مصطفیٰ زیدی ایک نوحہ

غزل قاضی

محفلین
ایک نوحہ

ایک تاریک ستارہ ہے اُفق پر غلطاں
اک الم ناک خموشی ہے پسِ پردہ ء ساز

یہ اندھیرے میں کِسے شوقِ پزیرائی ہے
یہ خلاؤں میں کِسے ڈھونڈھ رہی ہے آواز

مرہمِ لُطف و وفا تجھ کو کہاں آئے زخم
ہم سفر تجھ کو کہاں لے گئی تیری پرواز

زندگی نغمہ و آہنگ تھی تیرے دم سے
موت نے چھین لیا کیسے تِرے ہات سے ساز

کِن چٹانوں سے کروں سنگ دلی کا شِکوہ
اَے فضاؤں کے سُخن فہم ، صبا کے ھمراز

آگ کِس طرح ترے جِسم کے نزدیک آئی
کیسے پٹرول کے شُعلوں سے دبا شعلہء ساز

کون سے دشت میں لی آخری ہچکی تُو نے
کِس دھماکے سے نگُوں ہو گئی تیری آواز

کیوں دُعائیں نہ بنیں تیری نگہباں اُس وقت
کیوں نہ کام آئی مِرے چاکِ گریباں کی نماز

میرے محبُوب گلے مِل کے لپٹ کر مِل جا
میرے بھائی تِرے مِلنے کے ہزاروں انداز

مصطفیٰ زیدی

( قبائے سَاز )
 
Top