! بخاری شریف اور صحیح مسلم، انپیج فارمیٹ میں !

کتب روایات سے روایات نکالنے یا چھوڑ دینے، ترک کردینے کا عمل کوئی نیا نہیں ہے۔ ایسا اختصار کے نام پر ، صحیح‌کے نام پر اور مختلف طریقوں سے ہوتا رہا ہے۔ آپ میں سے کسی کے پاس اصول حنیفیہ یا اصول احنفی نام کی کتاب ہو تو ذپ کرکے بتائیں، ایک حوالہ دینا چاہتا ہوں، کتاب میرے پاس سے مستعار لے جاے والا "رکھ" کر بھول گیا ہے۔

کیلی فورنیا یونیورسٹی نے بھی اپنی ویب سائٹ پر یہی مشورہ دیا تھا کہ محض ٹیکسٹ کو پڑھ کر خود کو عالم تصور نہیں کر لینا چاہیے۔(حوالہ اوپر دے چکا ہوں)
سب سے پہلے یہ کہ میں اپنے آپ کو طالب علم قرآن تصور کرتا ہوں ، کہتا ہوں اور کہلاتا ہوں۔ تو آپ یا کوئی بھائی بھی اگر کسی عالم کی تلاش میں ہیں تو وہ میں نہیں :)
آپ نے یہ بات دو بار دہرائی ہے۔ یہ ایک اچھا جملہ نہیں ہے۔ اس سائٹ‌کو صرف اور صرف حوالے کے لئے استعمال کیاگیا تھا۔

ابھی تک کی صورت حال یہ ہے کہ اس روایت کا متن اس کی تشریح اور قرآن سے اور خود اس کے معانی سے بالکل مختلفف ہے یا شارحین کو مجبوراً کرنا پڑا ہے۔ جو کچھ یہ روایت کہہ رہی ہے وہ تمام "علم": استعمال کرکے بالکل مخالف ثابت کیا جارہا ہے۔ آپ اوپر باسم کا مراسلہ دیکھ لیجئے، کوئی بھی عورت کو نحس، بد قسمت یا شیطانی بلاء کا جنرل (عمومی)‌تمغہ دینے پر تیار نہیں ہے۔

کسی بھی شارح کا یہ مؤقف کہ کسی روایت کے مندرجات کو اس کے ظاہری معنوں سے مختلف ثابت کرنے کے لئے مزید حدیثی علم ضروری ہے ، تاکہ وہ قابل قبول ہو جائے۔ کچھ اچھا نطریہ نہیں۔ یہ تو صاحب ہم سب مانیں گے کہ علم وہ ہے جو ایک بات کی واضح تشریح کرتا ہو نہ کہ الٹ پھیر کرتا ہو۔ یہ کہنا کہ کوئی علم بس صرف اور صرف عالم ہی سمجھ سکتا ہے ، کچھ ایسا کہنے اور کرنے کے مترادف ہے کہ جو ہم سمجھیں وہی درست ہے۔ یہ وطیرہ یہودی علماء‌ کا بہت رہا ہے اور اس طرح وہ اپنے نظریات کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ علم وہ ہے جو سب کی سمجھ میں آئے، ایک عام آدمی کی سمجھ میں اور خاص طور پر زمانہ جاہلیت کے بدو کی سمجھ میں نا کہ صرف کچھ ایل یہود کی سمجھ میں آئے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک صحیح روایت کس طرح بناء‌کسی دشوارییا توجیح یا تاویل کے بآسانی قابل قبول ہوتی ہے؟

میرا اب تک کا خیال یہ ہے کہ رسول اکرم سے اس بیان کو بیانیہ طور پر منسوب کیا جانا نا مناسب ہے ، جبکہ اس کے ساتھ کوئی ریزرویشن یعنی تحفظات شامل نہیں کئے گئے ہیں۔ یہ ایسا بیان ہے جو قران اور دوسری روایتوں کی روشنی میں ماند پڑ جاتا ہے۔

اس روایت پر کافی بات ہوگئی ہے، اس سے آگے ہم صرف اور صرف زبردستی اور اصرار کرسکتے ہیں، جو کہ اکراہ کے زمرے میں آتا ہے۔

آپ کی طرف سے دوسری روایات کے بارے میں آپ کے اور دوسرے بھائیوں کے خیالات کا منتظر رہوں گا۔
 

باسم

محفلین
شکریہ جناب حدیث کا مفہوم تو انشاءاللہ واضح ہوچکا۔
لیکن بات بخاری و مسلم سے اصول حنیفیہ پر کیوں آگئی؟ انہی روایات پر رہے تو بہتر ہے
احادیث کے عربی متن کا حوالہ پیش کیجیے تاکہ اسی حدیث پر بات ہوسکے جس کے بارے میں آپ جاننا چاہ رہے ہیں اور انگریزی ترجمہ کی وجہ سے مغالطہ نہ ہو۔
اور آپ نے پہلی روایت کا پہلی بار حوالہ بخاری شریف کے ترجمہ کا دیا اور پھر اصل روایات کے طور پر بخاری کے بجائے مسلم شریف کا اور پھر اس بنیاد پر یہ بھی کہہ دیا کہ الشؤم کا لفظ کتاب والوں کو اچھا نہیں لگا یا آپ (عبداللہ حیدر صاحب) نے ان کان کے بعد الشؤم کو غیر اضطراری طور پر حذف کردیا ہے۔
تو جناب پہلی بات تو یہ کہ لفظ الشؤم کے بغیر روایت مسلم کے اس صفحے پر بھی موجود ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا اور اور اسی سائٹ پر بخاری میں بھی۔
اور حضرت سهل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت اسی طرح ہے جس طرح عبداللہ حیدر صاحب نے ذکر کی، کیونکہ انگریزی ترجمہ میں الشؤم کا ترجمہ بغیر بریکٹ کے مذکور ہے اس لیے آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔
یہ آخری بات بقول آپ کے الارم بجانے والے کے طور پر ہے کہ جس غیر معمولی احتیاط کا مشورہ آپ دوسروں کو دے رہے ہیں وہ آپ کی بھی توجہ چاہتا ہے کہ حدیث کا عربی متن ضرور دیکھا لیا کیجیے۔
 
باسم ، بہت شکریہ، جو کچھ ہم سب دیکھ رہے ہیں وہ یقیناً‌ ہم لوگوں نے نہیں لکھا لہذا کسی کو میں کبھی بھی کسی قسم کا نہ الزام دوں گا اور نہ ہی کوئی ایسی بات کروں گا کہ کسی کی سبکی ہو۔ نہ یہ میرا منشاء ہے اور نہ ہی مقصد۔ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ روایت اپنے مختلف اقسام کے متن میں پائی جاتی ہے۔ اگر ہم اس کار خیر سے کچھ سیکھ نہیں‌سکتے اور اگر آپ مجھ سے کسی کج بحثی یا کسی کی کردار کشی کا ذرا بھی شائبہ بھی رکھتے ہیں تو ہم یہ بات چیت یہیں روک دیتے ہیں۔ یقیناً آپ سب مجھ سے بہتر ہیں۔ مجھے کسی سے ذاتی شکایت ہے اور نہ ہی عناد۔ میں دن میں‌صرف دو بار یہاں آتا ہوں۔ اور عموماً ایسا ہوتا ہے کہ بات موضوع سے ہٹ جاتی ہے۔ اس کے لیے کسی کو قصور وار نہیں‌ ٹھیرا جاسکتا۔ اگر ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کے بجائے ، صرف اور صرف موضوع ہی تک رہیں تو بہت ہی اچھا ہو۔ عبداللہ حیدر صاحب نے جو کچھ لکھا بہت اچھا لکھا اور جس موضوع پر بات کی وہ سب کے لئے معلوماتی تھی۔ صرف ان کا رخ توجہ دوسری طرف موڑنے سے کسی قسم کی سبکی مقصود نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے ایسا سمجھا۔ دیکھئے عبداللہ حیدر صاحب کی ایک بہت ہی خوبصورت بات کہ انہوں نے کہا کہ اگر قرآن کی کوئی آیت ہماری ذاتی خواہشوں کے خلاف ہوگی تو کیا ہم اس کو نکالنے کا مطالبہ کریں گے؟

تو عرض یہ ہے کہ اس ساری بات چیت کو اصولوں کی حد تک رکھئے۔

والسلام
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم۔
محترم فاروق صاحب ، مجموعی طور پر اس تھریڈ کی بحث میں آپ کو رویہ مثبت محسوس ہوتا ہے ، شکریہ۔
صرف ایک جگہ تھوڑا سا اعتراض نکل آتا ہے :
روایات کے بارے میں یہ تاویلات کسی نامعلوم مولوی کی ریسرچ ہے نہ کہ رسول اکرم یا اللہ تعالی کا فرمایا ہوا۔
محترم! دلوں میں بدگمانی ایسے ہی جملوں سے پھیلتی ہے۔ آپ خود انصاف سے غور کیجئے کہ "نامعلوم مولوی کی ریسرچ" جیسے الفاظ کا استعمال کیا اتنا ہی ضروری تھا؟

دوسری طرف اس "ریسرچ" کے بارے میں کیا کہا جانا چاہئے؟
بحوالہ : اسلام کے مجرم ، مولف: ڈاکٹر شبیر احمد
shabbirqi3.jpg

بخاری میں وہ حدیث کس کتاب کے کس باب میں درج ہے جس میں "بیوی" کو "نحوست کی چیز" بتایا گیا ہے؟
اگر "کتاب الطب" والی حدیث کی طرف اشارہ ہے تو اس کے اصل الفاظ ہیں :
[ARABIC]أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا عدوى ولا طيرة، والشؤم في ثلاث في المرأة، والدار، والدابة ‏"‏‏.[/ARABIC]
بخاري ، کتاب الطب ، باب الطيرة

[ARABIC]المرأة[/ARABIC] کا اردو ترجمہ "عورت" بنتا ہے یا "بیوی"؟
کیا یہ حدیث کے الفاظ میں معنوی تحریف نہیں ہے؟؟

جن مولویوں کی ریسرچ پر طعنہ زنی کی جاتی ہے تو ان "صاحبانِ علم" کو کیا کہا جانا چاہئے جو احادیث کو مشکوک قرار دینے کی خاطر ترجمے میں تحریف کر جانے کو برا نہیں سمجھتے ؟؟

اور دوسری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔
اگر حدیث کی "تاویلات" پر اس قدر اعتراضات ہیں تو کیا قرآن کی آیات کی تشریح و تاویل نہیں کی جاتی ؟
مثلاً : ذیل کی آیت کا صرف لفظی ترجمہ پڑھ کر کوئی مسلمان مطمئن ہو جائے گا؟
اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو۔
( سورة التغابن : 64 ، آیت : 14 ، اردو ترجمہ : طاہر القادری)
کیا اس آیت اور اس جیسی بہت سی آیات کے صحیح مفہوم کو جاننے سمجھنے کے لئے خود قرآن کی دیگر آیات یا کتبِ تفاسیر سے رجوع نہیں کیا جاتا؟
کیا صرف یہ آیت پڑھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے آدمی کی اپنی بیوی اور اس کی اپنی اولاد کو اس کے دشمن قرار دیا ہے؟
اگر تفصیل جاننے کے لئے ہم قرآن کی دیگر آیات اور مختلف تفاسیر کی طرف رجوع ہوتے ہیں تو پھر احادیث کے معاملے میں ایسا ناروا رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے کہ من مانا ٹکڑا اٹھا کر اور پھر اس کے ترجمے میں تک تحریف کر کے ۔۔۔۔ غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں؟

براہ مہربانی ، میری گزارشات پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے ، شکریہ۔


یہ کہنا کہ کوئی علم بس صرف اور صرف عالم ہی سمجھ سکتا ہے ، کچھ ایسا کہنے اور کرنے کے مترادف ہے کہ جو ہم سمجھیں وہی درست ہے۔
انفرادی طور پر کسی عالم کی تشریح کسی کے لئے نہ حجت ہے اور نہ کوئی اسے حجت مانتا ہے۔ لیکن ۔۔۔ قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کی تشریح ۔۔۔ جو صحابہ ، تابعین و تبع تابعین سے معروف ہو ، وہ قبول کئے جانا زیادہ بہتر ہے یا وہ جسے آج کے ریسرچ اسکالرز پیش فرمائیں ؟؟
 
باذوق صاحب ، شکریہ۔
نہ کوئی شخص میرا مستقل دشمن ہے اور نہ ہی مستقل دوست۔ کوئی بھی شخص درست کہتے کہتے، غلط کہہ سکتا ہے اور اس کے بالعکس بھی درست ہے۔ لہذا انسانوں سے صرف نظر کرکے اصولوں‌پر ارتکاز کرنا زیادہ اچھا ہے۔ خاص‌طور پر قرآنی اصولوں پر، جن سے سنت کی تعمیر ہوئی ہے۔

انسان کو سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ وہ خطا کا پتلا ہے ، یقیناً‌ میں‌ بھی ایک انسان ہوں۔ جیسا سمجھ میں آتا ہے، اس کے مطابق تائید یا تنقید کرتا ہوں۔ چونکہ میں ایک عالم نہیں‌ہو، لہذا میری رائے کو کوئی اہمیت نہ دیں۔

یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ڈاکٹر شبیر احمد صاحب سے میرے مراسم ضرور ہیں لیکن کوئی مستقل تعلق نہیں اور نہ ہی میں ان کا پیرو کار ہوں۔ بلکہ شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ ایک اسلامی (ذاتی نہیں) مسئلہ ایسا بھی ہے کہ جس پر ان کا اور میرا کوئی اتفاق نہیں۔ جبکہ میرا اور آپ کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے۔ تفصیل کا تقاضا نہ کیجئے گا۔

وہ ایک اچھے انسان ہیں، ان کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ اچھی باتوں میں ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اب تک قریب 13000 غیرمسلم ان کی کوششوں سے مسلمان ہوچکے ہیں۔ چونکہ حیات ہیں لہذا بہتر یہ ہوگا کہ کسی بھی مسئلہ پر ان ہی سے گفتگو کی جائے۔ ان کا ایک اپنا فورم بھی ہے، جہاں آپ ان کے نکتہ نظر کی تائید یا تنقید کرسکتے ہیں۔ میں نے ان کی کتاب کا جو حوالہ دیاتھا ، وہ بس وہیں تک محدود تھا۔

مجھے یقین ہے کہ آپ کی مثبت کوششیں لوگوں کو قرآن اور صحیح روایتوں سے آگاہی بخشیں‌ گی۔ اور اللہ تعالی آپ کو اس کی جزا دے گا۔ قرآن کو آپ چھو لیجئے تو آپ کو بڑھ کر لپیٹ لیتا ہے، اس کا میں سینکڑوں بار کا شاہد ہوں ۔ پھر مسلمان کے لئے قرآن سے آگاہی ایک اثاثہ ہے۔

عرض‌کروں گا کہ آپ کی اور عبد اللہ حیدر صاحب کی تحریر میں حد درجہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ ممکن ہے اتفاقیہ ہو۔
 
کھانے پینے کی اشیاء‌ کے بارے میں صرف ایک حکم نہیں ہے۔ بلکہ کئی آیات ہیں ۔
دیکھئے:
[ayah]2:168[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ[/arabic]
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

[ayah]2:172[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ [/arabic]
اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو


[ayah]2:267[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ [/arabic]
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بیشک اﷲ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہے

تو پاک و ناپاک میں کیا قضائے حاجت شامل ہے؟ دیکھئے
[ayah]4:43[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُبًا إِلاَّ عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا [/arabic]
اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے

رسول اللہ کی زبان سے حکم خداوندی کہ صرف پاک چیزیں حلال ہیں:
[ayah]5:4[/ayah] [arabic]يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّهُ فَكُلُواْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُواْ اسْمَ اللّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ [/arabic]
لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس (شکار) میں سے (بھی) کھاؤ جو وہ (شکاری جانور) تمہارے لئے (مار کر) روک رکھیں اور (شکار پر چھوڑتے وقت) اس (شکاری جانور) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے


رفع حاجت کو ناپاک قرار دیا اور اس کے بعد نماز کے لئے وضو کا حکم دیا
[ayah]5:6[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَ۔كِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [/arabic]
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ

[ayah]5:88 [/ayah] [arabic]وَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ حَلاَلاً طَيِّبًا وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ [/arabic]
اور جو حلال پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے کھایا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو

رسول اکرم بذات خود پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک کو حرام کرتے ہیں ، اللہ تعالی کی گواہی اس ضمن میں۔

[ayah]7:157[/ayah] [arabic]الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [/arabic]
(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں

جو نبی صلعم قرآن پیش کرتے ہوئے، پاک اشیاء سے کھانے کا حکم دیتا ہے، کیا ناپاک اشیاء‌کا حکم دے سکتا ہے؟ کیا بول و براز کسی طور بھی پاک اشیاء میں شامل ہوسکتے ہیں؟ یہ وجہ پیش کرنا کہ یہ کھاد کے طور پر استعمال ہوتےہیں، سائینسی نکتہ نگاہ سے ایک مناسب وجوہات میں سے نہیں ہے۔
 

باذوق

محفلین
یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ڈاکٹر شبیر احمد صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک اچھے انسان ہیں، ان کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ اچھی باتوں میں ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اب تک قریب 13000 غیرمسلم ان کی کوششوں سے مسلمان ہوچکے ہیں۔ چونکہ حیات ہیں لہذا بہتر یہ ہوگا کہ کسی بھی مسئلہ پر ان ہی سے گفتگو کی جائے۔ ان کا ایک اپنا فورم بھی ہے، جہاں آپ ان کے نکتہ نظر کی تائید یا تنقید کرسکتے ہیں۔ میں نے ان کی کتاب کا جو حوالہ دیاتھا ، وہ بس وہیں تک محدود تھا۔
اگر کسی کی کوششوں سے لوگ اسلام قبول کرتے ہیں تو تمام تعصبات کو بالاتر رکھتے ہوئے اس فرد کی یقیناً تعریف کی جانی چاہئے جس کی کوششیں اس طرح بارآور ہوتی ہوں۔
لیکن سنگین غلطیوں کی نشاندہی بھی "نھی عن المنکر" کے تحت ہمارا ایک اور فریضہ بنتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ کی مثبت کوششیں لوگوں کو قرآن اور صحیح روایتوں سے آگاہی بخشیں‌ گی۔ اور اللہ تعالی آپ کو اس کی جزا دے گا۔ قرآن کو آپ چھو لیجئے تو آپ کو بڑھ کر لپیٹ لیتا ہے، اس کا میں سینکڑوں بار کا شاہد ہوں ۔ پھر مسلمان کے لئے قرآن سے آگاہی ایک اثاثہ ہے۔
قرآن کے تعلق سے ایک جگہ میں نے کچھ ایسے جملے لکھے تھے :
قرآن ، اللہ کی کتاب ہے ، وہ کلامِ باری تعالیٰ ہے ، اس کی حکومت بحر و بر پر چھائی ہوئی ہے ، وہ اللہ کی برہان اور مینارہٴ نور ہے ۔۔۔۔۔۔ غرض قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے جتنا بھی مبالغہ کر لیا جائے وہ صحیح اور برحق ہے!
اور ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ۔۔۔۔
جس پر قرآن نازل ہوا تھا ، قرآن کے نام پر اس کی سنّت کو پیچھے نہیں پھینک دینا چاہئے اور اُمت چودہ سو (1400) سال سے جن احادیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر ان پر عمل پیرا اور ان کے تقدس کی قائل ہے ، قرآن فہمی اور "مولویت" کے نام پر ان کو بے وقعت نہیں کرنا چاہئے !!
یہ دونوں اقوال ، آپ اور میں دونوں بھی مانتے ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے آپ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ میرا نظریہ کچھ دوسرا ہے۔
عرض‌کروں گا کہ آپ کی اور عبد اللہ حیدر صاحب کی تحریر میں حد درجہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ ممکن ہے اتفاقیہ ہو۔
نہیں ، وہ ایک الگ شخصیت ہیں اور ابھی حال ہی میں میری ان سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ وہ تو ابھی ناکتخدا ہیں جبکہ میں بال بچوں والا ہوں۔ دراصل یکساں نظریات ، نقطۂ نظر کی پیشکشی اور مطالعے کی ہم آہنگی سے ایسا مغالطہ عموماً ہوتا ہے۔ ورنہ کسی کے لکھنے کے انداز اور لب و لہجہ پر باریکی سے غور کیا جائے تو فرق کا پتا چل جاتا ہے۔
 

باذوق

محفلین
کھانے پینے کی اشیاء‌ کے بارے میں صرف ایک حکم نہیں ہے۔ بلکہ کئی آیات ہیں ۔
دیکھئے:
آپ نے اپنی اس پوسٹ نمبر:46 میں جو قرآنی آیات پیش کی ہیں ۔۔۔۔ وہ کس ضمن میں ہیں؟؟
کیا یہ آیات کسی حدیث کو غلط ثابت کرتی ہیں؟ اگر ہاں تو براہ مہربانی وہ حدیث یہاں بیان کیجئے گا، شکریہ۔
 
السلام علیکم۔
[arabic]المرأة[/arabic] کا اردو ترجمہ "عورت" بنتا ہے یا "بیوی"؟
کیا یہ حدیث کے الفاظ میں معنوی تحریف نہیں ہے؟؟
میری ناقص رائے میں : سخت قاعدہ سے دیکھئے تو امراۃ کے معانی عورت کے استعمال ہونگے، خاص طور پر اس روایت کے معاملے میں ۔ لیکن قرآن نے مرد کی عورت کو بطور بیوی بھی استعمال کیا ہے۔ لہذا محض معنوی تحریف قرار دینا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔۔ بہر صورت اس کو ڈاکٹر صاحب کے موقف کی تقویت کے لئے نہیں استعمال کررہا بلکہ ایک تفصیل عرض کررہا ہوں کہ امراۃ ممکنہ طور پر بیوی کے لئے استعمال ہوا ہے، خاص‌طور پر جب اس کے فوراَ‌ بعد اشارۃ اس کے شوہر کی طرف ہو۔

مثالیں: (ابو لہب) اس کی بیوی
[ayah]111:4[/ayah] [arabic]وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ [/arabic]
اور اس کی عورت (بھی) جو لکڑیوں کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے،

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ، حضرت سارہ۔
[ayah]11:71[/ayah] وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَقَ يَعْقُوبَ
اور ان کی اہلیہ (سارہ پاس ہی) کھڑی تھیں تو وہ ہنس پڑیں سو ہم نے ان (کی زوجہ) کو اسحاق (علیہ السلام) کی اور اسحاق (علیہ السلام) کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی بشارت دی

حضرت عمران کی زوجہ محترمہ:
[ayah]3:35[/ayah] [arabic]إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [/arabic]
اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا: اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے خوب جاننے والا ہے
 
یہ دونوں اقوال ، آپ اور میں دونوں بھی مانتے ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے آپ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ میرا نظریہ کچھ دوسرا ہے۔


ہر روایت کو نہیں ، صرف ان روایات کو جو بہت واضح طور پر قرآن کی مخالف لگتی ہیں۔ ان میں بیشتر خواتین کی سماجی حیثیت اور تعلیم، قوم کی دولت اور فرد واحد کی حکومت کے زمرہ میں آتی ہیں۔ بعض ہتک رسول اور ہتک قرآن محسوس ہوتی ہیں، ان پر کافی بات ہوچکی ہے۔ اس پر یہ لنک دیکھئے کہ ایک خاص قسم کی روایات کا فائیدہ غیر مسلم کس طرح اٹھاتے ہیں۔ http://www.biblestudymanuals.net/hadith.htm - دشمنان اسلام اگر موجود نہ ہوتے تو شاید یہ خیال بھی نہ ہوتا۔
 

باذوق

محفلین
میری ناقص رائے میں : سخت قاعدہ سے دیکھئے تو امراۃ کے معانی عورت کے استعمال ہونگے، خاص طور پر اس روایت کے معاملے میں ۔ لیکن قرآن نے مرد کی عورت کو بطور بیوی بھی استعمال کیا ہے۔ لہذا محض معنوی تحریف قرار دینا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔۔ بہر صورت اس کو ڈاکٹر صاحب کے موقف کی تقویت کے لئے نہیں استعمال کررہا بلکہ ایک تفصیل عرض کررہا ہوں کہ امراۃ ممکنہ طور پر بیوی کے لئے استعمال ہوا ہے، خاص‌طور پر جب اس کے فوراَ‌ بعد اشارۃ اس کے شوہر کی طرف ہو۔

مثالیں: (ابو لہب) اس کی بیوی
میں مانتا ہوں کہ آپ کی بات کسی حد تک صحیح ہے۔
لیکن آپ اپنی ہی پیش کردہ آیات پر غور کریں۔ قرآن فہمی کا یہ عام سا اصول تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ الفاظ کے معانی وہاں مخصوص ہوں گے جب سیاق و سباق اس کی تائید کرتا ہو۔ ورنہ عمومی معنی ہی مراد لئے جائیں گے۔
آپ نے جتنی آیات پیش کیں ان تمام میں سیاق و سباق "بیوی" ہی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔
یہی ہم بھی پوچھتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ میں تخصیص کرنے کے لئے کیا سیاق و سباق کا دیکھا جانا ضروری نہیں ہے؟ کیا اس حدیث کا سیاق و سباق "بیوی" کی تخصیص کرنے کی اجازت دیتا ہے؟
اگر یہ تحریفِ معنوی نہیں ہے تو پھر "تحریفِ معنوی" اور کسے کہا جائے گا؟
 
یہ دونوں اقوال ، آپ اور میں دونوں بھی مانتے ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے آپ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ میرا نظریہ کچھ دوسرا ہے۔


ہر روایت کو نہیں ، صرف ان روایات کو جو بہت واضح طور پر قرآن کی مخالف لگتی ہیں۔ ان میں بیشتر خواتین کی سماجی حیثیت اور تعلیم، قوم کی دولت اور فرد واحد کی حکومت کے زمرہ میں آتی ہیں۔ بعض ہتک رسول اور ہتک قرآن محسوس ہوتی ہیں، ان پر کافی بات ہوچکی ہے۔ اس پر یہ لنک دیکھئے کہ ایک خاص قسم کی روایات کا فائیدہ غیر مسلم کس طرح اٹھاتے ہیں۔ [COLOR="Red"]http://www.biblestudymanuals.net/hadith.htm [/COLOR]- دشمنان اسلام اگر موجود نہ ہوتے تو شاید یہ خیال بھی نہ ہوتا۔
باسم بھائی نے اسی ویب سائٹ کا جو ربط دیا ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ دشمنان اسلام کا ہدف صرف حدیث ہی نہیں بلکہ وہ قرآن پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔
http://www.biblestudymanuals.net/quran.htm
اس لنک پر قرآن کریم کی جو آیت دی گئی ہے وہ حقیقتا قرآن میں موجود ہے لیکن دشمنان اسے توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ یقین مانیے احادیث کے ساتھ بھی ان کا معاملہ یہی ہے۔ ان کے بے جا اعتراضات اور خبث باطن کی وجہ سے قرآن نہیں چھوڑا جا سکتا تو صحیح حدیث بھی نہیں چھوڑی جا سکتی۔ کوئی دشمن اعتراض برائے اعتراض کرتا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا قرآن میں اللہ کی ہدایت کے عین مطابق ہے۔
[ARABIC]وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَاماً [الفرقان : 63][/ARABIC]
"رحمٰن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے"
اہل کتاب تو چاہتے ہیں کہ ہم سے اللہ کا قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان چھین لیں یا کم از کم اسے مشکوک بنا دیں۔
[ARABIC]مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَاللّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [البقرة : 105][/ARABIC]
نہیں پسند کرتے وہ لوگ جو کافر ہیں، اہلِ کتاب میں سے اور نہیں (پسند کرتے) مشرک، اس بات کو کہ نازل ہو تم پر کوئی خیر تمہارے رب کی طرف سے ۔مگر اللہ خاص کرلیتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ جس کو چاہے۔ اور اللہ مالک ہے فضلِ عظیم کا۔
[ARABIC]وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [البقرة : 109][/ARABIC]
اکثر اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بیشک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
اہل کتاب اور کفار اور مشرکین کی خواہشات کے مطابق اگر دین میں ترامیم شروع کر دی جائیں تو دین میں کیا چیز باقی بچے گی۔
 
میری ناقص رائے میں : سخت قاعدہ سے دیکھئے تو امراۃ کے معانی عورت کے استعمال ہونگے، خاص طور پر اس روایت کے معاملے میں ۔ لیکن قرآن نے مرد کی عورت کو بطور بیوی بھی استعمال کیا ہے۔ لہذا محض معنوی تحریف قرار دینا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔۔ بہر صورت اس کو ڈاکٹر صاحب کے موقف کی تقویت کے لئے نہیں استعمال کررہا بلکہ ایک تفصیل عرض کررہا ہوں کہ امراۃ ممکنہ طور پر بیوی کے لئے استعمال ہوا ہے، خاص‌طور پر جب اس کے فوراَ‌ بعد اشارۃ اس کے شوہر کی طرف ہو۔

مثالیں: (ابو لہب) اس کی بیوی
[ayah]111:4[/ayah] [arabic]وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ [/arabic]
اور اس کی عورت (بھی) جو لکڑیوں کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے،

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ، حضرت سارہ۔
[ayah]11:71[/ayah] وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَقَ يَعْقُوبَ
اور ان کی اہلیہ (سارہ پاس ہی) کھڑی تھیں تو وہ ہنس پڑیں سو ہم نے ان (کی زوجہ) کو اسحاق (علیہ السلام) کی اور اسحاق (علیہ السلام) کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی بشارت دی

حضرت عمران کی زوجہ محترمہ:
[ayah]3:35[/ayah] [arabic]إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [/arabic]
اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا: اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے خوب جاننے والا ہے
جب امراۃ کا لفظ کسی نسبت سے بیان ہو تو اس کا مطلب بیوی ہوتا ہے اور جب نکرہ کے طور پر آئے تو عورت۔ اردو میں بھی اس کا استعمال اسی طرح ہے مثلا کہتے ہیں "زید کی عورت نے یہ کہا" یا "بکر کی عورت آئی تھی"۔ اہل زبان سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں عورت سے مراد بیوی ہے لیکن کسی نسبت کے بغیر جب "عورت" کہا جائے تو اس کا معنی بیوی نہیں ہوتا۔ آپ نے جو مثالیں دی ہیں ان دوبارہ دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ ان سب میں امراۃ کی نسبت کسی مرد سے کی گئی ہے اس لیے ان آیات میں اس کا ترجمہ "بیوی" درست ہے:
[arabic]وامراتہ[/arabic] "اس(ابولہب) کی عورت
[arabic]وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ [/arabic] ان کی (ابراھیم علیہ السلام کی) اہلیہ کھڑی تھیں
[arabic]امْرَأَةُ عِمْرَانَ[/arabic] "عمران کی عورت
 
نہیں ، وہ ایک الگ شخصیت ہیں اور ابھی حال ہی میں میری ان سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ وہ تو ابھی ناکتخدا ہیں جبکہ میں بال بچوں والا ہوں۔ دراصل یکساں نظریات ، نقطۂ نظر کی پیشکشی اور مطالعے کی ہم آہنگی سے ایسا مغالطہ عموماً ہوتا ہے۔ ورنہ کسی کے لکھنے کے انداز اور لب و لہجہ پر باریکی سے غور کیا جائے تو فرق کا پتا چل جاتا ہے۔
راز کی بات برسر بزم کہہ دی :)
 

آبی ٹوکول

محفلین
لیکن ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ آیات کا تقابل کیے بغیر قرآن کو سمجھنا بھی ناممکن ہے حدیث کا معاملہ تو بعد میں آتا ہے۔

قرآن اپنی تشریح وتفصیل خود بیان کرتا ہے ، رب عظیم کی بہت ہی سیدھی سادی ہدایت ہے کہ:

[ayah]54:17[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [/arabic]
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے

قرآن کو سمجھنا ناممکن ہے یہ متشابہات کے لئے ضرور درست ہے لیکن واضحات کے لئے اللہ کا صاف صاف پیغام ہے۔

موجودہ موضوع پر سیر حاصل بحث ہوچکی ہے اب آگے چلتے ہیں۔ آپ مزید روایات پر اپنے پر خلوص خیالات کا اظہار فرمائیے۔
یہ ہمارا بھی ایمان ہے اور اصول تفسیر میں بھی اسی اصول کو تقدم حاصل ہے کہ اول تفسیر قرآن بالقرآن کا درجہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی ایمان کہ قرآن کا اصل مفھوم اسکے مجمل و مشترک الفاظ کی اصل اور حقیقی تفھیم تک رسائی صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کی طرف رجوع کے بغیر ناممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن جو کہ عربوں پر نازل ہوا باوجود کہ عربی ان کی مادری زبان تھی وہ لوگ قرآن کی ایک ایک آیت کی تفھیم کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی رجوع کیا کرتے تھے لہذا اسی وجہ سے قرآن کی تفسیر کا دوسرا بڑا زریعہ اور اصول اصول تفسیر میں تفسیر قرآن باالحدیث کو قرار دیا گیا ہے ۔
لہزا ہمارے نزدیک ہر وہ شخص جو صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر صرف قرآن سے ہی قرآن کو مکمل طور پر سمجھنے کا دعوٰی کرے وہ خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے ۔
رہ گئی وہ آیت کہ جس سےا ستدلال کرتے ہوئے آپ نے بالعموم سارے کے سارے قرآن کی تفھیم کو ہی آسان سمجھ لیا تو اس آیت کا سیاق و سباق صاف طور پر بتا رہا کہ قرآن کی جس تفھیم کی آسانی کی یہاں بات کی گئی ہے اس مراد وعظ و نصیحت کے امور ہیں جیسا کہ خود آیت اور آپکے پیش کردہ ترجمہ کہ الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ۔ ۔ اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے۔
اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن صرف وعظ و نصیحت کے مجموعے ہی کا نام نہیں بلکہ کہ یہ کائنات کے تمام علوم و فنون کو محیط کتاب ہےجس میں رہتی دنیا تک کے تمام مسائل کا کہیں اجمالا اور کہیں تفصیلا بیان آگیا ہے لہزا اس میں (یعنی قرآن میں سے)ایسے مسائل کا استنباط کرنے کے لیے ایک ایسی خصوصی جماعت(مجتھدیں و مفسرین) کا ہونا ضروری ہے جو کہ قرآن کی تفھیم کا اس کے تمام تر پہلوؤں سے احاطہ کیئے ہوئے ہو ۔ہمارا دعوٰی ہے کہ قرآن کو صرف قرآن سے ہی مکمل طور پر نہیں سمجھا جاسکتا اور ہمارے اس دعوٰی کی ہمارے پاس متعدد دلیلیں ہیں جن میں سے سب سے پہلی یہ ہے کہ اگر قرآن کو صرف قرآن ہی سے سمجھا جاسکتا تھا تو پھر صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ضرورت(معاذ اللہ) نہیں رہتی ۔
دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن باقاعدہ وقائع کے تحت نازل ہوا اور نازل ہوتے ہوتے ہوا اور اسکے نزول کی تکمیل کو کم ازکم ساڑے تیئس برس کا عرصہ لگا ۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے یکبارگی کے ساتھ نازل کردیا گیا ہو بلکہ اس کا یہ تدریجی نزول اصل میں مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تادم قیامت تک اہمیت اور بے شمار حکمتوں کے پیش نظر ہوا ۔ ۔ ۔جیسا کہ اس کا نزول کبھی کبار کسی خاص واقعہ کے پس منظر سے متعلق ہوتا تھا بعض مرتبہ کسی خاص سوال کے جواب میں اور بعض مرتبہ مشرکین اور منافقین کے رد میں کوئی آیت نازل ہوتی تھی، کبھی کیس آیت میں عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہونے والے کسی خاص واقعہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا تھا اور کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے کسی عمل پر بطور تنبیہ یا تائید کسی آیت کا نزول عمل میں اتا تھا ۔ لہزا جب تک کسی بھی انسان کو ان تمام وقائع اور انکے پس منظر میں وقوع ہونے والے تمام شرائع (یہاں شرائع سے ہماری مراد شرعی ضرورتیں ہیں)یعنی اسباب نزول کا علم نہ ہو ان کا کوئی بھی واضح معنٰی ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا اسی لیے ان تمام وقائع کو جاننے کے لیے ہمیں احادیث مبارکہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے تاکہ قرآن کی صحیح اصل اور مکمل تفھیم پسے ہمارے فھم روشن ہوسکیں لہذا قرآن کو سمجھنے کے لیے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت ماننا ایک لازمی امر ہے ۔ لہزا اگر فھم قرآن کے لیے احادیث مبارکہ کو ایک معتبر ماخذ اور حجت کی حیثیت سے نہ تسلیم کیا جائے تو قرآن مجید کی مکمل ،حقیقی اور اصلی تفھیم سے کوئی بھی ذی بشر مستفید نہیں ہوسکتا بلکہ قرآن کی بعض آیات تو بالکل معمہ اور چیستان بن کر رہ جائیں گی ۔ وما علینا الاالبلاغ
 
مجھے امید ہے کہ قارئین اس پوسٹ کو پہلے سے زیادہ توجہ سے پڑھیں گے کیونکہ اس میں قرآن و حدیث کی تفہیم کا ایک اہم کلیہ بیان کیا جائے گا ان شاء اللہ۔
پوسٹ نمبر 21 میں سورۃ الانعام کی آیت 145 کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اب ذرا تفصیل سے اس آیت مبارکہ پر تدبر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[arabic]قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَّسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقاً أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [الأنعام : 145][/arabic]
" آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے" (قادری)
"کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر الله کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے پھر جو تمہیں بھوک سے بے اختیار ہوجائے ایسی حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا ہو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے" (احمد علی)
تم فرماؤ میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت وہ نجاست ہے یا وہ بے حکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا تو جو ناچار ہوا نہ یوں کہ آپ خواہش کرے اور نہ یوں کہ ضرورت سے بڑھے تو بے شیک اللہ بخشنے والا مہربان ہے (بریلوی)
"کہہ دو! نہیں پاتا میں اس وحی میں جو میرے پاس آئی کوئی چیز حرام کسی کھانے والے پر کہ اُسے کھائے سوائے اس کے کہ ہو وہ مُردار یا بہتا ہوا خُون یا سور کا گوشت۔ اس لیے کہ یقینا وہ ناپاک ہے یا یہ کہ حکم عدولی کرتے ہوئے پکارا گیا ہو (نام) غیر اللہ کا اس پر پھر جو کوئی مجبور ہوجائے (اُن کے کھانے پر) اس طرح کہ نہ نافرمانی کا ارادہ ہو اور نہ حد سے تجاوز کرے تو یقینا تیرا رب بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔" (شبیر)
آیت کا ترجمہ پڑھنے سے گمان گزرتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر جو وحی آئی اس نے مندرجہ ذیل چار چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو حرام نہیں ٹھہرایا:
مردار، بہتا ہوا خون، سور کا گوشت، جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو۔
ظاہر ہے اسلام میں ان چاروں کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں۔ اس بارے میں جو دوسری آیات ہیں وہ فاروق صاحب نے اپنی پوسٹ میں لکھ دی ہیں اس لیے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:
کھانے پینے کی اشیاء‌ کے بارے میں صرف ایک حکم نہیں ہے۔ بلکہ کئی آیات ہیں ۔
یہ وہ بات ہے جو میں نے اوپر سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ قرآن کے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں محض لفظی ترجمہ پڑھ کر آدمی قرآن کی مفہوم کو نہیں پا سکتا بلکہ ڈر ہے کہ وہ قرآنی حکم کا بالکل الٹ مطلب لے جائے گا۔ لہٰذا قرآن و حدیث کی تفہیم کے لیے یہ معیار درست نہیں ہے کہ:
علم وہ ہے جو سب کی سمجھ میں آئے، ایک عام آدمی کی سمجھ میں اور خاص طور پر زمانہ جاہلیت کے بدو کی سمجھ میں (پوسٹ نمبر41)
اس آیت کو عرب کے کسی بدو کے سامنے پڑھیے یا پڑھے لکھے کے سامنے۔ دونوں کا جواب ایک ہی ہو گا کہ اس میں چار چیزوں کی حرمت کے سوا کسی دوسری چیز کے حرام نہ ہونے کا ذکر ہے۔ اسی لیے ہم گزارش کرتے ہیں کہ آپ اپنے معیار پر نظر ثانی کریں کیونکہ اس کی زد میں قرآنی آیات بھی آ رہی ہیں :
اقتباس: ایک عام آدمی کی سمجھ میں اور خاص طور پر زمانہ جاہلیت کے بدو کی سمجھ میں نا کہ صرف کچھ ایل یہود کی سمجھ میں آئے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک صحیح روایت کس طرح بناء‌کسی دشوارییا توجیح یا تاویل کے بآسانی قابل قبول ہوتی ہے؟
آپ مجھے سمجھا دیں کہ دوسری آیات کو سامنے رکھے بغیر اس آیت کی تشریح کس طرح کی جا سکتی ہے اور "عرب کا بدو" کیونکر یہ سمجھے گا کہ مذکورہ چار اشیاء کے سوا کچھ اور بھی حرام ہے۔ مجھے تو ضوء القرآن یعنی قرآن کی روشنی میں نظر آ گیا ہے کہ قرآن و حدیث فہمی کے لیے یا طرز فکر درست نہیں ہے کہ:
اقتباس: کسی بھی شارح کا یہ مؤقف کہ کسی روایت کے مندرجات کو اس کے ظاہری معنوں سے مختلف ثابت کرنے کے لئے مزید حدیثی علم ضروری ہے ، تاکہ وہ قابل قبول ہو جائے۔ کچھ اچھا نطریہ نہیں۔ یہ تو صاحب ہم سب مانیں گے کہ علم وہ ہے جو ایک بات کی واضح تشریح کرتا ہو نہ کہ الٹ پھیر کرتا ہو۔ یہ کہنا کہ کوئی علم بس صرف اور صرف عالم ہی سمجھ سکتا ہے ، کچھ ایسا کہنے اور کرنے کے مترادف ہے کہ جو ہم سمجھیں وہی درست ہے۔
کیا اس آیت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے مزید علم کی‌ ضرورت نہیں؟ حالانکہ یہ قرآنِ مبین کی آیت ہے۔
"بدو" کے سامنے یہ آیت پڑھ کر اسے بتلائیں کہ میاں اس کے سوا کچھ حرام چیزیں ہم تمہیں بتلاتے ہیں تو وہ اسے الٹ پھیر نہیں سمجھے گا؟
علم ہر کوئی سمجھ سکتا ہے لیکن مناسب استعداد بہم پہنچا کر۔
جب قرآن جو کتاب مبین ہے، جس کی حفاظت اور تبیین کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے، اس کی ایک آیت دوسری آیات کو ملائے بغیر نہیں سمجھی جا سکتی تو پھر حدیث کے معاملے میں یہ اصول کیوں مد نظر نہیں رکھا جاتا اور فورا کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے نا کہ سورۃ الانعام کی یہ آیت قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے، جو جواب قرآن کے بارے میں دیا جائے کیا وجہ ہے کہ حدیث کو پرکھتے ہوئے وہ اصول (یعنی دوسری متعلقہ احادیث سے موازنہ) نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ فکر مجھے قرآن سے ملی ہے اور میں اس قرآنی فکر سے ہٹنا پسند نہیں کروں گا چاہے اس کے لیے "اہل یہود" کا خطاب ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔
فاروق صاحب کیا آپ میری اس بات سے متفق ہیں کہ قرآن کی اس آیت کو سمجھنے کے لیے بدو جتنا علم کافی نہیں اور یہ کہ قرآن و حدیث کی درست تفہیم کے لیے کچھ قواعد وضع کرنے ضروری ہیں جیسے آیات اور احادیث کا تقابل وغیرہ؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
حدیث اور قرآن کا باہمی ربط
حدیث کیا ہے ؟
اتنی بات تو کم و بیش سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے عوام الناس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف نبوت و رسالت سے روشناس کروایا ہے بلکہ منصب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی توضیح فرمائی ہے بلاشبہ نبوت و رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ایک عہدہ اور منصب ہونے کی وجہ سے ایمانیات سے متعلق ہیں یعنی ماننے اور باور کرنے کی چیزیں ہیں مگر قرآن کے نے منصب نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو واضح فرمایا ہے دیکھیئے درج زیل آیات اور پھر ہر آیت کہ ضمن حاصل ہونے والے فوائد ۔ ۔
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَO
. ترجمہ:- آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتاo ( سورہ آل عمران 32عرفان القرآن)
اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے کہ ۔ ۔ ۔
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
ترجمہ :،بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo (سورہ آل عمران 164 عرفان القرآن)
فوائد و ثمرات​
:

مندرجہ بالا دونوں ایات سے ثابت ہوا کہ جس طرح اللہ کی اطاعت (قرآن کی صورت میں ) ضروری ہے اسی طرح رسول صلی اللہ کی اطاعت بھی( فرمان رسول سلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں) ضروری ہے
اور مندرجہ بالا دونوں اطاعتوں کے درمیان واؤ عاطفہ ذکر کر کے (کہ واؤ عاطفہ ہمیشہ مغایرت کے لیے آتی ہے کہ عطف کا معطوف علیہ ہمیشہ اس کا غیر ہوتا ہے ) اس امر کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ دونوں اطاعتیں اپنے نفوس میں تو جدا جدا ہیں مگر حقیقتا ایک ہی ہیں جیسا کہ ایک مقام پر فرمایا من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔ ۔
اور درج بالا دوسری آیت قرآن پاک میں تو وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ کے صاف اور صریح الفاظ ہماری بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ قرآن کو صرف قرآن سے سمجھنا ممکن نہیں جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے تزکیہ نہ حاصل کرلیا جائے اور پھر اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کتاب کی تعلیم لیتے ہوئے اس قرآن کی حکمتوں کو سمجھا جائے اور یاد رہے کہ مندرجہ بالا آیت میں تزکیہ ، تعلیم اور حکمت تینوں کی نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے نہ قرآن کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ اس تزکیہ ، تعلیم اورحکمت تک رسائی کا واحد زریعہ احادیث مبارکہ ہیں جو کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں بھی امت میں صدیوں سے رائج ہیں ۔ ۔ ۔
دیکھیئے ایک اور مقام پر قرآن کس طرح مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کرتا ہے دیکھیئے درج زیل آیت قرآن کا سیاق و سباق ۔ ۔ ۔
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَO
ترجمہ:- (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریںo (النحل 44 عرفان القرآن)

دیکھیے اس آیت نے تو ہماری بات کو کھول کر رکھ دیا اور اتنے شفاف طریقہ سے بیان کردیا کہ اب دیگر کسی بھی بیان کی احتیاج نہیں ۔ دیکھیئے
وَأَنزَلْنَا :- اور ہم نے نازل کیا
إِلَيْكَ :- آپ کی طرف
الذِّكْرَ :- اس ذکر کو
لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ :- تاکہ آپ اسے لوگوں پر کھول کھول کر بیان کردیں
سوال پیدا ہوا کسے کھول کھول کر بیان کردیں
؟
جواب اسی آیت کے اگلے حصے میں کہ
مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْجو آپکی طرف نازل کیا گیا یعنی قرآن ۔
آپ نے دیکھا کہ خود نے قرآن نے اس قرآن کے تبیان یعنی کھلے بیان کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی رجوع کے لیے کہا کیونکہ قرآن (یعنی قرآن کلام اللہ ہے) الگ شئے ہے اور اسکا بیان (یعنی حدیث رسول اللہ ہے)الگ شئے ہے اور اسکا بیان ،بیان رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی احادیث و سنت ) کے سوا ممکن نہیں ۔
ان آیات اور ان کے علاوہ سینکڑوں آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن اپنے مفھوم اور مدعا کو واضح کرنے میں بیان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج ہے اور یہی وہ مقصد اور حکمت بھی ہے کہ جس کے تحت رسولوں کو مبعوث کیا گیا وگرنہ اگر صرف کتاب ہی کافی ہوتی تو رسولوں کی بعثت کا کوئی مقصد نہ تھا ۔ ۔ ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کرچکے اور یہاں بھی ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ مقام نبوت کو سمجھانے کی کوشش کی اور اس کی دلیل کے بطور ہم نے ایک تو قرآن کا وقائع کے تحت نازل ہونا پیش کیا اور دوسرا یہ عرض کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے انسانی معیشت کے اصول اور مبادی اجمالا بیان فرمائے ہیں جن کی تعبیر و تشریح بغیر احادیث مبارکہ کہ ممکن ہی نہیں نیز اسی طرح احکامات کی عملی صورتوں سے کما حقہ واقفیت کے لیے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ضروری ہے اور یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کہ جو ہمیں احکامات کی اصل تصویر مہیا کرتی ہیں وگرنہ صلوٰۃ، زکوٰۃ ، تیمم حج اور عمرہ یہ محض الفاظ ہیں اور لغت عرب انکے وہ معانی بتانے سے قاصر ہیے جو کہ مدعا قرآن ہیں ۔ آپ ہی سوچیے اگر حضور نہ بتلاتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ لفظ صلوٰۃ سے یہ مخصوص ہیئت کذائیہ مراد ہے ۔ اسی طرح حج و عمرہ اور عشر و زکوٰۃ کی بھی تفصیل ہمیں قرآن میں نہیں ملتی حد تو یہ ہے کہ حج کی بابت اس کے دیگر احکام یعنی وقوف عرفہ طواف زیارت و وداع کی تفصیل تو ایک طرف قرآن ہمیں یہ بھی نہیں بتاتا کہ حج کے لیے کونسا دن یا تاریخ مقرر ہے اسی طرح زکوٰۃ کا صرف لفظ قرآن میں مزکور ہے مگر عشر اور زکوٰۃ کی تفصیل اور ان جیسے دیگر تمام امور کی وہ شرعی ہیئت کذائیہ کہ جس سے فرائض ، واجبات اور آداب کی تمیز ہوسکے ہمیں قرآن میں کہیں نہیں ملتی بلکہ اس کے مقابلے میں قرآن کریم کے ان تمام بیان کردہ الفاظ کی تعبیر و تشریح اور احکام کی تفصیل و تعیین ہمیں اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جو کہ بصورت احادیث منقول ہیں) سے ملتی ہے جو شخص ان احادیث کو معتبر نہیں مانتا اس کے پاس قرآن کے مجمل اور مبہم احکام کی تفصیل کے لیے اور کوئی ذریعہ نہ ہوگا ۔ ۔ ۔
 
کیا کسی بھی رسول کی بعثت پر کوئی اعتراض کیا گیا ہے۔ یہ سمت کیسے نکلی حیران ہوں۔

شاید آپ لوگ آپس میں‌خیال آرائی کرر ہےہیں۔ اور اتنے موضوعات کھل گئے ہیں جن سے اصل موضوع ختم ہوجاتا ہے۔

بھائی آبی ٹو کول۔ آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں جناب عبداللہ حیدر اور باذوق کے مثبت مراسلاتی انداز پر ایک نظر ڈال لیجئے۔

آپ کا سارا زور میری شخصیت اور میرے ایمان کو ناپنے تولنے پر لگ رہا ہے۔ یہ وہ یہودی عمل ہے جس کا گواہ وقت 2000 سال سے ہے۔ وہ 4000 سال سے مسیحا ڈھونڈھ رہے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عیسی سے سب سے پہلاسوال یہی کیا تھا --- کیا تم وہی مسیحا ہو جس کا وعدہ کیا گیا تھا ---- میں‌ بنا کسی لاگ لپیٹ‌کے آپ کو صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ آپ آج بھی اسی یہودی روایت پر عمل کررہے ہیں ۔ اور اس عمل میں‌ آپ اتنے کھو گئے ہیں کہ دوسروں سمیت مجھ جیسے معمولی طالب علموں کا ایمان جانچتے پھرتے ہیں۔ بھائی وہ نبی آ بھی گیا جس کا وعدہ تھا اور پیغام بھی آچکا جس کا وعدہ تھا۔ اب آپ یہ یہودیت و اسرائیلیات چھوڑ دیجئے۔ مانتا ہوں کہ یہ بات بہت سخت ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مولویت ، یہودیت سے ہی پھوٹی ہے۔ اس پر میں جو کچھ لکھ چکا ہوں وہ آپ ڈھونڈھ کر پڑھ سکتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ آپ اس بات کے داعی ہیں کے 12 یا 52 علوم کے حصول کے بغیر، قرآن کی تعلیم ناممکن ہے۔ بھائی یہ بھی یہودیوں کا پھیلایا ہوا شر ہے۔ ملائیت یا مولویت پر اس یہودیت کی حیرت انگیز چھاپ نظر آتی ہے۔ کہ ہم ہی مولوی ہیں، علم ہمارے پاس ہے ، قوانین ہم بنائیں گے اور حکومت ہم کریں گے۔ صاحب اسرائیلیات کے اسی جرم کو توڑنے کے لئے اتنا پیغام نازل ہوا۔ اگر آپ نے تھوڑی سی بھی تاریخ‌پڑھی ہے تو اندازہ ہوگا کہ "اسرائیلیات " کا جرم کیا ہے اور اللہ ، رسول صلعم اور قرآن ان اسرئیلیوں پر کیا فرد جرم عائد کرتا ہے؟ آپ کو بنا شک و شبہہ کے کہہ رہا ہوں کہ آپ اس اسرئیلیاتی عمل میں پیش پیش ہیں۔ کہ

1۔ افراد کے ایمان کو جانچنا۔ ان کی کردار کشی کرنا
2۔ علوم صرف ملا کے لئے مخصوص ہیں۔ یعنی فرد واحد کی حکومت اور ملا کا اس کے گرد گھیرا۔

کوئی شبہ نہ رہ جائے اس لئے اپنا نکتہ نظر پھر ایک بار واضح کرتا ہوں، تاکہ آپ بار بار یہ دہرانے سے بچ جائیں کہ
"جو شخص۔۔۔۔۔ یہ مانتا ہے اور وہ یہ نہیں مانتا وہ یہ ہے۔۔۔۔۔ "

میرا ایمان صرف اور صرف [ayah]2:177[/ayah] کے مطابق ہے۔ نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔ اگر آپ کو یہ ایک مسلمان کا ایمان لگتا ہے تو بہت خوب ۔

اب آپ یہ بتائیے کہ ہم یہاں ایک دوسرے کے ایمان کو ناپنے تولنے کے لئے جمع ہوئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ایک دھاگہ کھولئے، اور جو چاہے لکھئے۔ میں آپ کو ناپنے کے لئے وہاں نہیں آؤں گا۔

‌ بہت صاف صاف کہہ چکا ہوں کہ بہت سی روایات کو میں قطعاً معتبر نہیں‌مانتا اس کی وجہ کچھ الفاظ کے معانی نہیں ۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس کو کہیں سے بھی دیکھئے معانی ناقابل قبول ہی نکلتے ہیں۔ اور دوسرے آپ کو پورے کے پورے فرقہ ایسے مل جائیں گے جو پوری کی پوری کتب کو ہی یکسر رد کرتے ہیں اور ان کے مقابل اپنی کتب رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک تشریحی و تاریخی لٹریچر ہے جس کی اصل دستیاب نہیں، امتداد زمانہ کا شکار رہا ہے، موجودہ متن، تعداد ، ترتیب ، اور اسناد میں فرق ہے اور اس لٹریچر میں تھوڑا بہت قرآن کے مخالف ہے۔ لہذا "سنت و اقوال و اعمال رسول "‌ کے حصول کے لئے ، رسول اکرم کے پیش کیے ہوا اللہ تعالی کے کلام کی روشنی میں پرکھ ، رسول اکرم کے قول کے مطابق ضروری ہے۔

" ما انزل علیکم" صرف اور صرف قرآن ہے، یہ بات تو اس سے مختلف نہیں جو اب تک میں نے کہی ہے کہ قرآن اور صاحب قرآن کی سنت کو "ما انزل علیکم " یعنی قرآن سے ہی پرکھا جائے۔ یہ صاحب قران کا اپنا حکم ہے۔ اس ضمن میں جو سوال ہیں کئی بار واضح کرچکا ہوں۔ ایسا رنگ دیجئے جس سے معلومات کا تبادلہ ہو نا کہ فتوی سازی شروع ہوجائے کہ کون کیا ہے اور کون کیا؟

امراۃ :
اس روایت میں‌بلاشبہ امراۃ کے معانی عورت کے ہیں ، جو میں نے اوپر لکھے اور جناب عبداللہ حیدر نے اس کی توثیق اور وضاحت کی۔ جب بھی کسی کو یہ جملہ پیش کیا جائے گا تو کوئی عورت اس کی رشتہ دار بھی ہوسکتی ہے ، جیسے ماں، بہن ، بیٹی، بیوی، پھوپھی، نانی، دادی وغیرہ۔ اس گروپ میں سے اگر مثال دی جائے کہ ----- کیا کوئی شخص اپنی "خلیہ پھپھی" کو یہ کہ سکتا ہے ---- تو بھی اُس جینریلائیزیشن (‌عمومیت) کی وجہ سے جو اس جملہ میں لفظ عورت کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے ، طویل الخیال تو ہوگا لیکن درست ہوگا۔ لہذا مترجم کو اس بات کی سزا دینا کہ اس نے ایک دور پار کا خیال پیش کردیا نا مناسب ہے۔ اصل میں‌اس نے خیالات کے پیچ کے قدم ہٹا کر ایک مثال دی ہے۔ اصل مقصد اس بات کو پیش کرنے کا یہ ہے کہ اس روایت کابنیادی خیال نامناسب ہے اور ہمارے نبی کریم کے شایان شان نہیں۔

اس "نحوست" کا مرکزی تانا بانا یقینی طور پر اس 'نحوست" سے ملتا ہے جس کی وجہ سے زمانیہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ یا ان اسرائیلیات میں‌ملتا ہے جس میں بی بی حوا کو جنت سے نکلوانے کا ذمہ دار تھیرایا جاتا ہے۔ کیا قرآن بی بی حوا کے بارے میں ایسا کوئی دعوی کرتا ہےکہ یہ بی بی حوا کا قصور تھا؟ قرآن میں تو ان خاتون کا نام تک نہیں ہے۔

یہودیوں کو بہت وقت ملا کہ وہ اسلامی کتب میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں اور اضافہ کرسکیں۔ توجہ مرکزی خیال تک رکھئے کہ عورتوں کا یہودی معاشرہ اور زمانہ ء جاہلیت میں میں کیا مقام رہا ہے۔ یہ روایت اس مرکزی خیال کو خوب خوب ہوا دیتی ہے۔

اللہ تعالی نے اپنا پیغام جس مقصد کے لئے فراہم کیا ہے وہ عالم انسانیت کے لئے "اسلام" کا پیغام ہے۔ جو حق و انصاف، سچائی اور انسانی حقوق پر مبنی ہے۔ اس عمل میں دنیا کے ہر شخص کو حصہ لینا ہے۔ یہ پیغام ایک عورت، ایک مرد ، فرد واحد کو ڈانٹنے یا طعنہ زنی کے لئے نہیں اتارا گیا۔ بلکہ " یا ایھا الذین ۔۔۔ " یعنی ساری قوم کے لئے اتارا گیا۔ اس کے وسیع و عریض منظر میں دیکھئے نہ کوئی عورت نحس ہے اور نہ کوئی مرد۔ کبھی وقت ملے تو یہ دھاگہ پڑھئے ، یہ وہ آیات ہیں جن کو لوگ پڑھ جاتے ہیں اور کچھ نہیں سوچتے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=13747

یہی قابل مولوی جب بھی شرعی قوانین کی بات کرتے ہیں تو صرف پانچ سزاؤں سے آگے نہیں سوچ سکتے۔
 

باسم

محفلین
اونٹ کے پیشاب والی حدیث کی وضاحت
عرض ہے کہ اس حدیث میں عرینہ یا عکل والوں کو اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم بطور مشروب کے نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا سمجھتا ہے بلکہ سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ ایک خاص حالت ہے ورنہ اونٹ کا پیشاب ناپاک ہی ہے۔
فتح الباری میں لکھا ہے۔
[arabic]"وذهب الشافعي والجمهور إلى القول بنجاسة الأبوال والأرواث كلها من مأكول اللحم وغيره"[/arabic]
"امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا یہ مؤقف ہے کہ ہر طرح کا پیشاب اور پاخانہ ناپاک ہے چاہے وہ ایسے جانور کا ہو جس کا گوشت کھایا جاتا ہے یا اس کے علاوہ کا ہو"
تو پھر حدیث میں پیشاب پینے کا حکم کیوں دیا گیا؟ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ
"یہ اللہ تعالٰی کے ارشاد
[arabic]"وقد فصل لكم ما حرم عليكم إلا ما اضطررتم إليه"[/arabic] [ayah]6:119[/ayah]
"حالانکہ جو چیزیں اس نے تمہارے لیے حرام ٹھیرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں (بے شک ان کو نہیں کھانا چاہیے) مگر اس صورت میں کہ ان کے (کھانے کے) لیے ناچار ہو جاؤ "
کے تحت داخل ہے کہ جس طرح مجبوری کی حالت میں مردار کھانے کی اجازت ہے اسی طرح مجبوری کی حالت میں اونٹ کا پیشاب پینے کی بھی"
جیسے کہ اس حدیث میں عرینہ والوں کے پیٹ کی بیماری کا ذکر ہے جو کسی طرح دور نہ ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ان کا علاج معلوم ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرینہ والوں کو اس کا حکم دیا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بدبختوں کو اس سے شفا بھی مل گئی اور اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا اس کی سزا بھی پائی۔
"جن بد نصیبوں کے مدینہ منورہ کی "پاک" سرزمین میں ہاضمے خراب ہوگئے ہوں اور وہ شہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہوں ان کا علاج اونٹ کے پیشاب جیسی "ناپاک" چیز سے ہی ہوسکتا تھا"
 
Top