محمد وارث
لائبریرین
بخوانندہٴ کتابِ زبور
کتاب زبورِ عجم پڑھنے والوں سے
می شَوَد پردہٴ چشمم پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے
کبھی تو گھاس کا ایک تنکا میری آنکھوں کا پردہ بن جاتا ہے (اور میں کچھ دیکھ نہیں سکتا) اور کبھی میں دونوں جہانوں کو ایک ہی نگاہ میں دیکھ لیتا ہوں۔
وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادہٴ صد سالہ بآہے گاہے
عشق کی وادی یا منزل بڑی دور و دراز ہے لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک ہی آہ میں طے ہو جاتا ہے۔
در طلب کوش و مدہ دامنِ اُمّید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے
طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ (یعنی منزلِ عشق) ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی کبھی سرِ راہ بھی ہاتھ آجاتی ہے۔
۔علامہ محمد اقبال
کتاب زبورِ عجم پڑھنے والوں سے
می شَوَد پردہٴ چشمم پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے
کبھی تو گھاس کا ایک تنکا میری آنکھوں کا پردہ بن جاتا ہے (اور میں کچھ دیکھ نہیں سکتا) اور کبھی میں دونوں جہانوں کو ایک ہی نگاہ میں دیکھ لیتا ہوں۔
وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادہٴ صد سالہ بآہے گاہے
عشق کی وادی یا منزل بڑی دور و دراز ہے لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک ہی آہ میں طے ہو جاتا ہے۔
در طلب کوش و مدہ دامنِ اُمّید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے
طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ (یعنی منزلِ عشق) ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی کبھی سرِ راہ بھی ہاتھ آجاتی ہے۔
۔علامہ محمد اقبال