ایک غزل

Wajih Bukhari

محفلین
فعل میں اصل لفظ اُس کا صیغہ٫ امر ہی ہوتا ہے ۔ اس کے آگے "نا" تو مصدر کی علامت کے طور پر اضافہ کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ فعل کو قافیہ بناتے وقت اُس کے صیغہ٫ امر ہی کو دیکھا جائے گا اور حرف روی کا تعین ُاسی اصل لفظ سے کیا جائے گا۔ صیغہ٫ امر کے آگے کے زائد الفاظ عملی طور پر ردیف کا حصہ تصور کئے جائیں گے۔ یہ اصول فعل کے تمام صیغوں اور صورتوں پر لاگو ہوگا ۔ یعنی آئو اور چلو ہم قافیہ نہیں ہیں کہ ان میں اصل الفاظ "آ" اور "چل" ہیں جبکہ "و" زائد ہے ۔
جہاں تک ماقبل حرکت کے تغیر پر سرورعالم راز سرور صاحب کےبیان کا تعلق ہے تو یہ درست نہیں ۔ نجانے انہوں نے یہ کہاں سے اور کیسے لکھ دیا ۔ اس کے باعث بہت سارے لوگ الجھن میں مبتلا رہے ہیں ۔ اور یہ سوال متعدد بار ماضی میں ان کی ویب گاہ پر بھی اٹھ چکا ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ ماقبل کی حرکت بھی حرفِ روی کی طرح بلاتغیر جوں کی توں قافیے میں آئے گی ورنہ قافیہ درست نہیں ۔ قدما٫ میں دوچار مثالیں اس طرح کی ملتی ہیں لیکن انہیں اصول نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ استثنائی صورت کا درجہ دیا جائے گا ۔ عام طور پر ان مثالوں میں وائو اور یائے لین کو مجہول یا معروف صورت سے بدلا گیا ہے۔ جیسے قید کا قافیہ اُمید وغیرہ ۔
مجھے اس بات سے اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے۔ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔ اس میں ہُوا اور دَوا کے بارے میں آپ کی کیا رائے۔ اسی طرح سے اقبال کی "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں" میں ہندوستاں میں 'س' ساکن آرہا ہے جب کہ گلستاں میں 'س' کے نیچے زیر ہے۔
میری رائے، جو کہ آپ کے مقابلے میں کم علمی پر مبنی ہے، قافیہ وہی ہے جسے قاری پڑھ کر یا سن کر ہم آواز اور ہم وزن سمجھے۔
 
بخاری صاحب، آداب!
بصد احترام، یہاں آپ کی رائے سے اتفاق ممکن نہیں۔ اگر دونوں مصرعوں میں ’’لنا‘‘ ہی کی تکرار ہوگی تو یہ قافیہ کیسے ہوا؟؟؟
 
مجھے اس بات سے اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے۔ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔ اس میں ہُوا اور دَوا کے بارے میں آپ کی کیا رائے۔ اسی طرح سے اقبال کی "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں" میں ہندوستاں میں 'س' ساکن آرہا ہے جب کہ گلستاں میں 'س' کے نیچے زیر ہے۔
میری رائے، جو کہ آپ کے مقابلے میں کم علمی پر مبنی ہے، قافیہ وہی ہے جسے قاری پڑھ کر یا سن کر ہم آواز اور ہم وزن سمجھے۔
غالبؔ کی جو مثال آپ نے پیش کی ہے، وہ ایطائے خفی کے باب میں اکثر پیش کی جاتی ہے۔ ایطائے خفی کی مثالیں اساتذہ کے یہاں بہتیری مل جاتی ہیں، اس لئے اس کو روا رکھا جاتا ہے، مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس کو عمداً نہ برتا جائے۔ آپ کے مطلعے میں بھی میرے خیال میں ایطائے خفی ہی ہے کیونکہ روی سے ماقبل کے حروف میں محض حرکت کا اختلاف ہے۔ ایطائے جلی، میری ناقص رائے میں، تب لازم آتا جب آپ چلنا کے ساتھ گرنا کو قافیہ لاتے۔ واللہ اعلم۔
 

Wajih Bukhari

محفلین
غالبؔ کی جو مثال آپ نے پیش کی ہے، وہ ایطائے خفی کے باب میں اکثر پیش کی جاتی ہے۔ ایطائے خفی کی مثالیں اساتذہ کے یہاں بہتیری مل جاتی ہیں، اس لئے اس کو روا رکھا جاتا ہے، مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس کو عمداً نہ برتا جائے۔ آپ کے مطلعے میں بھی میرے خیال میں ایطائے خفی ہی ہے کیونکہ روی سے ماقبل کے حروف میں محض حرکت کا اختلاف ہے۔ ایطائے جلی، میری ناقص رائے میں، تب لازم آتا جب آپ چلنا کے ساتھ گرنا کو قافیہ لاتے۔ واللہ اعلم۔
کیا دوا اور ہوا قافیے ہیں؟ اگر ہیں تو کیسے؟ 'وا' دونوں میں مشترک ہے۔ 'ہ' پر پیش ہے اور 'د' پر زبر۔ اور اگر یہ قافیے جائز ہیں تو جو اقتباس آپ نے کسی استاد کی تحریر سے لے کر اوپر درج کیا ہے وہ درست ہے۔ مجھ ناچیز کے شعروں کے قوافی سے اگر 'نا' کو نہ نکالا جائے تو پھر چلنا اور کھلنا بھی قوافی ہیں۔'نا' مشترک ہے، 'ل' ساکن ہے اور ان سے پہلے کی حروف کی مختلف حرکات ہیں جیسے دوا اور ہوا میں 'د' اور 'ہ' کی ہیں۔
اس موضوع پر آپ جیسے بہت سے قابل لوگوں کی رائے آ چکی ہے۔ میں تو طفل مکتب ہوں۔ میں اپنی بات اب اس مقام پر مکمل کرتا ہوں۔
مجھے پڑھنے میں وہ شعر اچھا لگتا ہے جس میں غنائیت کا احساس ہوتا ہو، ندرت بیان نظر آتی ہو اور کوئی اچھی بات کی گئی ہو۔
کسی شعر کی کلاسیکی قوائد کے مطابق پڑتال مجھ سے کم ہی ہو پاتی ہے۔
اردو کے ایک شناسا شاعر ہیں جلیل عالی صاحب۔ ان سے ایک دفعہ عروض پر بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ عروضیے (وہ پنجابی ہیں) کبھی اچھے شاعر نہیں ہوتے!
 
کیا دوا اور ہوا قافیے ہیں؟ اگر ہیں تو کیسے؟ 'وا' دونوں میں مشترک ہے۔ 'ہ' پر پیش ہے اور 'د' پر زبر۔ اور اگر یہ قافیے جائز ہیں تو جو اقتباس آپ نے کسی استاد کی تحریر سے لے کر اوپر درج کیا ہے وہ درست ہے۔ مجھ ناچیز کے شعروں کے قوافی سے اگر 'نا' کو نہ نکالا جائے تو پھر چلنا اور کھلنا بھی قوافی ہیں۔'نا' مشترک ہے، 'ل' ساکن ہے اور ان سے پہلے کی حروف کی مختلف حرکات ہیں جیسے دوا اور ہوا میں 'د' اور 'ہ' کی ہیں۔
اس موضوع پر آپ جیسے بہت سے قابل لوگوں کی رائے آ چکی ہے۔ میں تو طفل مکتب ہوں۔ میں اپنی بات اب اس مقام پر مکمل کرتا ہوں۔
مجھے پڑھنے میں وہ شعر اچھا لگتا ہے جس میں غنائیت کا احساس ہوتا ہو، ندرت بیان نظر آتی ہو اور کوئی اچھی بات کی گئی ہو۔
کسی شعر کی کلاسیکی قوائد کے مطابق پڑتال مجھ سے کم ہی ہو پاتی ہے۔
اردو کے ایک شناسا شاعر ہیں جلیل عالی صاحب۔ ان سے ایک دفعہ عروض پر بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ عروضیے (وہ پنجابی ہیں) کبھی اچھے شاعر نہیں ہوتے!
دوا اور ہوا میں ایطائے خفی ہے، یہی میں نے اوپر بھی لکھا تھا اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ آپ نے جو مثال دی وہ ایطائے خفی کے باب میں اکثر پیش کی جاتی ہے۔ ایطائے خفی اساتذہ کے یہاں موجود ہے، مگر اس سے اس کا عیب ہونا ختم نہیں ہوتا۔ آپ کے شعر کے حوالے سے بھی میری عاجزانہ رائے یہی ہے کہ اس میں ایطائے خفی ہے (ممکن ہے میں اپنی رائے میں غلط ہوں) جو گو ایک عیب ہے، مگر روا ہے۔ میرے خیال میں اس کے عمداً ارتکاب سے احتراز کرنا چاہیئے۔
باقی ماہرین عروض کا اچھا شاعر بھی ہونا ایک الگ معرکۃ الآراء مسئلہ ہے۔ علم عروض خود اپنے آپ میں ایک سمندر ہے۔ علم عروض کی کمال درجہ مہارت اور اچھا شعر کہنے کی قدرت گو باہم لازمی نہیں مگر عروضی قوانین کی رعایت رکھے بغیر اچھی شاعری کرنا بہر حال ایک کارِ دشوار ہے، اور قافیہ کی جو بحث یہاں چل رہی ہے، وہ تو بہت بنیادی بات ہے، ’’عروضی موشگافیوں‘‘ کے درجے میں نہیں :)

دعاگو،
راحلؔ
 

Wajih Bukhari

محفلین
دوا اور ہوا میں ایطائے خفی ہے، یہی میں نے اوپر بھی لکھا تھا اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ آپ نے جو مثال دی وہ ایطائے خفی کے باب میں اکثر پیش کی جاتی ہے۔ ایطائے خفی اساتذہ کے یہاں موجود ہے، مگر اس سے اس کا عیب ہونا ختم نہیں ہوتا۔ آپ کے شعر کے حوالے سے بھی میری عاجزانہ رائے یہی ہے کہ اس میں ایطائے خفی ہے (ممکن ہے میں اپنی رائے میں غلط ہوں) جو گو ایک عیب ہے، مگر روا ہے۔ میرے خیال میں اس کے عمداً ارتکاب سے احتراز کرنا چاہیئے۔
باقی ماہرین عروض کا اچھا شاعر بھی ہونا ایک الگ معرکۃ الآراء مسئلہ ہے۔ علم عروض خود اپنے آپ میں ایک سمندر ہے۔ علم عروض کی کمال درجہ مہارت اور اچھا شعر کہنے کی قدرت گو باہم لازمی نہیں مگر عروضی قوانین کی رعایت رکھے بغیر اچھی شاعری کرنا بہر حال ایک کارِ دشوار ہے، اور قافیہ کی جو بحث یہاں چل رہی ہے، وہ تو بہت بنیادی بات ہے، ’’عروضی موشگافیوں‘‘ کے درجے میں نہیں :)

دعاگو،
راحلؔ
یہ فرمائیے کہ مصادر والے قافیوں سے 'نا' نکال کر قافیہ پرکھنے کی شرط کی منطق کیا ہے؟
 

Wajih Bukhari

محفلین
اگر مطلعے کے دونوں قوافی میں نا مشترک ہے، تو وہ ردیف میں کیوں نہ شامل کی جائے؟
تو پھر درج بالا غالب کے شعروں میں 'وا' کو ردیف میں کیوں نہ شامل کیا جائے؟ بہر حال میں نے جو عرض کرنی تھی آپ کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپ جو فیصلہ کریں گے مجھے قبول ہو گا۔ :)
 
اسی لئے تو کہتے ہیں کہ اس میں ایطائے خفی ہے :) اگر دیگر اشعار کے قوافی بھی وا پر ختم ہو رہے ہوتے تو یہ ایطائے جلی ہوجاتا (شاید؟)
دیکھیں قبلہ ظہیراحمدظہیر صاحب کی نظر پڑتی ہے تو وہ کیا فرماتے ہیں، میں تو خود ہی مبتدی ہی ہوں! ہاں میرا ذاتی رجحان یہی ہے کہ ہر ممکن حد تک عروضی قوانین کی پابندی کرنی چاہیئے۔
 
معذرت، میں یہ گمان کررہا تھا کہ آپ کی غزل دیگر قوافی میں ’’نا‘‘ کے بغیر بھی الفاظ شامل ہیں، موجودہ صورت کو میری حقیر رائے میں ایطائے جلی ہی قرار دیا جائے گا (کم از کم کلاسیکی اصولوں کے تحت)۔
امید ہے آپ نے برا نہیں مانا ہوگا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک رائے یہ بھی ہے کہ قافیہ 'نا' ہٹائے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ چلنا اور کھلنا قافیے نہیں کیونکہ 'نا' ہٹا کر قافیہ دیکھا جائے گا۔ مگر کیوں؟ 'نا' لگا کر کیوں نہ قافیہ بنایا جائے۔ جب شعر پڑھا جاتا ہے تو قاری 'نا' سمیت شعر پڑھتا ہے یا کہ شعوری کوشش کر کے پہلے 'نا' حذف کرتا ہے اور پھر قافیے کو پرکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔بعض پرانے اصول بدل دینے میں کوئی حرج نہیں، خصوصا جب پابند شاعری صرف غزل تک ہی محدود رہ گئی ہے اور آزاد شاعری اتنی آزاد ہو چکی ہے کہ اب نثری شاعری بنتی جا رہی ہے!

بھائی ، یہ جس کی بھی رائے ہے مجھے اس کا احترام ہے ۔ آپ پر کوئی پابندی نہیں ۔ آپ چاہیں تو بچھڑنا ، پینا ، گھمانا ، پرونا ، لینا سب کو ایک ہی غزل میں ہم قافیہ رکھ سکتے ہیں ۔ اور میرا خیال ہے کہ جو قاری "نا" سمیت شعر پڑھتا ہے اسے بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
جو مثال آپ نے فارسی اضافت کی دی ہے وہ شرط شعر کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ اس کا تعلق نثر اور شعر دونوں یعنی عام زبان کے اصولوں سے ہے ۔ اس اصول کو ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اسے ترک کرنے کے درجنوں نظائر اردو زبان میں پہلے ہی سے موجود ہیں ۔ لیکن اسے ترک کرنے کی بھی کچھ شرائط لاگو کی گئی ہیں ۔ مثلاً سڑک ِ طویل ، گھونسۂ تیز ، انڈۂ سفید وغیرہ کی تراکیب پر ہنسا ہی جاسکتا ہے ۔ انہیں سنجیدہ ادب میں کس طرح استعمال کیا جائے گا ۔ چنانچہ ان لسانی اصولوں اور شرائط سے مادر پدر آزاد ہونا تو ممکن نہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھے اس بات سے اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے۔ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔ اس میں ہُوا اور دَوا کے بارے میں آپ کی کیا رائے۔ اسی طرح سے اقبال کی "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں" میں ہندوستاں میں 'س' ساکن آرہا ہے جب کہ گلستاں میں 'س' کے نیچے زیر ہے۔
میری رائے، جو کہ آپ کے مقابلے میں کم علمی پر مبنی ہے، قافیہ وہی ہے جسے قاری پڑھ کر یا سن کر ہم آواز اور ہم وزن سمجھے۔
معذرت لیکن آپ کے اس مراسلے سے عیاں ہورہا ہے کہ آپ مبادیاتِ قافیہ اور تقطیع کے اصولوں سے کماحقہ واقف نہیں ۔ اس صورت میں بات سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے ۔
پہلے بھی عرض کیا کہ فعل کو قافیہ بناتے وقت اس کے صیغۂ امر کو دیکھا جاتا ہے ۔ اصل لفظ "ہونا" ہے ۔ اس کا صیغۂ امر "ہو" ہے جس میں حرفِ روی واؤ ہے ۔ فارسی لفظ ہَوا کا حرفِ روی الف ہے ۔ چنانچہ غالب ہَوا کے مقابل ہندی فعل ہُوا لائے اور اِس حیلے کے ذریعے ہُوا کے زائد الف کو حرفِ روی کا قائم مقام بنالیا ۔ چنانچہ اب غزل کے بقیہ اشعار میں حرفِ روی الف قائم ہوگیا ۔ تفصیل جاننے اور سمجھنے کے لئے پوری غزل کے قوافی دیکھ لیجئے۔ لیکن یہ حیلہ استعمال کرنے کی وجہ سے مطلع میں ایطائے خفی آگیا جو ایک معمولی عیب ہے ۔ اگر ہُوا کے بجائے غالب کہا ، بچا ، سُنا وغیرہ جیسا کوئی فعل لے آتے تو پھر ایطائے خفی نہ ہوتا ۔
 
آخری تدوین:

Wajih Bukhari

محفلین
معذرت لیکن آپ کے اس مراسلے سے عیاں ہورہا ہے کہ آپ مبادیاتِ قافیہ اور تقطیع کے اصولوں سے کماحقہ واقف نہیں ۔ اس صورت میں بات سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے ۔
پہلے بھی عرض کیا کہ فعل کو قافیہ بناتے وقت اس کے صیغۂ امر کو دیکھا جاتا ہے ۔ اصل لفظ "ہونا" ہے ۔ اس کا صیغۂ امر "ہو" ہے جس میں حرفِ روی واؤ ہے ۔ فارسی لفظ ہَوا کا حرفِ روی الف ہے ۔ چنانچہ غالب ہَوا کے مقابل ہندی فعل ہُوا لائے اور اِس حیلے کے ذریعے ہُوا کے زائد الف کو حرفِ روی کا قائم مقام بنالیا ۔ چنانچہ اب غزل کے بقیہ اشعار میں حرفِ روی الف قائم ہوگیا ۔ تفصیل جاننے اور سمجھنے کے لئے پوری غزل کے قوافی دیکھ لیجئے۔ لیکن یہ حیلہ استعمال کرنے کی وجہ سے مطلع میں ایطائے خفی آگیا جو ایک معمولی عیب ہے ۔ اگر ہُوا کے بجائے غالب کہا ، بچا ، سُنا وغیرہ جیسا کوئی فعل لے آتے تو پھر ایطائے خفی نہ ہوتا ۔
بہت مہربانی
 
Top