ام اویس

محفلین
ساس ( اندر آتے ہوئے )”السلام علیکم “

بہو : “وعلیکم السلام امی جان آپ کا کیا حال ہے ؟”

ساس : “ٹھیک ہوں الله کا شکر ہے گھٹنوں میں درد ہے۔” (ہائے ہائے کرتی اندر آکر بیٹھ جاتی ہیں )

بہو : “امی آپ بہت دنوں بعد آئیں میں کھانا لاؤں آپ کے لیے ؟ “

ساس : “نہیں بیٹا میں ابھی کھانا کھا کر آئی ہوں ۔”

بہو : “اچھا پھر میں آپ کے لیے چائے بنا لیتی ہوں ۔”

ساس :”ہاں تھوڑی دیر بعد بنا لینا ۔” ( اپنے پوتے کو پاس بلاتے ہوئے ) “فہیم تم کہاں رہتے ہو دو دن سے ہمارے ہاں چکر نہیں لگایا ۔”

بہو : “امی جان یہ آج کل بڑی مشکل میں ہے اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کر رہا ہے”

ساس : (پوتے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے )”کیا سوچ بچار کر رہا ہے ہمارا چھوٹا پروفیسر “

بہو : “امی پہلے تو اس نے اپنے ابو سے کہا میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے پوچھا کس سے ؟

جھٹ بولا :آپ کی امی سے ۔ “اس کے ابو ناراض ہونے لگے تو بولا “آپ نے بھی تو میری امی سے شادی کی ہے”

ساس : (حیرانی سے) “یہ خیال اس کے ذہن میں کہاں سے آگیا ؟“

بہو: پھر اپنے ابو سے کہنے لگا ۔”میں آپ کو اپنی شادی میں نہیں بلاؤں گا “۔ اس کے ابو نے کہا “کیوں بیٹا جی ؟” تو جواب دیا “آپ نے بھی تو مجھے اپنی شادی پر نہیں بلایا آپ کی شادی کی تصویروں میں میری کوئی تصویر ہی نہیں”

ساس : (مسکراتے ہوئے ) “ہاں تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہے “

بہو : امی اور سنیے رات کو اس کے ماموں اپنے دونوں بچوں کے ساتھ آئے تھے انہوں نے سب سے پوچھا :بچو ! “تم بڑے ہوکر کیا بنو گے ؟”

کسی نے کہا ڈاکٹر اور کسی نے کہا انجینئر اور کوئی پائلٹ بننا چاہتا ہے اپنے اس پوتے کی سنیے ذرا یہ بڑا ہوکر کیا بنے گا ۔

ساس : ( پوتے سے لاڈ کرتے ہوئے )” ہاں بھئی میرا سوہنا بڑا ہوکر کیا بنے گا ؟”

پوتا : “کیا ہے دادو میں نے تو بس یہی کہا کہ بڑا ہوکر ابو بنوں گا ۔” سب میرے پیچھے ہی پڑ گئے اور میرا مذاق اڑانے لگے یہ کہہ کر پوتا منہ بناتا ، ہاتھ چھڑا کر باہر چلا گیا

ساس : “ارے ایسا کیا کہہ دیا اس نے جو تم سب اس کا مذاق بنا رہے ہو ؟ “

بہو : امی جان آپ تو جانتی ہیں یہ سب سے انوکھی بات کرتا ہے پوچھ رہا تھا “امی میری شادی کس سے ہو گی اور بس یہ بتا دیں کہ میرے بچوں کا ماموں کون ہوگا ؟”

ساس : ( ہنستے ہنستے) “پھر تم نے بتایا اسے “

بہو : امی آپ بھی کمال کرتی ہیں میں اس سوال کا اسے کیا جواب دوں اس کی تو ہر بات ہی نرالی ہے چند دن پہلے دکان پر گیا اور دکاندار سے کہنے لگا : “تمھارے پاس سوجھی ہے؟”

اس نے کہا : “ہاں ہے “

“اور چینی ہے؟ ”

اس نے کہا : “وہ بھی ہے “

پتہ ہے اس نے کیا کہا

ساس :حیران ہو کر ” کیا کہا ؟ “

بہو : “تو پھر آپ حلوہ بنا کر کیوں نہیں کھاتے؟”

ساس: قہقہ لگا کر ہنس پڑیں ۔ “اے بہو یہ بچہ کس کا ہے ؟”

اس کا باپ بھی ایسا ہی تھا ۔ ایک بار دکاندار سے کہنے لگا :”تمہارے پاس ہیروکا پین ہے ؟ “

اس نے کہا : “ہاں ہے “

تو بولا :”یہ دیکھو میرے پاس بھی ہے”

بہو : (ہنستے ہوئے ) اور سنیں صبح کہہ رہا تھا “شکر ہے میں نے شیر کو ووٹ نہیں ڈالا ورنہ میرا ووٹ ضائع ہوجاتا”

“اچھا آپ یہ بتائیں آپ کی دونوں بہوئیں اور ان کے بچے کیسے ہیں آپ کو تنگ تو نہیں کرتے ؟ “

ساس : کیا بتاؤں بڑی تو پھر بھی دوپہر کا کھانا بنانے نیچے آئے تو دوچار گھنٹے نیچے رہتی ہے ۔ اسی لیے میں اس کو سبزی بھی بنا دیتی ہوں اور اس کے بچے کو بھی بہلا دیتی ہوں تاکہ وہ آرام سے ہنڈیا بنا لے ۔ لیکن چھوٹی توشام کو اپنی باری پر بھی کھانا بنانے عین وقت پر نیچے اترتی ہے جلدی جلدی الٹا سیدھا کھانا بناتی ہے اور اوپر چلی جاتی ہے ۔

بہو : “امی یہ بھی تو دیکھیں اس کے دونوں بچے بہت چھوٹے ہیں بالکل جڑواں ہی لگتے ہیں ایک جدھر جاتا ہے دوسرا بھی اسی کے پیچھے جاتا ہے اور شرارتی بھی کس قدر ہیں”

ساس : “ہاں شرارتی تو بہت ہیں کل ہی چھوٹے نے جام شیریں کی نئی بوتل کا ڈھکن کھول لیا دوسرے نے جھٹ سے پکڑکر اسے پانی کی ٹونٹی کے نیچے رکھ کر نلکا کھول دیا“

بہو : “آپ تو جانتی ہیں ایسے شریر بچوں کی دیکھ بھال کس قدر مشکل ہے “

ساس : “لیکن تم بھی تو تھیں نا میرے ساتھ سات سال رہی ہو مجھے کبھی تم سے ایسی شکایت نہ ہوئی تم چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہر وقت کام میں لگی رہتی تھی “

بہو: “پر اماں اُس وقت تو آپ کو مجھ سے بھی بہت شکایات ہوتی تھیں آپ اکثر مجھ سے ناراض رہتی تھیں”

ساس : “بھئی شروع کے دنوں میں تمہاری حرکتیں ہی کچھ ایسی تھیں کہ مجھے غصہ آجاتا تھا “

بہو : “لیں میں ایسا کیا کرتی تھی جو آپ کی طبع نازک ہر گراں گزرتا تھا ؟”

ساس : “اے بہو یاد ہے جب میں نے تم سے کہا دال کے ساتھ چاول ابالنے ہیں دو گلاس پانی چولہے پر دھر دو “

بہو : دبی مسکراہٹ کے ساتھ “اور میں نے کچن سے پوچھا شیشے کے یا سٹیل کے ؟ “

تو آپ نے باہر سے آواز دی : “سٹیل کے “

ساس : (دونوں گالوں پر ہاتھ دھرتے ہوئے ) “یقین جانو میں تو سر پکڑ کر رہ گئی تمہاری اس حرکت پر جب سٹیل کے دو گلاس لبالب بھرے چولہے پر دھرے دیکھے “

بہو : (کھلکھلا کر ہنستے ہوئے ) “امی سچ ہے میں نے کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا پڑھتے پڑھتے شادی ہوگئی اور میری امی نے کہا جو پڑھ سکتے ہیں وہ ہر کام کرسکتے ہیں ۔ “

ساس : “تمہاری ماں کی انہی فنکاریوں کی وجہ سے میں نے برداشت سے کام لیا “

بہو: (کھلکھلا کر ) “جی امی “

ساس : “اور تمہیں یاد ہے ایک بار میں نے کہا تھا پریشر میں لہسن پیاز اور سارے مصالحے ڈال کر بند کرنا کیونکہ پچھلی بار تم لہسن ڈالنا بھول گئی تھی ۔ “

بہو : “جی ! اس دن میں نے سارے مصالحے ڈال کر پریشر بند کیا تھا پر گوشت ڈالنا بھول گئی ۔”

ساس : (اداسی سے)”وہ بھی اچھا وقت تھا جو گزر گیا ۔ “

بہو : “فکر نہ کریں آپ کی یہ دونوں بہوئیں بھی بہت اچھی ہیں میں چھوٹی کو سمجھاؤں گی آپ کی شکایت دور ہوجائے گی ان شاء الله”

ساس : “ہاں میں جانتی ہوں تم میری سمجھدار بہو ہو انہیں بھی سمجھا لو گی ۔ اسی لیے تم سے ان کی شکایت اور گلہ کرلیتی ہوں۔ “

(سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے )خیر چلو اٹھو ! اب چائے بنا لاؤ ۔
 
Top