بات ہوتی ہے دلوں میں ،جان لیتا ہے خدا--برائے اصلاح

الف عین
خلیل الرحمن
عظیم
یاسر شاہ
-----------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
---------
بات ہوتی ہے دلوں میں ،جان لیتا ہے خدا
جانتا ہے وہ ہماری ابتدا اور انتہا
-----------------
کھا کے ساری نعمتیں اللہ سے ہم دور ہیں
بخش دے میرے خدا یہ سب ہماری ہے خطا
------------
ہم تو پیچھے بھاگتے ہیں اس جہاں کے دوستو
دین تیرے پر چلیں گے ہم نے وعدہ تھا کیا
------------
اُس نے ہم کو دے دیا ہے مانگتے تھے جو وطن
پھر بھی اُس سے دور جا کر ہم نے پائی ہے سزا
-----------------
قوم کو جو لوٹتے تھے وہ یہاں پر اب نہیں
وہ تو اپنے ہر کئے کی پا رہے ہیں اب سزا
-------------------
جو یہاں وہ کر رہے تھے سامنے ہے قوم کے
گھر وہ اپنے بھر رہے تھے گھر لٹا کر قوم کا
--------------
راستے پر لوٹ آئیں بخش دے گا وہ ہمیں
آج ارشد دے رہا ہے قوم کو یہ ہی صدا
------------یا
جاگنے کا وقت ہے اب سونے کا تو جا چکا
----------------
 

عظیم

محفلین
بات ہوتی ہے دلوں میں ،جان لیتا ہے خدا
جانتا ہے وہ ہماری ابتدا اور انتہا
-----------------ٹھیک
کھا کے ساری نعمتیں اللہ سے ہم دور ہیں
بخش دے میرے خدا یہ سب ہماری ہے خطا
------------کھا کے کی جگہ کچھ اور ہونا چاہیے۔ اور دوسرا مصرع
بخش دینا اے خدا یہ سب ہماری ہے خطا
بہتر رہے گا

ہم تو پیچھے بھاگتے ہیں اس جہاں کے دوستو
دین تیرے پر چلیں گے ہم نے وعدہ تھا کیا
------------دین تیرے کی جگہ دین اس کے یا دینِ رب پر سب' بہتر ہو گا۔ دین تیرے کچھ واضح نہیں ہے

اُس نے ہم کو دے دیا ہے مانگتے تھے جو وطن
پھر بھی اُس سے دور جا کر ہم نے پائی ہے سزا
-----------------ٹھیک لگ رہا ہے

قوم کو جو لوٹتے تھے وہ یہاں پر اب نہیں
وہ تو اپنے ہر کئے کی پا رہے ہیں اب سزا
-------------------'یہاں پر' واضح نہیں کہ کہاں کی بات ہے۔

جو یہاں وہ کر رہے تھے سامنے ہے قوم کے
گھر وہ اپنے بھر رہے تھے گھر لٹا کر قوم کا
--------------اس شعر کا تعلق شاید پچھلے شعر سے ہے۔ تو ان اشعار کو 'ق' کی علامت سے قطعہ ہونے کا ذکر کرنا ہو گا۔ اور دونوں اشعار کا آپس میں ربط مضبوط ہونا چاہیے۔

راستے پر لوٹ آئیں بخش دے گا وہ ہمیں
آج ارشد دے رہا ہے قوم کو یہ ہی صدا
------------یا
جاگنے کا وقت ہے اب سونے کا تو جا چکا
----------------دوسرے مصرع کی پہلی شکل میں 'یہ ہی' بجائے 'یہی' کے ٹھیک نہیں اور دوسری صورت میں 'سونے' میں ے کا گرنا اچھا نہیں لگ رہا!
 

الف عین

لائبریرین
قوم کو جو لوٹتے تھے وہ یہاں پر اب نہیں
کیا یہ مطلب ہے کہ
قوم کو جو لوٹتے تھے وہ یہاں سے جا چکے
؟
 
الف عین
عظیم
بات ہوتی ہے دلوں میں ،جان لیتا ہے خدا
جانتا ہے وہ ہماری ابتدا اور انتہا
-----------------ٹھیک
مل رہی ہیں نعمتیں پھر بھی خدا سے دور ہیں
بخش دینا ہم کو یا رب سب ہماری ہے خطا
-----------
ہم تو پیچھے بھاگتے ہیں اس جہاں کے دوستو
دینِ حق پر ہی چلیں گے ہم نے وعدہ تھا کیا
----------------
اُس نے ہم کو دے دیا ہے مانگتے تھے جو وطن
پھر بھی اُس سے دور جا کر ہم نے پائی ہے سزا
---------------
قوم کو جو لوٹتے تھے وہ پڑے ہیں جیل میں (ق)
وہ تو اپنے ہر کئے کی پا رہے ہیں اب سزا
----------
جو یہاں وہ کر رہے تھے سامنے ہے قوم کے
گھر وہ اپنے بھر رہے تھے لُوٹ کر سب قوم کا
-------------
راستے پر لوٹ آئیں بخش دے گا وہ ہمیں
اس لئے تو دے رہا ہے قوم کو ارشد صدا
------------
 

الف عین

لائبریرین
شروع کے اشعار درست ہیں
اُس نے ہم کو دے دیا ہے مانگتے تھے جو وطن
پھر بھی اُس سے دور جا کر ہم نے پائی ہے سزا
--------------- دونوں مصرعوں میں tense مختلف ہیں، پہلے کا imperfect کو بھی past indefinite میں کر دو
اس نے ہم کو دے دیا ہم مانگتے تھے جو وطن

قوم کو جو لوٹتے تھے وہ پڑے ہیں جیل میں (ق)
وہ تو اپنے ہر کئے کی پا رہے ہیں اب سزا
----------
جو یہاں وہ کر رہے تھے سامنے ہے قوم کے
گھر وہ اپنے بھر رہے تھے لُوٹ کر سب قوم کا
------------- قطع کی علامت شروع میں لگائی جاتی ہے
.. ق...
قوم کو.........
.... سب قوم کا

راستے پر لوٹ آئیں بخش دے گا وہ ہمیں
اس لئے تو دے رہا ہے قوم کو ارشد صدا
---------- پہلے نصف ٹکڑے کا فاعل واضح نہیں، میں 'ہم' سمجھ رہا ہوں۔ اس صورت میں یوں واضح ہو گا
راہ پر گر لوٹ آئیں.....
ویسے قوم کو صدا دی جا رہی ہے یا خود اپنے کو
تو اس صورت میں
راستے پر لوٹ آؤ، بخش دے گا وہ تمہیں
بہتر ہو گا
کون بخش دے گا، اسے بھی 'وہ' کی بجائے 'رب' سے واضح کر دیا جائے تو بہتر
 
Top