ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے - عرفان ستار

شمشاد

لائبریرین
ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہر ِ وجود سے باب ِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے

آؤ یاد کے برگد نیچے پاؤں پسار کے سو جائیں
آج کا بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے کل کا رستہ پُرخم ہے

اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری جانب باد ِ صبا کا آنا جانا اب کم ہے

اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے

تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے

ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے

درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے

خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے

اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے

شہر ِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
(عرفان ستار)
 
Top