ایک کتاب کی تلاش۔۔۔۔"فنِ خطابت"

پاکستان میں مصنف کی وفات کے پچاس سال بعد اس کی کتابیں کاپی رائٹس سے آزاد ہوتی ہیں، آغا شورش کاشمیری 1975ء میں فوت ہوئے تھے سو 2025ء میں ہونگی اگر تب تک قانون بدل نہ گیا تو۔ :)
کیا یہ اس صورت میں بھی ہوتا ہے، اگر جملہ حقوق کسی ادارے کے پاس ہوں، اور وہ بلا تعطل کتابیں چھاپ رہا ہو؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا یہ اس صورت میں بھی ہوتا ہے، اگر جملہ حقوق کسی ادارے کے پاس ہوں، اور وہ بلا تعطل کتابیں چھاپ رہا ہو؟
جی کسی کے بھی پاس ہوں، کاپی رائٹس آزاد ہو جاتے ہیں۔ ہاں اگر کسی پبلشر نے کوئی خاص کمپوزنگ کی ہے، یا اس پر کچھ حواشی لگائے ہیں یا کوئی خاص مقدمے وغیرہ لکھوائے ہیں تو ان کے کاپی رائٹس جس کے نام ہوں اس کے پاس ہی رہتے ہیں، گویا کہہ سکتے ہیں کہ اصل مصنف کا متن آزاد ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اقبال کی ہر کتاب کی شرح لکھی تھی اور وہ جب 1988ء سے پہلے چھپی تھیں تو ان میں کلام اقبال کا متن شامل نہیں تھا کیونکہ متن کے رائٹس غلام علی سنز کے پاس تھے لیکن اقبال کا متن جب 1988ء میں فری ہوا تو غلام علی سنز کے ساتھ ساتھ ہر کسی نے اقبال کا کلام چھاپا۔
 

شاہد شاہ

محفلین
پاکستان میں مصنف کی وفات کے پچاس سال بعد اس کی کتابیں کاپی رائٹس سے آزاد ہوتی ہیں، آغا شورش کاشمیری 1975ء میں فوت ہوئے تھے سو 2025ء میں ہونگی اگر تب تک قانون بدل نہ گیا تو۔ :)
اس دھاگے میں کاپی رائٹس کی باتیں ایسی سنجیدگی سے ہو رہی ہیں جیسے پاکستان کاپی رائٹس محفوظ کرنے میں عالمی چیمپئن ہو
 
Top