"ایک ملاقات کا قصہ" ۔۔۔۔۔۔ آزاد نظم برائے اصلاح

سید فصیح احمد

لائبریرین
میری پہلی کوشش آزاد نظم لکھنے کی، اساتذہ سے بے لاگ رائے کی درخواست ہے۔

سرمئی جب شام آئی
بھولے بسرے چند یاروں کی
اچانک کچھ بھلی یادیں
مجھے ملنے چلی آ ئیں
فقط یادیں ہی تھیں
پر یوں لگا جیسے
تھکے ہو ئے بدن میں
تازگی آ جائے
لمسِ دلنشیں بھی لوٹ آیا ان پیاروں کا
تو کتنی دیر
چھڑتے ہی گئے قصے پرانے
مسکراتے ہو ئے پھر
جو وقت آیا جانے کا
تو غم بھرا لمحہ جیسے رک ہی گیا تھا
ایک عالم تھا گھٹن کا
لگ رہا تھا یوں جیسے
کمرے کی دیواریں سکڑتی جا رہی ہیں
میرا دم گھٹنے لگا تھا
دیکھتے ہی دیکھتے
سارے ہی چہرے
دور دیواروں سے آگے گم گئے
اعصاب میرے پھر سے
دیواروں کے عادی ہو گئے
میں پھر سے تنہا رہ گیا تھا
 

الف عین

لائبریرین
فاعلاتن یا مفاعیلن کے ارکان ہی اس نظم میں زیادہ تر دہرائے گئے ہیں، لیکن کچھ مصرعے ان ارکان سے مطابقت نہیں رکھتے
تھکے ہو ئے بدن میں
کو
تھکے ماندے بدن میں

لمسِ دلنشیں بھی لوٹ آیا ان پیاروں کا
پیاروں کا غلط تلفظ تقطیع میں آتا ہے، یہ ’پارو‘ محض آنا چاہئے۔ یہاں ’عزیزوں’‘ کیا جا سکتا ہے
اسی طرح یہ مصرعے

مسکراتے ہو ئے پھر
جو وقت آیا جانے کا
تو غم بھرا لمحہ جیسے رک ہی گیا تھا
ایک عالم تھا گھٹن کا
لگ رہا تھا یوں جیسے
کمرے کی دیواریں سکڑتی جا رہی ہیں

اور

دور دیواروں سے آگے گم گئے

بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
 
Top