ایک کاوش،''ستم کو دیکھ کے جو چھپ گئے ہو، چپ رہے ہو تم '' اصلاح کے لئے

ستم کو دیکھ کے جو چھپ گئے ہو، چپ رہے ہو تم
سنو یہ بزدلی ہے جس طرح سے سہہ رہے ہو تم

ہزاروں مان لو کے ہیں نجس، پر یہ سمندر ہے
کروڑوں ہو کے بھی تو، گندگی میں بہہ رہے ہو تم

ہوا کے راستوں کو کھوجنا مشکل نہیں اتنا
سڑی بدبو کو سہتے ہو، بری بس، کہہ رہے ہو تم

یہاں پر گھپ اندھیرا کیوں، کوئی تارہ نہیں دکھتا
افق کی کہکشاؤں کا، چمکتا مہہ رہے ہو تم

یہی ہو گا اگر تم اپنی قسمت خود نہ بدلو گے
بنو انساں ، کہ مینڈک ہو، کنویں میں رہ رہے ہو تم

زمیں کی طاقتیں دشمن بنی ہیں، دیکھ لے اظہر
اسی دنیا کی پھیلی وسعتوں کے شہہ رہے ہو تم​


اساتذہ کرام،
کبھی کبھی نظم لکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر غزل کی صورت اختیار کر لیتی ہے، کیا اس حالت میں اسے اک نام دے کے نظم کہا جا سکتا ہے؟
دعا گو
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
تفصیل سے بعد میں دیکھوں گا، فی الحال قوافی ہر غور کرو۔ ’چپ‘ بِہہ، رِہ وغیرہ کا قافیہ کس طرح ہو سکتا ہے۔
اسی طرح مہ اور شہ غلط قوافی ہیں، کہ ان کے تلفظ میں کسرہ نہیں (زیر نہیں)، زبر ہے، مَہ، شَہ۔ ان کو زیر والے قوافی کے ساتھ ملایا نہیں جاتا۔
 
ستم کو دیکھ کے جو چھپ گئے ہو، سہہ رہے ہو تم
سنو یہ بزدلی ہے جس طرح سے رہ رہے ہو تم

ہزاروں، مان لو کے ہیں نجس، پر یہ سمندر ہے
کروڑوں ہو کے بھی تو، گندگی میں بہہ رہے ہو تم

ہوا کے راستوں کو کھوجنا مشکل نہیں اتنا
سڑی بدبو کو سہتے ہو، بری بس، کہہ رہے ہو تم

غلامی کو سمجھ بیٹھے ہو قسمت ہار مانی ہے
افق تک سلطنت پھیلی تھی جس کا مِِہہ رہے ہو تُم

نہیں ثانی کوئی بھی تھا، ذہانت گھر کی لونڈی تھی
بنی نوع تھی سطح پر ہی، ذہن کی تہہ رہے ہو تم

زمیں کی طاقتیں دشمن بنی ہیں، دیکھ لے اظہر
زمیں کی بادشاہت کا انوکھا گہہ رہے ہو تُم​


مِہہ : بڑا، بزرگ، سردار
گہہ : سماں، وقت، جگہ

اب دیکھیے تو جناب اُستاد
 

الف عین

لائبریرین
وضاحت درست سہی، لیکن مہ سے عام طور پر ماہ کا ہی خیال آتا ہے، جس کو شاعری میں مہ بھی کر لیا جاتا ہے۔ جب تک شاعر وضاحت نہ کرے، کوئی بھی اس کو مِہ نہیں پڑھے گا۔ یہی حال شَہ کا ہے، اس کو بھی گِہ تو بنا دیا ہے، لیکن اس کا بھی محل کیا ہے، ’تم‘ کس طرح ’گہ رہے ہو‘ سمجھ میں نہیں آیا۔
 
ستم کو دیکھ کے جو چھپ گئے ہو، سہ رہے ہو تم
سنو یہ بزدلی ہے جس طرح سے رہ رہے ہو تم

ہزاروں، مان لو کے ہیں نجس، پر یہ سمندر ہے
کروڑوں ہو کے بھی تو، گندگی میں بہہ رہے ہو تم

ہوا کے راستوں کو کھوجنا مشکل نہیں اتنا
سڑی بدبو کو سہتے ہو، بری بس، کہہ رہے ہو تم

نہیں ثانی کوئی بھی تھا، ذہانت گھر کی لونڈی تھی
سبھی قومیں سطح پر تھیں، ذہن کی تہ رہے ہو تم

زمیں کی طاقتیں دشمن بنی ہیں، دیکھ لے اظہر
زمیں کے بادشاہ ہو کر بھی یہ سب سہ رہے ہو تم​


اُستاد محترم،
اب دیکھیے تو کچھ قابل قبول ہوئی
 

الف عین

لائبریرین
ستم کو دیکھ کے جو چھپ گئے ہو، سہ رہے ہو تم
سنو یہ بزدلی ہے جس طرح سے رہ رہے ہو تم
///پہلے مصرع میں بہتری کی گنجائش ہے، صیغہ بھی ایک جگہ ماضی قریب کا ہے، دوسری جگہ حال کا!! یوں کہا جا سکتا ہے:
ستم پر پھر ستم ہیں، اور چپ چپ سہہ رہے ہو تم

ہزاروں، مان لو کے ہیں نجس، پر یہ سمندر ہے
کروڑوں ہو کے بھی تو، گندگی میں بہہ رہے ہو تم
///شعر معنی خیز نہیں۔

ہوا کے راستوں کو کھوجنا مشکل نہیں اتنا
سڑی بدبو کو سہتے ہو، بری بس، کہہ رہے ہو تم
۔/// پہلا مصرع زبر دست ہے، لیکن دوسرے مصرع میں روانی مار کھا گئی ہے۔ کچھ اور سوچو۔

نہیں ثانی کوئی بھی تھا، ذہانت گھر کی لونڈی تھی
سبھی قومیں سطح پر تھیں، ذہن کی تہ رہے ہو تم
/// ذہن میں ’ہ‘ ساکن ہے، متحرک نہیں، اور اگر درست بھی ہوتا تو اس کی تہہ کیا معنی؟

زمیں کی طاقتیں دشمن بنی ہیں، دیکھ لے اظہر
زمیں کے بادشاہ ہو کر بھی یہ سب سہ رہے ہو تم
//درست، بس بادشاہ کو ’باد شہ‘ کر دو
 
ستم کو دیکھ کے جو چھپ گئے ہو، سہ رہے ہو تم
ستم پر پھر ستم ہیں، اور چپ چپ سہہ رہے ہو تم

ہزاروں، مان لوں بھی ہیں نجس، پر یہ سمندر ہے
کروڑوں ہو کے بھی تو، گندگی میں بہہ رہے ہو تم

ہوا کے راستوں کو کھوجنا مشکل نہیں اتنا
گھٹے ماحول میں رہ کر برا بس کہہ رہے ہو تم

نہیں ثانی کوئی بھی تھا، ذہانت گھر کی لونڈی تھی
سبھی قومیں سطح پر تھیں، علم کی تہ رہے ہو تم

زمیں کی طاقتیں دشمن بنی ہیں، دیکھ لے اظہر
زمیں کے بادشہ ہو کر بھی یہ سب سہ رہے ہو تم​

جی محترم استاد
اب دیکھیے تو ذرا
 
Top