ایک منظوم عروضی سبق

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بچوں کے ادب کا ذکر ہو اور مولوی اسمٰعیل میرٹھی کا نام نہ آئے ایسا ممکن نہیں ۔ اسمٰعیل میرٹھی کی کئی نظمیں زبان زدِ عام ہیں اور ہم میں سے اکثر محفلین نے اپنے بچپن میں نصابی کتب میں پڑھی بھی ہوں گی ۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں ۔ لیکن آج ضرورتِ شعری کی کچھ مثالیں ڈھونڈتے ہوئے ایک جگہ مولوی صاحب کی ایک منفرد نظم پہلی دفعہ نظر سے گزری ۔ یہ نظم میر مومن خان مومنؔ کی مشہور عالم غزل کی پیروڈی ہے ۔ اس نظم میں اسمٰعیل میرٹھی نے غالب کے "قادر نامہ"کی طرز پر بچوں کو چند فارسی الفاظ کے اردو متبادلات اور معانی سکھانے کی سعی کی ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ایک شعر میں اس غزل کا عروضی وزن بھی بیان کردیا ہے تاکہ بچوں میں ابتدا ہی سے شعری وزن کی کچھ سوجھ بوجھ اور ادراک پیدا ہوجائے ۔

***

وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزل اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

متفاعلُن ، متفاعلن، متفاعلُن ، متفاعلُن
اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی شُکر ہے جو سِپاس ہے، وہ مُلول ہے جو اُداس ہے
جسے شِکوہ کہتے ہو ہے گلہ ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی نقص ہے وہی کھوٹ ہے وہی ضرب ہے وہی چوٹ ہے
وہی سود ہے وہی فائدہ ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی ہے ندی وہی نہر ہے , وہی موج ہے وہی لہر ہے
یہ حباب ہے وہی بُلبُلہ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی کِذب ہے وہی جھوٹ ہے , وہی جُرعہ ہے وہی گھونٹ ہے
وہی جوش ہے وہی وَلوَلہ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

***
 
آخری تدوین:
Top