ایک نظم ۔ ۔ ۔

دفتر کے دروازے پر لکڑی کا اِک تختہ نصب ہے برسوں سے
اُس عمر رسیدہ تختے کا کوئی نام بھی ہو گا
عُرفِ عام میں اُس کو ہم سب چوکیدار ہی کہتے ہیں
موٹے میلے کالے کپڑوں کا وہ قیدی
کُھلی فضا کا زندانی
دو عیدوں پر کچھ نہ کچھ ہم حاتم طائی لوگوں سے وہ پا لیتا ہے
کمر ہلالی رنگت کالی بجھتی آنکھیں ہر موسم میں ایک جگہ پر ایسے جیسے کھمبا کوئی
ایسے ہی بس جانے کیونکرشرمانے کی ایکٹنگ کر کے
پرسوں اُس سے تیس روپے مانگے تھے میں نے
""بابا کل تنخواہ آتے ہی دے دُوں گا""
پل بھر کو تو ٹھٹکا تھا وہ
لیکن"" صاحب ""سنجیدہ تھا
دوسرے لمحے کمر ہلالی یوں سیدھی تھی جیسے سولہ سال کا کوئی لڑکا ہو
بجھتی آنکھیں ایسے چمکیں جیسے کوہ نُور کی جوڑی
بغلی جیب سے پولی تھین کی تھیلی اُس نے ایسے کھولی جیسے وہ زنبیل ہو کوئی
دس کا ایک اور بیس کے دو نوٹوں کو اُس نے شان سے کھینچا
صاحب رکھ لو بیس ہیں اُوپر
تیس کا کھاتہ کیا کھاتہ ہے
تنخواہ والے دِن بھی میں نے کوئی بہانہ کر کے اُس کو ٹال دیا تھا
سچ پوچھو تو جب سے میں اُس تختے کا مقروض ہوا ہوں
دفتر کے دروازے پراب لکڑی کا کوئی تختہ نہیں ہے
جیتا جاگتا ہنستا کھیلتا انساں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
 

الف عین

لائبریرین
خوب۔نظم میں اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بشرطیکہ عروض کی پابند بھی ہو اور اس میں غلطی نہ ہو
 
Top