اے سر زمین پاک

Dilkash

محفلین
از مظہر علی شاہ۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور

اے سر زمین پاک
قومی ترانے بظاہر تو سطحی قسم کی چیز نظر آتے ہیں پر قومیں اور ممالک اپنے وجود کی شناخت کے لئے ان کو ضروری قرار دیتے ہیں وطن عزیز کے قومی ترانے کے بارے میں کچھ تازہ حقائق سامنے آئے ہیں جن سے اس ملک کے دانشوروں کے حلقوں میں ایک بحث چل نکلی ہے کیا پاکستان کا موجودہ قومی ترانہ جو حفیظ جالندھری نے تخلیق کیا ہے واقعی اس کا پہلا قومی ترانہ ہے اور اس سے پہلے کوئی دوسرا قومی ترانہ نہ تھا؟ کہا یہ جارہا ہے کہ لاہور کا ایک ہندو اور اردو زبان کا شاعر جس کا نام جگن ناتھ آزاد تھا اس نے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھا تھا کہا یہ بھی جاتا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کے قومی ترانے کو بانی پاکستان قائداعظم نے منظور کیا اور 1947ء میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے نشر بھی ہواکرتا تھا اس قومی ترانے کے بول کچھ یوں تھے

اے سرزمین پاک

ذرے ہیں آج ستاروں سے تابناک

روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک

دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک

اے سرزمین پاک

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے قیام کے تقریباً ڈیڑھ برس بعد اور قائداعظم کی وفات کے فوراًبعد اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس قومی ترانے کو ترک کردیا جائے اس مقصد کے حصول کی خاطر( ایک نیا قومی ترانہ لکھوانے کے لئے) ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی یہ بات دسمبر 1948ء کی ہے ہماری تاریخ کی کتابیں اس بارے میں خاموش ہیں کہ آخر اس کا پس منظر کیا تھا؟ آخر پرانے قومی ترانے میں جو قائداعظم نے ازخود منظور کیا تھا کیا قباحت تھی جو اس کو ترک کرنے کی ضرورت پڑی اور اس کی جگہ ایک نئے قومی ترانے کی ضرورت محسوس کی گئی ؟

چلو اگر قائدکی کسی بات سے کوئی اختلاف کرتا ہے تو اس کی ٹھوس وجوہات بھی بیان کرنا ضروری ہیں !قومی ترانے کے حوالے سے یہ سوال اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے کیونکہ شاید اکثر قارئین کو’’اے سرزمین پاک‘‘ سمجھنازیادہ آسان لگے بہ نسبت حفیظ جالندھری کے ’’پاک سرزمین شادباد‘‘ کے جو حفیظ جالندھری کے ترانے کے الفاظ ہیں ‘جگن ناتھ آزاد عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا وہ اردو شاعری کرتا تھا راولپنڈی اور لاہور میں بھی رہا اور تقسیم ہند کے وقت بھارت چلاگیا پر اس نے اردو سے اپنا ناطہ نہ توڑا بھارت میں وہ جموں یونیورسٹی میں اردو زبان کا پروفیسر رہا اس نے اردو میں کئی کتابیں لکھیں اس نے بابری مسجد کی تباہی کے خلاف ایک نظم بھی لکھی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قائداعظم نے آخر کیوں ایک غیر مسلم کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کے لئے منتخب کیا؟جب جگن ناتھ آزاد سے پوچھا گیا تھا تو اس ضمن میں اس نے 11 اگست1947ء کو کی جانے والی قائداعظم کی اس تقریر کا حوالہ دیا کہ جس میں بانی پاکستان نے کہا تھا کہ ’’بھلے تمہارا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا ملک سے کیوں نہ ہو اس کا ریاست سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوگا‘‘

جو ں جوں وقت آگے بڑھتا جارہا ہے بہت سی چھپی ہوئی باتوں پر سے پردہ اٹھتا جارہا ہے کئی بھید آشکارا ہورہے ہیں نت نئے انکشافات ہورہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ غالباً یہ ہے کہ ہمارے اکثر تاریخ دانوں نے خصوصاً اورینٹل تاریخ دانوں نے بادشاہوں اور حکمرانوں کے کہنے پر ہی تاریخ لکھی اس لئے کئی حقائق منظر عام پر بروقت نہ آسکے بعض تاریخ دان ڈر اور خوف کے مارے سچی بات لکھنے سے کتراتے تھے کہ کہیں حاکم وقت ان سے ناراض نہ ہوجائے اور ان کو دو وقت کی روٹی پیدا کرنے سے بھی معذور نہ کردے ہمارے حکمران کتنے ظالم تھے کہ انہوں نے نصاب سے وہ چیزیں ہی حذف کروا دیں جو ان کے مخصوص سیاسی عزائم کی تکمیل کی راہ میں ان کی دانست میں روڑے اٹکاسکتی تھیں ہماری تاریخ یقینا مسخ شدہ ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک جگن ناتھ آزاد صاحب پر ہی کیا موقوف۔ ہماری تاریخ تو تمام تر جھوٹ اور ریا کاری کا پلندہ ہے۔ جس کا سلسلہ محمد بن قاسم اور محمود غزنوی سے شروع ہوتا ہے اور پھر کہیں نہیں تھمتا۔
 
Top