ایک نظر ادھر بھی

غزل اصلاح کی منتظر

گردشِ ماہ و سال رکھتے ہیں
وہ قیامت کی چال رکھتے ہیں

عمر کے اس زریں کلینڈر میں
اک محبت کا سال رکھتے ہیں

دور رہ کر بھی اُس سے لہروں پر
سلسلوں کو بحال رکھتے ہیں

اک حسیں یاد کے تصور سے
شاخ دل کو نہال رکھتے ہیں

ہم ستاروں کی روشنی دے کر
عشق کو لازوال رکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
وہاب۔ یہ میں نے آفس کے پی سی پر محفوظ کیا تھا اور اپنی فلیش ڈرائیو میں گھر لے جانا بھول گیا، اور پھر خیال ہی نہیں رہا۔ ویک اینڈ کے بعد کل یاد آئی تو یہ پہلا کام کیا کہ یہ غزل کاپی کر لی، کچھ رات کو اس ہر وقت صرف کیا، کچھ ابھی۔ ویسے ایک شعر سے میں اب بھی مطمئن نہیں، زرّیں ہو یا حسیں ہو، مطمئن نہیں کر رہا، تم بھی کوئ متبادل لفظ تلاش کرو، میں بھی ذہن میں رکھتا ہوں۔
گردشِ ماہ و سال رکھتے ہیں
وہ قیامت کی چال رکھتے ہیں

کیا قیامت کی چال کیسا رہے گا؟

عمر کے اس زریں کلینڈر میں
اک محبت کا سال رکھتے ہیں

بحر میں تو یوں آ سکتا ہے
عمر کے اس حسیں کلینڈر میں

دور رہ کر بھی اُس سے لہروں پر
سلسلوں کو بحال رکھتے ہیں

بہت خوب، اصلاح غیر ضروری


اک حسیں یاد کے تصور سے
شاخ دل کو نہال رکھتے ہیں

دوسرا مصرعہ بہت عمدہ ہے، اصلاح غیر ضروری

ہم ستاروں کی روشنی دے کر
عشق کو لازوال رکھتے ہیں
خیال میں نزاکت نہیں۔ ستاروں کی روشنی دینا چہ معنی دارد؟ لازوال رکھنے کے لئے خون بھلے ہی دیا جا سکتا ہے:
ہر رگِ جاں کا خون دے کر ہم
عشق کو لازوال رکھتے ہیں
یہ کیسا رہے گا؟
 
Top