الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
------
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
-------
اے کاش میرا اتنا تُو رازداں نہ ہوتا
کھلنے پہ راز تجھ سے میں بدگماں نہ ہوتا
---------
تیرے کرم سے یا رب میں جی رہا ہوں اب تک
ورنہ زمیں پہ میرا ہرگز نشاں نہ ہوتا
----------
مانگے بغیر ملنا تیرے قریب لایا
ایسا اگر نہ ہوتا پھر یہ گماں نہ ہوتا
-------
بولا نہیں تھا جب تک پردہ پڑا ہوا تھا
دنیا پہ راز میرا ہرگز عیاں نہ ہوتا
----------
میری بغاوتیں ہی لائیں مجھے یہاں تک
ورنہ تو مجھ سے کوئی بھی بد گماں نہ ہوتا
---------
ممکن تھا ہم نہ کرتے ایسی کبھی محبّت
گر تم حسیں نہ ہوتے گر میں جواں نہ ہوتا
----------
مجھ کو کیا ہے بد ظن تیری ہی سرکشی نے
تجھ میں وفا جو ہوتی میں بد گماں نہ ہوتا
--------
کھلتا کبھی نہ مجھ پر ہرگز یہ راز تیرا
دشمن جہاں تھے میرے گر تُو وہاں نہ ہوتا
----------
نیکی کے راستے پر چلتا اگر تُو ارشد
دل پر ترے گنہ کا بارِ گراں نہ ہوتا
---------------
 

الف عین

لائبریرین
پہلے پانچوں اشعار عجز بیان کا شکار ہیں کہ کچھ مطلب نکلتا نظر نہیں آتا۔ سوالات کے جوابات تشنہ رہتے ہیں، جیسے کون 'بولا نہیں تھا..'
----------
ممکن تھا ہم نہ کرتے ایسی کبھی محبّت
گر تم حسیں نہ ہوتے گر میں جواں نہ ہوتا
---------- پہلا مصرع روانی چاہتا ہے
یوں ہو تو
شاید کہ پیار کرتے ہم تم کبھی نہ ایسے

مجھ کو کیا ہے بد ظن تیری ہی سرکشی نے
تجھ میں وفا جو ہوتی میں بد گماں نہ ہوتا
-------- بے وفائی کو سرکشی کہنا درست نہیں لگتا، 'ہءمی' بھرتی ہے

کھلتا کبھی نہ مجھ پر ہرگز یہ راز تیرا
دشمن جہاں تھے میرے گر تُو وہاں نہ ہوتا
---------- ٹجیک ہے

نیکی کے راستے پر چلتا اگر تُو ارشد
دل پر ترے گنہ کا بارِ گراں نہ ہوتا
-------------- پہلے مصرع میں تو کی و کا اسقاط اچھا نہیں
نیکی کی رہ پہ چلتا ارشد جو تو ہمیشہ
یا اس قسم کا مصرع بہتر ہو گا
 
Top