ایک غزل پیش ہے برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
بہار صبح وہ آتا ہے یا پھر شب تک آتا ہے
ہمیں یہ دیکھنا ہے آنے والا کب تک آتا ہے
خوشی ملتی ہے پوری زندگی یہ مانتے ہیں ہم
کہ جب تک موت نا آ جائے آنسو تب تک آتا ہے
نگاہوں سے نکلتا ہے تو پھر روکے نہیں رکتا
بجھانے پیاس دریا خود ہمارے لب تک آتا ہے
ابھی کچھ پل ٹھہر جائے کوئی یہ موت سے کہ دے
لفافے میں کلیجا لے کے قاصد جب تک آتا ہے
تمہیں پھر بھول جانے کی کئی ناکام کوشش کی
تمہارا نام ہونٹوں پر ہمارے اب تک آتا ہے
وفاداری نہ ہو تو راستے دشوار ہوتے ہیں
اگر سچی محبت ہو تو بندہ رب تک آتا ہے
وفا جب بانٹتی ہے نور کے موتی نگاہوں کو
کوئ باقی نہیں رہتا یہ صدقہ سب تک آتا ہے


شہنواز نور
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔
’نہ‘ اور ’کہ‘ کو دو حرفی، بر وزن ’فع‘ کم از کم مجھے اچھا نہیں لگتا، یہاں دیکھیں، ایسا ہی ہے
کہ جب تک موت نا آ جائے آنسو تب تک آتا ہے
 
Top