جزاک اللہ خیر جوجو محنت سے یہ طویل اقتباس ٹائپ کرنے کا۔
اردو املا کے ضمن میں خان صاحب کی اہمیت اپنی جگہ ہے اگرچہ بہت سے علما ان سے متفق نہیں تھے۔ جیسے ہمارے دوسرے استاد (مشتاق یوسفی) نے ہی کہیں لکھا ہے کہ "توتا" کو اگر "طوطا" ہیم لکھا جائے تو نہ صرف زیادہ ہرانظر آتا ہے بلکہ اس کی چونچ بھی واضح نظر آتی ہے۔
مذاق قطع نظر، موصوف کا ایک رہنما اصول یہی ہے کہ املا آسان بنائ جائے، اگرچہ یہ بھی کہا گیا کہ خان صاحب کو کیا اختیار ہے کہ کسی لفظ کو تین حرفی یا چار حرفی ڈکلیر کریں اور پھر کہیں کہ اس میں ہمزہ کی ضرورت نہیں۔ سوال اٹھ سکتا ہے کہ بناؤ درست لیکن بناو سنگھار نہیں۔ بول چال میں ضرور بناو سنگھار میں و دبتی ہے، لیکن شاعری میں ڈھونڈھا جائے تو یقیناً بناو سنگھار میں بناؤ بر وزن بتاؤ (فعولن) بھی ضرور ملے گا۔ ہندی میں بھی ایسے سارے الفاظ دونوں طرح لکھے جاتے ہیں۔ جاؤ کو "جا، آ ماترا" اور محض "وا" سے بھی (जाव)اور "جا، آ کی ماترا اور پھر "او" (जाओ)سے بھی۔ بہر حال یہ بات وہ تھی جس پر اختلاف کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس رہنما اصول کی بات کی جائے کہ حروف کی تعداد کم کی جائے تو بہتر ہے۔ جب محض آے سے کام چل جائے تو پھر اسے آ۔ ئ اور ے سے کیوں لکھا جائے۔ اس سے بہتر آ اور ئے (ہمزہ بڑی ے واحد کیریکٹر) رہے گا نا!! یہی صورت ’کوئ‘ کی ہے۔ کیوں اسے ک۔ و۔ ئ۔ اور ی لکھا جائے؟ اس کے علاوہ موصوف کو یہ علم تو تھا نہیں کہ یونی کوڈ میں ئے اور ئ الگ الگ کیریکٹرس ہیں۔ (شاید خان صاحب علاحدہ املا پسند کرتے تھے، بہ نسبت علیحدہ یا علیٰحدہ) لیکن علماء بھی اس آسان املا کی بہ نسبت اب بھی وہی اصیل املا بلکہ املاء لکھنا پسند کرتے ہیں، یا شاید جرأت یا جرات نہیں کر پاتے۔
ایک املا کے سلسلے میں لیکن اکثر لوگوں سے اختلاف رکھتا ہوں۔ اردو لائف کے ادبی جریدے میں شاید عباس ملک نے بھی اور کچھ اور حضرات نے بھی لکھا ہے کہ پاؤں اور گاؤں لکھنا غلط ہے، اگرچہ اس کا رواج چل گیا ہے۔ اور اب محض کلاسیکی کتابوں میں آپ کو گانو یا پانو لکھا ملے گا۔ اگر اس طرح لکھیں اور نون پر جزم لگائ جائے (جو میں خود نہیں لگا رہا ہوں کہ اکثر فانٹ میں نہیں ہے) تب ہی آپ درست سمجھ سکتے ہیں ورنہ پانو بر وزن جانو پڑھنے میں آئے گا۔ اس لئے میرا ووٹ اس ضمن میں گاؤں اور پاؤں کی املا کے لیے ہی ہے۔
لیے کی بات مانی جا سکتی ہے۔ بہ نسبت لئے کے۔ لیکن جب آپ کمپیوٹر پر ل ئ ی اور ے لکھنے پر بضد ہوں تو یہ خواہ مخواہ طوالت پر ضد ہوگی۔ اس لئے اگرچہ مجھے ذاتی طور پر لئے پسند ہے (وہی رہنما اصول کہ حروف کی تعداد کم کی جائے) ل اور ئے میں دو ہی حروف ہیں۔ ل ی ے میں تین، لیکن اگر آپ لئیے لکھنا چاہیں تو اس میں چار ہیں ل ئ ی ے۔
محض اس اصول کو قبول کیا جائے کہ کم حروف استعمال ہوں اور یونی کوڈ میںؤ ئ اور ئے کے علاحدہ کیریکٹرس کی موجودگی میں زبردستی ایک ی یا ے کا اضافہ کوئ معنی نہیں رکھتا۔ رہا سوال فانٹ کا کہ ئے یا ئ درست دکھائ نہیں دیتے تو یہ فانٹ کی غلطی ہے۔ میں نے اپنے سارے نسق فانٹس اور حالیہ اردو نقش میں ئ کو نستعلیق شکل دی ہے۔ یہ محض نفیس نستعلیق ہی ہے جس نے ئ کو بھی محض ء سے میپ کر رکھا ہے جو فاش غلطی ہے۔ دوسرے فانٹس میں ئ ئی سے بہتر نظر آتا ہے اور زیادہ درست۔
رہا سوال شگفتہ کی کرسی والی بات کا، تو یہاں بھی میں اسی اصول پر کار بند ہوں کہ جب علاحدہ کیریکٹرس ہیں تو پھر و، ی یا ے کو کرسی بنا کر اس میں اوپر سے ہمزہ کی تشریف کیوں رکھی جائے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں اوپر ہمزہ والے یونی کوڈ کیریکٹر استعمال کرنے کا کہا تو نہیں، لیکن کرسی والی بات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر اسے درست املا مانی جائے تو ہم کو ؤ کی جگہ و اور اس کے اوپر ہمزہ یعنی ’ ؤ ‘ لکھنا پڑے گا، جو ظاہر ہے کہ دو کی سٹروکس ہیں، دو کیریکٹرس ہیں اور دو حروف بھی۔ جب کہ یونیکوڈ نے ہمیں اب ایک حرف دے دیا ہے ’ؤ‘۔