس کی محبت کا محور تو صرف اُس کی اپنی دولت ہوتی ہے۔ وہ اِسی کو زندگی کا مقصودِ نظر جانتا اور مانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

’’ اللہ کسی اترانے والے شیخی باز سے محبت نہیں کرتا، جو آپ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں۔ سنو! جو بھی منہ پھیرے، اللہ بے نیاز اور سزاوارِ حمد و ثناء ہے۔‘‘ (الحدید:24)

مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر، اپنے عیش و آرام پر اور اپنی دل چسپیوں پر تو خوب خرچ کرتا ہے مگر اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتا، اور اگر کرتا ہے تو یہ سوچ کر کہ اس کے عوض اسے شہرت، نام و نمود یا کسی اور سے کتنی منفعت حاصل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہر گز پسند نہیں فرماتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہوں اور فخر جتاتے ہوں۔

بخل کے بارے میں ایک اور مقام پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ

’’ اپنے آپ کو بخل سے بچاؤ کہ اس نے پہلی اُمتوں کو ہلاک کردیا ہے۔ پس مسلمانوں کے شایان شان نہیں کہ وہ بخل کریں اور جہنم میں جائیں۔‘‘

بخل درحقیقت مال کی محبت ہے اور مال کی محبت قلب کو دنیا کی طرف متوجہ کردیتی ہے جس سے اللہ کی محبت ضعیف و کمزور ہو جاتی ہے۔

بخل کی تعریف کے سلسلے میں بعض علمائے کرام کے اقوال درج ذیل ہیں:

پہلا قول: زکاۃ نہ دینا؛ لہذا اگر کوئی شخص زکاۃ ادا کرتا ہے تو وہ بخیل کے اطلاق سے باہر ہو گیا۔

دوسرا قول: زکاۃ اور ذمیہ نان و نفقہ نہ دینا، اس تعریف کی روشنی میں اگر کوئی شخص زکاۃ تو ادا کرتا ہے، لیکن واجب نان و نفقہ نہیں دیتا تو وہ بخیل شمار ہو گا۔

تیسرا قول : اپنے ذمہ واجبات دینا اور تحفے ، تحائف دینا، اگر کوئی شخص تحفے تحائف دینے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ بخیل شمار ہوگا۔
[بحوالہ: ابن مفلح کی کتاب آداب شرعیہ (3/303)]

مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد پر عرف کے مطابق خرچ کرے۔ اہل و عیال کے نان و نفقے میں کھانا پینا، لباس، رہائش اور دیگر بیوی اور بچوں کی ضروریات شامل ہیں کہ جن کے بغیر گزارا ممکن نہیں جیسے کہ علاج معالجہ، تعلیم اور دیگر ضروری اخراجات وغیرہ۔ نیز اہل و عیال پر خرچہ خاوند کی مالی حیثیت کے مطابق ہو گا؛ کیونکہ فرمان باری تعالی ہے:

’’صاحب حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس پر رزق محدود کر دیا گیا ہے تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ تعالی نے اسے عطا کیا ہے، اللہ تعالی کسی نفس کو اتنا ہی مکلف بناتا ہے جتنا اللہ نے اسے دیا ہے‘‘۔ (الطلاق:7)

اس لیے بیوی اور بچوں کا نفقہ مرد کی مالی حیثیت اور وسعت کے مطابق الگ الگ ہو گا۔ لہذا اگر کوئی صاحب ثروت ہے تو اپنی بیوی اور بچوں پر کھل کر خرچ کرے، لیکن اگر وہ کنجوسی کرتا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جائے گا؛ کیونکہ اس نے اپنے ذمہ واجبات ادا نہیں کئے۔

اور اگر کوئی تنگ دست ہے تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے گا، اسی طرح اگر کوئی متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرے گا، نیز یہ بھی واضح رہے کہ اللہ تعالی ہر نفس کو اسی چیز کا مکلف بناتا ہے جو اللہ تعالی نے اس نفس کو دی ہے۔ اس لئے نان و نفقہ کی شرعی حد بندی نہیں کی جا سکتی، اس کی مقدار کے حوالے سے عرف معتبر ہو گا۔

لہذا اگر کوئی شخص اپنی بیوی اور بچوں کا نان و نفقہ پر اپنی مالی حیثیت اور وسعت کے مطابق خرچ کرتا ہے تو بیوی کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ مطالبات میں کثرت کرکے اپنے خاوند کے معاملات میں مشکلات اوردشواری پیدا کرے، اسے استطاعت سے زیادہ خرچہ کرنے میں تنگ کرے اور ایسا نہ کرنے پر اسے بخیل یا کنجوس ہونے کا طعنہ دے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص صاحب حیثیت ہو اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کے نان و نفقہ کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ زکاۃ بھی ادا کرتا ہو تو خاندان والوں کا اسے بخیل یا کنجوس ہونے کا طعنہ دینا اس پر تہمت اور بہتان لگانے میں شمار ہوگا۔

اللہ تعالیٰ ایسے کبیرہ گناہوں سے ہمیں بچائے۔ آمین۔

****
 
Top