ایک نئی کاوش برائے اصلاح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!

شیرازخان

محفلین
آپ ہی کی سب یہاں نظرِکرم سے مر رہے ہیں
کچھ ڈرونوں کے بموں سے کچھ شرم سے مر رہے ہیں

ہم کو ہر اوزار سے اب وہ نسل کش مارتا ہے
بھوک ، بم ، بندوق ، دہشت اور قلم سے مر رہے ہیں

بے حِسی کیسی ہے یارا، ہے یہ لا علمی کہاں کی
لوگ ہیں مظلوم سارے جو قسم سے مر رہے ہیں

آخری تُو خواہش کر دے مارنے والے یہ پوری
ہم کو بس اتنا بتا دے کس جُرم سے مر رہے ہیں

کیا تماشے کی بتائیں کھیل کرکٹ کا جو ہارے
اس طرف دیکھو سبھی اس کے ہی غم سے مر رہے ہیں

غیر کے سینے میں کب تھا وہ جو گردہ اس کو چاہیے
ہم کو اپنوں نے دیا ہے جس زخم سے مر رہے ہیں

صرف آگے کی طرف ہی اب قدم ہے بس اٹھانا
ہم تو پیچھے کو اٹھائے ہر قدم سے مر رہے ہیں

ہے یہ قیامت کی نشانی غور تم شیرازؔ کرنا
آدمی اچھے بھلے اب ایک دَم سے مر رہے ہیں

الف عین محمد اسامہ سَرسَری مہدی نقوی حجاب محمد یعقوب آسی مزمل شیخ بسمل@ رحیم ساگر بلوچ@ محمدعلم اللہ اصلاحی@م حمد اظہر نذیر @
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ کے اشعار پر کچھ گزارشات میری ہیں، امید کرتا ہوں مداخلت بے جا کا برا نہیں مانیں گے اور اگر میں کچھ غلط لکھ جاؤں تو یہاں میری تصحیح کے لیے اساتذہ موجود ہیں۔۔
آپ ہی کی سب یہاں نظرِکرم سے مر رہے ہیں
کچھ ڈرونوں کے بموں سے کچھ شرم سے مر رہے ہیں
÷÷÷ جدید مسئلے پر آپ نے شعر کہا ، لیکن لفظ شرم میں ش کے بعد ر اور م ساکن ہیں ۔۔۔ اقبال: کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے ۔۔۔ تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے ۔۔۔غالب: کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب، شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔۔۔ کرم کے ساتھ شرم کا قافیہ نہیں بنتا۔۔۔ مصرع اولیٰ بھی توجہ چاہتا ہے، یہاں کا لفظ جہاں استعمال ہوا، اس نے مصرعے کو کچا کردیا ہے۔۔۔
ہم کو ہر اوزار سے اب وہ نسل کش مارتا ہے
بھوک ، بم ، بندوق ، دہشت اور قلم سے مر رہے ہیں
۔۔۔۔نسل کا معاملہ بھی شرم کی طرح ہے، آپ نے س پر زبر سمجھا ہے جو غلط ہے ۔۔۔ دوسرے مصرعے میں قلم سے مرنا سمجھ میں نہیں آتا۔۔
بے حِسی کیسی ہے یارا، ہے یہ لا علمی کہاں کی
لوگ ہیں مظلوم سارے جو قسم سے مر رہے ہیں
۔۔۔ پہلے مصرعے میں یارا کا استعمال نہیں بھایا، یارو کرسکتے تھے، پھر بھی کچا سا ہے ۔۔۔ دوسرے مصرعے میں قسم کا قافیہ برسبیل تذکرہ استعمال کردیا گیا، اس کا کوئی خاص تاثر نہیں بن پایا۔
آخری تُو خواہش کر دے مارنے والے یہ پوری
ہم کو بس اتنا بتا دے کس جُرم سے مر رہے ہیں
۔۔۔۔۔ پہلا مصرع وزن سے گرا ہوا لگتا ہے ، شاید "آخری خواہش تو کردے "کرنے سے بات بنے ، مگر "کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے" کی مثال لگے گی، مضمون مجھے ذاتی طور پر اچھا لگ رہا ہے لیکن الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے۔۔۔ دوسرے مصرعے میں جرم کے ج پر پیش ہے یہ تو درست لیکن ر اور م یہاں بھی ساکن ہیں ، قافیہ غلط ہے ۔۔
کیا تماشے کی بتائیں کھیل کرکٹ کا جو ہارے
اس طرف دیکھو سبھی اس کے ہی غم سے مر رہے ہیں
۔۔۔ غزل میں یہ مضمون لانا ہی تھا تو اشارے کنائے سے لا سکتے تھے، خیر جدید غزل میں تو کچھ بھی لکھ سکتے ہیں، لیکن لکھنے والا چاہئے۔ پہلے مصرعے کے بیا ن کو آپ بالکل بے جوڑکہہ سکتے ہیں، بات سلیقے سے بیان نہیں ہوسکی۔۔۔ دوسرے مصرعے میں "اس طرف دیکھو" بھی سمجھ میں نہیں آتا، لیکن اس کو "جس طرف دیکھو" کرکے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔۔۔
غیر کے سینے میں کب تھا وہ جو گردہ اس کو چاہیے
ہم کو اپنوں نے دیا ہے جس زخم سے مر رہے ہیں
۔۔۔ پہلا مصرع وزن سے گر گیا ہے اور دوسرے میں وہی زخم کے قافیے کا مسئلہ ہے، تلفظ غلط ہے۔۔۔ ۔
صرف آگے کی طرف ہی اب قدم ہے بس اٹھانا
ہم تو پیچھے کو اٹھائے ہر قدم سے مر رہے ہیں
۔۔۔ پہلا مصرع بہتر کرلیں تو شاید دوسرا اس کا کچھ ساتھ دے،
ہے یہ قیامت کی نشانی غور تم شیرازؔ کرنا
آدمی اچھے بھلے اب ایک دَم سے مر رہے ہیں
۔۔۔ پہلا مصرع، "یہ" کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔۔ مقطعے میں زیادہ جان نہیں، لیکن آپ رکھنا ہی چاہیں تو غلط نہیں کہا جاسکتا۔۔۔
الف عین@ محمد اسامہ سَرسَریمہدی نقوی حجازمحمد یعقوب آسی@ مزمل شیخ بسمل@ رحیم ساگر بلوچ@ محمدعلم اللہ اصلاحی@م حمد اظہر نذیر @
 

شیرازخان

محفلین
آپ کے اشعار پر کچھ گزارشات میری ہیں، امید کرتا ہوں مداخلت بے جا کا برا نہیں مانیں گے اور اگر میں کچھ غلط لکھ جاؤں تو یہاں میری تصحیح کے لیے اساتذہ موجود ہیں۔۔
کیا بات ہے جناب بہت اعلی۔۔۔۔۔۔میں تو ھس کا مجموعی تاثر ہی کھو بیتھا تھا۔۔۔۔بعد میں جامع جواب لکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔!!!
 

شیرازخان

محفلین
آپ کے اشعار پر کچھ گزارشات میری ہیں، امید کرتا ہوں مداخلت بے جا کا برا نہیں مانیں گے اور اگر میں کچھ غلط لکھ جاؤں تو یہاں میری تصحیح کے لیے اساتذہ موجود ہیں۔۔

جناب شاہد شاہنواز صاحب سب سے پہلے تو اآپکی اصلاح کا بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔دراصل یہ غزل بحر رمل کے مزاج کی تھی ہی نہیں میں نے اسکو اس میں زبردستی ڈھالا۔۔۔۔دوسرا گر اس کا مطلع اور قوافی ہی درست نہیں تو محنت کرنے کا فائدہ نہیں۔۔۔شاید اس میں مری جلد بازی کا بھی ہاتھ ہے۔۔۔۔لفظ " شرم اور جرم" کی کلی مجھ پر پہلی بار کھلی ہے۔۔۔۔۔اگر اس غزل کو میں کسی دوسری بحر اور خاطر خواہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو سکا تو دوبارہ اآپ کو زحمت دون گا۔۔۔۔نوازش۔۔۔۔!!!!
 

الف عین

لائبریرین
آپ ہی کی سب یہاں نظرِکرم سے مر رہے ہیں
کچھ ڈرونوں کے بموں سے کچھ شرم سے مر رہے ہیں
//نذرِ کرم تقطیع ہو رہا ہے۔ نَ ۔ظَ۔ رِ آنا چاہئے۔

ہم کو ہر اوزار سے اب وہ نسل کش مارتا ہے
بھوک ، بم ، بندوق ، دہشت اور قلم سے مر رہے ہیں
//نسل کا تلفظ غلط ہے، قلم سے کس طرح موت ہوتی ہے۔
بے حِسی کیسی ہے یارا، ہے یہ لا علمی کہاں کی
لوگ ہیں مظلوم سارے جو قسم سے مر رہے ہیں
//بے ربط شعر ہے؟

آخری تُو خواہش کر دے مارنے والے یہ پوری
ہم کو بس اتنا بتا دے کس جُرم سے مر رہے ہیں
//خواہش کا تلفظ بھی غلط ہے۔ جرم کے علاوہ۔

کیا تماشے کی بتائیں کھیل کرکٹ کا جو ہارے
اس طرف دیکھو سبھی اس کے ہی غم سے مر رہے ہیں
//پہلا مصرع روان بنایا ا سکتا ہے، جیسے
کیا تماشا ہے یہ، ہارے ایک کرکٹ میچ جو ہم

غیر کے سینے میں کب تھا وہ جو گردہ اس کو چاہیے
ہم کو اپنوں نے دیا ہے جس زخم سے مر رہے ہیں
//شعر دو لخت ہی نہیں، پہلا مصرع وزن سے بھی خارج ہے۔

صرف آگے کی طرف ہی اب قدم ہے بس اٹھانا
ہم تو پیچھے کو اٹھائے ہر قدم سے مر رہے ہیں
//قدم سے مرنا؟ اگر مان بھی لیں تو پہلا مصرع زیادہ رواں یوں ہو سکتا ہے
اب تو بس آگے ہی بڑھنے میں ہماری خیر ہے

ہے یہ قیامت کی نشانی غور تم شیرازؔ کرنا
آدمی اچھے بھلے اب ایک دَم سے مر رہے ہیں
//قیامت کا تلفظ؟ یہاں ’قامت‘ تقطیع ہوتا ہے۔ یوں کر دو
اس کو تم شیراز سمجھو ہے قیامت کی نشانی
 

شیرازخان

محفلین
آپ ہی کی سب یہاں نظرِکرم سے مر رہے ہیں
کچھ ڈرونوں کے بموں سے کچھ شرم سے مر رہے ہیں
//نذرِ کرم تقطیع ہو رہا ہے۔ نَ ۔ظَ۔ رِ آنا چاہئے۔

ہم کو ہر اوزار سے اب وہ نسل کش مارتا ہے
بھوک ، بم ، بندوق ، دہشت اور قلم سے مر رہے ہیں
//نسل کا تلفظ غلط ہے، قلم سے کس طرح موت ہوتی ہے۔
بے حِسی کیسی ہے یارا، ہے یہ لا علمی کہاں کی
لوگ ہیں مظلوم سارے جو قسم سے مر رہے ہیں
//بے ربط شعر ہے؟

آخری تُو خواہش کر دے مارنے والے یہ پوری
ہم کو بس اتنا بتا دے کس جُرم سے مر رہے ہیں
//خواہش کا تلفظ بھی غلط ہے۔ جرم کے علاوہ۔

کیا تماشے کی بتائیں کھیل کرکٹ کا جو ہارے
اس طرف دیکھو سبھی اس کے ہی غم سے مر رہے ہیں
//پہلا مصرع روان بنایا ا سکتا ہے، جیسے
کیا تماشا ہے یہ، ہارے ایک کرکٹ میچ جو ہم

غیر کے سینے میں کب تھا وہ جو گردہ اس کو چاہیے
ہم کو اپنوں نے دیا ہے جس زخم سے مر رہے ہیں
//شعر دو لخت ہی نہیں، پہلا مصرع وزن سے بھی خارج ہے۔

صرف آگے کی طرف ہی اب قدم ہے بس اٹھانا
ہم تو پیچھے کو اٹھائے ہر قدم سے مر رہے ہیں
//قدم سے مرنا؟ اگر مان بھی لیں تو پہلا مصرع زیادہ رواں یوں ہو سکتا ہے
اب تو بس آگے ہی بڑھنے میں ہماری خیر ہے

ہے یہ قیامت کی نشانی غور تم شیرازؔ کرنا
آدمی اچھے بھلے اب ایک دَم سے مر رہے ہیں
//قیامت کا تلفظ؟ یہاں ’قامت‘ تقطیع ہوتا ہے۔ یوں کر دو
اس کو تم شیراز سمجھو ہے قیامت کی نشانی
محترم استاد جناب الف عین صاحب ٹوٹی پھوٹی اس غزل پر وقت دینے کے لئے ممنون ہوں انشاءالّلہ آئندہ معیار بہتر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔!!!
 
Top