فارسی شاعری بخوانندہٴ کتابِ زبور از اقبال مع ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
بخوانندہٴ کتابِ زبور
کتاب زبورِ عجم پڑھنے والوں سے

می شَوَد پردہٴ چشمم پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے

کبھی تو گھاس کا ایک تنکا میری آنکھوں کا پردہ بن جاتا ہے (اور میں کچھ دیکھ نہیں سکتا) اور کبھی میں دونوں جہانوں کو ایک ہی نگاہ میں دیکھ لیتا ہوں۔

وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادہٴ صد سالہ بآہے گاہے

عشق کی وادی یا منزل بڑی دور و دراز ہے لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک ہی آہ میں طے ہو جاتا ہے۔

در طلب کوش و مدہ دامنِ اُمّید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے

طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ (یعنی منزلِ عشق) ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی کبھی سرِ راہ بھی ہاتھ آجاتی ہے۔

۔علامہ محمد اقبال
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادہٴ صد سالہ بآہے گاہے

واہ
اس نظم کا صرف یہی ایک شعر سنا تھا، آج پوری نظم پڑھ لی۔
زبردست
 

کاشفی

محفلین
در طلب کوش و مدہ دامنِ اُمّید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے
طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ (یعنی منزلِ عشق) ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی کبھی سرِ راہ بھی ہاتھ آجاتی ہے۔​

بہت عمدہ ۔۔!
 

الف نظامی

لائبریرین
بخوانندہ کتاب
زبور عجم:
می شَوَد پردۂ چشمِ پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے
نوائے فردا:
تیرہ آید بہ نظر جلوہ ماہے گاہے
می نماید چو گلستاں پرِ کاہے گاہے
زبور عجم:
در طلب کوش و مدہ دامنِ امید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے
نوائے فردا:
اندریں وادی پُرپیچ طلب دیدہ پاک
تا نہ تاراج شوی بر سری راہے گاہے
زبور عجم:
وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے
نوائے فردا:
خس و خاشاکِ پریشانِ نیستانِ خرد
می تواں سوخت بیک شعلہ آہے گاہے

متعلقہ:
زبورِ عجم اور نوائے فردا
 
Top