گیان چند جین نے اپنی متذکرہ کتاب میں اہلِ اُردو پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھیں (اہلِ اُردو کو) ہندی ادب کے ماضی پر ’’ اعتراض‘‘ ہے۔ جین صاحب کے مطابق وہ اعتراض یہ ہے:
’’کھڑی بولی ہندی ایک بالکل نئی زبان ہے جسے انگریزوں کے حکم پر فورٹ ولیم کالج میں تیار کیا گیا۔ اس کا مقصد ہندوؤں کے لیے ایک مشترکہ زبان مہیا کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھا‘‘۔(ص ۱۱۸)
جین صاحب جسے ’’اعتراض‘‘ کہتے ہیں وہی تو اصل حقیقت ہے،(۱) لیکن اس اعتراض کو انھوں نے اہلِ اُردو کے سر کیوں منڈھ دیا ہے؟ اگر ہندی کے لسانیاتی ادب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلے ہندی مصنفین نے ہی اس حقیقتِ حال کو بیان کیا، پھر اسی کو گریرسن اور دوسروں نے دہرایا۔
ایودھیا پرساد کھتری انیسویں صدی کے نصفِدوم کے ایک ممتاز ہندی عالم اور دانشور تھے۔ وہ کھڑی بولی میں ہندی شاعری کے زبردست حمایتی تھے۔ انھوں نے ۱۸۸۷ء میں ’کھڑی بولی کا پدیہ‘ (کھڑی بولی کی شاعری) کے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی جس میں کھڑی بولی،برج بھاشا اور ہندی اُردو کے رشتوں پر بڑی اہم باتیں کہی گئی تھیں۔ وہ برج بھاشا اور کھڑی بولی ہندی کو دو بالکل الگ الگ زبانیں مانتے تھے لیکن کھڑی بولی اور اُردوکو ایک زبان تصور کرتے تھے۔ وہ اُردو شاعری کو کھڑی بولی کی شاعری کہتے تھے۔ وہ ہندی اور اُردو میں اگر چہ صرف رسمِخط کا فرق سمجھتے تھے لیکن اُردو کو ہندی کے مقابلے میں قدیم زبان قرار دیتے تھے اور اُردو سے ہی ہندی کا ارتقا بتاتے تھے۔ ایودھیا پرساد کھتری کے قول کے مطابق اُردو میں سے عربی فارسی الفاظ کو نکال کر ہی ’’ موجودہ مصنوعی ہندی‘‘ بنائی گئی :
’’اُردو میں سے عربی فارسی کو جان بوجھ کر چھانٹنے تتھا ان کے استھان پر سسنکرت کے کلشٹ شبد رکھنے سے ورتمان کرترم ہندی کا وکاس ہوا ہے‘‘۔(بحوالہ شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘، ص ۱۶۷)
(’اُردو میں سے عربی فارسی کو جان بوجھ کر خارج کرنے اور ان کی جگہ پر سنسکرت کے ٹھیٹھ الفاظ رکھنے سے موجودہ مصنوعی ہندی کا ارتقا عمل میں آیا ہے۔)
گیان چند جین نے اپنی کتاب میں ایودھیا پرساد کھتری کا ذکر نہایت تفصیل سے کیا ہے اور ان کے بیان کردہ کھڑی بولی کے پانچوں اسالیب کا بھی ذکر کیا ہے لیکن کھتری کے اس لسانی تصور کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ یہ علمی دیانت داری کے منافی ہے۔ جین صاحب نے کھتری کے کھڑی بولی کے پانچ اسالیب کو ہندی کے پانچ اسالیب قرار دیے ہیں۔ یہ بھی علمی دیانت داری کے خلاف ہے۔ (دیکھیے’ ایک بھاشا ۔ ۔ ۔ ‘، ص ۱۸۱)۔
ایک اور ہندی مصنف چندر دھر شرما گلیری کا بھی ہندی کی پیدائش کے بارے میں کم و بیش وہی خیال ہے جو کھتری جی نے پیش کیا ہے۔ گلیری جی اپنی کتاب ’پرانی ہندی‘ میں لکھتے ہیں:
’’ ہندوؤں کی رچی ہوئی پرانی کوِتا جو ملتی ہے وہ برج بھاشا یا پوروی، ویس واڑی، اودھی، راجستھانی اور گجراتی آدی ہی میں ملتی ہے، ارتھاتو ’پڑی بولی‘ میں پائی جاتی ہے۔ ’کھڑی بولی‘ یا پکی بولی یا ریختہ یا ورتمان ہندی کے ورتمان گدیہ پدیہ کو دیکھ کر یہ جان پڑتا ہے کہ اُردو رچنا میں فارسی عربی یا تدبَھووں کو نکال کر سنسکرت یا ہندی تتسم اور تد بھو رکھنے سے ہندی بنالی گئی‘‘۔(ص ۱۰۷)
("ہندوؤں کی تخلیق کردہ جو پرانی شاعری ملتی ہے وہ برج بھاشا یا پوربی، ویس واڑی، اودھی، راجستھانی اور گجراتی وغیرہ میں ہی ملتی ہے۔ یعنی ’پڑی بولی‘ میں پائی جاتی ہے۔ ’کھڑی بولی‘ یا پکّی بولی یا ریختہ یا موجودہ ہندی کی موجودہ نثر و نظم کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُردو میں مستعمل فارسی عربی کے خالص یا تحریف شدہ الفاظ کو نکال کر ان کی جگہ پر سنسکرت یا ہندی کے تتسم اور تدبھوالفاظ رکھنے سے ہندی بنالی گئی ۔‘)
َ ہندی کے مشہور شاعر جگن ناتھ داس ’رتناکر‘بھی کھڑی بولی ہندی کو اُردو کا بدلا ہوا روپ مانتے ہیں جس میں پہلے ’’بھا کھا‘‘ کے لفظ داخل ہوئے پھر دھیرے دھیرے سنسکرت کے الفاظ شامل ہونے لگے۔ انھوں نے کہا:
’’ جو بھاشا آج کل کھڑی بولی کے نام سے کہی جاتی ہے وہ ہماری سمجھ میں اُردو کا ہی ایک روپانتر ہے۔ آرمبھ میں تو وہ اُردو بھاشا میں ’بھا کھا‘ کے پر چلت شبد رکھ کر بنائی گئی اور پھر شنے شنے اس میں سنسکرت کے شبد ملائے جانے لگے‘‘۔ (بحوالہ شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘ ، ص ۲۱)
(’جو زبان آجکل کھڑی بولی کے نام سے جانی جاتی ہے وہ ہماری سمجھ میں اُردو کا ہی ایک بدلا ہوا روپ ہے۔ شروع میں تو وہ اُردو زبان میں ’بھا کھا‘کے مروج الفاظ کو داخل کرکے بنائی گئی اور پھر دھیرے دھیرے اس میں سنسکرت کے الفاظ شامل کیے جانے لگے۔)(۲)
’’کھڑی بولی ‘‘سے یہاں کھڑی بولی ہندی اور’’بھاکھا‘‘ سے برج بھاشا مراد ہے۔ قدیم زمانے سے ہی ہندوؤں کوبرج بھاشا سے ایک خاص مذہبی لگاؤ رہا ہے، کیونکہ یہ اس علاقے کی بولی ہے جہاں کرشن بھکتی پروان چڑھی۔ ادبی حیثیت سے بھی یہ ایک اہم ترین بولی رہی ہے۔ اور کسی زمانے میں شمالی ہندوستان میں مغرب تا مشرق اسی کا طوطی بولتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ہندو مصنفین برج بھاشا کو زمانۂ حال کی ہندی کی اصل سمجھتے تھے اور اسے برج بھاشا سے تشکیل پذیر مانتے تھے۔ یہ بات اگر چہ صحیح نہیں ہے، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انیسویں صدی میں جب کھڑی بولی ہندی کا آغاز ہوا تو اس کے ابتدائی ادبی نمونوں پر برج بھاشا کی گہری چھاپ پڑی۔ چنانچہ فورٹ ولیم کالج کے ’’بھاکھا منشی‘‘ للو جی لال کی’ پریم ساگر‘ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ہندی کے کئی عالموں نے ’ پریم ساگر‘ پر برج بھاشا کے اثرات کی نشاندہی کی ہے۔ جگن ناتھ داس ’رتناکر‘ کے ذہن میں بھی یہ بات تھی ۔ چنانچہ انھوں نے اسی خیال کے تحت نہایت سوچ سمجھ کر یہ بات کہی کہ اُردو جو کہ پہلے سے موجود تھی اسی میں برج بھاشا کے الفاظ اور بعد میں سنسکرت الفاظ کو داخل کرکے ہندی بنالی گئی۔
گیان چند جین کی یہ عجیب و غریب منطق ہے کہ وہ اہلِ اُردو پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ (اہلِ اُردو) ہندی کے ماضی پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ’’ نئی کھڑی بولی ہندی ۱۸۰۰ ء میں فورٹ ولیم کالج میں ڈھالی گئی۔ اس سے پہلے ہندی تھی ہی نہیں ۔ ۔ ۔ اس کی پہلی کتاب للو لال کی ’پریم ساگر‘ ہے جس میں اُردو نثر میں سے عربی فارسی الفاظ کو نکال کر سنسکرت الفاظ شامل کر دیے‘‘ (ص ۱۲۶)،لیکن اس قسم کا اعتراض کرنے والوں میں جین صاحب سب سے پہلا نام جارج اے۔ گریرسن کا پیش کرتے ہیں جس نے ۱۸۹۶ء میں جب للو جی لال کی نثری تصنیف ’لال چندرِکا‘ شائع ہوئی تو اس کے دیباچے میں یہ عبارت درج کی:
’’ اس طرح کی زبان کا اس سے پہلے بھارت میں کہیں پتا نہ تھا اس لیے للو لال نے پریم ساگر لکھا تب وہ بالکل نئی بھاشا گھڑ رہے تھے ‘‘۔ (بحوالہ گیان چند جین، ’ایک بھاشا ۔ ۔ ۔ ‘، ص ۱۲۶)
اس کے بعد اعتراض کرنے والوں میں جین صاحب آر۔ ڈبلیو۔ فریزر کا نام پیش کرتے ہیں جس نے ’لٹریری ہسٹری آف انڈیا‘ (۱۹۱۵ء)میں کہا کہ:
’’ جدید ہندی بھاشا کو دو پنڈتوں للو لال اور سدل مشر کی اختراع سمجھنا چاہیے‘‘۔ (بحوالہ ایضاً)
گیان چند جین نے ہندی کے ماضی پر اس قسم کے’’ اعتراض‘‘ کو جب اہلِ اُردو سے منسوب کیا تھا تو انھیں مثالیں بھی اہلِ اُردو سے ہی دینا چاہیے تھیں، لیکن ایسی مثالیں انھیں اہلِ اُردوکے یہاں کہاں ملتیں؟ میرے علم و یقین کی حد تک کسی اہلِ اُردو نے انیسویں صدی میں ہندی کے ماضی پر اس قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ ایسے اعتراض کی سب سے پہلی مثال خود ہندی کے ہی عالم و دانشور ایودھیا پرساد کھتری کے یہاں ملتی ہے۔ اس کے نو سال بعد ۱۸۹۶ء میں گریرسن اس قسم کا اعتراض کرتے ہیں، پھر ۱۹۱۵ء میں فریزر بھی ایسا ہی اعتراض کرتے ہیں اور ۱۹۲۰ء میں فرینک ای۔کی اپنی کتاب A History of Hindi Literature (ہندی ادب کی تاریخ) میں یہی بات اور زور دے کر کہتے ہیں۔ یہ در اصل ’’اعتراض‘‘ نہیں بلکہ حقیقت ہے جسے ایودھیا پرساد کھتری کے بعد کئی انگریز اور ہندو/ ہندی مصنفین نے بیان کیاہے۔ اہلِ اُردو نے تو انھیں مصنفین کی کہی باتوں کو بعد میں محض دہرا دیا ہے لیکن ان پر الزام یہ لگایا گیا کہ انھیں ہندی کے ماضی پر اعتراض ہے۔ اس ضمن میں جین صاحب نے جن اہلِ اُردو کے نام پیش کیے ہیں ان میں فرمان فتح پوری ہیں جن کی کتاب ’ہندی اُردو تنازع‘ ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی اور شمس الرحمن فاروقی ہیں جن کی کتاب ’اُردو کا ابتدائی زمانہ‘ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی۔ گویا سو سال پہلے کہی گئی ایک بات کو( جسے پہلے ہندو/ ہندی اور انگریز مصنفین نے ہی کہا)اگر اہلِ اُردو نے محض دہرادیاتو انھیں موردِ الزام قرار دیا گیا کہ وہ ہندی کے ماضی پر معترض ہیں۔ (دیکھیے ’ایک بھاشا ۔ ۔ ۔ ‘ ، آٹھواں باب) ۔
اب ذرا گریرسن کے پاس پھر واپس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پچیس تیس سال بعد ان کے اس نظریے میں کوئی تبدیلی رو نما ہوئی یا نہیں۔ نئی زبان ہندی کے تشکیل پذیر ہونے سے متعلق گریرسن نے اپنا پہلا بیان ۱۸۹۶ء میں دیا تھا جب للو جی لال کی کتاب ’لال چندرِکا‘ پر دیباچہ لکھا تھا۔ لیکن ۱۹۲۷ء میں جب انھوں نے Linguistic Survey of India(لسانی جائزۂ ہند)کی ترتیب کا کام انجام دیا تب بھی وہ اپنے اسی موقف پر قائم رہے بلکہ مزید یہ کہا کہ للو جی لال کی ہندی، اُردو کی بنیاد پر ڈھالی گئی ہے اور فارسی کے الفاظ کی جگہ ہند آریائی نژاد الفاظ رکھ دیے گئے ہیں۔ گریر سن کا یہ بیان جو’ لسانیاتی جائزۂ ہند‘کی نویں جلد کے حصۂ اول میں شامل ہے ملاحظہ ہو:
"This Hindi, therefore, or, as it is sometimes called, 'High Hindi' is the prose literary language of those Hindus of Upper India who do not employ Urdu. It is of modern origin, having been introduced under English influence at the commencement of the last century. Up till then, when a Hindu wrote prose and did not use Urdu, he wrote in his own dialect, Awadhi, Bundeli, Braj Bhakha, or what not. Lallu Lal, under the inspiration of Dr. Gilchrist, changed all this by writing the well-known 'Prem Sagar', a work which was, so far as the prose portions went practically written in Urdu, with Indo-Aryan words substituted wherever a writer in that form of speech would use Persian ones."(P.46).
(لہٰذا یہ ہندی، یا جسے کبھی کبھی ’اعلیٰ ہندی‘ بھی کہتے ہیں، بالائی ہندوستان کے ان ہندوؤں کی نثری ادبی زبان ہے جو اُردو کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ زمانۂ حال کی پیداوار ہے اور اس کا رواج گذشتہ صدی کے آغاز سے انگریزوں کے زیرِ اثر شروع ہوا۔ اس وقت تک جب بھی کوئی ہندو نثر لکھتا تھا اور وہ اُردو کا استعمال نہیں کرتاتھا، تو اپنی بولی، اودھی، بندیلی، برج بھاکھا وغیرہ میں لکھتا تھا۔ للو لال نے ڈاکٹر گلکرسٹ کے جوش دلانے پر معروف کتاب ’ پریم ساگر‘ لکھ کر سب کچھ بدل ڈالا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے ، کہ جہاں تک کہ نثری اجزاء کا تعلق ہے یہ عملاً اُردو میں لکھی گئی ہے اور اس زبان کے لیے مصنف جہاں فارسی الفاظ استعمال کرتا، وہاں اس نے ہند آریائی الفاظ رکھ دیے۔)
ایک اور انگریز مصنف فرینک ای ۔ کی نے بھی اپنی کتاب ’ہندی ادب کی تاریخ‘میں اس حقیقتِحال کو یوں بیان کیا ہے:
"Modern 'High Hindi' was developed from Urdu by the exclusion of Persian and Arabic words and the substitution of those of pure Indian origin, Sanskrit or Hindi".(P.46).
(جدید ’اعلیٰ ہندی‘ اُردو میں سے فارسی اور عربی الفاظ کو خارج کرکے اور ان کی جگہ پر سنسکرت یا ہندی کے خالص ہندوستانی نثراد الفاظ رکھ کر بنائی گئی۔)
اسی کتاب میں وہ مزید لکھتا ہے:
"Lallu Ji Lal was a Brahman whose family had come originally form Gujrat, but had long been settled in North India. Under the direction of Dr. John Gilchrist he and Sadal Mishra were the creators of modern 'High Hindi'. Many dialects of Hindi were, as we have seen, spoken in North India, but the vehicle of polite speech amongst those who did not know Persian was Urdu. Urdu, however, had a vocabulary borrowed largely from the Persian and Arabic languages, which were specially connected with Muhammadanism. A literary language for Hindi-speaking people which could commend itself more to Hindus was very desirable, and the result was produced by taking Urdu and expelling form it words of Persian or Arabic origin, and substituting for them words of Sanskrit or Hindi origin."(P.83)
(للو جی لال ایک برہمن تھے جن کے خاندان کا تعلق اصلاً گجرات سے تھا، لیکن جو عرصۂ دراز سے شمالی ہندوستان میں سکونت اختیار کیے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی ہدایت پر انھوں نے سدل مشرکے ساتھ مل کر جدید ’اعلیٰ ہندی‘ کی تخلیق کی۔ شمالی ہندوستان میں، جیسا کہ ہم نے دیکھا، بہت سی بولیاں بولی جاتی تھیں لیکن جو لوگ فارسی نہیں جانتے تھے وہ شائستہ ذریعۂ اظہار کے طور پر اُردو کا استعمال کرتے تھے۔ اُردو کا ذخیرۂ الفاظ بڑی حد تک فارسی اور عربی زبانوں سے مستعار تھا جن کا خصوصی تعلق اسلام سے ہے۔ ہندی بولنے والوں کے لیے ایک ایسی زبان کی شدید ضرورت تھی جو ہندوؤں کی زیادہ مطلب برآری کرسکے۔ اس کا نتیجہ یوں سامنے آیا کہ اُردو کو لے کر اس میں سے فارسی یا عربی الاصل الفاظ نکال دیے گئے، اور ان کی جگہ پر سنسکرت یا ہندی الاصل الفاظ رکھ دیے گئے۔)(۳)
ہندوؤں میں اس نئی زبان کے استعمال کے بارے میں کی لکھتا ہے:
"The Hindi of Lallu Ji Lal was really a new literary dialect. This 'High Hindi', or 'Standard Hindi' as it is also called, has had however a great success. It has been adopted as the literary speech of millions in North India. Poetical works still continue to be written in Braj Bhasha, or Awadhi, or other old dialcts, as High Hindi has not been much used for poetry. But whereas before this time prose works in Hindi were very rare, from now onwards an extensive prose literature began to be produced." (Pp.83-84).
( للو جی لال کی ہندی در حقیقت ایک نئی ادبی زبان تھی۔ یہ ’اعلیٰ ہندی‘ ، یا جسے ’معیاری ہندی‘ بھی کہتے ہیں، کافی مقبول ہوئی۔ ادبی زبان کی حیثیت سے اسے شمالی ہندوستان کے لاکھوں لوگوں نے اپنایا۔ شعری تخلیقات اب بھی برج بھاشا، یا اودھی، یا دیگر قدیم بولیوں میں لکھی جاتی رہیں، کیوں کہ اعلیٰ ہندی کو شاعری کے لیے زیادہ استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن چوں کہ اس سے پہلے ہندی میں نثری تصانیف کا بڑی حد تک فقدان تھا، اس لیے اس کے بعد سے نثری ادب کی وسیع پیمانے پر تخلیق عمل میں آئی۔)
فورٹ ولیم کالج میں ایک نئی زبان ’ہندی‘ کے گھڑے جانے سے متعلق ایک اور ہندو مصنف اور مورخ ڈاکٹرتارا چند کا یہ بیان بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جو انھوں نے فروری ۱۹۳۹ء میں ’’ ہندوستانی کیا ہے؟‘‘ کے زیرِعنوان اپنی ریڈیو تقریر میں دیاتھا:
’’ ہندوؤں کے لیے للو لال جی، بدل مصر، بینی نرائن وغیرہ کو [اربابِ فورٹ ولیم کالج سے] حکم ملا کہ نثر (گدھ) کی کتابیں تیار کریں۔ انھیں اور بھی زیادہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ادب یا ساہتیہ کی بھاشا تو برج تھی، لیکن اس میں گدھ یا نثر نام ہی کے لیے تھا۔ کیا کرتے، انھوں نے راستہ یہ نکالا کہ میر امّن، افسوس وغیرہ کی زبانوں کو اپنایا۔ پر اس میں سے فارسی، عربی کے الفاظ چھانٹ دیے اور سنسکرت اور ہندی[برج اور دیگر بولیوں] کے لفظ رکھ دیے۔ ۔ ۔ اس طرح دس برس سے بھی کم مدت میں دو نئی زبانیں اپنے اصلی گہوارے سے سیکڑوں کو س کی دوری پر ودیسیوں کے اشارے سے بن سنور،رنگ منچ پر آ کھڑی ہوئیں۔ دونوں کی صورت مورت ایک تھی، کیوں کہ دونوں ایک ہی ماں کی بیٹیاں تھیں۔ پھر دونوں کے سنگار، کپڑے اور زیور میں کچھ فرق نہ تھا۔ پر دونوں کے مکھڑے ایک دوسرے سے پھرے ہوئے تھے۔ اس ذرا سی بے رخی نے دیس کو دبدھا میں ڈال دیا۔اور اس دن سے آج تک ہم الگ الگ دو راہوں پر بھٹک رہے ہیں‘‘۔ (بحوالہ شمس الرحمن فاروقی، ’اُردو کا ابتدائی زمانہ‘، ص ۴۹و ۵۰)
اس ضمن میں ہندی ادبیات کے جید عالم رام چندر شکل نے اپنی کتاب ’ہندی ساہتیہ کا اتہاس ‘ (ص ۳۶۵) میں جو بیان درج کیا ہے وہ بھی نہایت اہم ہے جس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ للوجی لال نے ’پریم ساگر‘ لکھتے وقت عربی فارسی الفاظ سے اجتناب برتا تھا:
’’اگر للولال اُردو نہ جانتے ہوتے تو پریم ساگر سے عربی فارسی الفاظ دور رکھتے ہیں اتنے کامیاب نہ ہوتے جتنے ہوئے۔ بہت سے عربی فارسی الفاظ بول چال کی زبان میں اتنے گھل مل گئے تھے کہ انھیں صرف سنسکرت ہندی جاننے والے کے لیے پہچاننا بھی مشکل تھا۔ ‘‘ (بحوالہ گیا ن چند جین، ’لسانی مطالعے‘ ]پہلا ایڈیشن[، ص ۱۸۵)
فورٹ ولیم کالج میں اُردو میں سے عربی فارسی کے الفاظ کو نکال کر ایک نئی زبان ’ہندی‘ یا ’کھڑی بولی ہندی‘ کے تشکیل پذیر ہونے سے متعلق یہ تمام بیانات ہندو/ ہندی اور انگریزمصنفین کے ہیں، لیکن جین صاحب اس کے لیے قصور وار ٹھہراتے ہیں اہلِ اُردو کو!
جن کا دیں پیرویِ کذب و ریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
(فیض احمد فیضؔ)
...