! بخاری شریف اور صحیح مسلم، انپیج فارمیٹ میں !

سیاق و سباق سے ہٹا کر ایک بہترین بات کو بھی بری بات میں بدلا جا سکتا ہے۔ عورت، گھوڑے اور مکان کے "شیطانی" نہیں منحوس ہونے کے بارے میں آپ نے جو حدیث بیان کی ہے اس کے اصل الفاظ یہ ہیں:
[ARABIC]عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (إن كان في شيء: ففي المرأة، والفرس والمسكن
).[/ARABIC]
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
"اگر( نحوست) کسی چیز میں ہوتی تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتی"
انگریزی میں اس کا ترجمہ یہ ہے:
Narrated Sahl bin Sad Saidi:

Allah's Apostle said "If there is any evil omen in anything, then it is in the woman, the horse and the house."

اس حدیث میں نحوست کے نہ ہونے کا بیان ہے جیسا کہ لفظ "اگر" سے ظاہر ہے۔ حدیث اپنے مطلب میں بالکل صاف ہے۔
پنجابی میں ایک مثال مشہور ہے کہ ساس اپنی بہو پر اعتراض کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئی تو تنگ آ کر کہنے لگی "تو آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے؟"۔ میرا مقصد کسی پر ذاتی‌حملہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ ایک بہترین قول یا عمل کی بری سے بری تاویل کی جا سکتی ہے اگر سوچنے کی بنیاد ہی غلط ہو۔ اس کی چند مثالیں میں احترام کے ساتھ فاروق صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ کتاب النکاح کی حدیث پر آپ کو اعتراض ہے کہ اس میں عورتوں کو فتنہ قرار دیا گیا ہے جو قرآن کے‌خلاف ہے۔
۔ عورت کو شیطانی یا فتنہ قرار دینا
کتاب الجہاد، ، جلد 4، کتاب 52، روایت 111
کتاب النکاح ، جلد7 ، کتاب 62، روایت 30
اس حدیث کا عربی متن یہ ہے:
[ARABIC]عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما تركت بعدي فتنة أضر على الرجال من النساء
)[/ARABIC]
"اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
"میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ (آزمائش) نہیں چھوڑی"
عربی زبان میں فتنہ آزمائش اور ابتلاء کو کہتے ہیں۔ اس حدیث میں بیان کی گئی حقیقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کی شکل میں جو آزمائش ہے وہ واقعی سب سے بڑی آزمائشوں میں سے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عورت کن کن شکلوں میں مردوں کے لیے ذریعہ آزمائش بنتی ہے اس لیے میں اس کی تفصیل میں نہیں‌جانا چاہتا۔ اس طرح کے مطلب لے کر اگر میں اور آپ "جج" بن کر فیصلے کرنے لگیں تو اس کی زد میں حدیث ہی نہیں آئے گی بلکہ کل کلاں کوئی متجدد اٹھ کر دعویٰ کر دے گا کہ قرآن میں وہ آیات موجود ہیں جن میں عورت کو فتنہ کہا گیا ہے اس لیے انہیں قرآن سے نکالا جائے۔ بعض احباب کو شاید حیرانی ہو کہ ہمارے محترم دوست کی نظر صحیح بخاری کی اس روایت پر تو پڑ گئی لیکن اپنے ہی اصول کے تحت اس حدیث کو" قرآن کی روشنی" میں نہیں پرکھ سکے۔ قرآن کریم میں اس موضوع پر "فتنے" سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ سورۃ التغابن آیت 14 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ[/ARABIC]
"اے اہل ایمان! بے شک، تمہاری بیویوں اور اولادوں میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس ان سے بچ کر رہو"
اس سے اگلی آیت میں فرمایا:
[ARABIC]إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ [/ARABIC] (سورۃ التغابن آیت 13 پارہ 28 )
"بے شک تمہاری اولاد اور تمہارے اموال فتنہ ہیں"
سورۃ یوسف آیت 28 میں اللہ تعالیٰ‌نے عزیز مصر کا ایک قول نقل کیا ہے اور اس کی تردید نہیں فرمائی۔ فرمایا:
[ARABIC] إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ[/ARABIC] (سورۃ یوسف آیت 28 پارہ 12)
"یہ تم عورتوں کے چلتر ہیں۔ واقعی تم عوتوں کے چلتر بڑے (خطرناک) ہوتے ہیں" (ترجمہ عبدالرحمٰن کیلانی)
دوسرے مترجمین کا ترجمہ دیکھیے جو فاروق صاحب نے اپنی ویب سائٹ میں شامل کر رکھے ہیں:
"بیشک یہ تم عورتوں کا فریب ہے۔ یقیناً تم عورتوں کا فریب بڑا (خطرناک) ہوتا ہے" (قادری)
"شک یہ تم عورتوں کا ایک فریب ہے بے شک تمہارا فریب بڑا ہوتا ہے" (احمد علی)
"بیشک یہ تم عورتوں کا چرتر (فریب) ہے بیشک تمہارا چرتر (فریب) بڑا ہے" (احمد رضا)
"یقیناً یہ تم عورتوں کی چالبازیاں ہیں۔ بے شک تمہاری چالیں غضب کی ہوتی ہیں۔" (شبیر احمد)
عورت کو ٹیڑھا قرار دینے والی روایت کا اپنا ایک محل ہے اور وہ بات ایک خاص پس منظر میں کہی گئی ہے میں اس کی تفصیل میں جاؤں تو شاید بحث کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ اس لیے فقط اتنا عرض کروں گا کہ سوچ کو ٹیڑھا نہ ہونے دیجیے۔ اگر یہ ٹیڑھی ہو جائے تو اچھی بھلی چیزیں بھی درست نہیں لگتیں۔ قرآن کی مندرجہ بالا آیت ہی کو لے لیجیے۔ کوئی اسلام دشمن یہ کہنا شروع کر دے کہ قرآن میں عورتوں کو چالباز کہا گیا ہے اور بیویوں کو قرآن میں مردوں کی دشمن کہا گیا ہے توکیا اس میں والدہ بھی شامل ہو گی جو اصل میں ہمارے والد کی بیوی ہی ہے؟ آپ کا ردعمل کیا ہو گا۔آیت کا درست مفہوم اور سیاق و سباق پیش کرنا نہ کہ اسے قرآن سے نکالنے اور اسے مشکوک ٹھہرانے کی مہم چلانا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں اپنے خاص مفہوم اور خاص سیاق و سباق میں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔
کسی کو حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آئے یا اس میں کچھ اشکال ہو تو کسی ماہر فن سے دریافت کر لینے میں کیا حرج ہے۔(ماہر فن سے مراد محدثین ہیں نا میں اور آپ)۔ ایک سادہ سی مثال لے لیں۔ آپ کا کمپیوٹر خراب ہو جائے تو آپ کسی انجینئر سے رجوع کریں گے اور اس کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ "میں خود جج بن کر دیکھوں گا کہ تم کیا کرتے ہو"۔ لیکن افسوس کہ سب سے اہم معاملے یعنی دین کے بارے میں یہ سادہ سی بات ہمیں سمجھ نہیں آتی۔
اونٹ کے پیشاب والی آیت پر بھی ہمارے فاضل دوست کوئی ایسی آیت پیش نہیں کر سکتے جو اسے حرام ٹھہراتی ہو۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بہت سے چیزیں ہیں جو قرآن میں حرام قرار نہیں دی گئیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں حرام قرار دیا جس کا حکم صحیح احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ اور کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے استعمال کرنے کی اجازت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دی اور ان کا حکم بھی صحیح احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حکم ثابت ہو جائے تو اسے خود جج بن کر ریجیکٹ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[ARABIC]وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا[/ARABIC] (الاحزاب آیت نمبر 36 پارہ 22)
"کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اسے کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔"
اس روایت کو آپ قرآن پر پرکھیے۔ کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی جس میں مذکور ہو کہ بیماری کے وقت اونٹ کا پیشاب استعمال کرنا حرام ہے۔ فاروق صاحب سے گزارش ہے کہ اس حدیث کو سورۃ انعام کی آیت 145 کی روشنی میں پرکھ کر بتائیں کہ کیا واقعی یہ قرآن کے خلاف ہے؟
مختلف پبلشرز نے کتب احادیث کی نمبرنگ مختلف طریقے سے کی ہے۔ کسی نے ابواب کے شروع میں مذکور آیات کو الگ نمبر دیا ہے کسی نے ابواب کی ہیڈنگ کو بھی نمبرنگ میں شامل کر دیا ہے۔ کسی نے ہر سند کو الگ نمبر دیا ہے اور کسی نے ایک متن کو ایک ہی نمبر کے تحت جمع کیا ہے خواہ وہ زیادہ اسناد سے بیان کیا گیا ہو۔ اسی لیے مختلف پبلشرز کی شائع کردہ کتب احادیث‌میں نمبرنگ کا فرق ہوسکتا ہے۔ آجکل حوالے کے لیے عالمی ترقیمی نظام مستعمل ہے۔ بہرحال یہ ایک ثانوی بحث ہے۔ میرا اصل نکتہ یہ ہے کہ جن بنیادون پر حدیث کے خلاف شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں کل کلاں وہی باتیں کہہ کر قرآن کے خلاف بھی کسی مہم کا آغاز ہو سکتا ہے۔
 
[ayah]6:145[/ayah] آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے

آپ کی آسانی کے لئے یہ آیت لکھ دی ہے۔
 
عبداللہ حیدر صاحب کی تحقیق سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ روایات ان کتب میں موجود ہیں اور عبداللہ حیدر صاحب کو جو تاویلات ملی ہیں وہ بھی انہوں نے پیش کردی ہیں۔ متن ظاہر ہے ان کا بنایا ہوا نہیں ہے لہذا عبداللہ حیدر صاحب کو کچھ نہیں‌کہنا چاہتا، سوائے اس کے کہ بھائی اس تحقیق کا شکریہ۔ اب ایک ایک کرکے ان آیات کو جن کا حوالہ دیا گیا گیا ہے اور ان روایات کو معانی کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ کا باقی لیکچر میں نظر انداز کررہا ہوں۔ اس کی ضرورت نہیں‌تھی۔ اور ماہر فن کا فن ابھی ہم قران کی روشنی میں تفصیل سے دیکھیں گے تو سب کا اطمینان ہو جائیگا۔ ماہر فنون کو آؤٹ سورس کئے ہوئے تو ہم کو 600 سال ہوگئے ہیں۔ اب تو ہم اس موقع پر پہنچ گئے ہیں کہ صرف ماہر فن رہ گئے ہیں اور باقی بے چارے جاہل ۔ لہذا اس جہل سے معافی کا خواستگار ہوں۔ آپ نے اپنا نکتہ نطر پیش کردیا، کچھ ہم معمولی مسلمانوں کو بھی سیکھ لینے دیجئے :) بجائے اپنے طور پر نتائج اخذ کرنے میں جلدی کرنے کے صبر سے دوسرے کے نکتہ نظر کا انتظار کرلیجئے :)

روایات کے بارے میں یہ تاویلات کسی نامعلوم مولوی کی ریسرچ ہے نہ کہ رسول اکرم یا اللہ تعالی کا فرمایا ہوا۔ لہذا قرآن کی آیات کا مزید ریفرنس دیکھ کر اطمینان کرلینا بہتر ہوگا۔
 

arifkarim

معطل
فارق صاحب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ احادیث بھی درست تشریح و ترجمہ کے بغیر ناکافی ہیں۔۔۔۔ اسلئے ہر حدیث کی درست تشریح‌ کے بغیر اسکے معانی سمجھنا ناممکن ہے!
 
[arabic]عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما تركت بعدي فتنة أضر على الرجال من النساء
)[/arabic]
"اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
"میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ (آزمائش) نہیں چھوڑی"
آئیے اس حدیث کو فاروق صاحب کے مقرر کردہ اصول کے مطابق پرکھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا یہ واقعی قرآن کے خلاف ہے یا ہمارے محترم دوست اسے صحیح طور پر سمجھ نہیں پا رہے۔ پہلے دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں استعمال ہونے والے لفظ "فتنہ" کا مطلب کیا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے لغات کی مدد لی جا سکتی ہے لیکن اس سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ قرآن کریم میں یہ لفظ کن کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مترجمین نے اس کا ترجمہ کیا کیا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ "فتنہ" جن جن آیات میں استعمال ہوا ہے ان میں سے چند آیات ملاحظہ کیجیے۔
سورۃ التغابن کی آیت 15 میں فرمایا:
[arabic]إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ [التغابن : 15][/arabic]
مشہور اردو مترجمین کے تراجم ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ وہ "فتنہ" کا کیا مطلب بتاتے ہیں۔
"بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے ہاں بڑا اجر ہے" (کیلانی)
"تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے" (محمد جونا گڑھی)
"تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑ ااجر ہے" (مودودی)
" تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہی ہیں، اور اللہ کی بارگاہ میں بہت بڑا اجر ہے" (قادری)
"تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے محض آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس تو بڑا اجر ہے" (بریلوی)
"حقیقت یہ ہے کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمائش ہے۔ اور اللہ وہ ہے جس کے پاس ہے اجرِ عظیم۔" (شبیر)
سورۃ الممتحنۃ کی آیت 5 میں اہل ایمان کی دعا مذکور ہے جس میں لفظ فتنہ استعمال ہوا ہے۔ ملاحظہ کیجیے
[arabic]رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [الممتحنة : 5][/arabic]
"اے ہمارے رب ہمیں کافروں کے لیے فتنہ نہ بنا دے" (مودودی)
"اے ہمارے رب! و ہمیں کافروں کی آزمائش میں‌نہ ڈال" ( (جونا گڑھی)
" اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا" (قادری)
"ے ہمارے رب ہمیں ان کا تختہ مشق نہ بنا جو کافر ہیں اور اے ہمارے رب ہمیں معاف کر بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے" (احمد)
"اے ہمارے رب ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے رب بیشک تو ہی عزت و حکمت والا ہے،" (بریلوی)
"اے ہمارے رب! نہ بنانا تو ہمیں آزمائش کافروں کے لیے اور ہمارے قصوروں سے درگزر فرما اے ہمارے مالک! بے شک تو ہی ہے زبردست اور بڑی حکمت والا" (شبیر)
سورۃ القر آیت 27 میں فرمایا:
[arabic]إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَّهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ [القمر : 27][/arabic]
" بیشک ہم اُن کی آزمائش کے لئے اونٹنی بھیجنے والے ہیں، پس (اے صالح!) اُن (کے انجام) کا انتظار کریں اور صبر جاری رکھیں" (قادری)
"بے شک ہم ان کی آزمائش کے لیے اونٹنی بھیجنے والے ہیں پس (اے صالح) ان کا انتظار کر اور صبر کر" (احمد)
"ہم ناقہ بھیجنے والے ہیں انکی جانچ کو تو اے صا لح! تو راہ دیکھ اور صبر کر" (بریلوی)
"بلاشبہ بھیج رہے ہیں اونٹنی کو آزمائش بناکر ان کے لیے سو انتظار کرو اور صبر کرو۔" (شبیر)
سورۃ الزمر میں فرمایا:
[arabic]فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ [الزمر : 49][/arabic]
"پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت بخش دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ یہ نعمت تو مجھے (میرے) علم و تدبیر (کی بنا) پر ملی ہے، بلکہ یہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے" (قادری)
[arabic]إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِّلظَّالِمِينَ [الصافات : 63][/arabic]"بے شک ہم نے اسے ظالموں کے لئےآزمائش بنایاہے" (احمد علی)
"بیشک ہم نے اسے ظالموں کی جانچ کیا ہے" (بریلوی)
"ہم نے بنایا ہے اسے آزمائش ظالموں کے لیے۔" (شبیر)
بات کو سمجھنے کے لیے اتنی آیات کی تفصیل کافی ہے اس لیے مزید آیات کے تراجم تھوڑے اختصار کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔

[arabic]وَما أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيراً [الفرقان : 20][/arabic]
اور ہم نے آپ سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر (یہ کہ) وہ کھانا (بھی) یقیناً کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی (حسبِ ضرورت) چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے، کیا تم (آزمائش پر) صبر کرو گے؟ اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے
[arabic]وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ [الأنبياء : 111][/arabic]
اور میں یہ نہیں جانتا شاید یہ (تاخیرِ عذاب اور تمہیں دی گئی ڈھیل) تمہارے حق میں آزمائش ہو اور (تمہیں) ایک مقرر وقت تک فائدہ پہنچانا مقصود ہو (قادری)
[arabic]كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ [الأنبياء : 35][/arabic]
ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لئے مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے (قادری)
[arabic]وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي القُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ طُغْيَاناً كَبِيراً [الإسراء : 60][/arabic]
اور جب کہا تھا ہم نے تم سے (اے نبی) کہ بے شک تیرے رب نے گھیر رکھا ہے لوگوں کو اور نہیں بنایا ہم نے اس منظر کو جو دکھایا ہے ہم نے تم کو مگر آزمائش لوگوں کے لیے اور وہ درخت بھی جس پر لعنت بھیجی گئی ہے قرآن میں۔ اور تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں ہم انہیں، لیکن نہیں اضافہ کرتیں (ہماری یہ تنبیہات) مگر ان کی سخت سرکشی میں۔ (شبیر)
[arabic]وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَ۔كِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ [البقرة : 102][/arabic]
"اور وہ (یہود تو) اس چیز (یعنی جادو) کے پیچھے (بھی) لگ گئے تھے جو سلیمان (علیہ السلام) کے عہدِ حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے حالانکہ سلیمان (علیہ السلام) نے (کوئی) کفر نہیں کیا بلکہ کفر تو شیطانوں نے کیا جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس (جادو کے علم) کے پیچھے (بھی) لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت (نامی) دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا، وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے تھے یہاں تک کہ کہہ دیتے کہ ہم تو محض آزمائش (کے لئے) ہیں سو تم (اس پر اعتقاد رکھ کر) کافر نہ بنو، اس کے باوجود وہ (یہودی) ان دونوں سے ایسا (منتر) سیکھتے تھے جس کے ذریعے شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے، حالانکہ وہ اس کے ذریعے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ ہی کے حکم سے اور یہ لوگ وہی چیزیں سیکھتے ہیں جو ان کے لئے ضرر رساں ہیں اور انہیں نفع نہیں پہنچاتیں اور انہیں (یہ بھی) یقینا معلوم تھا کہ جو کوئی اس (کفر یا جادو ٹونے) کا خریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں (ہوگا)، اور وہ بہت ہی بری چیز ہے جس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں (کی حقیقی بہتری یعنی اُخروی فلاح) کو بیچ ڈالا، کاش! وہ اس (سودے کی حقیقت) کو جانتے۔ (قادری)
ان آیات کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ "فتنہ" کا ایک مطلب "آزمائش" ہے اور عربی زبان میں یہ صرف ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا جن معنوں میں یہ اردو میں مستعمل ہے بلکہ کسی عبارت کا سیاق و سباق تعین کرتا ہے کہ قائل کی منشا کیا ہے۔ کچھ دوسری آیات سے "فتنہ" کے اور معنوں پر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن وہ ہماری بحث سے غیر متعلق ہیں۔ جب قرآن کریم کی آیات سے ایک معنی واضح ہو گیا اور اس کی مطابق حدیث کی بہترین تشریح کی جا سکتی ہے تو کسی حدیث کو خلاف قرآن قرار دینے سے قبل کچھ مزید غوروفکر کر لینا بہترین لائحہ عمل ہے۔
 
یہاں تک ایک مسئلہ صاف ہو گیا کہ مندرجہ بالا حدیث میں جو عورتوں کو مردوں کے لیے "فتنہ" کہا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مردوں کے لیے آزمائش ہیں۔ اب آئیے قرآن کی روشنی میں پرکھتے ہیں کہ اس آزمائش کی نوعیت کیا ہے:
سورۃ النساء کی آیت 14 اور 15 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[arabic] زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ [آل عمران : 14-15] [/arabic]
"لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔ آپ فرما دیں: کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟ (ہاں) پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لئے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اﷲ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور اﷲ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے"
اس آیت میں ذکر ہے کہ عورتوں اور دوسری مرغوبات کے پیچھے بعض انسان اس طریقے سے لگ جاتے ہیں کہ انہیں آخرت کا خیال نہیں آتا۔ اس آیت میں جن آزمائشوں کا‌ ذکر کیا گیا ہے غور سے پڑھیے کہ اس میں سب سے پہلا ذکر عورت کا ہے۔
[arabic]قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ [التوبة : 24][/arabic]
" آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا"
اس آیت میں ذکر ہے کہ بیوی بچوں کی محبت اللہ کے راستے میں جہاد میں مانع ہو سکتی ہے جو ایک سچے مومن کے لیے بڑی آزمائش ہے۔
اہل ایمان کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی بیوی بچے اصل میں ان کی آزمائش کا حصہ ہیں اسی لیے وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں اس امتحان میں کامیاب کرے اور ان کے بیوی بچوں کو سیدھے راستے پر گامزن رکھے۔
[arabic]وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً [الفرقان : 74][/arabic]
"اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے"
اور آخر میں وہ آیت جو اس بارے میں قول فیصل ہے اور جو قطعی طور پر مندرجہ بالا حدیث کو ثابت کر دیتی ہے۔
[arabic]َيا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوّاً لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [التغابن : 14][/arabic]
"اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم صرفِ نظر کر لو اور درگزر کرو اور معاف کر دو تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے" (قادری)
"اے ایمان والو بے شک تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں سو ان سے بچتے رہو اور اگرتم معاف کرو اور درگزر کرو ارو بخش دو تو اللہ بھی بخشنے واا نہایت رحم والا ہے" (احمد)
"اے ایمان والو تمہاری کچھ بی بیا ں اور بچے تمہارے دشمن ہیں تو ان سے احتیاط رکھو اور اگر معاف کرو اور درگزرو اور بخش دو تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،" (بریلوی)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو یقیناً تمھاری بیویوں اور اولاد میں سے کچھ ایسے ہیں جو دشمن ہیں تمھارے سو ہوشیار رہو تم ان سے اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر سے کام لو اور بخش دو تو بلاشبہ اللہ ہے بہت معاف کرنے والا اور نہایت رحم فرمانے والا۔" (شبیر)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیوی اگر راہ حق پر چلنے میں مانع ہو جائے تو وہ اس کی خیرخواہ نہیں ہے۔ بیوی کے کہنے پر رشوت لیتا ہے، غبن کرتا ہے، بیوی کو آسائشیں پہنچانے کے لیے قوم کا مال لوٹ کر کھا جاتا ہے تو بھائیو! اگر یہ بیوی یعنی عورت اس کی آزمائش نہیں تو کیا ہے؟
بات کو سمیٹتے سے پہلے اب تک کی گفتگو کو اختصار کے ساتھ دوبارہ دیکھ لیجیے۔ خان صاحب نے حدیث پر ان لفظوں میں اعتراض کیا تھا:
"1۔ عورت کو شیطانی یا فتنہ قرار دینا
کتاب الجہاد، ، جلد 4، کتاب 52، روایت 111
کتاب النکاح ، جلد7 ، کتاب 62، روایت 30

جب ہم نے حدیث کے متن کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ اس میں "شیطانی" کا لفظ مذکور ہی نہیں البتہ عورت کو "فتنہ" کہا گیا ہے۔ (میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ "فتنے" کے ساتھ "شیطانی" کے لفظ کا اضافہ کس مقصد کے لیے کیا گیا)
قرآن کی روشنی میں ہم نے "فتنہ" کے معانی کو پرکھا تو معلوم ہو گیا کہ یہاں اس کے معنی "آزمائش" ہے۔
قرآن ہی کی دوسری آیات سے ان بعض صورتوں کی وضاحت ہو گئی جن کے ذریعے عورت مرد کے لیے ذریعہ آزمائش بن سکتی ہے۔
اس حدیث کے خلاف قرآن یا مطابق قرآن ہونے پر اب میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ دلائل میں‌نے پیش کر دیے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ قرآن کے مطابق ہے یا مخالف۔ اللہ نے چاہا تو دوسری احادیث پر بھی قرآن کی روشنی میں بات ہو گی۔
 
سب سے پہلی بات یہ کہ جو کچھ عباللہ حیدر صاحب نے لکھا ہے وہ بالکل درست ہے۔ برادر من نے جو بھی محنت کی اس پر میں بھی اور یقیناً دوسرے احباب و اصحاب بھی ہم کو علم کی اس روشنی سے ہمکنار کرانے کی کوشش کرنے کے لئے خلوص دل سے شکرگزار ہیں۔

لیکن صاحب یہ وہ روایت ہی نہیں، یہ دوسری روایت ہے۔ شاید آپ کو لفظ فتنہ سے مغالطہ ہوگیا۔شاید آپ نے اردو کے فتنے کو عربی کا فتنہ سمجھ کر روایت ڈھونڈی۔ میرا خیال ہے کہ اردو میں لفظ فتنہ شیطانی بلا جیسی شے کے لئے استعمال ہوتا ہے، جیسے دجال۔ اور اس کے لئے درست عربی لفظ [ARABIC] الشؤم [/ARABIC] ہے

آپ لگتا ہے کہ الشؤم کو لکھنا بھول گئے یااس کتاب والوں کو یہ لفظ اچھا نہیں لگا، جو آپ نے استعمال کیم کیوں کہ آپ نے ان کان کے بعد الشؤم کو غیر اضطراری طور پر حذف کردیا ہے۔

[ARABIC] " إن كان الشؤم في شيء ففي‎ ‎الفرس والمسكن والمرأة " ،[/ARABIC]
جس لفظ کو دیکھنا تھا وہ ہے [ARABIC] الشؤم [/ARABIC] نہ کہ عربی کا فتنہ۔

اصل روایات یہ ہیں۔ ایک سے قسم زائد حوالے دے رہا ہوں۔
[ARABIC]لا عدوى و لا طيرة, وإنما الشؤم في ثلاثة : المرأة و الفرس و الدار"
فقد‏‎ ‎أخرجه ‏البخاري ومسلم من حديث ابن عمر رضي الله عنهما‎،‎ ‎وفي ‏روايةللبخاري : والشؤم في ثلاث: في المرأة والدار والدابة",
‎وفي رواية ‏أخرى البخاري ومسلم : " إنما الشؤم في‎ ‎ثلاثة: في الفرس ‏والمرأة والدار "
، وفي رواية لمسلم : " إن كان الشؤم في شيء ففي‎ ‎الفرس والمسكن والمرأة " ،
‏وفي رواية أخرى لمسلم : " إن يكن من الشؤم شيء حق ففي‎ ‎الفرس والمرأة والدار‎ "

وحدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب حدثنا مالك بن أنس ح وحدثنا يحيى بن يحيى قال قرأت على مالك عن بن شهاب عن حمزة وسالم ابني عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الشؤم في الدار والمرأة والفرس

[/ARABIC]

اب ان کے معانی دیکھتے ہیں: دیل میں آپ شؤم کے معانی پر کلک کرکے ڈکشنری کے معانی دیکھ سکتے ہیں۔
[ARABIC]وإنما [/ARABIC] بے شک
[ARABIC] الشؤم [/ARABIC] ill-omen an evil omen شیطانی بلا
[ARABIC]في [/ARABIC] میں
[ARABIC]ثلاثة :[/ARABIC] تین
[ARABIC] المرأة[/ARABIC] عورت
[ARABIC]و الفرس[/ARABIC] گھوڑا
[ARABIC] و الدار[/ARABIC] اور گھر
بے شک شیطانی بلاء تین چیزوں میں ہے، "عورت، گھوڑا اور گھر"

استدعا ہے کہ عبداللہ حیدر صاحب اس مد میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ اس پر تفصیلات آنے پر ہی میں‌کوئی خیال آرائی کرسکتا ہوں۔ جو تفصیلات آپ نے اوپر فراہم کی ہیں وہ اس روایت پر کسی طور منطبق نہیں ہوتی ہیں۔ وہ اس کئے کہ یہ روایت عمومی طور پر عورت کو شیطانی بلا قرار دے رہی ہے۔ جبکہ جن آیات کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ آزمائش کے پس منظر میں ہیں اور اپنی جگہ درست ہیں۔ ان کا مرکزی خیال وہی ہے جو آپ نے پیش کیا ہے اور تفصیل بھی وہی درست ہے جو آپ نے پیش کی ہے یعنی آزمائش ۔ لیکن یہ آیات کسی طور بھی عورت کو شیطانی بلا کا تصور نہیں دیتی ہیں۔ شیطانی بلا میں‌نے ایول اومن کا ترجمہ کیا ہے جو کہ ڈکشنری میں الشؤم کا ترجمہ ہے۔۔ اگر آپ کو مناسب نہ لگے تو بہتر ترجمہ عنایت فرمائیں۔

ایک استدعا اور ہے، وہ یہ کہ یہ سمجھنا چھوڑ دیجئے کہ میں بناء پڑھے اور بناء کسی تحقیق کے اپنی ناقص رائے عرض کرتا ہوں، آپ کی تحریر کے ہر گوشے سے کچھ ایسا ہی عیاں ہے۔ آئیے انسانوں اور ذاتی ارتکاز سے ہٹ کر کچھ موضوع ، مضمون اور متن پر ارتکاز کریں، تاکہ ہم بھی آپ سے کچھ سیکھیں خلوص کے ساتھ۔ آپ کے ذخیرہ ء معلومات کا میں تہہ دل سے ممنون ہوں اور آپ سے خلوص دل سے تجزیہ کا متمنی و دعاگو ہوں۔

شکراً جزیلاً و عفواً کثیراً
والسلام
 

باسم

محفلین
محترم ایک گزارش تو یہ ہے کہ جب بھی آپ احادیث مبارکہ کا حوالہ پیش کیجیے تو ایسی سائٹس کا انتخاب کییجے جہاں عربی متن بھی موجود ہو نہ کہ صرف ترجمہ یا الگ سے عربی متن کا حوالہ پیش کیجیے جیسے:
http://hadith.al-islam.com
http://al-eman.com/hadeeth

آخری پوسٹ میں کتاب اور جلد روایت نمبر وغیرہ کا حوالہ موجود نہیں جیسا کہ پیچھے ہے۔

"الشؤم" یا "Ill omen, an evil omen" کا درست ترجمہ جاننے کیلیے قران مجید کا لفظ "طائركم" اور آیات مبارکہ
سورة النمل 27 : آیت : 47
[ARABIC]قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ[/ARABIC]
اردو ترجمہ: "وہ کہنے لگے: ہمیں تم سے (بھی) نحوست پہنچی ہے اور ان لوگوں سے (بھی) جو تمہارے ساتھ ہیں۔ (صالح علیہ السلام نے) فرمایا: تمہاری نحوست (کا سبب) اللہ کے پاس (لکھا ہوا) ہے بلکہ تم لوگ فتنہ میں مبتلا کئے گئے ہو"
English Translation : They said: "Ill omen do we augur from thee and those that are with thee". He said: "Your ill omen is with Allah; yea, ye are a people under trial."​
اور
سورة یٰس 36 : آیت 19
[ARABIC]قَالُوا طَائِرُكُمْ مَّعَكُمْ أَئِن ذُكِّرْتُم بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ[/ARABIC]
اردو ترجمہ : "(پیغمبروں نے) کہا: تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے، کیا یہ نحوست ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی، بلکہ تم لوگ حد سے گزر جانے والے ہو"
English Translation : They said: "Your evil omens are with yourselves: (deem ye this an evil omen). If ye are admonished? Nay, but ye are a people transgressing all bounds!"​

کیونکہ "طائرکم" ، "طیرة" سے ماخوذ ہے اور "طیرة" اور "الشؤم" باہم مترادف ہیں جیسا کہ آپ کی پیش کی گئی "اصل روایت" میں ذکر ہے۔

شؤم کا انگریزی میں ترجمہ دیکھیے:
evil portent , fatality , luckless
صخر آن لائن لغت لفظ "شؤم"۔

اور "شوم" کا اردو میں استعمال دیکھیے:
صفت ذاتی
1. بد، منحوس، بدبخت، بد فال، ممسک۔
"سوم اردو کا عام لفظ ہے عربی لفظ شوم کا مخرب ہے، شوم بھی مستعمل ہے مفرد بھی اور مرکب بھی۔" ( 1989ء، جنگ، کراچی، 19، جولائی، 10 )
انگریزی ترجمہ
Unlucky; disgraceful, vile; niggard; black
دیکھیے کرلپ اردو لغت : لفظ شوم۔

بلاء کیلیے عربی میں‌"غُول" کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور انگریزی میں اس كا ہم آہنگ an evil spirit or phantom or a spirit in Arabic folklore preying on travellers
"ghoul"
۔

اور کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آپ کے پیش کیے گئے
"کیلیفورنیا یونیورسٹی سے احادیث کے انگریزی ترجمے" اور
"صحیح بخاری کی اردو "ترجمہ" کی کتاب جو آپ نے کراچی سے خریدی"
کے پانچوں حوالوں میں دونوں جگہ:
کتاب کا نام، جلد نمبر، کتاب نمبر اور روایت نمبر سب یکساں‌ ہیں؟
 
میں نے پچھلی پوسٹ میں مشورہ دیا تھا کہ احادیث کو سمجھنے کے لیے محدثین کرام کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی جس ویب سائٹ سے حوالہ جات دئے جا رہے ہیں اس میں بھی یہی تنبیہہ ان الفاظ میں کی جا رہی ہے۔

There are many early hadith scholars and teachers to whom we are indebted for introducing the critical science of collecting and evaluating ahadeeth. These teachers each collected many different ahadeeth. They did not allow students to quote from their collections until the students had actually come to them and learnt from them directly.

Today, the situation is different. The collections of ahadeeth have for the most part stabilized, and with the advent of the printing press, the collections are easily mass-produced. There is a blessing in all this of course, but there is a real danger that Muslims will fall under the impression that owning a book or having a database is equivalent to being a scholar of ahadeeth. This is a great fallacy. Therefore, we would like to warn you that this database is merely a tool, and not a substitute for learning, much less scholarship in Islam.
علمِ حدیث کے بہت سے عالم اور استاد ایسے ہیں جن کے ہم ممنون ہیں کہ انہوں نے احادیث کو اکٹھا کرنے اور ان کی درجہ بندی کرنے کا فن متعارف کرایا۔ ان میں سے ہر عالم نے (اپنے طور پر) مختلف احادیث اکٹھی کیں۔ وہ اپنے طالب علموں کو اس وقت تک ان سے حدیث بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے جب تک وہ خود آ کر ان سے براہ راست حدیث سیکھ نہیں لیتے تھے۔
آج صورتحال بدل چکی ہے۔ ۔ ۔ ۔
چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد احادیث بڑی تعداد میں چھاپی جا رہی ہیں۔ یہ ایک نعمت ہے لیکن حقیقی خطرہ ہے اس بات کا کہ مسلمان اس خیال کا شکار نہ ہو جائیں کہ محض حدیث کی کتاب یا ڈیٹا بیس رکھنا حدیث کا عالم ہو جانے کے مترادف ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ اس لیے ہم آپ کو متنبہ کرتے ہیں کہ احادیث کا یہ ڈیٹا بیس صرف ایک ٹُول ہے جو کسی طور پر بھی سیکھنے کا متبادل نہیں ہو سکتا”
انگریزی سے اردو ترجمے میں میں اتنا ماہر نہیں ہوں اس لیے کوشش کی ہے کہ مفہوم آپ تک پہنچا سکوں۔ اگر کوئی صاحب اس سے اچھا ترجمہ کر سکیں تو قارئین کے لیے موضوع کو سمجھنا آسان ہو جائے۔
اس اقتباس کو جملہ معترضہ کے طور پر لیجیے۔ ان شاء اللہ اگلی چند پوسٹس میں بتاؤں گا کہ محدثیں کے اصول کو نظر انداز کر کے اپنے فہم و رجحان کے مطابق حدیث سمجھنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ اور اللہ نے چاہا تو آپ دیکھ لیں گے کہ اگر اس طریقے کو اپنا لیا جائے تو قرآن کریم کی بہت سی آیات کی ایسی من مانی تشریح کی جا سکتی ہے جو نہ صرف اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہو گی بلکہ ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے انسان کا رشتہ اسلام ہی کٹ جائے۔
 
سب سے پہلی بات یہ کہ جو کچھ عباللہ حیدر صاحب نے لکھا ہے وہ بالکل درست ہے۔ برادر من نے جو بھی محنت کی اس پر میں بھی اور یقیناً دوسرے احباب و اصحاب بھی ہم کو علم کی اس روشنی سے ہمکنار کرانے کی کوشش کرنے کے لئے خلوص دل سے شکرگزار ہیں۔
لیکن صاحب یہ وہ روایت ہی نہیں، یہ دوسری روایت ہے۔ شاید آپ کو لفظ فتنہ سے مغالطہ ہوگیا۔شاید آپ نے اردو کے فتنے کو عربی کا فتنہ سمجھ کر روایت ڈھونڈی۔ میرا خیال ہے کہ اردو میں لفظ فتنہ شیطانی بلا جیسی شے کے لئے استعمال ہوتا ہے، جیسے دجال۔ اور اس کے لئے درست عربی لفظ [arabic] الشؤم [/arabic] ہے

آپ لگتا ہے کہ الشؤم کو لکھنا بھول گئے یااس کتاب والوں کو یہ لفظ اچھا نہیں لگا، جو آپ نے استعمال کیم کیوں کہ آپ نے ان کان کے بعد الشؤم کو غیر اضطراری طور پر حذف کردیا ہے۔
[والسلام
اصل بات یہ ہے کہ آپ نے دو مختف احادیث کو اکٹھا لکھ دیا تھا۔ ایک حدیث تو وہ ہے جس کی تفصیل میں نے اوپر بیان کی ہے اور جس میں عورت کو مرد کے لیے آزمائش یا فتنہ کہا گیا ہے۔ دوسری حدیث وہ ہے جس میں نحوست کا ذکر ہے اور جس کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں۔ جب کوئی شخص فتنے کی بات کرتا ہے تو ذہن اسی حدیث کی طرف جائے گا جس میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مستقبل میں اس قسم کی غلط فہمی سے بچنے کے لیے التماس ہے کہ حدیث کا حوالہ دیتے وقت اس کا عربی متن بھی دے دیا کریں۔
 
1۔ قرآن کریم کی کئی آیات ایسی ہیں جنہیں دوسری متعلقہ آیات کو ملائے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ کوئی شخص اگر قرآن فہمی کے اصولوں کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی اور صرف ترجمے سے ان کی تشریح کرنے بیٹھ جائے تو ایسی ایسی تشریحات سامنے آئیں گی کہ الامان۔ بعض اوقات قائل کی منشا کو سمجھنے کے لیے بات کا کوئی ٹکڑا نقل کر دینا کافی نہیں ہوتا جب تک اس کے دوسرے اقوال کی روشنی میں اصل مفہوم نہ پا لیا جائے۔خود قرآن مبین کی کئی آیات ہیں جن کا مفہوم پانے کے لیے دوسری آیات اور احادیث کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیے یہ ایک اہم اصول ہے اس طریقے کو آپ تاویلات کہہ کر ناقابل التفات ٹھہرا لیں یا اسے استعمال کرتے ہوئے اصل مفہوم کو پالیں یہ آپ کی مرضی ہے۔
اسی طرح کی ایک آیت ملاحظہ کیجیے۔
[arabic]لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطاً مُّسْتَقِيماً [الفتح : 2][/arabic]
ترجمہ: "تاکہ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے اور اپنی نعمت آپ پر تمام کر دے اور تاکہ آپ کو سیدھے راستہ پر چلائے" (احمد علی)
"تاکہ معاف فرمادے تمہیں اللہ وہ سب جو پہلے ہوچکی ہیں تم سے کوتاہیاں اور جو بعد میں ہوں گی اور تکمیل کردے اپنی نعمتوں کی تم پر اور دکھائے تمہیں سیدھا راستہ۔" (شبیر احمد)
ان دونوں مترجمین کے ترجمے کو میں نے اس لیے اختیار کیا ہے کہ انہوں نے آیت کا لفظی مفہوم بیان کیا ہے۔
اس آیت کو بزعم خود دلیل بناتے ہوئے کسی غیر مسلم نے اپنی کتاب میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ نعوذ باللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ساری زندگی گناہوں سے بھری ہوئی تھی اور انہوں نے اس پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو یہ آیت بنا کر سنا دی کہ ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے جو گناہ ہو چکے یا آئندہ ہوں گے سب معاف ہیں۔ (نقل کفر کفر نہیں ہوتا، اللہ جانتا ہے کہ یہ الفاظ میں نے کتنی مشکل سے لکھے ہیں)۔
اس آیت کا لفظی ترجمہ دیکھ لیجیے یا اس کے سیاق و سباق پر نظر ڈالیے۔ اس شخص کی دلیل کا کوئی جواب نہیں ملے گا جب تک آپ قرآنِ کریم کی دوسری آیات اور صحیح احادیث مبارکہ سے رجوع نہیں کرتے۔
یہی قرآنی طریقہ حدیث کو سمجھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی حدیث کو ضعیف یا موضوع قرار دینے قبل ضروری ہے کہ اس بارے میں وارد دوسری احادیث کی روشنی میں اس کا اصل مفہوم پانے کی کوشش کی جائے۔ محض لفظی ترجمہ حدیث‌کو مسترد کرنے کے لیے کافی نہیں ہوا کرتا۔ اس اصول کی بنیاد ہمیں قرآن کریم سے ملی ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ حدیث کے معاملے میں اسے ماننے سے انکار کر دیا جائے۔
پہلا اصول: قرآن و حدیث کے معنی اور تشریح کرتے وقت اس بارے میں وارد دوسری آیات و احادیث کو سامنے رکھا جائے گا
 
اب ان کے معانی دیکھتے ہیں: دیل میں آپ شؤم کے معانی پر کلک کرکے ڈکشنری کے معانی دیکھ سکتے ہیں۔
[ARABIC]وإنما [/ARABIC] بے شک
[ARABIC] الشؤم [/ARABIC] ill-omen an evil omen شیطانی بلا
والسلام
"شئوم" کا مطلب "نحوست یا بدقسمتی" ہوتا ہے۔ آپ کے دیے ہوئے لنک پر یہ یہ معنی بیان کیے گئے ہیں:
unlucky, unfortunate ، ill-omen ، an evil omen
an evil omenکا مطلب تو بلاشبہ شیطانی بلا ہی ہوتا ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آپ دوسرے معنوں کو چھوڑ کر اسی کو کیوں اختیار کرتے ہیں۔ معروف بات ہے کہ عربی میں ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ خود قرآن کریم میں ایسے الفاظ موجود ہیں جن کا ایک ہی ترجمہ کرنا شروع کر دیا جائے تو اسلام کی بنیادیں منہدم ہو جائیں۔مثال سے بات سمجھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل آیات میں لفظ "ضال" پر غور کیجیے:
[ARABIC]اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ[/ARABIC]
" ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا جن پر غضب نہیں ہوا جو گمراہ نہیں‌ہیں"
[ARABIC]لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُواْ اللّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّآلِّينَ [البقرة : 198][/ARABIC]
"اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانۂ حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل (بھی) تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اﷲ کا ذکر کیا کرو اور اس کا ذکر اس طرح کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی، اور بیشک اس سے پہلے تم بھٹکے ہوئے تھے"
[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْراً لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الضَّآلُّونَ [آل عمران : 90][/ARABIC]
" بیشک جن لوگوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گے، اور وہی لوگ گمراہ ہیں"
[ARABIC]فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغاً قَالَ هَ۔ذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ [الأنعام : 77][/ARABIC]
" پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھرجب وہ (بھی) غائب ہوگیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتا"
[ARABIC]قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ [الحجر : 56][/ARABIC]
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کی رحمت سے گمراہوں کے سوا اور کون مایوس ہو سکتا ہے
[ARABIC]قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْماً ضَالِّينَ [المؤمنون : 106][/ARABIC]
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم یقیناً گمراہ قوم تھے
[ARABIC]إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءهُمْ ضَالِّينَ فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ [الصافات :.70 69][/ARABIC]
"بے شک انہوں نے اپنے باپ دادا کوگمراہ پایا سو وہ
نہی کے نقشِ قدم پر دوڑائے جا رہے ہیں"
دیکھیے کہ قرآن کریم کی ان ساری آیات میں ضال، ضالین کا مطلب "گمراہ" ہے۔ اب مندرجہ ذیل آیت میں اگر اس لفظ کا یہی ترجمہ کیا جائے تو ایمان ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے کہا تھا:
[ARABIC]قَالَ فَعَلْتُهَا إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [الشعراء : 20][/ARABIC]
" (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: جب میں نے وہ کام(یعنی قبطی کا قتل) کیا میں بے خبر تھا (کہ کیا ایک گھونسے سے اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے)"
قاموس العربی کی مدد سے حدیث کے تراجم کرنے میں اسی طرح غلطی ہو سکتی ہے جیسے اس آیت کا ترجمہ کوئی شخص محض لغت سے کرنا چاہے تو موسٰی علیہ السلام کو نعوذباللہ گمراہ قرار دے بیٹھے۔ اصل بات یہ ہے کہ ضال بھی دوسرے الفاظ کی طرح کئی معنی رکھتا ہے اور ہر جگہ اس کے وہی معنی لیے جائیں گے جو کہنے والا کہنا چاہ رہا ہے۔
اس ساری بحث کی ضرورت اس لیے پڑی ہے کہ خان صاحب کے دیے گئے ربط پر "شئوم" کے جو مطلب بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔
بدقسمت، بدشگونی، شیطانی بلا، وغیرہ
اس حدیث کے تمام شارحین نے یہاں شئوم کا مطلب بدقسمتی لیا ہے اور عربی لغت میں اس کے یہ معنی مروج ہیں تو کوئی وجہ نہیں‌کہ انہیں چھوڑ کا اس کا ترجمہ شیطانی بلا کیا جائے۔ دوسری احادیث کی روشنی میں اس روایت کا اصل مفہوم ان شاء اللہ بعد میں بیان کروں گا لیکن صرف لغات اور قاموس وغیرہ سے قرآن و حدیث سمجھنے پر مجھے اختلاف ہے جس کے قرآنی دلائل اوپر بیان کر دیے ہیں۔
دوسرا اصول: قرآن و حدیث کا ترجمہ اور تشریح محض لغات کی مدد سے نہیں کی جا سکتی
 
احباب کا شکریہ اور سلام۔ اگر ہم الٹے مڑ جائیں کہ یہ ثابت ہی کرنا ہے جو ان کتب میں لکھا ہے تو یہ ایک الگ نکتہ نظر ہے۔
تمام تاویلات میں صرف ایک کام کا سوال نظر آیا کہ ریفرنس کیا ہے۔ ریفرنس یہاں پر ہے۔ اس سائیٹ پر روایات کے نمبر نہیں ہیں۔
http://www.kl28.com/moslim/alslam.php?alslam=34

میرا خیال ہے کہ یہ ناقابل اعتبار ریفرنس کا مسئلہ نہیں ہے تو اس کو ایسا رنگ نہ دیں ۔ ناقابل اعتبار ریفرنس کا مسئلہ میں جب سمجھتا جب آپ کو یہ روایت نہیں ملتی۔ میرا خیال ہے عبداللہ حیدر صاحب بھی اس روایت کے مزید ریفرنس فراہم کرسکیں گے۔

عربی میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معانی ضرور ہوتے ہیں لیکن ایسی اندھیر نگری نہیں‌کہ جو چاہے معانی نکال لیں اور جس طرح چاہیں توڑ مروڑ‌ لیں۔ ڈکشنری کا حوالہ آپ کی آسانی کے لئے دیا تھا۔

آپ سب اس روایت کے مختلف معانی میں سے کسی نہ کسی ایک معانی پر متفق ہیں، جن میں‌سے ایک بھی ایسا نہیں کہ میں اپنی والدہ محترمہ کے لئے استعمال کرسکوں۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے دل سے دیکھیں گے تو آپ بھی اتفاق کریں گے یہ آپ اپنے اوپر نہیں اپلائی کرسکتے۔ (احترام کے ساتھ کہہ رہا ہوں)

عورت کو بدقسمتی سمجھنے والے یہودی ربائی یقیناً بدقسمت رہے ہونگے کہ اپنی ماؤں کے لئے ایسی باتیں‌منسوب کیں اور ان کو مسلمانوں کی کتب میں شامل کردیا، کہ ان کی ماں بھی ایک عورت تھی، جو لوگ عورت کو عمومی طور پر شیطانی بلا یا بدقسمتی یا نحوست یا کچھ بھی اس قسم کا تصور کرتے ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے اللہ تعالی کے ان الفاظ پر نظر ڈال لیں اور سوچیں کہ ایک چلتا پھرتا قرآن کس طور قرآن کے بیان سے اتنی تفاوت رکھ سکتا ہے، قرآن عمومی طور پر عزت و حرمت کے لحاظ سےعورتوں کو مردوں کے مساوی مقام عطا کرتا ہے:

[ayah]33:35[/ayah]
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے

[ayah]9:71[/ayah]
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

اور ذرا یہ پیشن گوئی دیکھئے۔
[ayah]57:12[/ayah]
(اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے

اور اس عظیم عورت کے بارے میں سوچئے جس نے یہودی ربائیوں کے سامنے سر اٹھایا جب یہ ربائی اس عظیم عورت کے لئے قرعے ڈال رہے تھے۔ جس عورت کو اللہ تعالی نے قرآن میں دنیا کی سب عورتوں سے برگزیدہ یا بلند رتبہ عطا کرنے کی سند، رسول اکرم کی زبان سے عطا کی۔ وہ رب اور وہ رسول کس طور عورتوں کو عمومی طور پر بدقسمت، نحس یا شیطانی قسم کا قرار دے سکتے ہیں۔

[AYAH]3:44[/AYAH] یہ (باتیں) غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم وحی کر رہے ہیں تمہاری طرف حالانکہ نہ تھے تم اُن کے پاس جب وہ ڈال رہے تھے اپنے قلم (قرعہ اندازی کے لیے) کہ کون ان میں سے سرپرست بنے مریم کا، اور نہ تھے تم ان کے پاس جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔

[AYAH]3:42[/AYAH] جب کہا فرشتوں نے اے مریم! بے شک اللہ نے منتخب کرلیا ہے تم کو اور پاک کردیا ہے تمہیں اور برگزیدہ بنادیا ہے تم کو تمام دُنیا کی عورتوں سے۔

قرآن ، بی بی حوا کا نام بھی نہیں لیتا، بلکہ "دونوں"‌ کا تذکرہ کرتا ہے جب ان دونوں کو قصور وار ٹھیراتا ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئیے کہ خواتین سے یہ امتیازی سلوک کسی طور بھی قرآن سے یا رسول اکرم سے ثابت ہے؟ یا کہ یہ یہودی روایات پر مبنی ہے؟

عبداللہ حیدر، باسم اور آبی ٹو کول اور دیگر کئی اصحاب سے: جناب عالی، آپ سب کی قرآن کی معلومات قابل تعریف ہیں۔ انشاء اللہ اس ڈسکشن سے ہم سب کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔

والسلام
 
میں نے اوپر پوسٹ نمبر31 میں یہ قرآنی اصول بیان کیا ہے کہ کسی آیت یا حدیث کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس بارے میں مذکور دوسرے فرامین کو سامنے رکھا جائے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ اس اصول کو مد نظر نہ رکھنے سے خود قرآنی آیات کو سمجھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی اصول پر اس حدیث کو پرکھتے ہیں۔ کتاب الجہاد کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
[ARABIC]إنما الشؤم في ثلاثة: في الفرس، والمرأة، والدار[/ARABIC]
"نحوست صرف تین چیزوں میں ہو سکتی ہے ، گھوڑا، عورت اور گھر"
اس سے اگلی روایت کچھ یوں ہے:
[ARABIC]إن كان في شيء: ففي المرأة، والفرس والمسكن[/ARABIC] (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، مسلسل ترقیمی نمبر 2704)
"نحوست اگر ہوتی تو وہ گھوڑے، عورت اور مکان میں ہوتی"
اس حدیث میں لفظ "اگر" نے سارا معاملہ صاف کر دیا ہے۔ یعنی نحوست کسی چیز میں نہیں ہے اور اگر اس کا وجود ہوتا تو ان تین چیزوں میں ہوتا۔ لیکن اس کا وجود ہی نہیں اس لیے مزید کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ محدثین کی علمی دیانت ہے کہ ان تک کسی صحابی کی جو روایت جس طرح پہنچی انہوں نے بلا کم و کاست اسے آگے پہنچا دیا۔ اور محدثین ہی کے دوسرے گروہ نے مختلف روایات کا تقابل کر کے بتا دیا کہ حدیث کا اصل مفہوم کیا ہے۔ اس کو آپ تاویل کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ آیات کا تقابل کیے بغیر قرآن کو سمجھنا بھی ناممکن ہے حدیث کا معاملہ تو بعد میں آتا ہے۔
 
عورت کو بدقسمتی سمجھنے والے یہودی ربائی یقیناً بدقسمت رہے ہونگے کہ اپنی ماؤں کے لئے ایسی باتیں‌منسوب کیں اور ان کو مسلمانوں کی کتب میں شامل کردیا، کہ ان کی ماں بھی ایک عورت تھی، جو لوگ عورت کو عمومی طور پر شیطانی بلا یا بدقسمتی یا نحوست یا کچھ بھی اس قسم کا تصور کرتے ہیں۔
والسلام
کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو عورت کو عمومی یا خصوصی طور پر منحوس سمجھتا ہو۔
 
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے اللہ تعالی کے ان الفاظ پر نظر ڈال لیں اور سوچیں کہ ایک چلتا پھرتا قرآن کس طور قرآن کے بیان سے اتنی تفاوت رکھ سکتا ہے، قرآن عمومی طور پر عزت و حرمت کے لحاظ سےعورتوں کو مردوں کے مساوی مقام عطا کرتا ہے:

[ayah]33:35[/ayah]
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے

[ayah]9:71[/ayah]
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

اور ذرا یہ پیشن گوئی دیکھئے۔
[ayah]57:12[/ayah]
(اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے

اور اس عظیم عورت کے بارے میں سوچئے جس نے یہودی ربائیوں کے سامنے سر اٹھایا جب یہ ربائی اس عظیم عورت کے لئے قرعے ڈال رہے تھے۔ جس عورت کو اللہ تعالی نے قرآن میں دنیا کی سب عورتوں سے برگزیدہ یا بلند رتبہ عطا کرنے کی سند، رسول اکرم کی زبان سے عطا کی۔ وہ رب اور وہ رسول کس طور عورتوں کو عمومی طور پر بدقسمت، نحس یا شیطانی قسم کا قرار دے سکتے ہیں۔

[ayah]3:44[/ayah] یہ (باتیں) غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم وحی کر رہے ہیں تمہاری طرف حالانکہ نہ تھے تم اُن کے پاس جب وہ ڈال رہے تھے اپنے قلم (قرعہ اندازی کے لیے) کہ کون ان میں سے سرپرست بنے مریم کا، اور نہ تھے تم ان کے پاس جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔

[ayah]3:42[/ayah] جب کہا فرشتوں نے اے مریم! بے شک اللہ نے منتخب کرلیا ہے تم کو اور پاک کردیا ہے تمہیں اور برگزیدہ بنادیا ہے تم کو تمام دُنیا کی عورتوں سے۔

قرآن ، بی بی حوا کا نام بھی نہیں لیتا، بلکہ "دونوں"‌ کا تذکرہ کرتا ہے جب ان دونوں کو قصور وار ٹھیراتا ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئیے کہ خواتین سے یہ امتیازی سلوک کسی طور بھی قرآن سے یا رسول اکرم سے ثابت ہے؟ یا کہ یہ یہودی روایات پر مبنی ہے؟والسلام

آپ کی بات بالکل درست ہے کہ نیک عمل کرنے پر مرد و عورت دونوں اجر کے مستحق ہوتے ہیں۔
[arabic]مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ [النحل : 97][/arabic]
" جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے"
اچھے ہی نہیں برے انجام میں بھی عورت حصے دار بن سکتی ہے اگر وہ صحیح راستے پر نہ چلے۔ قرآن کریم میں اگر مریم علیہا السلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے تو نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویوں کا انجام بھی بتا دیا گیا ہے۔ اس لیے ہمیں کسی ایک پہلو کی طرف اتنا دھیان نہیں دینا چاہیے کہ دوسرا رخ اوجھل رہ جائے۔
[arabic]ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَاِمْرَأَةَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئاً وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ [التحريم : 10][/arabic]
" اللہ نے اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت اور لوط (علیہ السلام) کی عورت کی مثال بیان فرمائی ہے، وہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں، سو دونوں نے اُن سے خیانت کی پس وہ اللہ (کے عذاب) کے سامنے اُن کے کچھ کام نہ آئے اور اُن سے کہہ دیا گیا کہ تم دونوں (عورتیں) داخل ہونے والوں کے ساتھ دوزخ میں داخل ہو جاؤ"
منافق اور مشرک عورتوں کے بارے میں اللہ کے فرامین بھی سن لیجیے:
[arabic]الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُواْ اللّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔وَعَدَ الله الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ
[التوبة :.67.68][/arabic]
" منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں۔ اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے آتشِ دوزخ کا وعدہ فرما رکھا ہے (وہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے، وہ (آگ) انہیں کافی ہے، اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے ہمیشہ برقرار رہنے والا عذاب ہے"
سورۃ الحدید کی جس آیت میں آپ نے مستقبل کا نقشہ پیش کیا ہے اس سے اگلی آیت بھی شامل کر لیجیے تو یہ نقشہ مکمل ہو جائے گا۔
[arabic]يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءكُمْ فَالْتَمِسُوا نُوراً فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ [الحديد : 13][/arabic]
جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے: ذرا ہم پر (بھی) نظرِ (التفات) کر دو ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ ان سے کہا جائے گا: تم اپنے پیچھے (دنیا میں) پلٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو ، تو (اسی وقت) ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس کے اندر کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب اُس طرف سے عذاب ہوگا"
میں نے اور آپ نے جو آیات پیش کی ہیں ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرد و عورت میں سے جو بھی اچھائی یا برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا اور یہ کہ آخرت میں کسی کا اجر عورت یا مرد ہونے کی وجہ سے نہیں مارا جائے گا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر ایک درجے فضیلت عطا کی ہے،
الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض و بما انفقوا من اموالھم
"مرد عورتوں پر قوام ہیں کیونکہ اللہ نے ان میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں"
 
مثبت انداز کا شکریہ۔
1۔ایک روایت حضرت عائشہ سے ایسی ضرور ہے جیسا کہ آپ نے تحقیق کیا ہے۔اس روایت کی روشنی میں رسول اکرم سے منسوب یہ روایات بہت ہی کمزور پڑجاتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ روایت رسول اکرم سے بھی منسوب شدہ ہے۔
صحیح سنت کی یہ خوبی ہے کہ وہ قران کی روشنی میں جگمگا اٹھتی ہے۔ سب اس سے متفق ہوتے ہیں۔

میں آپ سے اتفاق کروں گا کہ ہم خواتین کو ایک باعزت مقام دیتے ہیں۔ میرا اشارہ مباحثین میں سے کسی کی طرف بھی نہیں‌تھا۔ طعنہ تراشی ایک کریہہ عمل ہے۔ میں اس سے حد درجہ اجتناب کرتا ہوں۔ اگر کسی کو کچھ کہنا ہو تو الفاظ اور سطروں کے درمیان نہیں‌ بلکہ بلاواسطہ کہنا زیادہ بہتر ہے تاکہ واضح طریقہ سے سمجھ میں آئے۔

لیکن ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ آیات کا تقابل کیے بغیر قرآن کو سمجھنا بھی ناممکن ہے حدیث کا معاملہ تو بعد میں آتا ہے۔

قرآن اپنی تشریح وتفصیل خود بیان کرتا ہے ، رب عظیم کی بہت ہی سیدھی سادی ہدایت ہے کہ:

[ayah]54:17[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [/arabic]
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے

قرآن کو سمجھنا ناممکن ہے یہ متشابہات کے لئے ضرور درست ہے لیکن واضحات کے لئے اللہ کا صاف صاف پیغام ہے۔

موجودہ موضوع پر سیر حاصل بحث ہوچکی ہے اب آگے چلتے ہیں۔ آپ مزید روایات پر اپنے پر خلوص خیالات کا اظہار فرمائیے۔
 
عبد اللہ حیدر صاحب، آپ کے پیغام نمبر 36 کا بہت ہی شکریہ۔ یہ ایک انتہائی نیوٹرل موقف ہے اور دین و قرآن کے قریب تر۔ بھائی اگر آپ "آیت " کی مدد سے آیات کے نمبر بھی لگائیں تو کوب بخود ایک ریفرنس بن جائے گا۔ نبیل نے ایڈیٹر میں اس مقصد کے لئے ایک اچھا انتظام کیا ہے۔
 

باسم

محفلین
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں
حدیث :‏ "ما تركت بعدي فتنة أضر على الرجال من النساء "
کی شرح میں لکھا ہے۔
[ARABIC]‏قال الشيخ تقي الدين السبكي : في إيراد البخاري هذا الحديث عقب حديثي ابن عمر وسهل بعد ذكر الآية في الترجمة إشارة إلى تخصيص الشؤم بمن تحصل منها العداوة والفتنة , لا كما يفهمه بعض الناس من التشاؤم بكعبها أو أن لها تأثيرا في ذلك , وهو شيء لا يقول به أحد من العلماء , ومن قال إنها سبب في ذلك فهو جاهل , وقد أطلق الشارع على من ينسب المطر إلى النوء الكفر فكيف بمن ينسب ما يقع من الشر إلى المرأة مما ليس لها فيه مدخل , وإنما يتفق موافقة قضاء وقدر فتنفر النفس من ذلك , فمن وقع له ذلك فلا يضره أن يتركها من غير أن يعتقد نسبة الفعل إليها۔[/ARABIC]
شیخ تقی الدین سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں آیت اور ابن عمر اور سهل رضی اللہ عنہما کی دو احادیث کے بعد اس حدیث کو بیان کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرنے کیلیے ہے کہ "الشؤم" دشمنی اور فتنہ پھیلانے والی چیز کے ساتھ خاص ہے۔ ایسا نہیں جیسے بعض لوگ عورت کی جوتی کی ایڑی سے نحوست سمجھتے ہیں یا عورت کا اس میں کچھ دخل، اور یہ (عورت کی نحوست) تو ایسی چیز ہے جس کے بارے میں علماء میں سے کسی نے بھی نہیں کہا اور جو عورت کو نحوست کا سبب سمجھتا ہے وہ جاہل ہے،
یقینی بات ہے کہ شارع نے اس شخص پر کفر کا طلاق کیا ہے جو بارش کی نسبت ستارے کی طرف کرے تو پھر اس شخص کے متعلق کیا خیال ہے جو واقع ہونے والے شر کی نسبت عورت کی طرف کرے جس میں اس کا کوئی دخل بھی نہیں، اللہ تعالٰی کی مرضی اور اس کی قدرت سے کبھی ایسا اتفاق ہوجائے تو انسان کا دل اس سے نفرت کرنے لگتا ہے، تو جس کسی کے ساتھ ایسا ہوجائے اس کیلیے نقصان کی بات نہیں کہ وہ اس عورت کو چھوڑ دے مگر اس کام کی نسبت عورت کی طرف ہونے کا یقین کیے بغیر۔
"دلچسپ بات ہے کہ شیخ تقی الدین رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی احادیث کی ترتیب سے یہ بات سمجھی ہے"
 
فاروق‌صاحب مثبت انداز اختیار کے لیے میں آپ کا بھی شکر گزار ہوں۔ اللہ کرے کہ یہ گفتگو ہمارے درمیان تلخی پیدا کرنے کی بجائے ایکدوسرے کے موقف سے آگاہی اور حق کی قبولیت کا سبب بن جائے۔ و ما ذلک علی اللہ بعزیز۔
حدیث جمع کرنا اور اس کی درجہ بندی کرنا ایک فن ہے۔ ہر دوسرے فن کی طرح اس کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔ ایک اہم قاعدہ وہ ہے جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تشریح کرتی ہے جس طرح قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تشریح کرتا ہے۔ (القرآن یفسر بعضہ بعضا)۔ امام ابن حجر نے فتح الباری کے مقدمے میں محدثین کے 100 ایسے قواعد ذکر کیے ہیں جن کی روشنی میں دو بظاہر متعارض احادیث کو سمجھا جا سکتا ہے۔اس سے فن حدیث کی وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں‌ہماری جو بھی گفتگو ہوئی ہے وہ دو جملوں کے گرد گھومتی ہے "حدیث ہے"، "حدیث نہیں ہے"۔ لیکن محدثین نے حدیث پر اتنی باریک بیتی سے کام کیا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ حدیث کے جو مختلف درجے قائم کیے گئے ہیں خان صاحب تو ان سے واقف ہوں گے لیکن جو قارئین نہیں جانتے ان کے لیے کچھ تعارف پیش خدمت ہے۔
"علم مصطلح الحدیث میں''' حدیث ''' کو ''' خبر ''' بھی کہا جاتا ہے ، اور ''' اثر''' بھی۔ اور '''خبر''' کو مزید مندرجہ ذیل اِقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے :::
(١) متواتر (٢) خبر آحاد ،
خبر آحاد کو اسناد (سند کی جمع) کے اعتبار سے تین قِسموں میں تقسیم کِیا جاتا ہے:::
(١) مشہور (٢) عزیز (٣) غریب ،
اور صحت کے رُتبے کے لحاظ سے بُنیادی طور پر دو قِسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے :::
(١) مقبول (٢) مَردُود ،
::: مقبول خبر کو مزید چار قِسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے :::
(١) صحیح لِذاتہ اور صِرف صحیح بھی کہا جاتا ہے (٢) حسن لِذاتہ اور صِرف حسن بھی کہا جاتا ہے(٣) صحیح لغیرہ (٤) حسن لغیرہ ،
::: مَردُود خبر کو بُنیادی طور پر ایک نام ''' ضعیف ''' دِیا گیا اور وضاحت کے لیے اُس کی مزید اِقسام کی گئیں ،
اِس طرح ''' حدیث ''' یا''' خبر''' کی بُنیادی طور پر مندرجہ ذیل پانچ اِقسام ہوئیں ، یعنی :::
(١) صحیح لِذاتہ اور صِرف صحیح بھی کہا جاتا ہے (٢) حسن لِذاتہ اور صِرف حسن بھی کہا جاتا ہے(٣) صحیح لغیرہ (٤) حسن لغیرہ (٥) ضعیف ،
'''ضعیف ''' یعنی کمزور ''' حدیث ''' یا ''' خبر ''' کو بہت سی اِقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ، جِن میں سے اہم اور عام مندرجہ ذیل ہیں ،
(١) المُعلَّق (٢) المُرسَل (٣) الموقوف (٤) المعضَّل (٥) المُنقطع (٦) المقطوع(٧) المعلَّل (٨)المدلَّس (٩)المُنکر(١٠) المُدرَج (١١)المُضطرب (١٢)المقلوب (١٣) الشاذ (١٤) المُعنعن و المؤنن (١٥) الموضوع (١٦)المتروک(١٧ ) المُصحَّف (١٨)المزید فی المتصل الاسانید (١٩) المُتابع(٢٠)الشاھد۔
ٍٍ ::: مُردُود خبر ، یعنی ضعیف خبر یا حدیث کی مندرجہ بالا بیس ٢٠ اِقسام کو دو قِسموں میں تقسیم کہا جاتا ہے :::
(١) مَردُود یعنی ضعیف سند کی وجہ سے (٢ ) مَردُود یعنی ضعیف راوی کی وجہ سے ،
::: دو اِقسام ایسی ہیں جو مقبول اور مُردُود دونوں قِسم کی ''' خبر ''' میں پائی جاتی ہیں :::
(١) مُتصل (٣) مُسند ،"
اس تفصیل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث پر اعتراض کرنے سے قبل ضروری ہے کہ حدیث جمع کرنے والوں نے اس کے بارے میں جو نتیجہ نکالا ہے اسے سامنا رکھا جائے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی نے بھی اپنی ویب سائٹ پر یہی مشورہ دیا تھا کہ محض ٹیکسٹ کو پڑھ کر خود کو عالم تصور نہیں کر لینا چاہیے۔(حوالہ اوپر دے چکا ہوں)
مجھے افسوس ہوتا ہے جب قرآن کا کوئی طالب علم حدیث پر اس طرح کے اعتراضات کرتا ہے کہ "کیا والدہ کو بھی منحوس، شیطانی یا بدبخت کہا جائے گا؟" انتہائی ادب اور معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے لایعنی سوالات اٹھانے کا طریقہ اختیار کر لیا جائے تو قرآنی آیات بھی اس کی زد میں آ سکتی ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
[arabic]فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ (یوسف 28 )[/arabic]"
پھر جب دیکھا شوہر نے کہ یُوسف کا قمیص پھٹا ہے پیچھے سے تو کہنے لگا: یقیناً یہ تم عورتوں کی چالبازیاں ہیں۔ بے شک تمہاری چالیں غضب کی ہوتی ہیں۔" (ترجمہ شبیر احمد)
اس آیت میں عورتوں کو چالباز کہا گیا ہے۔ اس سے اگلی پچھلی آیات دیکھ لیجیے عزیز مصر کے قول کی تردید کہیں مذکور نہیں‌ہے۔ اعتراض کرنے والے اعتراض کر سکتے ہیں کہ قرآن میں عورتوں کا چالباز کہا گیا ہے۔ آپ بھلے سمجھاتے رہیں کہ بھائی، قرآن میں عورتوں کی عزت و تکریم کی تلقین کی گئی ہے، فلاں سورت میں عورتوں کے بارے یہ مذکور ہے اور فلاں سورت میں یہ ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے وہ شخص کہے کہ نہیں میں قرآن کو اسی صورت مانوں گا جب توہین نسواں(اس کے فہم کے مطابق) پر مبنی یہ آیت اس سے نکالی جائے۔ کیا ہم یہ مطالبہ مان لیں گے؟ ہر گز نہیں۔ جسے درست تشریح اور قرآنی ماہرین کے بتانے کے مطابق ماننا ہو گا مان جائے گا اور جو من مانی تشریح کرنے پر اڑا رہے اور ماننے سے انکار کرے تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ یہی کلیہ حدیث پر لاگو ہوتا ہے کہ کہ حدیث کی کسی کتاب میں مذکور حدیث سے اس وقت حکم اخذ کیا جاتا ہے جب محدثین کی رائے سامنے آ جائے اور ماہرین حدیث تقابل یا دوسرے قواعد سے اس کا اصل مفہوم بیان کر دیں۔ کوئی شخص اسے ماننے سے انکار کرے اور خودساختہ تشریح کر کے حدیث کو کتاب سے نکالنے کی بات کرے تو کوئی بھی صحیح حدیث بھی اس وجہ سے ختم نہیں کی جا سکتی کہ بعض لوگ اس کا مفہوم ٹھیک طور پر نہیں سمجھ سکے۔
اسی بات کو مزید سمجھنے کے لیے قرآن کریم کی ایک اور آیت ملاحظہ کیجیے جس کا حوالہ میں پہلے بھی دے چکا ہوں۔ سورۃ التغابن میں فرمایا:
[arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ[/arabic] (التغابن 14)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو یقیناً تمھاری بیویوں اور اولاد میں سے کچھ ایسے ہیں جو دشمن ہیں تمھارے سو ہوشیار رہو تم ان سے اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر سے کام لو اور بخش دو تو بلاشبہ اللہ ہے بہت معاف کرنے والا اور نہایت رحم فرمانے والا۔"
اعتراض کرنے والے اور حقوق نسواں کے نام نہاد علمبردار ضرور معترض ہوں گے کہ یہاں بیویوں کو انسان کا دشمن کہا گیا جو سراسر عورت پر بہتان ہے۔ آپ بھلے سمجھائیں کہ بھائی، یہاں سب بیویوں کا نہیں "کچھ بیویوں" کا ذکر ہے۔ لیکن وہ کہہ دے گا کہ اس آیت کو دلیل بنا کر مرد اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے پھریں گے کہ اس کی بیوی اس کی دشمن ہے یا خیرخواہ۔ اس لیے اس آیت کو قرآن سے نکالا جائے ورنہ میں اس پر ایمان نہیں لاتا۔ مختصرا یہ کہ اعتراض کرنے والوں کا منہ کبھی کوئی بند نہیں کر سکا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ جو چیز قرآن و حدیث میں آئی ہے اسے درست تشریح اور صحابہ کرام کے فہم کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں۔ کوئی اعتراض کرے تو اسے صحیح بات بتا دی جائے، آگے اس کی اپنی مرضی ہے کہ وہ قبول کرتا ہے یا اسے اپنی کج فکری کی نذر کر دیتا ہے۔ الفاظ کے فرق کے ساتھ یہی طریقہ قرآن کریم کی اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے:
[arabic]وَمَا قَدَرُواْ اللّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاء بِهِ مُوسَى نُوراً وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيراً وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ آبَاؤُكُمْ قُلِ اللّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [الأنعام : 91][/arabic]
"اور نہیں پہچانا انہوں نے اللہ کو جیسا کہ حق ہے اس کو پہچاننے کا جب کہا انہوں نے کہ نہیں نازل کی اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز، پوچھو! کس نے نازل کی تھی؟ وہ کتاب جو لے کر آئے تھے موسیٰ جو روشنی اور ہدایت تھی لوگوں کے لیے جسے کر رکھا ہے تم نے ورق ورق دکھاتے ہو اس کا (کچھ حصّہ) اور چُھپا جاتے ہو بہت کچھ اور (اس کے ذریعہ سے) سکھائی گئیں تم کو وہ باتیں جو نہ جانتے تھے تم اور نہ تمہارے آباؤ اجداد۔ کہہ دو! اللہ نے (اُتاری) پھر چھوڑ دو اُن کو کہ اپنی کج بحثی میں کھیلتے ہیں۔"
 
Top