ایک لڑکا اور لڑکی (علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)

ایک لڑکا اور لڑکی( پیروڈی)​
محمد خلیل الرحمٰن​
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)​
اک دن کسی لڑکی سے یہ کہنے لگا لڑکا​
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تہارا​
لیکن مرے دل کی کبھی جاگی نہیں قسمت​
بھولے سے کبھی تم نے مجھے مڑ کے نہ دیکھا​
غیروں کو نہ دیکھو تو کوئی بات نہیں ہے​
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا​
دیکھو جو مجھے ہنس کے تو عزت ہے یہ میری​
گر میری گلی میں تمہیں منظور ہو آنا​
لڑکی نے سنی بات جو لڑکے کی تو بولی​
حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا​
باتوں میں یہ لڑکی کبھی آنے کی نہیں ہے​
جو آپ کے چنگل میں پھنسا ، پھر نہیں نکلا​
لڑکے نے کہا ’’واہ! فریبی مجھے سمجھے​
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا​
منظور تمہاری مجھے خاطر تھی وگرنہ​
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا​
چلتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے​
ٹھہرو ذرا دم بھر کے تو ہے اس میں برا کیا​
اس دل کے کئی داغ دکھانے کے ہیں تم کو​
باہر سے سمجھتی ہو اسے گوشت کا ٹکڑا​
لڑکی نے کہا خیر یہ سب ٹھیک ہے لیکن​
میں آپ کے پاس آؤں یہ امید نہ رکھنا​
بس آپ کے چنگل سے خدا مجھ کو بچائے​
پھنس جائے کوئی اس میں تو نکلا نہ کبھی کا​
لڑکے نے کہا دل میں، سنی بات جو اس کی​
پھانسوں اسے کس طرح ، یہ کمبخت ہے دانا​
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں​
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے پتلا​
یہ سوچ کے لڑکی سے کہا اس نے بڑی بی!​
اللہ نے بخشا ہے جو یہ تم کو سراپا​
یوں تو ہے مجھے آپ کی صورت سے محبت​
جس دن سے کہیں آپ کو میں نے جو ہے دیکھا​
آنکھیں ہیں تمہاری کہ پیالے ہیں یہ مے کے​
ہے آپ کو اللہ نے فرصت سے بنایا​
یہ حسن، یہ پوشاک، یہ خوبی ،یہ صفائی​
پھر اس پہ قیامت ہے یہ چلتے ہوئے آنا​
لڑکی نے سنی جب یہ خوشامد تو یہ بولی​
گرچہ ہے نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا​
گو آپ کی تعریف بجا ہے مرے بھائی​
پر مجھ کو بزرگوں نے مرے ہے یہ بتایا​
گو یوں تو ہر اک شخص ہی اچھا ہے جہاں میں​
کرنا نہ ہراک شخص پہ فوراً ہی بھروسا​
رستے میں تو میں بات کسی سے نہ کروں گی​
یہ کہہ کے گئی راہ پہ اور مڑ کے نہ دیکھا​
نوٹ: جناب محمود احمد غزنوی کی فرمائش پر لکھی گئی، جس میں پہلا شعر انھوں نے ہی بنایا ہے۔​
 
بہت خوب جناب!
اس شعر پر غور فرما لیجئے گا:

گو یوں تو ہر اک شخص ہی اچھا ہے جہاں میں
کرنا نہ ہراک شخص پہ فوراً ہی بھروسا


ویسے آپ نے اوزانی مناسبت (لڑکی:مکھی، لڑکا:مکڑا) سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک پنتھ دو کاج۔

بہت آداب جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
 
بہت خوب جناب!
اس شعر پر غور فرما لیجئے گا:

گو یوں تو ہر اک شخص ہی اچھا ہے جہاں میں
کرنا نہ ہراک شخص پہ فوراً ہی بھروسا


ویسے آپ نے اوزانی مناسبت (لڑکی:مکھی، لڑکا:مکڑا) سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک پنتھ دو کاج۔

بہت آداب جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
محمد یعقوب آسی بھائی کوئی اشارہ بھی دے دیجے۔

اگر اس شعر کو یوں کردیا جائے ؟
گو یوں تو ہر اک شخص ہی اچھا ہے جہاں میں​
کیجے نہ ہر اک فرد پہ فوراً ہی بھروسا​
 
گو یوں تو ہر اک شخص ہی اچھا ہے جہاں میں
کرنا نہ ہراک شخص پہ فوراً ہی بھروسا

’’گو‘‘ اور ’’یوں تو‘‘ : تکرارِ معنوی (یہاں دونوں کا ایک ہی معنی ہے)۔
’’ہر اک شخص‘‘ پر ’’ہی‘‘ زائدِ محض، پھر دوسرے مصرعے میں اس کی تکرار۔
’’فوراً ہی‘‘ اگرچہ ’’ہی‘‘ فصاحت کو کمزور کر رہا ہے تاہم چل جاتا ہے۔

اس جسارت پر معذرت بھی ساتھ ساتھ!

محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
 
’’گو‘‘ اور ’’یوں تو‘‘ : تکرارِ معنوی (یہاں دونوں کا ایک ہی معنی ہے)۔
’’ہر اک شخص‘‘ پر ’’ہی‘‘ زائدِ محض، پھر دوسرے مصرعے میں اس کی تکرار۔
’’فوراً ہی‘‘ اگرچہ ’’ہی‘‘ فصاحت کو کمزور کر رہا ہے تاہم چل جاتا ہے۔

اس جسارت پر معذرت بھی ساتھ ساتھ!

محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
بستی میں سبھی لوگ برے تو نہیں ہوتے​
کیجے نہ کسی شخص پہ فوراً ہی بھروسا​
 
’’پیالے‘‘ فعولن پر ہے جناب۔
ع: پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے (غالب)​
پورا شعر اس وقت ذہن میں نہیں ہے۔ معذرت۔


محمد اسامہ سَرسَری ، محمد خلیل الرحمٰن
غالبا دونوں طرح مستعمل ہے۔
غالب:(فعولن)
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
پلا دے اوک سے ساقی، جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا، نہ دے شراب تو دے
قتیل شفائی(فعلن)
سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ
جینا ہے تو پھر جراتِ اظہار نہ مانگو
 
Top