اے حمید کا ناول ڈربے

راشد اشرف

محفلین
ڈربے-ایک ناول، ایک بچپن کی یاد

سن 1960 میں شائع ہوئے اے حمید کے اس ناول "ڈربے" سے اوائل عمری کی چند حسین یادیں وابستہ ہیں۔ اسی کی دہائی میں جب میں اسکول میں پڑھتا تھا، ایک روز قریبی واقع لائبریری سے ڈربے نامی یہ ناول لے آیا۔ یہ لاہور سے شائع ہوا تھا اور ناول پر اس کا سن اشاعت 1960 درج ہے۔ اس وقت تک اے حمید سے ان کی معروف سیریز" موت کا تعاقب" کی وجہ سے خوب اچھی طرح متعارف ہوچکا تھا۔ موت کا تعاقب پرائمری جماعت میں پڑھی تھی۔

ڈربے پڑھنا شروع کیا تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا، کردار اپنے گرد چلتے پرھتے محسوس ہونے لگے۔ یہ ناول چھوٹے سائز میں ہے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ہم گھر کی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے تھے اور گھر کے ضروری کاموں میں ہاتھ بٹانے کے بجائے اس ناول میں کھوئے رہنے کی وجہ سے والد صاحب سے ڈانٹ بھی سننی پڑی تھی۔ ناول ختم ہوا اور میں بے اختیار لائبریری والے پاس پہنچ گیا:
" ڈربے نامی ناول جو آپ سے لے گیا تھا، وہ کہیں کھو گیا ہے" میں نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
خلاف توقع وہ غصہ نہ ہوا۔ کہنے لگا، تو پیسے رکھ دیجیے اس کے۔
"کتنے" ? میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
"تیرہ روپے"

آج ایک وقت میں ہزارہا روپوں کی کتابیں بلا جھجھک خرید لینے والے راقم الحروف کے لیے
تیرہ روپے اس وقت ایک خطیر رقم تھی۔ کسی نہ کسی طرح یہ رقم پوری کرکے اسے تھمائی اور تب سے یہ ناول میرے پاس ہے۔ بہت سال گزر گئے۔ والد صاحب ریٹائر ہوگئے اور پھر ایک روز انہوں نے میری کتابوں کے ذخیرے سے یہ ناول پڑھ ڈالا۔ اور ایسے متاثر ہوئے کہ اپنے ہاتھوں سے اس کی جلد بنائی اور ناول کا نام بھی لکھ دیا۔

سن 2003 میں والد صاحب کا انتقال ہوا اور مارچ 2007 میں، میں کراچی سے لاہور کسی کام سے گیا تو ناول بریف کیس میں رکھے اے حمید مرحوم سے ملاقات کو پہنچ گیا۔ خوب باتیں ہوئیں اور زیادہ تر ناول ہی کے بارے میں ہوئیں۔ اے حمید صاحب سے معلوم ہوا کہ ناول میں آرتسٹ بھائی کا کردار حقیقی ہے اور یہ ان کے چھوٹے بھائی تھے جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ اسی طرح چچا کا لازوال کردار دراصل ان کے ایک رشتے کے خالو کا تھا جو اس ناول کی اشاعت کے بعد اے حمید سے ناراض ہوگئے تھے۔

اے حمید صاحب کو والد صاحب کی پسندیدگی کے بارے میں بھی بتایا اور ان کے ہاتھ کے لکھے ناول کے نام کے بارے میں بھی ۔ ۔ ۔ ۔ اے حمید ناول میرے ہاتھ سے لے کر دلچسپی سے اسے دیکھتے رہے اور پھر اپنے دستخط کردیے:
"پیارے راشد اشرف کے لیے"

میں نے اے حمید سے کہا کہ مجھے اس کا ایک فالتو نسخہ درکار ہے، کہاں سے مل سکے گا۔ باوجود کوشش کے، ڈربے کا کوئی اضافی نسخہ کہیں سے نہ مل سکا۔ غالبا اسی کی دہائی میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تھا لیکن اب وہ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں بھی اس کا سراغ نہ مل سکا۔

کچھ عرصہ قبل خیال آیا کہ کیوں نہ تیزی سے خستگی کا شکار ہوتے اس ناول کو محفوظ کرلیا جائے اور احباب کے ذوق مطالعہ کے لیے بھی پیش کیا جائے۔
ناول کیا ہے، اے حمید نے تقسیم کے بعد کی یادوں کو اپنے دلنشیں انداز میں کیونکر سمیٹا ہے، اس کا فیصلہ قارئین پر۔ صرف اتنا عرض کروں کہ یہ ناول ابن انشاء کو بیحد پسند تھا۔
کل 382 صفحات پر مشتمل چھوٹے سائز میں شائع ہوئے اس ناول "ڈربے" کو اسکین کیا ہے۔ پانچ حصوں پر مشتمل پی ڈی ایف فائلز بنی ہیں۔ مختلف ادبی بیٹھکوں پر زیر نظر تعارف معہ باب اول اور ناول کی پیشکش کے شامل کیے جانے کے بعد درجنوں احباب نےپہلے آئیے، پہلے پائیے کی بنیاد پر ’اپنے آرڈر‘ بک کرائے ہیں۔

خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
 

قیصرانی

لائبریرین
ڈربے-ایک ناول، ایک بچپن کی یاد

سن 1960 میں شائع ہوئے اے حمید کے اس ناول "ڈربے" سے اوائل عمری کی چند حسین یادیں وابستہ ہیں۔ اسی کی دہائی میں جب میں اسکول میں پڑھتا تھا، ایک روز قریبی واقع لائبریری سے ڈربے نامی یہ ناول لے آیا۔ یہ لاہور سے شائع ہوا تھا اور ناول پر اس کا سن اشاعت 1960 درج ہے۔ اس وقت تک اے حمید سے ان کی معروف سیریز" موت کا تعاقب" کی وجہ سے خوب اچھی طرح متعارف ہوچکا تھا۔ موت کا تعاقب پرائمری جماعت میں پڑھی تھی۔

ڈربے پڑھنا شروع کیا تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا، کردار اپنے گرد چلتے پرھتے محسوس ہونے لگے۔ یہ ناول چھوٹے سائز میں ہے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ہم گھر کی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے تھے اور گھر کے ضروری کاموں میں ہاتھ بٹانے کے بجائے اس ناول میں کھوئے رہنے کی وجہ سے والد صاحب سے ڈانٹ بھی سننی پڑی تھی۔ ناول ختم ہوا اور میں بے اختیار لائبریری والے پاس پہنچ گیا:
" ڈربے نامی ناول جو آپ سے لے گیا تھا، وہ کہیں کھو گیا ہے" میں نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
خلاف توقع وہ غصہ نہ ہوا۔ کہنے لگا، تو پیسے رکھ دیجیے اس کے۔
"کتنے" ? میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
"تیرہ روپے"

آج ایک وقت میں ہزارہا روپوں کی کتابیں بلا جھجھک خرید لینے والے راقم الحروف کے لیے
تیرہ روپے اس وقت ایک خطیر رقم تھی۔ کسی نہ کسی طرح یہ رقم پوری کرکے اسے تھمائی اور تب سے یہ ناول میرے پاس ہے۔ بہت سال گزر گئے۔ والد صاحب ریٹائر ہوگئے اور پھر ایک روز انہوں نے میری کتابوں کے ذخیرے سے یہ ناول پڑھ ڈالا۔ اور ایسے متاثر ہوئے کہ اپنے ہاتھوں سے اس کی جلد بنائی اور ناول کا نام بھی لکھ دیا۔

سن 2003 میں والد صاحب کا انتقال ہوا اور مارچ 2007 میں، میں کراچی سے لاہور کسی کام سے گیا تو ناول بریف کیس میں رکھے اے حمید مرحوم سے ملاقات کو پہنچ گیا۔ خوب باتیں ہوئیں اور زیادہ تر ناول ہی کے بارے میں ہوئیں۔ اے حمید صاحب سے معلوم ہوا کہ ناول میں آرتسٹ بھائی کا کردار حقیقی ہے اور یہ ان کے چھوٹے بھائی تھے جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ اسی طرح چچا کا لازوال کردار دراصل ان کے ایک رشتے کے خالو کا تھا جو اس ناول کی اشاعت کے بعد اے حمید سے ناراض ہوگئے تھے۔

اے حمید صاحب کو والد صاحب کی پسندیدگی کے بارے میں بھی بتایا اور ان کے ہاتھ کے لکھے ناول کے نام کے بارے میں بھی ۔ ۔ ۔ ۔ اے حمید ناول میرے ہاتھ سے لے کر دلچسپی سے اسے دیکھتے رہے اور پھر اپنے دستخط کردیے:
"پیارے راشد اشرف کے لیے"

میں نے اے حمید سے کہا کہ مجھے اس کا ایک فالتو نسخہ درکار ہے، کہاں سے مل سکے گا۔ باوجود کوشش کے، ڈربے کا کوئی اضافی نسخہ کہیں سے نہ مل سکا۔ غالبا اسی کی دہائی میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تھا لیکن اب وہ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں بھی اس کا سراغ نہ مل سکا۔

کچھ عرصہ قبل خیال آیا کہ کیوں نہ تیزی سے خستگی کا شکار ہوتے اس ناول کو محفوظ کرلیا جائے اور احباب کے ذوق مطالعہ کے لیے بھی پیش کیا جائے۔
ناول کیا ہے، اے حمید نے تقسیم کے بعد کی یادوں کو اپنے دلنشیں انداز میں کیونکر سمیٹا ہے، اس کا فیصلہ قارئین پر۔ صرف اتنا عرض کروں کہ یہ ناول ابن انشاء کو بیحد پسند تھا۔
کل 382 صفحات پر مشتمل چھوٹے سائز میں شائع ہوئے اس ناول "ڈربے" کو اسکین کیا ہے۔ پانچ حصوں پر مشتمل پی ڈی ایف فائلز بنی ہیں۔ مختلف ادبی بیٹھکوں پر زیر نظر تعارف معہ باب اول اور ناول کی پیشکش کے شامل کیے جانے کے بعد درجنوں احباب نےپہلے آئیے، پہلے پائیے کی بنیاد پر ’اپنے آرڈر‘ بک کرائے ہیں۔

خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
میں بھی فہرست میں کہیں موجود ہوں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا ان کی فیملیز میں کوئی اوتھورائز نہیں کر سکتا بھیا؟
پاکستان میں اس طرح سے ہوتا ہے کہ عام طور پر مصنف کو کچھ رقم دے کر کتاب کے سارے حقوق ناشرین یعنی پبلشرز اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ جب مصنف یا انتقال ہو تو اس کے پچاس برس بعد جا کر ہم اس کتاب پر کام کر سکتے ہیں۔ تاہم اس بارے فاتح بھائی ناشرین کے سلسلہ ہائے ۔۔۔ پر درست روشنی ڈال سکتے ہیں :daydreaming:
 

راشد اشرف

محفلین
پاکستان میں اس طرح سے ہوتا ہے کہ عام طور پر مصنف کو کچھ رقم دے کر کتاب کے سارے حقوق ناشرین یعنی پبلشرز اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ جب مصنف یا انتقال ہو تو اس کے پچاس برس بعد جا کر ہم اس کتاب پر کام کر سکتے ہیں۔ تاہم اس بارے فاتح بھائی ناشرین کے سلسلہ ہائے ۔۔۔ پر درست روشنی ڈال سکتے ہیں :daydreaming:
مجھے اے حمید مرحوم سے فون پر ہوئی گفتگو یاد آگئی۔ 2009 کی بات ہے، ایک صاحب انہیں اپنی ویب سائٹ پر ان کے چند ناولز شامل کرنے کا معاوضہ 8ہزار روپے دے گئے تھے اور وہ اس بات پر اس قدر خوش اور حیران تھے کہ بار بار بچوں کے سے لہجے میں کہ رہے تھے:
یار ایسے لوگ بھی ہیں دنیا میں
پھر یہی بات انہوں نے امریکہ میں مقیم اپنے دوست اکمل علیمی سے بھی کہی جو اکمل صاحب نے مجھے ان کی وفات کے بعد بتائی۔ اکمل علیمی وہی ہیں جن کا ذکر امریکانو میں موجود ہے۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ آخری وقت میں ان کے پاس بجلی کے بل کی ادائیگی کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے اور وہ لاہور کی گرمی میں اپنے کمرے میں بنا اے سی پڑے رہتے تھے، پیسوں کے لیے انہیں مسلسل لکھنا پڑتا تھا۔ اور سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ نوائے وقت والے انہیں "بارش اور خوشبو" نامی معروف کالم کے صرف تین سو روپے دیا کرتے تھے جبکہ اس وقت حمید اختر کو کالم کا معاوضہ آٹھ ہزار فی کالم کے حساب سے ایکسپریس اخبار سے ملتا تھا۔ یہ صرف ان کی وضع داری تھی کہ نوائے وقت چھوڑ کر ایکسپریس میں نہیں گئے جبکہ اس کے لیے انہیں حمید اختر راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔

ایک اور بات سن لیجیے:
ان کی بیحد دلچسپ کتاب "امرتسر کی یادیں" جس کی تلاش میں، میں دس برس سے تھا، بلاآخر ایسے ملی کہ دفتر کے ایک صاحب لاہور جارہے تھے، انہیں کہا کہ اے حمید صاحب سے ملاقات کریں اور ان کے نسخے سے اس کی ایک نقل بنوائیں۔ یہ کام بہ احسن طریق ہوا اور یوں مجھے وہ کتاب ملی تھی۔ جو ہدیہ میں نے ان صاحب کے ہاتھ بھجوایا تھا، وہ اے حمید صاحب نے اگلے (میری درخواست پر انہوں نے کتاب ان صاحب کو ایک روز کے لیے مستعار دے دی تھی) روز ان صاحب کو شکریے کے ساتھ واپس کردیا جبکہ یہ وہ وقت تھا جب ان کو پیسوں کی بہت ضرورت رہتی تھی۔

اب خیال آرہا ہے کہ ڈربے کو یونی کوڈ میں پیش کرنے کی بات ان کی زندگی میں ہوتی اور ہم انہیں اس کا معاوضہ پیش کرتے۔

اے حمید کے اہل خانہ میں ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ سے مستقل رابطہ تھا، ان کے بیٹے سے بات ہوتی تھی لیکن افسوس کہ دونوں کے نمبرز ضائع ہوگئے۔ ان کے بیٹے نے ان لمحات کی تفصیل فون پر بتائی تھی جب اے حمید آئی سی یو میں ایک ماہ سے تھے اور ادھر ان کے بیٹے کی تین ماہ کی تنخواہ ان کے دفتر والوں روک رکھی تھی۔

ادیب اور شاعر کا انجام یہ ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں لیکن یہاں ’’بارہویں کھلاڑی‘‘ ایسے درباری ادیبوں اور شاعروں کی بات نہیں ہے صاحب۔۔۔۔!
راشد اشرف بھائی! بہت خوب تعارف ہے ایک شاہکار ناول کا۔ کیا ہمارا نام بھی آرڈر لسٹ میں شامل کیا جاسکتا ہے؟:cool:
آپ کو ان باکس میں پیغام بھیجا ہے جناب
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے اے حمید مرحوم سے فون پر ہوئی گفتگو یاد آگئی۔ 2009 کی بات ہے، ایک صاحب انہیں اپنی ویب سائٹ پر ان کے چند ناولز شامل کرنے کا معاوضہ 8ہزار روپے دے گئے تھے اور وہ اس بات پر اس قدر خوش اور حیران تھے کہ بار بار بچوں کے سے لہجے میں کہ رہے تھے:
یار ایسے لوگ بھی ہیں دنیا میں
پھر یہی بات انہوں نے امریکہ میں مقیم اپنے دوست اکمل علیمی سے بھی کہی جو اکمل صاحب نے مجھے ان کی وفات کے بعد بتائی۔ اکمل علیمی وہی ہیں جن کا ذکر امریکانو میں موجود ہے۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ آخری وقت میں ان کے پاس بجلی کے بل کی ادائیگی کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے اور وہ لاہور کی گرمی میں اپنے کمرے میں بنا اے سی پڑے رہتے تھے، پیسوں کے لیے انہیں مسلسل لکھنا پڑتا تھا۔ اور سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ نوائے وقت والے انہیں "بارش اور خوشبو" نامی معروف کالم کے صرف تین سو روپے دیا کرتے تھے جبکہ اس وقت حمید اختر کو کالم کا معاوضہ آٹھ ہزار فی کالم کے حساب سے ایکسپریس اخبار سے ملتا تھا۔ یہ صرف ان کی وضع داری تھی کہ نوائے وقت چھوڑ کر ایکسپریس میں نہیں گئے جبکہ اس کے لیے انہیں حمید اختر راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔

ایک اور بات سن لیجیے:
ان کی بیحد دلچسپ کتاب "امرتسر کی یادیں" جس کی تلاش میں، میں دس برس سے تھا، بلاآخر ایسے ملی کہ دفتر کے ایک صاحب لاہور جارہے تھے، انہیں کہا کہ اے حمید صاحب سے ملاقات کریں اور ان کے نسخے سے اس کی ایک نقل بنوائیں۔ یہ کام بہ احسن طریق ہوا اور یوں مجھے وہ کتاب ملی تھی۔ جو ہدیہ میں نے ان صاحب کے ہاتھ بھجوایا تھا، وہ اے حمید صاحب نے اگلے (میری درخواست پر انہوں نے کتاب ان صاحب کو ایک روز کے لیے مستعار دے دی تھی) روز ان صاحب کو شکریے کے ساتھ واپس کردیا جبکہ یہ وہ وقت تھا جب ان کو پیسوں کی بہت ضرورت رہتی تھی۔

اب خیال آرہا ہے کہ ڈربے کو یونی کوڈ میں پیش کرنے کی بات ان کی زندگی میں ہوتی اور ہم انہیں اس کا معاوضہ پیش کرتے۔

اے حمید کے اہل خانہ میں ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ سے مستقل رابطہ تھا، ان کے بیٹے سے بات ہوتی تھی لیکن افسوس کہ دونوں کے نمبرز ضائع ہوگئے۔ ان کے بیٹے نے ان لمحات کی تفصیل فون پر بتائی تھی جب اے حمید آئی سی یو میں ایک ماہ سے تھے اور ادھر ان کے بیٹے کی تین ماہ کی تنخواہ ان کے دفتر والوں روک رکھی تھی۔

ادیب اور شاعر کا انجام یہ ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں لیکن یہاں ’’بارہویں کھلاڑی‘‘ ایسے درباری ادیبوں اور شاعروں کی بات نہیں ہے صاحب۔۔۔ ۔!

آپ کو ان باکس میں پیغام بھیجا ہے جناب
انا للہ و انا الیہ راجعون :(
 

الف عین

لائبریرین
مقدس بیٹا لائبریری میں موجود کتابوں کو پہلے ٹھکانے سے لگانے کا کام کرو، اس کے بعد نئی کتاب کی ٹائپنگ کا سوچنا۔ محفل کی ختم ہو جائیں تو میری لائبریری کی بارہ سو کتابیں بھی تو ہیں!!!
 

راشد اشرف

محفلین
محترم اس کتاب کے کاپی رائٹ پر کچھ روشنی ڈالیئے :)

ڈربے کی اشاعتی تفصیل یہ ہے:


تاریخ اشاعت: نومبر 1960
ناشر و طابع: ظفر علی چودھری
مکتبہ اردو، لاہور
مطبع: استقلال پریس، لاہور
یہ ناول اسی کی دہائی میں مقبول اکیڈمی، لاہور نے دوبارہ شائع کیا تھا۔
چند روز قبل اردو کتابوں کو اسکین کرنے اور انٹرنیٹ پر شامل کرنے کے تعلق سے کسی صاحب نے ایک "تنبیہہ" ارسال کی، عنوان ہے:
ذرا غور کیجیے
کیا آپ پاکستانی ہیں-کیا آپ مسلمان ہیں
اسے فوٹو بکیٹ پر شامل کیا ہے:
http://s723.beta.photobucket.com/us...g.html?&_suid=1353564937910028339826151363856
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت شکریہ، جناب۔
آپ نےاز راہ عنایت یہ ناول مجھے گذشتہ سال ذاتی طور پر ارسال کیا تھا۔ او راسے میں شروع سے آخر تک پڑھ چکا ہوں۔
میں نے ش فرخ کی خود نوشت ' جینے کا جرم' کے بارے میں گزارش کی تھی۔
 
Top