بجلی پیدا کرنے کے ذرائع

راشد احمد

محفلین
ہماری حکومت کے پاس لوڈشیڈنگ کا حل نکالنے کے ایک ہی طریقہ ہے کہ رینٹل پاور پلانٹس لگائے جائیں۔ جبکہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے اپنی رپورٹ میں کہہ دیا تھا کہ یہ ایک انتہائی مہنگا ذریعہ ہے لیکن حکومت نے اسے نظرانداز کردیا اور انتہائی تنقید کا نشانہ بنایا۔ دو سال گزرنے کے بعد بھی یہ رینٹل پاور پلانٹس ناقابل استعمال ہیں اور حکومت ان پر کروڑوں روپے بینکوں کو سود دے چکی ہے یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔
یہاں چند بجلی پیدا کرنے کے ذرائع پیش کئے جارہے ہیں۔

شمسی توانائی
پاکستان میں شمسی توانائی سے 7 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ شمسی توانائی سے نہ صرف بجلی پیدا کی جاسکتی ہے بلکہ گرم پانی بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ایسے گیزر مارکیٹ میں‌آچکے ہیں جو شمسی توانائی کی مدد سے پانی گرم کرتے ہیں۔ بجلی کی پیدوار کے لئے اوسط 10 گھنٹے کی روشنی درکار ہے جبکہ پاکستان میں اوسط 16 گھنٹے بجلی دستیاب ہے۔سولر انرجی سے حاصل ہونیوالی بجلی انتہائی سستی ہے جبکہ پاکستان ایک میگاواٹ بجلی بھی اس کے‌ذریعے حاصل نہیں کرتا لیکن پاکستان میں بعض نجی ادارے ایسی ڈیوایسز بنارہے ہیں اور کچھ جگہوں پر نجی طور پر اس سے بجلی بھی حاصل کی جارہی ہے

ہوا سے بجلی
پاکستان میں ہوا سے 2 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔

پن بجلی
پاکستان میں‌پانی سے ایک لاکھ بیس ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے مختلف ذرائع ہیں جیسے ڈیم، نہریں، دریا، سمندر وغیرہ۔ پاکستان 6500 میگاواٹ بجلی ڈیموں کے ذریعے حاصل کرتا ہے یعنی ہماری کل ضروریات کا 33% پن بجلی سے پورا کیا جاتا ہے۔ پن بجلی کی لاگت 2 روپے فی یونٹ بنتی ہے جبکہ تھرمل بجلی کی لاگت 14 روپے فی یونٹ ہے۔ پاکستان میں منڈا ڈیم اور بھاشا ڈیم بنانے کے لئے نام نہاد اتفاق رائے حاصل کیا جارہا ہے اگر یہ بنتے ہیں تو منڈا ڈیم 750 میگاواٹ اور بھاشا ڈیم 1250 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس ڈیم کے پانچ سالوں میں پیسے پورے ہوجائیں گے۔ ان ڈیموں کے بننے سے تربیلا کی عمر میں چالیس سال کا اضافہ ہوجائےگا۔ اگر حکومت یہ ڈیم نہ بھی بنائے۔‌صرف پنجاب اور سندھ کی نہروں پر ٹربائیں لگوا دے تو 1000 میگاواٹ باآسانی بجلی حاصل ہوسکتی ہے۔
چائنہ جہاں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم موجود ہے اس ڈیم سے وہ 26000 میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔

کوئلے سے بجلی
پاکستان میں کوئلے سے اگلے 800 سال تک 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جو دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر ہیں۔ ان ذخائر کی کل مالیت 25 کھرب ڈالر بنتی ہے۔ کوئلے سے‌حاصل ہونیوالی بجلی 3 روپے فی نونٹ بنتی ہے۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر سالانہ 6 ارب ڈالر تیل کی بچت ہوگی۔ پاکستان میں کوئلے کے‌ذخائر خوشاب، چکوال، میانوالی اور تھر میں ہیں۔ حال ہی میں ہمارے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے تھرکول میں‌ایسا ہی پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ ان کے مطابق ان ذخائر سے نہ صرف بجلی بلکہ گھروں کے لئے گیس اور ڈیزل بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ پراجیکٹ ابھی چل رہا ہے لیکن بعض ممالک اسے رکوانے کے لئے سرگرم ہیں کہ یہ پراجیکٹ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے گا۔ پاکستان میں پٹرولیم مافیا اور انرجی مافیا بھی یہ پراجیکٹ رکوانے کے لئے سرگرم ہے۔

کوڑے سے بجلی پیدا کرنا
پاکستان میں کوڑے سے 1 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں کوڑے کو استعمال میں لانے کے لئے 850 پلانٹ ہیں جبکہ صرف جاپان میں 330 پلانٹ ہیں۔ پاکستان میں فی گھر روزانہ اوسط 3 کلو کوڑا پیدا کرتا ہے جبکہ کل تقریبا 55000 ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے۔ ایک ٹن کوڑے سے 2 میگاواٹ بجلی اور 83 لیٹر ایتھنول فیول پیدا ہوتا ہے۔ دنیا میں کوڑے سے روزانہ 6۔1 لاکھ میگاواٹ بجلی اور 6 لاکھ بیرل ایتھنول فیول حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستان اپنے کوڑے سے روزانہ ایک لاکھ میگاواٹ بجلی اور 45 لاکھ ایتھنول فیول کی پیداوار کرسکتا ہے۔ جس سے پاکستان کو 9 لاکھ ڈالر کی بچت ہوگی جو وہ خام تیل کی درآمد پر خرچ کرسکتا ہے۔ ایتھنول سےڈیزل، مٹی کا تیل باآسانی حاصل ہوسکتا ہے۔

شوگر ملز کے گنے کے فضلے سے بجلی پیدا کرنا۔
پاکستان میں اس وقت 90 شوگرملیں ہیں۔ ان شوگر ملوں کے گنے کے فضلے سے 2400 میگاواٹ بجلی حاصل ہوسکتی ہے۔ 2500 میگاواٹ کے رینٹل پاور پلانٹس لگانے کی لاگت ساڑھے تین ارب ڈالر ہے جبکہ 2500 میگاواٹ کے پلانٹ کی لاگت 50 کروڑ ڈالر ہے۔ اس سے حاصل ہونیوالی بجلی کی قیمت 80۔4 روپے ہے جبکہ رینٹل پاور کے یونٹ کی قیمت پندرہ روپے کے لگ بھگ ہے۔

نیوکلئیر انرجی
پاکستان میں نیوکلئیر انرجی سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جوہری توانائی کی مددسے تھرمل پاور کی نسبت 35 فی صد سستی بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔

جیوتھرمل انرجی
پاکستان میں جیو تھرمل پاور سے 35000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ زمین کی اندرونی حرارت سے انرجی کا حصول جیو تھرمل انرجی کہلاتا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ زمین میں دو سوراض کرکے ایک سے پانی کو زمین میں پمپ کیا جاتا ہےاور دوسرے سے بھاپ زمین پر آتی ہے جس سے ٹربائین کو چلایا جاتا ہے۔ جیو تھرمل سے بجلی کی پیداوار، عمارات کو گرم کرنے، آبی پودوں کی کاشت اور گرین ہاؤس کے کام لئے جاتے ہیں۔ فلپائن 23% بجلی اسی ذریعے سے حاصل کرتا ہے۔ یہ پن بجلی سے بھی سستی ہے

میرا معلومات دینے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ انرجی کے کئی ذرائع ہیں لیکن حکومت کیوں مہنگے ذرائع پر زور دیتی ہے کیا حکومت کو نہیں پتہ کہ بجلی کے بہت سے ذرائع ہیں۔ پھر کیوں رینٹل پاور پلانٹس پر زور دیتی ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ حکومت کرپشن کرکے مال بنانا چاہتی ہے۔ اگر حکومت سستے ذرائع پر کام کرے تو نہ صرف صنعتیں چلیں گی بلکہ روزگار بھی ملے گا اور روزمرہ کی اشیاء بھی کسی حد تک سستی ہوجائیں گی۔ حکومت کو شرم کرنی چاہئے کہ بہاولپور، فیصل آباد، سکھر کے کچھ دیہاتوں نے گوبر کی مدد سے بجلی پیدا کرنا شروع کردی ہے جس سے وہ نہ صرف دیہاتوں کو بجلی دیتے ہیں بلکہ اس سے حاصل ہونیوالی بائیو گیس کھانا پکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ شہروں میں لوگوں نے سولر سیل بنانا شروع کردئیے ہیں۔ لاہور میں ہی ایک نئی کالونی ایڈن سولر ہومز کے نام سے بنی ہے جہاں لوگوں کو شمسی توانائی کے ذریعے بجلی دی جارہی ہے۔

نوٹ: یہ معلومات مختلف ذرائع سے لی گئی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ بجلی مہیا کرنے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں سستے بھی ہیں لیکن ان طریقوں سے بجلی پیدا کر کے ارباب اختیار کو حرام کھانے کا موقع نہیں ملتا اس لیے وہ ان طریقوں پر نہ تو خود عمل کریں گے اور نہ کرنے دیں گے۔

آپ کی اطلاع کے لیے آج سے بجلی کے نرخوں میں مزید دو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ صرف بجلی کے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے بلکہ ایک بار پھر ملک اندھیروں میں ڈوب گیا ہے، پچھلے چند دنوں سے مسلسل غیر اعلانیہ دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ لعنۃ اللہ علی الظالمین۔
 

arifkarim

معطل
بجلی کا تو بس ایک بار پلانٹ لگانا ہوتا ہے۔ اسکے بعد یہ اپنے آپ بنتی ہے۔ ہاں اسکی دیکھ بھال پر کچھ خرچہ آتا ہے۔ وہ اسکی معیاری قیمت سے باآسانی پورے کئے جا سکتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ناروے میں پوری بجلی کو حکومت کنٹرول اور فراہم کر تی تھی، سستے داموں سب کیلئے۔ پھر 90 کی دہائی میں کسی سیاست دان کو خیال آیا کیوں نہ اس سدا بہار نعمت قدرت پر نوٹ کمائے جائیں؟ پھر کیا تھا مقابلہ برائے سستی قیمت کے چکر میں ایک اسٹاک مارکیٹ اور اسمیں کمانے والے جنونی بٹھا دئے گئے۔ پچھلے سال سخت سردی کے مہینہ میں جب بجلی کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے، قیمتیں بجلی کی کمی کا بہانہ کرکے بڑھا دی گئیں۔ اور انشاءاللہ ایسا ہر سال ہوگا۔ دوسروں کی تکلیف سے فائدہ اٹھانا ہی تو اس معاشی نظام کی بنیاد ہے تو یہ موقع ہاتھ سے کیوں جانے دیا جائے؟
ایک بجلی کا ٹریڈر محض 4 سالوں میں بجلی کی خریدوفروخت کرکے کھرب پتی بن گیا! جسکی قیمت ہم عام صارفین کو ہر سال چکانی پڑتی ہے۔ مغرب کا معاشی نظام، مردہ باد!
During the last few years a combination of high power prices in the market and less than usual rainfall has made the power system more vulnerable to power shortages. So far consumers in Norway have noted this by paying a higher price for electrical power during wintertime, however still a low price in international terms.
http://en.wikipedia.org/wiki/Electricity_sector_in_Norway
جب ناروے جیسے ملک میں جہاں بجلی کی پیداوار، آبادی کیلحاظ سے وافر مقدار میں موجود ہے، قیمتیں محض چنداں اسٹاک ایکسچینج بروکرز کی خاطر آسمان تک بڑھا دی جائیں۔ اس کا موازنہ آپ پاکستان کی صورت حال سے بخوبی کر سکتے ہیں جہاں بجلی کی پیداوار فی شہری کیلحاظ سے پوری تک نہیں پڑتی!
اور جیسا کہ ہمیشہ کہتاہوں: ہمارے مسائل سیاسی نہیں تکنیکی ہیں :)
 
پاکستان اس وقت توانائی کے بحران کا شکار ہے اور توانائی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے متبادل ذرائع اور طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں ایسے سستے ذرائع جن پر ریسرچ کی جا رہی ہے ان میں سے ایک ہوا اور شمسی توانائی کے امتزاج کا نظام Wind /Solar hybrid System)) بھی ہے۔ضلع چکوال کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے کہ یہاں کے کچھ علاقے ایسے ہیں جن میں ہوا کی کثافت زیادہ ہے اور چوآ سیدن شاہ کا شمار بھی ان ہی علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ایسا ماحول اور وسائل دستیاب ہیں اوراس سسٹم سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔یہاں کی معتدل آب و ہوااس نظام کی ترقی میں کافی معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔چوآ سیدن شاہ کے گاؤں لہر سلطان پور میں لیفٹنینٹ جنرل مشتاق بیگ شہیدمیموریل ہسپتال میں آزمائشی طور پر اس نظام کو نصب کیا گیا ہے تا کہ آنے والے وقت میں یہاں بڑے منصوبوں کی تنصیب کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے ۔اس وقت یہ سسٹم 1000 واٹ بجلی فراہم کر رہا ہے جس سے روشنی اور دوسرے ہلکے پھلکے برقی آلات کو پاور فراہم کی جارہی ہے۔ہسپتال کی انتظامیہ ہوا اور روشنی سے حاصل ہونے والے اس متبادل اور مفت ایندھن سے استفادہ کرنے پر بہت خوش ہیں۔ یہ تجرباتی سسٹم اس وقت تقریبا 10 گھنٹے مسلسل اور مفت توانائی فراہم کر رہا ہے ۔
 
جناب تعارف میں کچھ خاص اور قابل ذکر بات تو نہیں،چکوال سے تعلق ہے ۔ گزشتہ دس برس سے سعودیہ میں مقیم ہوں پرنٹ میڈیا کمپنی میں جاب کرتا ہوں لیکن صحافت سے میرا براہ راست واسطہ نہیں ہے۔ پڑھنے کا شوق ہے اور کرکٹ سے بھی دلچسبی ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ابرار صاحب حکومت کی نیت صاف ہو اور مخلص قسم کے لوگ کام کر رہے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ موجودہ تنصیبات سے ضرورت کے مطابق بجلی پیدا نہ کی جا سکے۔

حکومت بے ایمان اور عملہ اس سے بڑھ کر بے ایمان۔ بجلی چوری اور وڈیروں کی بلوں کی ادائیگی نہ کرنا، کُنڈا سسٹم اور سارا بوجھ غریب عوام پر۔
 
Top