ایک مزاحیہ نظم اصلاح و آراء کیلئے،'' اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا''

اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا قیامت کون سی آتی

بڑا بھائی تھا اماں جان کی آنکھوں کا تارا سا
مری تھی شومی قسمت، میں تھا قسمت کا مارا سا
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

مرے ہاتھوں سے بنتے کام تھے سارے بگڑ جاتے
وہ خوش اقبال سے جو تھے قدم دھرتی میں گڑ جاتے
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

بڑے بابو کی جھڑکی سے چھُڑا لیتا میں جاں کیسے
جہاں بختوں میں ناں لکھی، وہاں کرتا میں ہاں کیسے
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

جمیلہ کو علی کا بن کے ہی رہنا پڑا آخر
اُسے دیکھا کیا تھا بس کھڑا کا میں کھڑا آخر
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

میں اظہر تھا، مجھے دنیا میں اظہر بن کے رہنا تھا
لڑو تو پاؤ تُم بس ہار بختوں سے یہ کہنا تھا
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی​
 

الف عین

لائبریرین
محمد خلیل الرحمٰن بالکل یہی اصلاح میں کرنے والا تھا!! البتہ دوسرا مصرع بدلنے کا مشورہ دیتا۔ دونوں ٹکڑوں میں قسمت اچھا نہیں لگتا۔
مزید

اُسے دیکھا کیا تھا بس کھڑا کا میں کھڑا آخر
÷÷محاورہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا‘ ہے، یا اگر دیکھتا بھی ہو تو درست ’کھڑا کا کھڑا دیکھتا "رہ گیا" ہو گا۔ قافیہ تو آسان ہے، تنگ نہیں کہ یہ مصرع مکمل نہ بدلا جا سکے
 
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا

اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

بڑا بھائی تو اماں جان کی آنکھوں کا تارا تھا
مری تھی شومئی قسمت کہ جس نے لوٹ مارا تھا

اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

مرے ہاتھوں سے بنتے کام تھے سارے بگڑ جاتے
وہ خوش اقبال سے جو تھے قدم دھرتی میں گڑ جاتے
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

بڑے بابو کی جھڑکی سے چھُڑا لیتا میں جاں کیسے
جہاں بختوں میں ناں لکھی، وہاں کرتا میں ہاں کیسے
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

جمیلہ کو علی کا بن کے ہی رہنا پڑا آخر
فقط بس رہ گیا تھا میں کھڑے کا پھر کھڑا آخر

اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

میں اظہر تھا، مجھے دنیا میں اظہر بن کے رہنا تھا
لڑو تو پاؤ تُم بس ہار بختوں سے یہ کہنا تھا
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا

اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

بڑا بھائی تو اماں جان کی آنکھوں کا تارا تھا
مری تھی شومئی قسمت کہ جس نے لوٹ مارا تھا

اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی
÷÷ لوٹ مارا ۔۔۔ ابھی تک پڑھا نہیں کہ ایسا کہہ سکتے ہیں ۔۔۔ یا لوٹ لیا جائے یا مار ڈالا جائے ۔۔۔

مرے ہاتھوں سے بنتے کام تھے سارے بگڑ جاتے
وہ خوش اقبال سے جو تھے قدم دھرتی میں گڑ جاتے
÷÷ اس شعر میں بناوٹ کا مسئلہ ہے ۔۔۔ یوں کریں تو کیسا رہے گا؟
مرے ہاتھوں سے بنتے کام بھی سارے بگڑ جاتے
قدم جو تھے بھی خوش اقبال وہ دھرتی میں گڑ جاتے ۔۔۔

اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

بڑے بابو کی جھڑکی سے چھُڑا لیتا میں جاں کیسے
جہاں بختوں میں ناں لکھی، وہاں کرتا میں ہاں کیسے
÷÷ بختوں میں ناں لکھی ، قدرے غیر فصیح ہے ۔۔"تھی" کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔۔


اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

جمیلہ کو علی کا بن کے ہی رہنا پڑا آخر
فقط بس رہ گیا تھا میں کھڑے کا پھر کھڑا آخر

اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی

میں اظہر تھا، مجھے دنیا میں اظہر بن کے رہنا تھا
لڑو تو پاؤ تُم بس ہار بختوں سے یہ کہنا تھا
اگر لکھ پڑھ بھی میں لیتا
قیامت کون سی آتی​

مجموعی طور پر تاثر مزاحیہ نظم کی بجائے ہلکی پھلکی کہانی کا سا بنتا ہے ۔۔۔ اور کہانی نامکمل ہے ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نامکمل کیسے؟ بختوں سے کوئی لڑ نہیں سکتا ، بس یہی کہنا تھا
اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ کہانی مکمل ہے تو یونہی سہی ۔۔۔ ویسے ہم نے اس کا تاثر کچھ یوں محسوس کیا ہے:
ایک لڑکا تھا۔ اس کا بڑا بھائی اس کی ماں کی آنکھوں کاتارا تھا۔ لیکن اس لڑکے کی قسمت اچھی نہیں تھی۔اس کے ہاتھوں سے سارے بنتے کام بگڑ جایا کرتے تھے۔ خوش اقبال قدم سبز قدم ثابت ہوتے تھے۔وہ بڑے بابو کی جھڑکی سے جان نہیں چھڑا سکتا تھا اور مقدر میں لکھی "ناں" کو ہاں میں بھی نہیں بدل سکتا تھا۔ جمیلہ کو بالآخر علی کا بن کر رہنا پڑا اور ہمارا ہیرو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔وہ اظہر تھا اور اسے اظہر بن کر رہنا تھا۔ اگر وہ لکھ پڑھ لیتا تو کون سی قیامت آجاتی؟ مقدر سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کہانی کی تمہید میں ہی آپ نے اس کا اختتام کردیا ہے۔۔۔شاعر کہتا ہے کہ مقدر سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے کوئی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔اگر وہ کوشش کرکے ہار جاتا تو ہم بھی مان لیتے کہ ہاں ، واقعی مقدر سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔
اگر وہ پڑھ لکھ لیتا تو کون سی قیامت آجاتی؟
 
اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ کہانی مکمل ہے تو یونہی سہی ۔۔۔ ویسے ہم نے اس کا تاثر کچھ یوں محسوس کیا ہے:
ایک لڑکا تھا۔ اس کا بڑا بھائی اس کی ماں کی آنکھوں کاتارا تھا۔ لیکن اس لڑکے کی قسمت اچھی نہیں تھی۔اس کے ہاتھوں سے سارے بنتے کام بگڑ جایا کرتے تھے۔ خوش اقبال قدم سبز قدم ثابت ہوتے تھے۔وہ بڑے بابو کی جھڑکی سے جان نہیں چھڑا سکتا تھا اور مقدر میں لکھی "ناں" کو ہاں میں بھی نہیں بدل سکتا تھا۔ جمیلہ کو بالآخر علی کا بن کر رہنا پڑا اور ہمارا ہیرو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔وہ اظہر تھا اور اسے اظہر بن کر رہنا تھا۔ اگر وہ لکھ پڑھ لیتا تو کون سی قیامت آجاتی؟ مقدر سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کہانی کی تمہید میں ہی آپ نے اس کا اختتام کردیا ہے۔۔۔شاعر کہتا ہے کہ مقدر سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے کوئی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔اگر وہ کوشش کرکے ہار جاتا تو ہم بھی مان لیتے کہ ہاں ، واقعی مقدر سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔
اگر وہ پڑھ لکھ لیتا تو کون سی قیامت آجاتی؟
پڑھنے سے ہی تو جان چھڑانی تھی نا
 
Top