ایک مدد

مہوش علی

لائبریرین
معذرت کہ میں لائبریری کے کام میں اتنی الجھی ہوئی تھی کہ چاہتے ہوئے بھی یہاں جواب نہیں دے سکی (اور اسکی وجہ یہ ہے کہ مواد بہت بکھرا ہوا ہے اور میرا دایاں ہاتھ فریکچر ہے اس لیے زیادہ کام بھی نہیں کر سکتی


اب مجھے ذرا فرصت ملی ہے کیونکہ لائبریری میں میرا اہم ٹاسک تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\
ایک چیز اور نوٹ فرما لیں، اور وہ یہ کہ ایک ہی چیز کے متعلق مختلف نظریات ہو سکتے ہیں۔

میں اس حدیث کے متعلق اب اُن علماء کا موقف بیان کرنے جا رہی ہوں جنہیں دلائل کی بنیاد پر یہ حدیث قبول کرنے سے انکار ہے اور اسے کارخانہ بنی امیہ میں گھڑی ہوئی جھوٹی حدیث قرار دیتے ہیں تاکہ بنی امیہ کے پہلے دو خلفاء کے تمام غلط کارناموں پر ایک ہی جھٹکے سے پردہ پھیر کر انہیں جنتی بنا دیا جائے تاکہ عوام میں بنی امیہ کی شان بڑھ جائے اور ان کی حکومت مضبوط ہو سکے۔

دونوں طرف کے دلائل پڑھنے کے بعد انشاء اللہ آپ لوگ یقینا حق پہچاننے کے قریب پہنچ جائیں گے۔

اللہ تعالی محمد و آل محمد اور آپ سب پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس حدیث پر ذیل میں دو طریقوں سے جرح کی جائے گی۔

1۔ اس روایت کے راویان پر نطر

2۔ یہ روایت تاریخ کی دوسری روایات کی روشنی میں
(اور یہ دوسرا حصہ انتہائی اہم اور دلچسپ ہے اور تاریخ کے ہر سٹوڈنٹ کو اس بحژ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا)

1 یہ دو احادیث نہیں بلکی ایک ہی حدیث ہے

یعنی پہلی بحری جنگ اور قسطنطنیہ پر حملہ۔

[align=left:5530f78938]Sahih al Bukhari, Book of Jihad Volume 4, Book 52, and Number 175:

Narrated Khalid bin Madan:
That 'Umair bin Al-Aswad Al-Anasi told him that he went to 'Ubada bin As-Samit while he was staying in his house at the seashore of Hims with (his wife) Um Haram. 'Umair said. Um Haram informed us that she heard the Prophet saying, "Paradise is granted to the first batch of my followers who will undertake a naval expedition." Um Haram added, I said, 'O Allah's Apostle! Will I be amongst them?' He replied, 'You are amongst them.' The Prophet then said, 'the first army amongst' my followers who will invade Caesar's City will be forgiven their sins.' I asked, 'Will I be one of them, O Allah's Apostle?' He replied in the negative."
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/052.sbt.html[/align:5530f78938]اس حدیث کا عربی ورژن یہ ہے:

http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=12&CID=299
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=0&Rec=4611

الحديث‏:‏

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا



2 یہ روایت "خبر واحد" پر مشتمل ہے

خبر واحد پر مشتمل روایت وہ ہوتی ہے جو صرف اور صرف ایک راوی سے مروی ہو۔

اور “بحری بیڑے” والی حدیث کو صرف ایک خاتون سے منسوب کیا گیا ہے جن کا نام ہے “ام حرام”۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی “ام حرام” نے یہ روایت بیان کی تھی، یا پھر یہ بعد والے راویوں نے بعد میں انکا نام لیکر غلط منسوب کر دی ہے (چونکہ ان کا انتقال اس بحری سفر میں ہو چکا تھا اس لیے بعد والے راویوں کو کوئی ڈر نہ تھا کہ کوئی انکی تکذیب کر سکتا ہے)۔

نوٹ: اس روایت کا خبر واحد پر مشتمل ہونا بہت اہم ہے اور اس چیز پر بعد میں بہت اہم بحث ہو گی۔


3 تمام راویوں کا شامی ہونا

اس روایت پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسکے تمام کے تمام راوی اہل شام سے تعلق رکھتے ہیں (وہی شام جو معاویہ ابن ابی سفیان اور اسکے بیٹے یزید کا دارلحکومت تھا اور یہاں کے لوگ سخت مخالفینؕ اہلبیت تھے اور بنی امیہ کی شان میں احادیث گھڑنے میں مشہور تھے۔)

ابن حجر عسقلانی (جو بخاری کے سب سے بڑے شارح سمجھے جاتے ہیں، وہ اس حدیث کے فورا بعد لکھتے ہیں:

قوله‏:‏ ‏(‏عن خالد بن معدان‏)‏ بفتح الميم وسكون المهملة، والإسناد كله شاميون

علمائے حدیث کا ایک طریقہ رھا ہے کہ اگر کوئی کوفی اھلبیت کی شان میں حدیث بیان کرتا تھا تو فورا وہ اس بنیاد پر رد کر دی جاتی تھی کہ اھل کوفہ محبانؕ علی ابن ابی طالب تھے۔ اور یہی اصول ان شامیوں کے لیے تھا جو بنی امیہ کی شان بڑھاتے تھے۔

لیکن حیرت انگیز طور پر اس روایت پر یہ اصول لاگو نہیں کیا جاتا۔ Double Standards؟؟؟

جبکہ اس روایت کے راوی حضرات کا محب بنی امیہ شامی ہونے کے علاوہ خاندانِ اھلبیت سے دشمنی اور نفرت بھی ثابت ہے۔ (جیسا کہ آپ بعد میں دیکھیں گے)

4 عمیر ابن الاسود العنسی

یہ وہ “واحد” شخص ہے جس نے سب سے پہلے “ام حرام” کا نام لیکر اس روایت کو بیان کیا۔

امام ابن حجر العسقلانی (جن کو حفظ حدیث میں باقی تمام علماء پر فوقیت دی جاتی ہے، وہ ابن الاسود العنسی کے متعلق لکھتے ہیں:

“یہ شامی تھا ۔۔۔ اور شہرِ قیصر (یعنی قسطنطنیہ) والی حدیث کے علاوہ اسنے ایک بھی اور روایت نہیں بیان کی ہے۔”

5۔ خالد بن معدان الناصبی

ابن الاسود العنسی کا واحد ایک شاگرد تھا اور وہ یہ یہ دوسرا راوی “خالد بن معدان” تھا جو کہ ناصبی تھا اور اسکے تین اور استاد تھے جو عداوت اہلبیت رکھنے والے ناصبی تھے۔

علامہ ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب “تہذیب التہذیب” جلد 3، ذکر خالد میں ان تین اساتذہ کے نام بیان کرتے ہیں:

خالد کے استادوں میں معاویہ ابن ابی سفیان، ابن یزید اور ابن عثمان شامل ہیں۔

6۔ ثور بن یزید

اگلا راوی ثور بن یزید ہے۔

علامہ ابن سعد (جنکی کتاب رجال کے موضوع کے لیے علماء میں بہت اہمیت رکھتی ہے) لکھتے ہیں:

۔۔۔، و كان جد ثور بن يزيد قد شهد صفين مع معاوية ، و قتل يومئذ ، و كان ثور إذا ذكر عليا قال : لا أحب رجلا قتل جدى
آنلائن لنک
ترجمہ:
ثور بن یزید کے (شامی اجداد) جنگ صفین کے موقع پر معاویہ کے ساتھ تھے اور اس جنگ میں قتل ہوئے تھے۔ جب بھی یہ ثور علی ابن ابی طالب کا ذکر سنتا تو کہتا کہ میں اس شخص کا ذکر سننا پسند نہیں کرتا جس نے میرے اجداد کو قتل کیا ہے۔

اور امام مالک اس ثور سے کبھی روایت نہیں کرتے تھے۔

تبلیغی جاعت کے عالم شیخ احمد علی سہارنپوری نے بخاری کی شرح لکھی ہے اور اسکی جلد 1، صفحہ 409 پر لکھتے ہیں:

؎شہر قیصر والی روایت ثور بن یزید سے مروی ہے اور وہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا (شدید) دشمن تھا۔


اور سب سے بڑھ کر سب سے بڑے حافظ حدیث ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب تہذیب التہذیب، جلد 2، صفحہ 33 پر لکھتے ہیں:

اس [یزید بن ثور] کے اجداد صفین میں میں معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ مارے گئے تھے۔ یہ جب بھی علی ابن ابی طالب کا ذکر سنتا تو کہتا کہ میں اس شخص کو دوست نہیں رکھ سکتا جس نے میرے اجداد کو قتل کیا تھا۔
وجاء في " تهذيب التهذيب " في ترجمة " ثور بن يزيد ": (.. ويُقال إنه كان قدريًّا وكان جدُّه قتِل يوم صفين مع معاوية، فكان ثور إذا ذكر عليًّا قال: لا أحِب رجلاً قتل جدِّي.. وقال أبو مسهر وغيره: كان الأوزاعي يتكلم فيه ويهجوه.. وقال أبو مسهر عن عبد الله بن سالِم: أدركت أهل حمص وقد أخرجوا ثور بن يزيد وأحرقوا داره لكلامه في القدر) ( ابن حجر العسقلاني: تهذيب التهذيب ۔ ج1 ص344و345).
تو یہ تھا راویان کے متعلق پہلا حصہ، جو میں نے اختصار کے ساتھ یہاں بیان کر دیا ہے۔

آنلائن لنک
2-(ع) ثور بن يزيد الحمصي أبوخالد اتفق على تثبيته في الحديث مع قوله بالقدر وقال رحيم ما رأيت أحداً يشك أنهقدري ثم قال وكان يرمى بالنصب أيضاً وقال يحيى بن معين كان يجالس قوماً ينالون منعلي لكنه كان لا يسب قلت احتج به الجماعة .اه۔ بتصرف من مقدمة الفتحوفي تهذيبالتهذيب رمز له هكذا(خ . 4) وقال : قال ابن سعد كان ثقة في الحديث ويقال إنه كانقدرياً وكان جده قتل يوم صفين مع معاوية فكان ثور إذا ذكر علياً قال لا أحب رجلاًقتل جدي ثم قال : وقال أبو مسهر وغيره كان الأوزاعي يتكلم فيه ويهجوه.
وقال نعيمبن حماد قال عبد الله بن المبارك :
إيها الطالب علماً .. .. ائت حماد بنزيدفاطلبن العلم منه .. .. ثم قي۔۔۔ده بقيدلا كثور وكجهم .. .. وكعمرو ب۔نعبيدثم قال : قال فيه أحمد ليس به بأس قدم المدينة فنهى مالك الناس عنمجالسته .اه۔ بتصرف2-(ع) ثور بن يزيد الحمصي أبوخالد اتفق على تثبيته في الحديث مع قوله بالقدر وقال رحيم ما رأيت أحداً يشك أنهقدري ثم قال وكان يرمى بالنصب أيضاً وقال يحيى بن معين كان يجالس قوماً ينالون منعلي لكنه كان لا يسب قلت احتج به الجماعة .اه۔ بتصرف من مقدمة الفتحوفي تهذيبالتهذيب رمز له هكذا(خ . 4) وقال : قال ابن سعد كان ثقة في الحديث ويقال إنه كانقدرياً وكان جده قتل يوم صفين مع معاوية فكان ثور إذا ذكر علياً قال لا أحب رجلاًقتل جدي ثم قال : وقال أبو مسهر وغيره كان الأوزاعي يتكلم فيه ويهجوه.
وقال نعيمبن حماد قال عبد الله بن المبارك :
إيها الطالب علماً .. .. ائت حماد بنزيدفاطلبن العلم منه .. .. ثم قي۔۔۔ده بقيدلا كثور وكجهم .. .. وكعمرو ب۔نعبيدثم قال : قال فيه أحمد ليس به بأس قدم المدينة فنهى مالك الناس عنمجالسته .اه۔ بتصرف
 

مہوش علی

لائبریرین
اس روایت پر جرح کا دوسراحصہ سب سے اہم اور دلچسپ ہے۔ اس حصے میں اس روایت کو تاریخ کی دیگر روایات کی روشنی میں دیکھیں گے، اور پھر آپ کیخدمت میں سوال اٹھے گے جس پر آپ غور وفکر کریں گے تو انشاء اللہ حق کو پا جائیں گے۔

لیکن یہ کام اگلی فرصت میں کیونکہ الٹے ہاتھ سے یہ چھوٹا ٹیکسٹ لکھتےلکھتے نانی یاد آ رہی ہیں۔

اللہ تعالی آپ پر اور محمد و آک محمد پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عزیزی فہیم
سلام مسنون!
یہ آپ کن چکرون میں پڑ گئے
اگر آپ نے اس کتاب کو پڑھنا ہی ہے تو پھر اس کتاب کے رد میں لکھی جانے والی بے شمار کتب کا مطالعہ بھی آپ کو کرنا چاہیے ورنہ احتمال ہے کہیں آپ سیدھے راستے ﴿صراط مستقیم﴾کو گم نہ کردیں
یہ بات درست ہے کہ پہلے لشکر اور پہلے بحری بیڑہ والی حدیث ایک ہی ہے
اب چونکہ پہلے بحری بیڑہ میں یزید شامل نہیں تھا اس لیے پہلے لشکر کی بات کر کے غلط فہمی پھیلائے جانے کی کوشش کی گئی ہے
ورنہ یہ حقیقت ہے کہ پہلے لشکر جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اس وقت یزید صرف چھ سات سال کا ہی تھا وہ تو قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے چھٹے یا ساتویں لشکر کا سپہ سالار بنا
آپ اس بکھیڑے میں پڑ ہی گئے ہیں تو میرا مشورہ یہ ہے کہ اس کتاب کے رد میں لکھی جانے والی کتابوں کا بھی مطالعہ کر لینا
اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب کی کتاب مشہور ہے
اس کے بعد اٹک سے تعلق رکھننے والے علامہ سید لعل شاہ بخاری کی کتاب استخلاف معاویہ و یزید بھی قابل مطالعہ ہے
میری محدود معلومات کے مطابق یزید کو امت مسلمہ کا ہیرو ثابت کرنے اور امام حسین کو ایک باغی کی حیثیت سے پیش کرنے والے اس مخصوص گروہ کی جانب سے یزید پلید کی حمایت میں ایک درجن کے قریب مستقل تصانیف سامنے آچکی ہیں جن میں سے آنجہانی محمود عباسی کی کتاب ۔’’خلافت معاویہ ویزید‘‘ اور ابویزید محمد دین بٹ کی کتاب’’رشید ابن رشید‘‘ کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اولذکرکتاب پر سب سے پہلے مولانا قاری محمد طیب مرحوم نے گرفت کی اور ’’شہید کربلا اور یزید‘‘ کے نام سے بہترین تحقیق کتابی صورت میں شائع کرکے مسلک اہل سنت کو واضح کیا۔اس کے بعد مولانا عبدالرشید نعمانی نے اپنے مختلف مضامین اور ’’شہدائے کربلا پر افترأ‘‘ اور’’یزید کی شخصیت‘‘ نامی دو کتابوں کی صورت میں اس بد باطن گروہ کا تعاقب کیا۔ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین مولاناسید لعل شاہ بخاری نے اس رسوائے زمانہ کتاب کا مدلل تحقیقی رد کیا اور ’’استخلاف یزید‘‘ نامی کتاب لکھ کر صاحبان علم سے داد تحقیق حاصل کی۔
ثانی الذکرکتاب’’رشید ابن رشید‘‘ ابویزید محمد دین بٹ لاہوری کی تصنیف نامحمود ہے جس میں ناصبی گروہ کے اس سرخیل نے یزید پلید کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں اور امام عالی مقام کو باغی قرار دیتے ہوئے یزید کے خلاف ان کے خروج کو حرام قرار دیا۔جب یہ کتاب منظرِعام پر آئی تو حق پرست علمائے اہلل سنت اس مجموعہ خرافات کے رد کے لیے کمر بستہ ہوگئے اور کثیر تعداد میں علمی اور تحقیقی لٹریچر معرض وجود میں آیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب تک تمام متعلقہ لٹریچر پر نظر نہ ہو آپ جیسے نوجوان کا صرف ایک کتاب کا مطالعہ کرنا آپ کو حق کے راستے سے دور لے جائے گا

بھائی قیصرانی نے لکھا ہے:
برادر، حدیث کے خلاف کسی بھی شخص کی بحث اس کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہے

برادرم حدیث کی چانج اور پڑتال کے لیے ایک پورا علم ہے رجال روایت درایت اور بہت کچھ اس علم کے ذریعہ کسی بھی حدیث کو صحت کے اعتبار سے مختلف درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے اور کوئی حسن قرار پاتی ہے تو کوئی ضعیف کسی کو مرفوع کہا جاتا ہے تو کوئی موضوع اور کوئی احد یا خبر واحد کہلاتی ہے
اس کو ہم حدیث کے خلاف بحث نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ وہ علم ہے جس کی بنا پر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال مبارکہ کو خالص ترین صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کےے قابل ہو سکتے ہیں اور منسوب شدہ اور الحاق کردہ روایات کیی چھانٹی کر کے انہیں ایک طرف کر سکتے ہیں
اور اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ہماری کتب حدیث اور کتب تاریخ میں بہت ساری ایسی روایات موجود ہیں کہ اگر جن کن چھانٹی بذریعہ جرح و تعدیل نہ کی جائے تو دین اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے میں ایسی کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں لیکن یہ اس کا موقع محل نہیں


میں کتب حدیث میں سے اگر کچھ مخصوص مواد بغیر کسی حوالے کے یہاں نقل کر دوں تو آپ اس کو پڑھ کر کچھ ایسا ہی تبصرہ فرمائیں گے
اور جب آپ کو بتا دیا جائے کہ یہ بات فلاح حدیث کی کتاب میں ہے تو پھر آپ کے حیران ہونے کی باری آئے گی اور آپ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو جائیں گے
یہاں بہن مہوش علی نے زیر نظر حدیث کی روایت کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں
بخاری شریف کی اس حدیث پر بہت سے علمائے حدیث نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق بحث کی ہے جیسا کہ گزشتہ کسی پوسٹ میں "شہر قیصر" کے بارے میں اختلاف سامنے آیا

یہ لوگ یزید کو جہنم کے گڑھے سے کسی نہ کسی طرح گھسیٹ کر جنت میں پھینکنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن ان کو معلوم نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح فرمان ہے

عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما: ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم أخذ بید حسن و حسین، فقال: من أحبنی وأحب ہٰذین واباہما وامہما کان معی فی درجتی یوم القیامۃ۔
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین علیہما السلام کا ہاتتھ پکڑ کر فرمایا:جس نے مجھ سے ، ان دونوں سے، اور ان کے والد اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی ٹھکانہ پر ہوگا۔
(ترمذی، الجامع الصحیح، ۵:۶۴۱، ابواب المناقب، رقم:۳۷۳۳)

عن اسامۃ بن زید رضی اﷲ عنہما قال: قال النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم: انی أحبہما فاحبہما وأحب من یحبہما۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اﷲ! میں ان (حسنین کریمین) سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھتا ہے اس سے بھی محبت فرما۔
(ترمذی، الجامع الصحیح،۵:۶۵۶، ابواب المناقب، رقم:۳۷۶۹)

عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم: من ابغضہما فقد ابغضنی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سیی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
(ابن ماجہ، السنن، فی باب فضائل اصحاب رسول اﷲ،۱:۵۱، رقم:۱۴۳)
(نسائی، السنن الکبریٰ،۵:۴۹، رقم۸۱۶۸)

عن سلمان قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم من ابغضہما، أبغضنی، ومن ابغضنی أبغضہ اﷲ ومن ابغضہ اﷲ أدخلہ النار۔

سلمان فارسی سے روایت ہے،میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اللہ کے ہاں مبغوض ہوا، اسے اﷲ نے آگ میں داخل کر دیا۔
(حاکم، المستدرک،۳:۱۸۱، رقم۴۷۷۶)

عن زید بن ارقم، ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قال لعلیّ و فاطمۃ والحسن والحسین رضی اللہ عنہم انا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم۔

حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا:جس سے تم لڑوگے میری بھی اس سے لڑائی ہوگی، اور جس سے تم ضلح کروگے میری بھی اس سے صلح ہوگی۔
(ترمذی، الجامع الصحیح،۵:۶۹۹، ابواب المناقب، رقم:۳۸۷۰)

عن ابی ہریرۃ قال: نظرالنبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم الی علی وفاطمۃ والحسن والحسین فقال:انا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہما السلام کی جانب دیکھ کر فرمایا: جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کرونگا(یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)(احمد بن حنبل، المسند،۲:۴۴۲)

اور اب اتنے واضح فرامین پاک کے بعد بھی اگر کوئی شخص شامی راویوں ﴿جو اہلبیت سے دشمنی میں مشہور ہیں﴾ کی "خبر واحد" پر اعتبار کرتے ہوئے یزید کو جنت میں دیکھنا پسند کرتے ہیں تو یہ انکا اپنا ذوق ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
اس روایت پر جرح تاریخ کی روشنی میں

اس روایت پر جرح کا دوسراحصہ سب سے اہم اور دلچسپ ہے۔ اس حصے میں اس روایت کو تاریخ کی دیگر روایات کی روشنی میں دیکھیں گے، اور پھر آپ کیخدمت میں سوال اٹھے گے جس پر آپ غور وفکر کریں گے تو انشاء اللہ حق کو پا جائیں گے۔

لیکن تاریخ پر جانے سے پہلے ہم اس حدیث پر ایک اور زاویے سے نظر ڈالتے ہیں، اور اسکے نتیجے میں اٹھنے والے ایک سوال پر غور وفکر کرتے ہیں۔

پہلی بحری جنگ کی اہمیت بالمقابل بیعت رضوان

یہ بتائیں کہ اس روایت کی رو سے کیا پہلی بحری جنگ اور شہر قیصر پرحملہ کرنے اہمیت بیعت رضوان کے برابر نہیں نکلتی؟

آپ لوگوں کا جواب یقینا ہاں میں ہو گا کیونکہ ان تمام صورتوں میں جنت کی بشارت ہے۔

اور بیعت رضوان کی بشارت کی اہمیت دیکھیے کہ اسکا ذکر خود اللہ قران میں کرتا ہے۔ پھر اللہ کا رسول (ص) لوگوں سے اپنے ہاتھ پر بیعت لیتا ہے۔ پھر یہ بشارت ہر مسلمان بچے بچے کی زبان پر عام ہو جاتی ہے۔ بیعت رضوان میں شامل صحابہ کی اسکے بعد تاحیات خاص عزت و تکریم کی جاتی ہے اور انہیں نہ شامل ہونے والے صحابہ پر افضلیت دی جاتی ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ اگر یہ پہلی بحری جنگ بیعت رضوان جیسی ہی اہم تھی تو اس کو روایت کرنے والی صرف اور صرف ایک خاتون کیوں؟ (اور ان خاتون سے بھی یہ روایت ان کے مرنے کے بعد منسوب ہوتی ہے)۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رسول (ص) کھل کر صحابہ کو اس پہلی بحری جنگ کی بشارت سناتے، اور یہ صحابہ آگے کھل کر سلطنتِ اسلامیہ میں اس اہم بشارت کو پھیلاتے تاکہ کونے کونے سے مسلمان اس جنگ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے تیاریاں کرتے اور ایک بڑی فوج تیار ہو پاتی۔

مگر نہیں، ان تمام باتوں کے برعکس کسی صحابی کو اس بشارت کا پتا چلتا ہے اور نہ وہ اسے روایت کرتا ہے اور نہ دوسروں تک اسے پھیلاتا ہے۔

حتی کہ وہ فوج جو اس پہلی جنگ میں شریک ہوتی ہے، اُسے خود بھی اس بشارت کا علم نہیں ہوتا۔

اور یہ روایت صرف اس وقت منظر عام پر آتی ہے جب یہ پہلی بحری جنگ ختم ہو چکی ہوتی ہے اور ان خاتون کا بھی انتقال ہو چکا ہوتا ہے اور وہ اس کی تصدیق یا تکذیب کے لیے زندہ نہیں۔

تاریخ طبری سے سنہ 28 ہجری میں معاویہ ابن ابی سفیان کے تحت لڑے جانے والی پہلی بحری جنگ کے متعلق تمام روایات

نہیں، اوپر کیے گئے سوالات ابھی تک تشنہ ہیں۔

بہت اہم چیز ہے کہ آپ لوگ سن 28 ہجری میں اس پہلی بحری جنگ کے واقعات تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں، اور اس کے بعد یہ سوالات تشنہ نہیں رہیں گے۔

ذیل میں صرف تاریخ طبری سے اس پہلی بحری جنگ کے متعلق تمام روایات پیش کی جا رہی ہیں۔ امام ابن جریر طبری نے اس بحری جنگ کے ضمن میں 4 روایات درج کی ہیں۔

یہ روایات تاریخ طبری کے انگلش ایڈیشن سے لی گئی ہیں جو کہ بہت ہی سٹینڈرڈ کا ترجمہ ہے (جبکہ تمام اردو تراجم تحریف شدہ ہیں)
[ame="http://www.amazon.com/s/ref=nb_ss_gw/102-7514087-9963308?url=search-alias%3Daps&field-keywords=history+of+tabari&Go.x=8&Go.y=5&Go=Go"]History Of Tabari[/ame]

پہلی روایت (جناب عمر ابن خطاب پہلی بحری جنگ کی اپنے دور میں اجازت نہیں دیتے)[align=left:8228b421d8]

According to Ubaidah and Khalid:

In times of Umar bin al-Khattab, Muawiyyah pleaded with him about naval campaigns (ghazw al-bahr) and closeness of the Byzantines to Hims. He said, "In one of the villages of Hims, the inhabitants hear the barking of (the Byzantines) dogs and the squawking of their chickens." [He pressed Umar] until he was on the verge of being won over. So Umar wrote to 'Amr b. al-'As [saying] "Describe the sea and the seafarer to me, for I am uneassy about it."
According to 'Ubadah and Khalid: When ['Umar] informed him of the benefits for the Muslims and the damage to the Polytheists to be derived from (naval warfare), 'Amr wrote back to him [as follows]: "Verily I have seen a great creature [that is, the sea] ridden by a small one [that is, man]. If (the sea) is calm it rends the heart with anxiety, and if it is agitatd it leads the mind into confusion. On it certainty shrinks and doubt increases. Those who are on it are like a worm on a twig, if it bends he is drowned, and if he is saved he is astounded. "When 'Umar read (this letter), he wrote to Mu'awiyyah [as follows]: "No, by Him who sent Muhammad with the Truth, I shall never send any Muslim there."
Reference: History of Tabari, Volume 16, Events of 28 th Year, [/align:8228b421d8]

ترجمہ:

عبادہ اور خالد روایت کرتے ہیں:
حضرت عمر ابن خطاب کے دور میں معاویہ ابن ابی سفیان نے انہیں پہلی بحری جنگ کے لیے راضی کرنا چاہا اور بتایا کہ بازنطینی حکومت وہاں سے کتنی قریب ہے۔ اس نے لکھا کہ ہمارا ایک گاؤں اتنا نزدیک ہے کہ وہاں رہنے والے (بازنطینی) کتوں اور مرغیوں کی آوازیں تک سنتے ہیں۔ اس (معاویہ ابن سفیان) نے حضرت عمر ابن خطاب پر اس حد تک دباؤ ڈالا کہ وہ تقریبا اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ چنانچہ حضرت عمر ابن خطاب نے عمرو بن العاص کو خط لکھا اور دریافت کیا کہ مجھے سمندر اور بحری سفر کرنے والوں کے متعلق بتاؤ۔
عبادہ اور خالد بیان کرتے ہیں:جب حضرت عمر نے جاننا چاہا کہ اس جنگ سے مسلمانوں کو کیا کیا فوائد ہوں گے اور مشرکوں کو کیا کیا نقصانات ہوں گے، تو اس پر عمرو بن العاص نے جواب تحریر کیا: بلاشبہ میں ایک عظیم مخلوق (سمندر) کو دیکھ رہا ہوں، جس پر بہت چھوٹی سی چیز سواری کر رہی ہے (یعنی انسان)۔ اگر یہ (سمندر) پرسکون ہے تو یہ دل کو بےقرار کر رہی ہے، اور اگر یہ بپھر جائے تو دل کو غیر یقینی کیفیت میں لے جاتی ہے۔ اس پر دل چھوٹے ہو جاتے ہیں اور شک و شبہات بڑھنے لگتے ہیں، اور جو اس پر سوار ہیں وہ ایک شاخ پر بیٹھے ہوئے کیڑے کی طرح ہیں کہ یہ شاخ دباؤ سے جھکی تو یہ ڈوب جائیں، اور اگر بچ نکلیں تو بھی متحیر زدہ رہ جائیں۔ جب حضرت عمر نے یہ خط پڑھا تو انہوں نے معاویہ ابن ابی سفیان کو خط لکھاَ: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے محمد (ص) کو حق کے ساتھ بھیجا میں ایک بھی مسلمان کو بھی وہاں (اس سمندری سفر پر) نہیں بھیجوں گا۔

اس حدیث سے اخذ کردہ نتائج

1۔ سب سے پہلی بات یہ کہ جناب رسول خدا (ص) کے انتقال کو عرصہ گذر چکا ہے، مگر اس جنت میں پہنچا دینے والی پہلی بحری جنگ کی کوئی گہما گہمی نظر نہیں آتی۔

2۔ اسکے بعد حضرت ابو بکر کی ڈھائی سالہ خلافت کا دور آتا ہے، مگر اس پورے دور میں بھی اس مغفرت والی پہلی بحری جنگ کا کہیں ذکر تک نہیں آتا اور کہیں نہیں ملتا کہ جیش اسامہ کے بھیجنے میں جیسی مستعدی دکھائی گئی وہ اس بحری جنگ کے لیے بھی دکھائی گئی ہو۔ (مستعدی تو ایک طرف، بحری جنگ کا نام و نشان تک نہیں ہے)

3۔ پھر حضرت عمر کا ساڑھے دس سالہ طویل دور خلافت شروع ہوتا ہے۔
اس دور میں دنیا کے طول و عرض میں ہر طرف فوجیں روانہ کی جاتی ہیں اور مسلم فتوحات افریکہ سے لیکر ایشیائے کوچک تک دور دور تک پھیل جاتی ہیں۔
چنانچہ اس ساڑھے دس سال کے طویل دور میں آس پاس اور دور دراز ہر جگہ فوجیں بھیجی گئیں، لیکن اگر نہیں بھیجی جاتیں ہیں تو وہ اس بہشتی بحری جنگ کے لیے نہیں بھیجی جاتیں۔
بلکہ اس پورے دور میں اس بہشتی بحری جنگ کیطرف جلدی تو ایک طرف، اسکا کہیں ذکر تک نہیں ملتا۔

4۔ پھر ماویہ ابن ابی سفیان پہلا گورنر ہوتا ہے جو بازنطینی حکومت پر بحری راستے سے حملہ کرنا چاہتا ہے۔
مگر اسے مرکز سے اس کی اجازت نہیں ملتی اور حضرت عمر کو منانے کے لیے وہ اس”بشارتی پہلی بحری جنگ” کے ذکر کی بجائے بازنطینی سلطنت کے کتوں اور مرغیوں کی آوازیں سننے کا ذکر کرتا ہے۔

5۔ معاویہ ابن ابی سفیان کئی سال تک حضرت عمر پر اس “پہلی بحری جنگ” کے لیے دباؤ ڈالتا رہتا ہے، مگر حضرت عمر تیار نہیں ہوتے۔
پھر کسی حد تک حضرت عمر راضی ہوتے ہیں ، مگر عمرہ بن العاص کا خط پڑھ کر قسم کھاتے ہیں کہ وہ ایک بھی مسلم کو اس بحری سفر پر روانہ نہیں کریں گے۔

کیا آپ کے خیال میں حضرت عمر سمندر کا حال سن کر اس سے دھشت زدہ اور ڈر گئے تھے؟ اور کیا ان کو اس بشارت پر بھی یقین نہیں رہا تھا کہ پہلی بحری جنگ جنت میں جانے کی گارنٹی ہے؟

کیا معاویہ ابن ابی سفیان کے علاوہ کسی ایک بھی اور صحابی نے اس دوران اس بشارت والی پہلی بحری جنگ کا ذکر کیا؟

طبری سے دوسری روایت
یہ روایت جنادہ بن ابی امیہ الازدی سے مروی ہے:
[align=left:8228b421d8]
Junadah bin Abi Umayyah al-Azdi:
Mu'awiyyah had written a letter to 'Umar and provoke his interest in naval compaigns, saying, "O Commander of the Faithful, in Syria there is a village whose inhabitants hear the barking of the Byzantines dogs and the crowing of their roosters, for (the Byzantines) are directly opposite a certain stretch of the coast of (the district of) hims. Now 'Umar was doubtful about this because (Mu'awiyyah) was the one who advised it. He therefore wrote to 'Amr (as follows): "Describe the sea for me and send me information about it." 'Amr then wrote to him (as follows): "O Commander of the Faithful, I have seen a mighty creature ridden by a small one. It is naught but sky and water, and (those who travel upon it) are only like a worm on a twig: if it bends he drowns, and if he is saved, he is smazed.". [/align:8228b421d8]یہ روایت ہو بہو پہلی روایت کی نقل ہے، لہذا اگلی روایت پر بڑھتے ہیں۔

طبری سے تیسری روایت(جناب عمر کا اس پہلی بحری جنگ کی ضد پر معاویہ کو دھمکیاں دینا)
[align=left:8228b421d8]

Junadah bin Abi Umayah and Rabi and Abu al-Mujalid:
'Umar wrote to Muawiyyah (as follows): "We have heard that the Mediterranean sea (bhar al-Sham) surpasses the longest thing upon the earth, seeking God's permission every day and every night to overflow the earth and submerge it. How then can I bring the troops to this troublesome and infidel being? By God, one Muslim is dearer to me than all that the Byzantines possess. Take care not to oppose me. I have given you a command, you know what al-'Ala'(bin al-Hadrami) encountered at my hands, and I did not give him such categorical orders." [/align:8228b421d8]امام
طبری جنادہ بن امیہ، ربی اور المجلد سے روایت کرتے ہیں:
عمر ابن خطاب نے معاویہ کو تحریر کیا:"میں ے سنا ہہے کہ بحر شام (بحیرہ روم) خشکی کے طویل ترین حصہ کے نزدیک ہے اور ہر روز و شب اللہ سے اجازت مانگتا ہے کہ وہ زمین میں سیلاب کی صورت میں آ کر اسے غرق کر دے۔ تو پھر میں اپنی فوجیں کیسے اس کافر چیز میں بھیج دوں؟ خدا کی قسم میرے لیے ایک مسلمان کی جان پوری رومی سلطنت سے زیادہ پیاری ہے۔ چنانچہ تم میری بات کی مخالفت کرنے سے باز آ جاؤ۔ میں تمہیں اس بات کا حکم (پہلے) ہی دے چکا ہوں اور تمہیں علم ہے کہ علاء ابن حضرمی کا میرے ہاتھوں (حکم عدولی) پر کیا حشر ہوا تھا جبکہ میں نے تو اسے ایسے کھلے اور صاف احکامات بھی نہیں دیے تھے۔

تبصرہ:
اس پہلی مغفرت، جنت بھری بشارتی بحری جنگ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرنا تو ایک طرف، حضرت عمر تو معاویہ ابن ابی سفیان کو شدید دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اگر واقعی میں اس جنگ کی بشارت موجود ہوتی تو آپ کے خیال میں کیا واقعی حضرت عمر کا یہ رویہ ہوتا؟


طبری کی چوتھی اور آخری روایت(پہلی بشارتی بحری جنگ کے لیے جبری فوجی بھرتیاں)
[align=left:8228b421d8]
Khalid bin Madan:
The first to conduct naval warfare was Mu'awiyyah bin Abi Sufyan in the time of 'Uthman bin Affan. He had sought 'Umar's permission for this but did not obtain it. When 'Uthman took Office, Mu'awiyyah persisted until at last 'Uthman decided to grant permission. He said, "Do not conscript the people or cast lots among them. Let them decide for themselves and whoever chooses [to go on] campaign in obedience [to your call], support and aid him." [/align:8228b421d8]
امام طبری خالد بن معدان سے روایت کرتے ہیں:
پہلا شخص جس نے بحری جنگ کی، وہ معاویہ ابن ابی سفیان تھا اور یہ حضرت عثمان ابن عفان کا دور تھا۔ (اس سے قبل) معاویہ حضرت عمر سے اس کی اجازت مانگتا رہا مگر اسے یہ اجازت نہیں مل سکی۔ اور جب عثمان ابن عفان خلیفہ بنے تو معاویہ ان پر بھی اس کے لیے دباؤ ڈالتا رہا حتی کہ (4 سال) بعد عثمان ابن عفان نے اسے اس کی اجازت دے دی، مگر ساتھ میں یہ حکم دیا: کسی کو زبردستی فوج میں بھرتی ہونے پر زور نہ دینا اور نہ ہی قرعہ اندازی کروا کر اس میں نکلنے والے ناموں پر جنگ میں شامل ہونے کے لیے زبردستی کرنا۔ بلکہ انہیں خود اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دینا۔ اور جو اس مہم میں جانے کے لیے تمہاری اطاعت اختیار کریں، انکی مدد کرنا۔

تبصرہ:

1۔ حضرت عمر کے ساڑھے دس سالہ دور میں میں معاویہ ابن ابی سفیان کو اس پہلی بحری جنگ کی اجازت حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔

2۔ اس کے بعد حضرت عثمان ابن عفان بھی اس جنگ کے لیے تیار نہیں ہوئے، حتی کہ 4 سال کا عرصہ گذر گیا (حضرت عثمان سنہ 24 میں خلیفہ ہوئے جبکہ یہ پہلی بحری جنگ سنہ 28 ہجری میں ہوئی)
تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کو علم ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان کا حضرت عثمان پر کتنا گہرا اثر تھا اور رشتہ داری کی وجہ سے وہ اسے بہت قریب رکھتے تھے اور اس کی بہت سی باتیں مان لیتے تھے۔

3۔ اچھا اب اجازت مل بھی گئی، مگر صورتحال کیا ہے؟؟؟ صورتحال یہ ہے کہ اس مغفرتی بشارتی پہلی بحری جنگ میں حضرت عثمان جبری فوجی بھرتیوں پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔

ذرا بیعت رضوان کو ذہنوں میں رکھئیے اور سوچیے کہ کیا اس اہم مغفرتی بشارتی جنگ کا نام سنتے ہی سلطنت اسلامیہ کے طول و عرض سے مسلمانوں کو اس جنگ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے نکل کھڑے ہونا چاہیے تھا؟؟؟
مگر اس کے برعکس، یہاں جبری بھرتیوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔

4۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ اس پہلی بشارتی بحری جنگ کا نام سنکر مرکز میں موجود کتنے صحابہ اس سعادت حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوئے؟ تو مرکز سے نہ کوئی مرکزی فوجیں بھیجی گئیں، اور نہ صحابہ یہ سعادت حاصل کرنے کی غرض سے روانہ ہوئے۔(صرف مصر سے عبداللہ ابن سعد اموی کچھ مصری فوج کے ساتھ اپنے دوسرے اموی بھائی معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ مل کر حملہ آور ہوا)

اس بحری جگ سے زیادہ صحابہ اور مرکز کے لوگ تو معرکہ قسطنطنیہ میں شریک ہو گئے تھے، مگر قسطنطنیہ کے معرکہ میں بھی شامل ہونے کی وجہ کوئی جنت کی بشارت وغیرہ نہیں تھی، بلکہ “اہم معرکوں” کے لیے مرکز سے فوجیں بھیجی جاتی تھیں اور یہ صحابہ کرام کی عادت تھی کہ وہ اہم معرکوں کے لیے ایسے ہی فوجوں کے ساتھ شامل ہو کر جہاد کرتے تھے۔ اسی لیے جنگ قادسیہ جو بہت اہم تھی اور ایران کی مخبوط سلطنت کے خلاف لڑی جانی تھی، اس میں صحابہ کی شرکت کی تعداد قسطنطنیہ سے کہیں زیادہ تھی (حالانکہ اسکے لیے کوئی جنت کی بشارت بھی نہیں تھی)۔ اسی طرح صحابہ کثیر تعداد میں دمشق اور شام اور حمص اور بیت المقدس وغیرہ کے اہم معرکوں میں شامل ہوئے (اور یہ تمام جنگیں بغیر بشارتوں کے تھیں۔

جنگ قادسیہ کی طرح قیصر شہر کی جنگ بہت بڑی اور مضبوط رومی سلطنت کے خلاف لڑی جانی تھی، اور اسکی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکز بلکہ اسلامی سلطنت کے ہر کونے سے مسلمان جمع ہوئے کیونکہ اگر مسلمان یہ جنگ ہار جاتے تو رومی سلطنت پلٹ کر اسلامی سلطنت پر حملہ کرتی اور شام وغیرہ پر پھر سے قبضہ کر لیتی۔ اسی طرح بیت المقدس بھی خطرے میں پڑ جاتا۔

چنانچہ جو لوگ قیصر شہر کی جنگ میں حضرت ابو ایوب انصاری کی شمولیت کی وجہ جنت کی بشارت سمجھ رہے ہیں، وہ غلطی پر ہیں اور اس سلسلے میں سوائے اس بحری بیڑے والی جنگ کے کوئی اور حدیث بطور ثبوت پیش نہیں کی جاتی، بلکہ سارا زور قیاس آرائیوں پر ہے۔

چلیں اس قیصر شہر پر گفتگو بعد میں، فی الحال پہلی بحری جنگ پر پلٹتے ہیں۔ تو اس سلسلے میں کسی کو کچھ کہنا ہو پوچھنا ہو کہ کیوں رسول (ص) کی وفات کے بعد 18 سال تک ہر غیر بشارتی جگہ پر فوجیں بھیجی جاتی ہیں، مگر نہیں بھیجی جاتیں تو صرف بحری جنگ کے لیے نہیں بھیجی جاتیں۔
اور کیوں اس پورے 18 سالہ دور کے متعلق ایک بھی روایت نہیں ملتی جہاں اس بحری جنگ کی بشارت کا ہلکا سا بھی اشارہ ملتا ہو۔ اور پھر اس بشارت کا پتا چلتا ہے تو صرف اس جنگ کے ختم ہو جانے کے بعد، اور وہ بھی ایسی خاتون سے منسوب جو اس کی تصدیق\تردید کے لیے زندہ نہیں، اور پھر یہ منسوب کرنے والے تمامکے تمام شامی، اور انکا کردار ایسا کہ اھلبیت پر سب کر کے انہیں برا بھلا کہنے والے۔

(باقی اگلی فرصت میں۔ انشاء اللہ)

اللہ آپ سب پر اور محمد و آل محمد پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔امین۔

(اب میں تھک گئی ہوں، باقی آئیندہ انشاء اللہ)
 

مہوش علی

لائبریرین
محترم شاکر القادری بھائی،

آپ کی موجودگی ہمارے لیے بہت باعث رحمت ہے اور آپ کی تحریر پڑھ کر میرا ڈھیڑوں سیر خون بڑھا اور ایمان کو تازگی و فرحت ملی۔

پاکستان سے دور ہونے کی وجہ سے بہت سی شیزوں کا علم نہیں ہے، مثلا مجھے محمود عباسی کی یزید ابن معاویہ کی وکالت کا تو علم تھا، مگر یہ علم نہیں تھا کہ علماء نے اس بھرپور طریقے سے اس کے جوابات تحریر کیے ہیں۔ اور جب آپ کی تحریر سے پتا چلا تو زبان سے کلمہ شکر خود بخود جاری ہو گیا۔

والسلام۔
 

شمشاد

لائبریرین
دعا ہے اللہ آپ کو مزید علم عطا فرمائے اور ہم سبکو سچ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

فہیم

لائبریرین
جناب مجھ غریب نے تو نہ جانے کتنے عرصے پہلے یہ بات پوچھی تھی۔
اور اب تو میرے دماغ سے یہ بات کب کی نکل چکی تھی۔
میرے سے کسی نے اس کتاب کا نام پوچھا تو میں‌نے یہاں ایسی بات کی۔
اب اتنے عرصے بعد جاکر اس پر بحث چھڑ گئی ہے۔
میری معلومات چونکہ اس معاملے میں نہیں‌ہیں اس لیے میں‌خاموش ہوں۔
اور اس بحث میں‌حصہ نہیں‌لیا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
fahim نے کہا:
جناب مجھ غریب نے تو نہ جانے کتنے عرصے پہلے یہ بات پوچھی تھی۔
اور اب تو میرے دماغ سے یہ بات کب کی نکل چکی تھی۔
میرے سے کسی نے اس کتاب کا نام پوچھا تو میں‌نے یہاں ایسی بات کی۔
اب اتنے عرصے بعد جاکر اس پر بحث چھڑ گئی ہے۔
میری معلومات چونکہ اس معاملے میں نہیں‌ہیں اس لیے میں‌خاموش ہوں۔
اور اس بحث میں‌حصہ نہیں‌لیا
عزیزی فہیم!
چونکہ ہمارا آپ سے کچھ تعلق واسطہ بنتا ہے اس لیے جب ہمیں یہ محسوس ہوا کہ اس کتاب کے مطالعہ سے آپ کو نقصان ہوگا تو ہم نے آپ کو مشورہ دیا اور اس طرح اس دھاگے کے ذریعہ بہت سارا علمی مواد محفل کے فورم پر جمع ہو رہا ہے یہ بجا کہ آپ کے ذہن سے بات نکل گئی ہوگی لیکن آپ یہ مان لیں یہ کی تحریک بڑے زورو شور سے چلائی جاری رہی ہے کہ یزید بن معاویہ کے چہرے سے کسی نہ کسی طرح کالک دھو دی جائے اور آج بھی انٹر نیٹ پر مختلف فورمز اور بلاگز کے ذریعہ یزید کی مدح سرائی کی جا رہی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلک حقہ کو واضح کیا جائے اور عوام تک درست اور صحیح معلومات پہنچائی جائیں اس سلسلہ میں ہم سب پر یہ فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں
اس سلسلہ میں میں نےے کچھ مواد ترتیب دیا ہے جو قسط وار ارسال کرتا ہوں
 

شاکرالقادری

لائبریرین
الحمد للہ الذی طہَّر اھل بیت نبینا من کل رجس و اٰتاھم من لدنہ علما و فضلا کبیرا o ا ما بعد

انا اعطینک الکوثرo فصل لربک و انحرoان شانئک ہوالابترo

ترجمہ: بے شک ہم نے آپ کو جو کچھ عطا کیا بے حدو بے حساب عطا کیا پس آپ نماز پڑھا کریں اپنے رب کے لیے اور اسی کی خاطر قربانی دیں یقینا جو آپ کا دشمن ہے وہی بے نام و نشان ہو گا۔

اس سورۃ کریمہ کی شان نزول کے بارے میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیھا کے بطنِ اطہر سے حضور پرنور کے دو صاحبزادے تولد ہوئے ایک کا نام ِنامی قاسم اور دوسرے کا اسمِ گرامی عبداللہ تھا ۔ان کا لقب طیب اور طاہر بھی ہے ۔ اعلان نبوت سے قبل باشندگانِ عرب آپ کا حد درجہ احترام کرتے اور آپ کو صادق الوعد الامین کے القابات سے یاد کرتے اور انہوں نے آپ سے بڑی حسین توقعات وابستہ کر رکھی تھیں لیکن جب حضور نے کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر’’ قولوا لا الہ الااللہ تفلحوا‘‘ کی دعوت دی تو اہل مکہ کے تیور بدل گئے ۔انہوں نے چشم ِتصور میں اپنی حسین توقعات کو پامال ہوتے دیکھا ان کے دلوں میں آپ کے لیے موجود محبت و عقیدت کے جذبات آنِ واحد میں نفرت و عداوت کے امڈتے سمندر بن گئے انہیں آپ کی ہر بات سے چڑ ہو گئی اور وہ ہر اس بات سے مسرت و سرور کشید ہ کرتے جو آپ کے لیے باعث رنج و محن ہوتی چنانچہ ان حالات میں جب آپ کے دونوں صاحبزادوں قاسم و عبداللہ علیہم السلام کم سنی میں یکے بعد دیگرے راہی ملکِ بقا ہوئے تو کفار مکہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا انہوں نے اطمینان کا سانس لیا ۔وہ اپنے اعتقادات اور رسوم و رواج کے لیے نئے دین سے جو خطرات محسوس کر رہے تھے اس احساس کی شدت میں کمی آئی اور انہوں نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دینا شروع کی کہ آپ کی اولاد نرینہ تو باقی نہ رہی جو اس سلسلہ کو آگے بڑھائے گی، یہ دینِ نو آپ کی زندگی تک ہی محدود ہے،ادھر ان کی شمعِ زیست گل ہوئی اور ادھر دین محمدی کا خاتمہ۔

ابتر کے لغوی معنی’’دم بریدہ‘‘ ہیں عام طور پر اس شخص کو کہتے ہیں جس کا کوئی فرزند نہ ہو اور اس کا سلسلہ نسل منقطع ہو گیا ہو، گستاخانِ قریش نے آپ کے لیے اسی لفظ کو استعمال کرنا شروع کر دیا چنانچہ ابولہب، عاص بن وائل السہمی(جو کہ عمرو بن العاص کا باپ تھا)اور مشرکین قریش کے دیگر اکابرین یوں کہا کرتے :

ان محمدا ابتر لا ابن لہ یقوم مقامہ بعدہ فاذامات انقطع ذکرہ و استرحتم منہ

یعنی محمد ابتر ہیں ان کا کوئی بیٹا نہیں جو ان کی وفات کے بعد ان کا جانشین ہو، جب یہ فوت ہو جائیں گے تو ان کا ذکر مٹ جائے گا اور تمہیں راحت و آرام کا سانس لینا نصیب ہو گا۔
جب اس قسم کی دل آزاریاں حدِ شائستگی سے گذر گئیں تو غیرتِ خداوندی جوش میں آئی اور اﷲ کریم نے اپنے محبوب کی دلجوئی سورۃ کوثر کے الفاظ کے ساتھ فرمائی جس میں نہایت مختصر الفاظ میں کفار مکہ پر یہ بات واضح کر دی کہ تم اپنے زعم باطل سے یہ سمجھتے ہو کہ میرے محبوب کا ذکر مٹ جائے گا ،اس کاکوئی نام لیوا نہ ہو گا اور اس کے شروع کردہ دینِ بر حق کی تبلیغ کرنے والا ان کے بعد کوئی نہ ہو گا، خبردار!تمہارا یہ زعم باطل ہے اور یہ خیال خام، میرے حبیب کا جاری کردہ چشمہِ فیض تا ابد جاری و ساری رہے گا اور نام ونشان تو اسی دم بریدہ کا مٹے گا جس کو آپ سے دشمنی ہو گی اور آپ اور آپ کی اولاد سے اظہار عداوت کرنے والا ہر شخص ابد ا لآباد تک بے نام و نشان رہے گا۔تاریخ اسے فراموش کر دے گی ،اس کی قوم اسے بھول جائے گی اور اس کی اولاد تک اس کا نام لینا اپنے لیے باعث عار و ذلت تصور کرے گی اور اے محبوب آپ کی شان تو یہ ہے کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا فرما دیا ہے۔ آپ کی نسلِ پاک کا سلسلہ تا قیامت منقطع نہیں ہو گا پس آپ تحدیث نعمت کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔

اس سورۃ مبارکہ میں ’’کوثر‘‘، ’’فصل لربک‘‘، ’’وانحر‘‘ اور ’’ابتر‘‘ کے الفاظ کو اس سورۃ مبارکہ کی شان نزول کے پس منظر کے ساتھ دیکھیں تو یہ خاص معانی دیتے ہیں۔’’ کوثر‘‘ وہ خیر کثیر ہے جو اولاد کے معاملہ میں آپ کو دشمنانِ دین کے طعنوں سے تسلی و تشفی کے لیے عطا ہوئی’’ نماز و قربانی‘‘ روزعاشورہ کی نماز و قربانی کی طرف اشارہ ہے اور لفظ’’ ابتر‘‘ سے یزیدیت کے خاتمہ و دم بریدگی کے معنی عیاں ہیں۔

اس سورۃ مبارکہ کی شان نزول کے بارے میں تمام مفسریں متفق ہیں البتہ لفظ’’ کوثر‘‘کے معانی اور مفاہیم میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ اور علمائے تفسیر نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1 - ’’کوثر‘‘ کثرت سے ماخوذ ہے اور اس کا وزن’’ فوعل‘‘ ہے جو کہ مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی کسی چیز کا اتنا کثیر ہونا کہ اس کا اندازہ نہ لگایا جا سکے۔

2 - کوثر سے مراد جنت کی وہ نہر ہے جس سے جنت کی ساری نہریں نکلتی ہیں جو اﷲ تعالی نے اپنے حبیب کو عطا فرما دی ہیں۔

3 - کوثر جنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں موتیوں اور یاقوت کا فرش بچھا ہوا ہے اور اس کی مٹی کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ شفاف ہے۔

4 - کوثر اس حوض کا نام ہے جو میدانِ حشر میں ہوگا اور اس سے حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اپنی امت کو سیراب فرمائیں گے۔

5 - کوثر ’’النبوۃ‘‘ ہے یوں تو پہلے بھی انبیاء تشریف لائے لیکن نبوت محمدیہ کے فیوض و برکات کی کثرت کے لیے یہ لفظ استعمال کیا گیا۔

6 - کوثر سے مراد قرآن کریم ہے۔

7 - کوثر سے مراد دین اسلام ہے۔

8 - اس سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا رفع ذکر ہے۔

9 - اس سے مراد حضور کے دل کا نور ہے۔

10 - کوثر سے مراد مقام محمود ہے۔

11 - کوثر سے مراد خیر کثیر ہے۔

12 - اﷲ تعالی کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں کوثر ہیں۔

13 - اس سے مراد صحابہ کرام کی کثرت ہے۔

علمائے تفسیر نے لفظ کوثر کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے ان اقوال کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے گویا لفظ کوثر میں فضائل و مکارم اور لطف وعنایاتِ ربانی کے سمندر سمو دیے گئے ہیں۔ایسی صورت میں ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
’’کوثر‘‘ سے مراد قیامت تک آلِ رسول اولادِ بتول علیہا السلام کاکثرت کے ساتھ پھیلنا ہے ۔ ‘‘

اور قرائن بھی اسی بات کی جانب رہنمائی کرتے ہیں کیوں کہ سرورِعالم کو قریش مکہ کی جانب سے’’بے اولاد‘‘ ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ جس سے قلبِ اطہر پہ رنج و ملال کی کیفیت طاری ہوئی اور اللہ رب العزت کی جانب سے آپﷺ کی تسلی و دلاسہ کے لیے اس سورۃ کریمہ کا نزول ہوا۔ اور یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جب بھی کسی رنجیدہ شخص کو تسلی دی جاتی ہے توتسلی اور تشفی کے الفاظ کے ذریعہ اسی بات کا ازالہ کیا جاتا ہے جس سے وہ انسان رنجیدہ ہوا ہولہذا لفظ کوثر کی جتنی بھی تعبیریں اور تفسیریں کی جائیں، اس وقت تک مکمل نہ ہونگی جب تک ان میں آل و اولاد رسول کا حوالہ شامل نہ کیا جائے

جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاکرالقادری نے کہا:
عزیزی فہیم!
چونکہ ہمارا آپ سے کچھ تعلق واسطہ بنتا ہے اس لیے جب ہمیں یہ محسوس ہوا کہ اس کتاب کے مطالعہ سے آپ کو نقصان ہوگا تو ہم نے آپ کو مشورہ دیا اور اس طرح اس دھاگے کے ذریعہ بہت سارا علمی مواد محفل کے فورم پر جمع ہو رہا ہے یہ بجا کہ آپ کے ذہن سے بات نکل گئی ہوگی لیکن آپ یہ مان لیں یہ کی تحریک بڑے زورو شور سے چلائی جاری رہی ہے کہ یزید بن معاویہ کے چہرے سے کسی نہ کسی طرح کالک دھو دی جائے اور آج بھی انٹر نیٹ پر مختلف فورمز اور بلاگز کے ذریعہ یزید کی مدح سرائی کی جا رہی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلک حقہ کو واضح کیا جائے اور عوام تک درست اور صحیح معلومات پہنچائی جائیں اس سلسلہ میں ہم سب پر یہ فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں
اس سلسلہ میں میں نےے کچھ مواد ترتیب دیا ہے جو قسط وار ارسال کرتا ہوں

السلام علیکم شاکر بھائی

اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو جزائے خیر دے۔
میری ناقص رائے ہے کہ آپ اس دھاگے کی بجائے الگ سے ایک عنوان دے کر نیا دھاگہ کھولیں یہ پھر اگر آپ مناسب سمجھیں تو اسی دھاگے کا عنوان تبدیل کر دیا جائے کہ اس میں آپ کے علاوہ مہوش صاحبہ کے بھی تفصیلی خطوط موجود ہیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
برادر محترم شمشاد!
دعائوں کا شکریہ
نئے سلسلہ/دھاگہ کا آغاز یا اسی سلسلہ گفتگو کے عنوان یا نام کی تبدیلی یہ تمام انتظامی امور ہیں جو آپ بہتر سمجھتے ہیں
ہمیں اس میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے
البتہ اندیشہ ہے کہ نام کی تبدیلی سے دھاگے کی نوعیت واضح ہو جانے پر کچھ اور صاحبان ذوق بھی تشریف لے آئیں اور ایسا نہ ہو کہ علمی مواد جمع ہونے کی بجائے بحث لا حاصل کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے بہر حال علمی مواد کو مرتب و مدون صورت میں رکھنے کے لیے آپ جو انتظامات مناسب سمجھیں کریں ہمیں آپ سے اتفاق ہے
 

حسن نظامی

لائبریرین
جیہ نے کہا:
کوئ 3 سال پہلے پڑھی تھی۔ اس وقت میرے ہاتھ میں یہ کتاب ۔
اس کی جنگ بلکہ جہاد کے بارے معلومات صفحہ نمبر 74 سے صفحہ نمبر 80 تک ہیں۔

بخاری شریف کی وہ حدیث بھی دی گئ ہے جا کا میں نے ذکر کیا تھا
یہ بھی ہے کہ اس جہاد میں ابن مسعود ، ابن عمر جیسے اکابر صحابہ بھی شریک تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری کی وفات کا ذکر ہے جس کی جنازہ یزید نے پڑھائ تھی۔ یہ جنگ سنہ 49 ہجری میں لڑی گئ تھی

السلام علیکم

کسی بھی شخصیت کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے اس کے نام کے ساتھ الفاظ استعمال کرنے چاہییں

میں انتہائی ادب سے جیہ بہنا سے گذارش کروں گا کہ جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے جید صحابی کا اسم آیا کرے تو ان کے ساتھ ان کے شایان شان پروٹوکول دیا کریں اور زکریا بھائی کے لئے بھی یہی عرضی

اور ایک حدیث کہ
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے سامنے میرا نام لیا گیا اور اس نے درود شریف نہ پڑھا وہ بخیل ہے اور جس نے خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا اور درود شریف نہ لکھا

خیال رکھا کریں
مہربانی ہو گی
 

جیہ

لائبریرین
جزاکم اللہ خیراً سید صاحب۔ مگر یہ ایک ٹائپو (ٹائپنگ کی غلطی) تھی۔ میں جلدی میں اکثر ایسی غلطیاں کر جاتی ہوں۔ آپ نے میرے خط سے جو اقتباس دیا ہے اگر آپ اسے غور سے پڑھ لیں میری یہ غلطی بھی دکھائ دی گی کہ میں نے بجائے جس کا جاکا لکھا ہے
 

حنا فیصل

محفلین
جزاک اللہ

عزت مآب شاکر صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی آپ کو جزا عطا فرمائے
ہمار چنائو بالکل 100٪درسے ہے (اس بات کو ہم ہی سمجھ سکتے ہیں)

میرا ایک ایمان ہے
جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولا د کا دشمن وہ ہمارا دشمن اورہم تمام عمر اس پر لعنت کریں گے
 

مہوش علی

لائبریرین
حصہ دوم: یزید کا قسطنطنیہ شہر پر حملہ
یہ دھاگہ بہت عرصے سے نامکمل چلا آ رہا تھا۔
اس لیے میں نے اللہ سے منت مانگی کہ وہ مجھے ہمت و توفیق عطا فرمائے کہ میں اس محرم الحرام کے مہینے میں اس کام کو اپنی طرف سے مکمل کر دوں۔ امین۔

پہلے حصے [پہلی بحری جنگ] کی طرح یہ قسطنطنیہ شہر والا حصہ بھی نہایت ہی دلچسپ ہے اور اسکی اصلیت سامنے آنے پر پڑھنے والے قارئین کے سامنے حقائق مزید واضح ہو کر سامنے آ جائیں گے۔ انشاء اللہ۔

چیزوں کو انتہائی مختصر کرتے ہیں اور اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں

٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

"شہر قیصر" پر پہلا یزیدی حملہ بالمقابل بیعت رضوان
بالکل پہلے حصے کی طرح یہ بات قارئین پر بالکل صاف ہو گی کہ:

1۔ قسطنطنیہ شہر والی جنگ کی اہمیت بیعت رضوان کے عین برابر ہے [دونوں صورتوں میں مغفرت و جنت کی بشارت ہے]

2۔ اور بیعت رضوان کی بشارت کی اہمیت دیکھیے کہ اسکا ذکر خود اللہ قران میں کرتا ہے۔ پھر اللہ کا رسول (ص) لوگوں سے اپنے ہاتھ پر بیعت لیتا ہے۔ پھر یہ بشارت ہر مسلمان بچے بچے کی زبان پر عام ہو جاتی ہے۔ بیعت رضوان میں شامل صحابہ کی اسکے بعد تاحیات خاص عزت و تکریم کی جاتی ہے اور انہیں نہ شامل ہونے والے صحابہ پر افضلیت دی جاتی ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ اگر "شہر قیصر" پر حملے والی یہ جنگ بیعت رضوان جیسی ہی اہم تھی تو اس کو روایت کرنے والی صرف اور صرف ایک خاتون کیوں؟ (اور ان خاتون سے بھی یہ روایت ان کے مرنے کے بعد منسوب ہوتی ہے)۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رسول (ص) کھل کر صحابہ کو "شہر قیصر" پر حملے کی بشارت سناتے، اور یہ صحابہ آگے کھل کر سلطنتِ اسلامیہ میں اس اہم بشارت کو پھیلاتے تاکہ کونے کونے سے مسلمان اس جنگ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے تیاریاں کرتے اور ایک بڑی فوج تیار ہو پاتی۔

مگر نہیں، ان تمام باتوں کے برعکس کسی صحابی کو اس بشارت کا پتا چلتا ہے اور نہ وہ اسے روایت کرتا ہے اور نہ دوسروں تک اسے پھیلاتا ہے۔

حتی کہ وہ فوج جو اس پہلی جنگ میں شریک ہوتی ہے، اُسے خود بھی اس بشارت کا علم نہیں ہوتا۔

اور یہ روایت صرف اس وقت منظر عام پر آتی ہے جب اس "شہرِ قیصر" پر پہلا یزیدی حملہ ہوئے سالہا سال ختم ہو چکے ہوتے ہیں اور ان خاتون کا بھی انتقال ہو چکا ہوتا ہے اور وہ اس کی تصدیق یا تکذیب کے لیے زندہ نہیں۔

حدیث و تاریخ کی کتب میں ایک بھی روایت "شہر قیصر" پر جنت کی بشارت کے متعلق موجود نہیں

جس طرح پہلی بحری جنگ کے متعلق اسلامی احادیث اور اسلامی تاریخ کی ہزار ہا کتب میں ایک بھی روایت موجود نہیں جو ان شامی ناصبی رایوں کی بیان کردہ مغفرت و جنت کی بشارت کا ذکر کرتی ہو، بعینہ اسی طرح ان ہزار ہا احادیث و تاریخ کی کتب میں "شہرِ قیصر" کے متعلق بھی ایک بھی روایت موجود نہیں جو اس مغفرت و جنگ کی بشارت وغیرہ کا ذکر کرتی ہو۔

قارئین کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ اس "شہرِ قیصر" پر پہلے یزیدی حملے والی جنگ، کہ جس کی اہمیت بیعت رضوان کے برابر ہے اور جس میں جنت کی بشارت موجود ہے، اس کا ذکر تاریخ کی سب سے بڑی کتاب تاریخ طبری میں صرف اور صرف ڈیڑھ سطر کی ایک عبارت میں ملتا ہے۔
اور ڈیڑھ سطر کی یہ عبارت مؤرخ طبری نے اپنی تاریخ میں یوں نقل کی ہے:
"سن 49 ہجری کے واقعات
"اور یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے روم میں جنگ کی یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گیا۔ ابن عباس و ابن عمر و ابن زبیر و ابو ایوب انصاری اس کے ساتھ تھے۔"
حوالہ:
تاریخ طبری، اردو ترجمہ از نفیس اکیڈمی، جلد 4، صفحہ 72 [نوٹ: نفیس اکیڈمی نے یزید کے لیے رضی اللہ عنہ کا استعمال کیا ہے]
اردو ترجمے کا آنلائن امیج
اصل عربی عبارت کا آنلائن امیج
[بعد میں آنے والے کچھ مورخین مثلا ابن کثیر نے البدایہ میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے، مگر انہوں نے کوئی نئی روایت بیان نہیں کی ہے بلکہ تاریخ طبری سے یہی ڈیڑھ سطر کی عبارت نقل کر دی ہے]


دوسرا تبصرہ: امام ابن اثیر کی زیادہ تفصیلی روایت
طبری کی ڈیڑھ سطر کی روایت سے کہیں تفصیلی معلومات امام ابن اثیر نے اپنی تاریخ کامل میں مہیا کی ہیں۔ ذرا دیکھئیے یزید ابن معاویہ کا اصل چہرہ:

في هذه السنة وقيل‏:‏ سنة خمسين سير معاوية جيشًا كثيفًا إلى بلاد الروم للغزاة وجعل عليهم سفيان بن عوف وأمر ابنه يزيد بالغزاة معهم فتثاقل واعتل فأمسك عنه أبوه فأصاب الناس في غزاتهم جوعٌ ومرض شديد فأنشأ يزيد يقول‏:‏ ما إن أبالي بما لاقت جموعهم بالفرقدونة من حمى ومن موم إذا اتكأت على الأنماط مرتفقًا بدير مروان عندي أم كلثوم وأم كلثوم امرأته وهي ابنة عبد الله بن عامر‏.‏ فبلغ معاوية شعره فأقسم عليه ليلحقن بسفيان في أرض الروم ليصيبه
آنلائن لنک
ترجمہ:
اس سال (سن 49 ہجری) اور کچھ کہتے ہیں کہ سن 50 ہجری میں معاویہ ابن ابی سفیان نے تیاریاں کیں کہ روم کے شہروں اور قصبوں پر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں حملے کیے جائیں۔ چنانچہ معاویہ ابن ابی سفیان نے فوجیں روانہ کیں اور اپنے بیٹے یزید کو بھی حکم دیا کہ وہ اس فوج میں شامل ہو جائے۔ مگر یزید اس معاملے میں سستی دکھاتا رہا حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان اس معاملے میں خاموش ہو گیا۔ یہ فوج جنگ کے دوران بیماری اور بھوک کا شکار ہو گئی اور جب یزید کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشعار پڑھے: "مجھے اسکی کیا پرواہ کہ فوج فرقدونہ کے مقام پر بخار اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ میں تو آرام و سکون کے ساتھ اعلی پوشاک میں مروان کے گھر میں ام کلثوم کے ساتھ رہ رہا ہوں۔
ام کلثوم بنت عبداللہ ابن عامر، یزید کی بیوی تھی۔ جب معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید کے یہ اشعار سنے تو اُس نے قسم کھائی کہ وہ یزید کو روم میں سفیان ابن عوف کے پاس ضرور بھیجے گا تاکہ اسے مشکلات کا سامنا کر کے انہیں جھیلنا پڑے۔"
[جاری ہے۔ انشاءاللہ]
 

طالوت

محفلین
تفرقے کا کام تو ہم زور شور اور بڑے شوق سے کرتے ہیں ۔۔ آپ جن بنو امیہ کی گھڑی ہوئی روایت کی چھان بین کر رہی ہیں ، کبھی کوفہ کی ٹکسالوں میں گھڑی گئی بے ہودہ روایت کا بھی پوسٹ مارٹم کر لیا کریں ۔۔ یا جو آپ کے ایمان کا حصہ ہے وہ مکمل طور پر قابل اعتبار ہے ۔۔ ؟
امیر المومنین یزید (رح) کو دوزخی ثابت کرنے سے بہتر ہے اپنی عاقبت کی فکر کریں ۔۔ رٹے رٹائے جملوں کے راگ الاپنے سے یہ کام ہزار درجے بہتر ہے ۔۔
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
تیسرا تبصرہ: یزید نے قسطنطنیہ کو فتح نہیں کیا تھا
قارئین یہ ذہین نشین رکھیں کہ یزید نے قسطنطنیہ کو فتح نہیں کیا تھا، بلکہ صرف قسطنطنیہ شہر تک پہنچ پایا تھا۔ [دیکھئیے مؤرخ طبری کی ڈیڑھ سطر والی عبارت ایک بار پھر: ""اور یزید بن معاویہ نے روم میں جنگ کی یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گیا۔"]
دیکھئیے وکیپیڈیا پر قسطنطنیہ کی تاریخ [آنلائن لنک]
Byzantine–Arab Wars

In 674 the Umayyad Caliph Muawiyah I besieged Constantinople under Constantine IV. In this battle, the Umayyads were unable to breach the Theodosian Walls and blockaded the city along the River Bosporus. The approach of winter however forced the besiegers to withdraw to an island 80 miles (130 km) away.[33
]


True History tells Arabs never conquered Constantinople, but it were Muslim Turks who conquered it.
From link: roman-empire.net

Constantine IV Pogonatus (reign AD 668-685)
Constans II was succeeded by his son Constantine IV Pogonatus. The new emperor was only eighteen when he took the throne. AFter suppressing a usurper at Syracuse who had tried to make his profit out of the murder of his father, the young emperor plunged into the war with the Saracens.

For some time Moawiya, now Khalif of the Saracens, met with success against him. By AD 673 Moawiya was in possession of the Asiatic shore of the Sea of Marmora and laid siege to Constantinople itself. Then the tide turned. The Byzantine fleet, - armed with a new weapon, known as 'Greek Fire', a mixture of flammable oils which were blown at opponents with bellows, a little like an early flame-thrower, - recovered the mastery of the sea and drove off the Saracens. In ad 678 Moawiya had to sue for peace, and the hostilities were again suspended for several years.

چوتھا تبصرہ: "شہرِ قیصر" سے مراد قسطنطنیہ نہیں ہے
روایت میں لفظ آیا ہے "مدینۃ القیصر" یعنی "قیصر کا شہر"۔
دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ "شہرِ قیصر" سے مراد قسطنطنیہ ہے۔ مگر یہ درست دعوی نہیں ہو سکتا کیونکہ قیصر کی حکومت کئی شہروں پر تھی اور رومی سلطنت پر مسلمان یزید کے پیدا ہونے سے بھی پہلے سے حملے کر رہے تھے۔

پانچواں تبصرہ: قیصر کے شہروں پر مسلم حملوں کی مختصر تاریخ
۔ پہلی مسلم فوج جس نے قیصر کے شہر [روم] پر حملہ کیا وہ بذات خود رسول اللہ ﷺ نے روانہ کی تھی۔ اسکے کمانڈر صحابی زید بن حارث تھے اور رسول اللہ ﷺ نے اس جنگ میں حضرت جعفر طیار، زید بن حارث اور حضرت عبداللہ کی شہادت کی خبر دے دی تھی [قبل اسکے کہ یہ خبر مدینہ پہنچتی]۔ دیکھئیے وکیپیڈیا پر جنگ موتہ
http://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Mu%27tah

2۔ اگر ہم "شہرِ قیصر" سے مراد اسکا دارلخلافہ بھی لیں [یعنی شہر حمص] تو یہ شہر حمص بھی حضرت عمر ابن الخطاب کے زمانے میں سن 16 ہجری میں فتح ہو گیا تھا۔ اسکے کمانڈر جناب ابو عبیدہ تھے۔ اور صحابی یزید بن ابو سفیان اس فوج میں شامل تھے جبکہ یزید بن معاویہ اس وقت تک پیدا تک نہیں ہوا تھا۔

3۔ اور اگر ہم بہت زیادہ تخیل سے کام لیتے ہوئے "شہرِ قیصر" سے مراد صرف اور صرف "قسطنطنیہ" بھی لے لیں تب بھی یزید ابن معاویہ سے قبل مسلم فوجیں قسطنطنیہ پر کئی حملے کر چکی تھیں۔
ابن کثیر الدمشقی اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:
"سن 32 ہجری کے واقعات
اس سال حضرت معاویہ ؓ نے بلاد روم سے جنگ کی حتی کہ آپ قسطنطنیہ کے درے تک پہنچ گئے اور آپکی بیوی عاتکہ بھی آپ کے ساتھ تھی۔۔۔۔"
البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، سن 32 ہجری کے حالات، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، صفحہ 212 [آنلائن سکین پیج http://img229.imageshack.us/img229/935/ibnkatheer32yearrh0.gif

4۔ پھر قسطنطنیہ پر اگلا حملہ عبداللہ ابن ابی ارطاۃ کی سرکردگی میں سن 42 ہجری میں ہوا اور مؤرخین نے اس کو نقل کیا ہے۔

5۔ اگلہ حملہ سن 43 ہجری میں بسر بن ارطاۃ کی قیادت میں ہوا۔ ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں:
"سن 43 ہجری
اس سال میں بسر بن ارطاۃ نے بلاد روم سے جنگ کی حتی کہ قسطنطنیہ کے شہر تک پہنچ گیا اور واقدی کے خیال کے مطابق موسم سرما انکے ملک میں گذارا۔۔۔۔"
حوالہ: البدایہ و النہایہ، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، جلد ہشتم، صفحہ 38
آنلائن لنک: http://img360.imageshack.us/img360/2733/ibnkatheer43yeardm3.gif

6۔ اگلا حملہ سن 44 ہجری میں ہوا اور اسکی سرکردگی عبدالرحمن بن خالد بن ولید کر رہے تھے۔ ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں:
"سن 44 ہجری
اس سال میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید نے بلاد روم کے ساتھ جنگ کی اور مسلمان بھی آپ کے ساتھ تھے اور انہوں نے موسم سرما وہیں گذارا اور اسی میں بسر بن ابی ارطاۃ نے سمندر میں جنگ کی۔"
حوالہ: البدایہ و النہایہ، جلد ہشتم، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، صفحہ 42
آنلائن لنک:
http://img101.imageshack.us/img101/8908/ibnkatheer44yeargh0.gif

7۔ اس سے اگلا حملہ سن 46 ہجری میں پھر عبدالرحمن بن خالف بن ولید کی سرکردگی میں ہوا اور انہوں نے موسم سرما بلاد روم میں گذارا [بعض کا قول ہے کہ اس میں فوج کا امیر کوئی اور تھا]
حوالہ: البدایہ و النہایہ، سن 46 ہجری کے حالات، جلد ہشتم، صفحہ 73۔

8۔ پھر سن 47 ہجری میں مالک بن ہبیرہ کی سرکردگی یں حملہ ہوا [سنن ابو داؤد کے مطابق اسی سن 47 میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید کا انتقال ہو گیا تھا]۔

9۔ پھر سن 49 میں روم پر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں تین حملے ہو چکے تھے جبتک کہ معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم پر زبردستی یزید محاذ تک پہنچتا [دیکھئیے علامہ ابن اثیر کی روایت جو اوپر نقل کی جا چکی ہے]
[جاری ہے انشاء اللہ]
 

مہوش علی

لائبریرین
حامیان یزید کا قیاسی ثبوت: ابو ایوب انصاری نے بڑھاپے میں اس جنگ میں حصہ لیا جو ثبوت ہے کہ یہ بشارتی جنگ تھی

چونکہ ہزاروں اسلامی حدیث اور اسلامی سیر و تاریخ کی کتب میں لاکھوں روایات موجود ہوتے ہوئے ایک روایت بھی ایسی موجود نہ تھی جو اس بشارتی پہلی بحری جنگ یا شہر قیصر پر بشارتی حملہ کا ہلکا سا بھی اشارہ دیتی ہو، چنانچہ یہ شامیوں کی گھڑی ہوئی یہ روایت بذات خود ان کے حلق میں جا کر پھنس گئی۔

چنانچہ جو سب سے بڑا آرگومنٹ جو بطور ثبوت انکی طرف سے پیش کیا جاتا ہے، وہ سرے سے کوئی ثبوت ہی نہیں ہے بلکہ سراسر قیاس ہے، اور وہ یہ کہ ابو ایوب انصاری نے بڑھاپے کے باوجود شہر قیصر پر اس جنگ میں حصہ لیا۔

1۔ تو پہلا اعتراض تو ان حضرات کی خدمت میں یہی ہے کہ انکے قیاس کی کوئی اہمیت نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بشارتی پہلی بحری جنگ اور بشارتی قیصر شہر پر پہلے حملے والی جنگ، کہ جن کی اہمیت "بیعت رضوان" کے برابر ہے، ان کے متعلق لاکھوں اسلامی روایات میں کوئی ایک روایت بھی موجود کیوں نہیں ہے؟

2۔ اور دوم یہ کہ عمر کا زیادہ ہونا کوئی ثبوت نہیں کیونکہ عظیم المرتبت صحابی رسول جناب عمار یاسر علیہ السلام 90 سال کی عمر میں جنگ صفین میں علی ابن ابی طالب کی ہمراہی میں معاویہ ابن ابی سفیان کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔

چنانچہ یزید کے حامی حضرات کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے قیاسات کے پیچھے چھپنے کی بجائے براہ راست کوئی ایک ہی روایت پیش کر دیں جہاں اس پہلی بحری جنگ کی بشارت اور شہر قیصر پر پہلے حملے کی بشارت کا ذکر ہو۔

دوسرا قیاس: ابن عباس، ابن عمر و ابن زبیر کی جنگ میں شمولیت ثبوت ہے اس جنگ کی بشارت کا
بات پھر وہی کہ کیونکہ کوئی ایک اور روایت بھی ایسی موجود نہیں جو ان بشارتی بحری جنگ اور شہر قیصر پر بشارتی حملے کا ذکر کرتی ہو، چنانچہ دوسرا قیاس یہ پیش کیا گیا کہ ابن عباس، ابن عمر اور ابن زبیر اس جنگ میں شریک ہوئے جسکا مطلب یہ ہے کہ یہ بشارتی جنگ تھی۔

1۔ یہ پھر کوئی ثبوت نہیں بلکہ فقط ایک بوگس قیاس ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ صرف اور صرف انہی جنگوں میں جہاد پر جایا کرتے تھے کہ جہاں پر کوئی بشارت دی گئی ہوتی تھی؟
چنانچہ ان کے قیاس کے بالکل برعکس، یہ صحابہ کا پورے عرصے [رسول اللہ ﷺ سے لیکر جناب عثمان کے زمانے تک] یہ روایت رہی تھی کہ وہ سرحدی علاقوں میں جہاد کے لیے جایا کرتے تھے۔

2ْ۔ اور اس وقت تک مسلمان تقریبا تمام اہم حکومتوں کو گرا کر قبضہ کر چکے تھے اور صرف روم ہی وہ طاقت باقی بچی تھی جو کہ مسلمانوں کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔ چنانچہ اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے اس محاذ پر کثیر تعداد میں فوج روانہ کی گئی تھی۔

علامہ ابن اثیر اس کا ذکر تاریخ کامل میں یوں کر رہے ہیں:
فبلغ معاوية شعره فأقسم عليه ليلحقن بسفيان في أرض الروم ليصيبه ما أصاب الناس فسار ومعه جمع كثير أضافهم إليه أبوه وكان في الجيش ابن عباس وابن عمر وابن الزبير وأبو أيوب الأنصاري وغيرهم
Tarikh-e-Kamil, by Ibn Atheer (online Link)

یعنی جب معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید کے یہ اشعار سنے [جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے کہ جس میں یزید مسلم فوج پر پڑنے والی بھوک اور دیگر مصائب کا سن کا خوش ہو رہا تھا کہ بہتر ہوا جو وہ محاذ پر نہیں گیا بلکہ گھر میں اپنی بیوی ام کلثوم کے ساتھ بیٹھا موج کر رہا ہے] تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ لازما یزید کو سفیان بن عوف کے پاس بھیجیں گے تاکہ اسے جنگ کی سختیوں سے پالا پڑے۔
معاویہ ابن ابنی سفیان نے مزید کثیر تعداد میں فوج بھی محاذ پر روانہ کی جس میں ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر اور ابو ایوب انصاری بھی شامل تھے۔

[جاری ہے۔ انشاء اللہ].
 
Top