بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

فرسان

محفلین
يه الفاظ كه"لا ينبغي عند نبي تنازع".


يه الفاظ حضرت ابن عباس رضي الله عنه كے هيں اور حديث كے نهيں هيں. حافظ رحمه الله نے يه احتمال ذكر كركے اس كو راجح قرار نهيں ديا مگر فقير كے نزديك يه احتمال نهيں بلكه ظاهر بات هے اور اس پر دلائل بهت واضح هيں. يه عوامي فورم ان دلائل كا متحمل نهيں هو سكتا.
 

فرسان

محفلین
يه الفاظ كه "لا تضلون بعده" اور بعض روايات ميں آخر ميں "أبدا" بھي هے.
اس سے يه مراد لينا كه ساري امت قيامت تك كبھي گمراه نه هوگي، يه معنى قرآن اور حديث كے صريح خلاف هيں. حضور صلى الله عليه وسلم نے اس موقع سے پهلے فرما ديا تھا كه امت ميں سے بعض لوگ يهود ونصارى كي پيروي بھي كريں گے. (آج بھي كچھ لوگوں كا مسلم پروٹسٹنٹ هونے كا جي چاهتا هے).
يه بھي فرما ديا تھا كه بعض قبائل شرك تك ميں مبتلا هونگے.
اور يه بھي كه
عنأبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: " لا يزال لهذاالأمر - أو على هذا الأمر - عصابة على الحق، ولا يضرهم خلاف من خالفهم، حتىيأتيهم أمر الله "
يعني كه اس دين ميں هميشهايسے مسلمان رهيں گے جو حق پر رهيں گے اور لوگوں كي مخالفت كے باوجود انهيںكوئي نقصان نهيں هوگا يهاں تك كه الله كا امر آن پهنچے.
ايك اور حديث ميں هے :
عنبكر بن زرعة الخولاني، قال: سمعت أبا عنبة الخولاني يقول: سمعت النبي صلىالله عليه وسلم يقول: " لا يزال الله عز وجل يغرس في هذا الدين بغرس يستعملهم في طاعته.

(مفهوم) يعني كه الله تعالى اپنے دين كي حفاظت كيلئے امت ميں ايسے لوگوں كو پيدا فرماتے رهتے هيں جو الله كي اطاعت كرتے رهتے هيں.

إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها


(مفهوم هى ترجمه نهيں) يعني هر صدي كے سرے پر الله مجدد بھيجتے هيں.

ضلال سے يهاں مراد بعض انتظامي (رياستي) امور ميں خطا هے يه قول آپ "تحفه اثنا عشريه" ميں مزيد پڑھ سكتے هيں. يه كتاب شاه عبد العزيز دهلوي رحمه الله كي هے. اور جو تين نصيحتيں سيدي صلى الله عليه وسلم نے فرمائيں تھي وه اس تشريح كا واضح ثبوت هے.
 
مدیر کی آخری تدوین:

فرسان

محفلین


اگر كوئي ان الفاظ سے فتنه كھڑا كرنا چاهے تو كوئي نئي بات نهيں. ان كے اساتذة خوارج نے قرآن كي آيت "لا حكم إلا لله" سے فتنه اٹھانے كي كوشش كي تھي.

جس صحيح چيز سے كوئي غلط استلال كرے تو اس صحيح چيز هي كو حذف كر ديتا چاهيے نا !

حضرت عمر رضي الله عنه كي خلافت كي پوري زندگي اٹھا كر ديكھ ليں. معلوم هوجائے گا كه سنت كي كيا قانوني اور تشريعي حيثيت هے.

يهاں بات لكھي هوئي چيز كي هو رهي هے تو حضرت عمر كا قول اس پر محمول هے كه جو چيزيں تمهارے پاس مكتوب شده هيں ان ميں سے قرآن كافي هے. سنت ابھي تك سينوں ميں تھي لهذا اس كے كافي يا ناكافي هونے كي يهاں بات نهيں هو رهي. اور قلم قرطاس لانے ميں اور قلم تيار كرنے ميں (اس زمانے ميں Pen نهيں هوتے تھےقلم تيار كرنا پڑتا تھا.) جتنا وقت لگے گا اس سے حضور صلى الله عليه وسلم كو تكليف هوگي تو پھر سيدي صلى الله عليه وسلم نے بھي چند امور زباني ارشاد فرما دئيے جو قرآن كے ساتھ ساتھ قرآن كا بيان هيں.
 

فرسان

محفلین
حضرت ابن عباس رضي الله عنه كا رونا؟


اعتراضي ذهن كيا كيا گل كِھلاتا هے !!

بعض صحابه اور تابعين اور تبع تابعين كے رونے كي وجوهات

1. بكى ابن عباس في مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم (ابن عباس حضور صلى الله عليه وسلم كے مرض ميں روئے).
2. سمعت أبا بكر الصديق، رضي الله عنه، يقول على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: فبكى أبو بكر حين ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم
3. كان ابن عمر لا يذكر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلا بكى.
4. قال أبو ذر: إني خرجت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- نحو حائط بني فلان، فقال لي: (ويحك بعدي). فبكيت، فقلت: يا رسول الله، وإني لباق بعدك؟
5. رأيت هشام بن حسان (تبع تابعي) وذكر النبي صلى الله عليه وسلم والجنة والنار بكى حتى تسيل دموعه على خديه.
6. قال مالك كان أيوب السختياني إذا ذكر النبي صلى الله عليه وسلم بكى حتى أرحمه.
7. كان محمد بن المنكدر سيد القراء، لا نكاد نسأله عن حديث (حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم) أبدا إلا يبكي حتى نرحمه.
8. ولقد كان عبد الرحمن بن القاسم يذكر النبي صلى الله عليه وسلم فينظر إلى لونه كأنه نزف منه الدم، وقد جف لسانه في فمه.
9. ولقد كنت آتي عامر بن عبد الله بن الزبير، فإذا ذكر عنده النبي صلى الله عليه وسلم بكى حتى لا يبقى في عينيه دموع.
10. لقد كنت آتي صفوان بن سليم، وكان من المتعبدين المجتهدين فإذا ذكر النبي صلى الله عليه وسلم بكى فلا يزال يبكي حتى يقوم الناس عنه ويتركوه.
11. وروي عن قتادة أنه كان إذا سمع الحديث أخذه العويل والزويل .
12.ميں نے وه روايت چھوڑ دي هے جس ميں خاص حضور صلى الله عليه وسلم كے فراق كا ذكر هے كيونكه مجھ ميں اتنا دم نهيں.
 

فرسان

محفلین
آخر ميں آيت "وما ينطق عن الهوى" كي جو غلط ترين اور سلف وخلف كے فهم كے خلاف تفسير فرمائي جاتي هے، صرف اس وجه سے كه اس حديث ميں اعتراض كا جواز نكل سكے تو فقير كي استدعا هے كه اس غلط سلط تفسير وتاويل كا رد "تحفه اثنا عشريه" ميں ملاحظه فرما كر حضرت شاه عبد العزيز كا شكريه ادا كريں. ورنه بعض حضرات كے پاس اس مخالفت كا كوئي جواب نه رهے گا جو ابن بابويه نے "الأمالي" ميں ذكر كي هے. اگرچه كه سنيوں كے هاں وه مخالفت نهيں كهلائي جاسكتي.
 

فرسان

محفلین
موقع ومحل كي مناسبت سے اگر هو سكا تو شايد حضرت عمر رضي الله عنه كي دشمني كے حوالے سے مزدكيت ، غنوصيت ، ساسانيت ، مجوسيت اور شيطانيت كي داستان لكھني پڑ جاوے.

يهاں يه اشاره بھي مناسب معلوم هوتا هے كه جب امام اور وصي كا عقيده قرآن سے ثابت نه هوا تو بعض جهات نے قرآن كو تحريف شده قرار ديا. ايسے ميں حديث قرطاس ڈوبتے كو تنكے كا سهارا هے اور رهے گي. ايك مسلمان كے لئے يه روش درست نهيں كى امامت كا عقيده بچانے كے لئے سوائے تيں صحابه كے تمام كو دائره اسلام سے خارج كركے اپني آخرت برباد كرلي جائے. اگر كسي صحابي كو شك بھي هوتا، كه حضور صلى الله عليه وسلم حضرت ابو بكر كے علاوه كسي اور كو خليفه پسند كريں گے تو كبھي بھي حضرت ابو بكر كي بيعت كامياب نه هوتي.
حضرت عمر كي بيعت اس كے لئے شهادت كافي هے كه امامت كا كوئي تصور اسلام ميں ممكن نهيں. اسلام ميں تقوى معيار هے نسب ونسل نهيں.
نسل در نسل اقتدار كي منتقلي كو امامت كا نام دے كر اسلام ميں ثابت نهيں كيا جاسكتا اور خود حضرت امير المؤمنين علي رضي الله عنه كا رد اس پر موجود هے.
 

فرسان

محفلین
يهاں كهيں كها گيا تھا كه اشكال ايك سني كا هے تو ميں نےبھي اسي زاويه سے كلام كيا هے.
حديث پر ميرا كلام ختم هوا. والحمد لله وصلى الله على سيدنا.
 

فرسان

محفلین
بالفرض اگر اب بھي كسي كے ذهن ميں اشكال باقي هے تو اسے كيا كرنا چاهيے؟؟

عام لوگوں كا تو مجھے معلوم نهيں كه انهيں كيا كرنا چاهيے، البته وه علماء اور محدثين جو علوم اسلاميه كي تعليم وترويج ميں زندگياں كھپاتے تھى وه ايسے موقع پر "توقف" كيا كرتے تھى.
هميں كسي محدث كا معلوم نهيں جنهوں نے اپنے اشكال كے لئے صحيح احاديث هي كي نفي كردي هو.
علامه فخر الدين رازي كے اپنے بهت سے شذوذ اور تفردات هيں الله ان كو معاف فرمائے. عام لوگ ان كي پيروي سے پرهيز هي كريں تو بهتر هے.
 

فرسان

محفلین
اگر ميرے كسي بھی مسلمان بھائي كي دل آزاري هوئي هو تو برائے كرم مجھے معاف كركے ميري بداعماليوں كا بوجھ هلكا كرديں۔

مجھ سے يه هوجاتا هے اور مجھے بھي كسي مسلمان كي دل آزاري كركے بهت دكھ هوتا هے۔
 
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔
آپ نے جامع اور مختصر انداز میں اس حدیث کی تشریح فرمائی اور لوگوں کے ذہنوں میں اشکالات کو رفع کرنے کا موقع فراہم کیا۔
شکر اللہ لکم اخی الکریم
وفقك الله و إيانا لما يحب ربنا و يرضى
 

نایاب

لائبریرین
يهاں كهيں كها گيا تھا كه اشكال ايك سني كا هے تو ميں نےبھي اسي زاويه سے كلام كيا هے.
حديث پر ميرا كلام ختم هوا. والحمد لله وصلى الله على سيدنا.
بہت شکریہ محترم بھائی
کیا مزید کچھ کہنا لکھنا چاہیں گے ۔ اس حدیث " قلم و قرطاس " بارے ؟
اور کیا آپ اپنے اس کلام پر کھلے طور تنقید " جو کہ اس کلام کے کھوکھلے پن کو اجاگر کرے " کو برداشت کر پائیں گے ۔ ؟
آپ کی اجازت کے بعد ہی اس کلام پر گفتگو ممکن ہے ۔ بصورت دیگر "فتوؤں " مہر تیار رکھیئے ۔
محترم بھائی اگر ممکن ہو تو افادہ عام کی خاطر وضاحت کر دیں کہ یہ " قرطاس " کا معنی " کتاب " کون سی حدیث سے ثابت ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میں نے بھی تفصیل سے اور طلب علم کے لیے سب کچھ انتہائی غور سے پڑھا ہے خاصی معلومات افزا گفتگو تھی تاہم ابھی تشنگی ہے اور کچھ مزید سوالات نے سر اٹھایا ہے۔ جنہیں یہاں پوسٹ کرونگا۔ امید ہے کہ ہمارے سوالات کو صرف علم کی پیاس اور ایک طالب علم کی اشکال سمجھا جائے گا اور ہماری نیت پر شک کرتے ہوئے گستاخ اور راندہ درگاہ قرار نہیں دیا جائے گا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اگر ميرے كسي بھی مسلمان بھائي كي دل آزاري هوئي هو تو برائے كرم مجھے معاف كركے ميري بداعماليوں كا بوجھ هلكا كرديں۔
مجھ سے يه هوجاتا هے اور مجھے بھي كسي مسلمان كي دل آزاري كركے بهت دكھ هوتا هے۔
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر

چلیں اچھی بات ہے کسی نے اعتراف تو کیا کہ ۔۔۔
 

فرسان

محفلین
" قرطاس " کا معنی " کتاب " کون سی حدیث سے ثابت ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟

آپ اصل حديث ميں لفظ "قرطاس" دكھاديں۔

اور ميرے شروع ميں دئیے حوالوں ميں لفظ "كتاب" جاكر خود ديكھ لیں۔

والسلام

حديث پر ميرا كلام ختم هوا. والحمد لله وصلى الله على سيدنا.
 

ظفری

لائبریرین
مجھے بھی اس پر کچھ کہنا ہے آپ کی اجازت ہو تو عرض کروں
ضرور کیوں نہیں ۔۔۔ مگر آپ نے اگر یہاں مراسلات کا مطالعہ کیا ہے تو معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہاں سب اپنی بات منوانے آتے ہیں ۔ اگر ایسا سلسلہ نہیں ہے تو بڑی خوشی ہوگی کہ کم از کم کوئی نیا استدال سامنے آئے گا ۔
 

نایاب

لائبریرین
ضرور کیوں نہیں ۔۔۔ مگر آپ نے اگر یہاں مراسلات کا مطالعہ کیا ہے تو معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہاں سب اپنی بات منوانے آتے ہیں ۔ اگر ایسا سلسلہ نہیں ہے تو بڑی خوشی ہوگی کہ کم از کم کوئی نیا استدال سامنے آئے گا ۔
استدلال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
اپنی بات منوانے کا ۔۔۔۔۔؟
بڑھا دیئے ہیں قصص فقط زیب داستاں کے لیئے ۔۔۔۔۔۔۔
اک الف " اللہ " درکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ رحمان و رحیم ہستی ہے ایسی ،،،
جس کا رحم و کرم عام ہے بلاتفریق مذہب و ملت ۔
رائی برابر خیر ہو یا کہ رائی برابر شر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی بنا سزا و جزا کے نہ رہے گا ۔
اور مجھ جیسے "گلاں دے گالڑ " بھگتیں گے ۔ سچ کو چھپا اپنے جھوٹ منوانے کی سزا ۔۔۔۔۔۔۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اما م بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث قرطاس کو مختلف ابواب میں مختلف لوگوں کے اقوال کے ساتھ نقل کیا ہے جس کا مفہوم اس طرح سے بنتا ہے
فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
" آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو"
اس پر حضرت عمر نے کہا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں ‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے

حضرت عمر کے اس جواب پر جو لوگ وہاں موجود تھے اور یہ چاہتے تھے کہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکتوب لکھ دیں انھوں نے یہ کہا

کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
مراد یہ تھی یہ تم بھی جانتے اور ہم بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے
اوریہ بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ جب تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی جانتے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے پھر ایسی بات کیوں کرتے ہو اورانھیں لکھنے کا سامان کیوں نہیں پیش کرتے


اس مسئلہ پر گھر میں موجود لوگوں میں اختلاف ہو گیا اور بحث کرنے لگے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو (لکھنے کی چیزیں) دے دو تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور بعض لوگ وہ کہتے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔
حضرت ابن عباس اس کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ
سب سے زیادہ افسوس یہی ہے کہ ان کے اختلاف اور بحث کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر نہیں لکھی جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھنا چاہتے تھے۔
حدیث کا مفہوم ختم ہوا

ایک ایسی حدیث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے دست اقدس سےلکھنا چاہتے تھے جس میں راویوں کے عادل و ثقہ اور ضعیف و منکر ہونے کا کوئی جھگڑا ہی نہیں تھا اس حدیث کے لکھنے کے لئے سامان یہ کہہ کر مہیا نہیں کیا گیا کہ" ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے " اور حدیث کےمطابق وہاں موجود بعض لوگ اس قول سے یہ سمجھے کہ یہ انکار اس لئے کیا جارہا ہے نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض سے بے معنی کلام فرمارہیں ہیں (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ جب حضرت عمر نے رسول اللہ کے لئے لکھنے کا سامان لانے سے انکار کیا تو اگر یہ ناجائز عمل تھا تو اس کی تصیح کیوں نہ فرمائی ؟ جب ہم سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے جب نبی کریم کی موجودگی میں کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے مفید علم کو اٹھا لیتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنا چاہتے ہیں جس کی مثال شب قدر رمضان کس رات میں ہے یہ بتانے کے لئے نبی کریم مسجد میں تشریف لاتے ہیں لیکن وہاں لوگوں میں کسی بات پر نزع ہوگیا اور اللہ نے اس کا علم اٹھا لیا
يهاں تك يه ثابت هوگيا – والحمد لله – كه نكير كا تعلق قلم اور قرطاس سے تھا هي نهيں. اس كا تعلق باهم تنازعه سے تھا اور امام بخاري كي فقاهت ملاحظه هو كه وه بھي اس حديث سے يهي معنى اخذ كرتے هوئے "باب كراهية الخلاف"ميں اسے لائے هيں. لهذا نكير كا تعلق قلم قرطاس سے بتانا محض هٹ دھرمي هے اور هميشه كيلئے محتاج برهان هے.
سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ امام بخاری نے جس عنوان سے اس حدیث کو بیان کیا ہے وہ ہے
""کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ"" اور اس میں جس باب میں اس کو بیان کیا ہے اس کا عنوان ہے ""باب: احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان "" اب اس حدیث میں دو احکام شریعت بیان ہوئے ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قلم اور قرطاس لے کر آؤ اور دوسرا یہ کہ یہاں سے چلے جاؤ اختلاف یا جھگڑا دوسرے میں نہیں ہوا تنازعہ پہلے حکم میں شرع میں ہوا کہ "قلم اور قرطاس لے کر آؤ " اس حکم میں اختلاف کی وجہ حضرت عمر کا یہ قول بنا کہ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں ‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے " اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس تنازعہ کا سبب قلم اور قرطاس ہی تھا ۔
البته حضور صلى الله عليه وسلم كا مبارك عمل يه ظاهر كرتا هے كه حضرت عمر رضي الله عنه كا فعل حضور صلى الله عليه وسلم نے قبول فرمايا اور لكھوانے كا اراده ترك فرما ديا.
مفہوم حدیث صحیح بخاری کی حدیث میں بیان ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گیے۔ آپ جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، انشاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ ”کوئی حرج نہیں انشاءاللہ گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔
مفہوم حدیث ختم ہوا
اس حدیث میں اعرابی کے قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم جس طرح قبول کیا ایسی طرح سے حدیث قرطاس میں بھی قبول کیا گیا ہے
 
Top