ایک غزل پیش ہے، 'تصورِ، پیار میں گُم، یار سوتے لکھ دیا میں نے

تصورِ، پیار میں گُم، یار سوتے لکھ دیا میں نے
قلم کی نوک سے یوں زار روتے لکھ دیا میں نے

جو باتیں کہہ نہیں پایا کبھی بھی سامنے اُنکے
وہ سب کچھ نیر اپنے سے بھگوتے لکھ دیا میں نے

محبت تھی مری کتنے زمانوں سے تڑپتی پر
اُسے بس دو ہی سطروں میں سموتے لکھ دیا میں نے

مرے ماضی کی تختی بے وفائ سے بھری تھی پر
اُسے بھی عشق سے مل مل کے دھوتے لکھ دیا میں نے

بڑی مشکل سے اظہر نے چھپایا تھا جسے اب تک
اُسے اک صبح کے انجام ہوتے لکھ دیا میں نے​
 

مغزل

محفلین
اچھی کاوش ہے ، اصلاح کے لیے بابا جانی کے انتظار میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ سلامت رہیں
 

الف عین

لائبریرین
تصورِ، پیار میں گُم، یار سوتے لکھ دیا میں نے
قلم کی نوک سے یوں زار روتے لکھ دیا میں نے
۔۔۔‘تصورِپیار‘ ترکیب غلط ہے، کہ پیار ہندی الاصل لفظ ہے۔، اور اگر تصور اور پیار کے درمیان کوما ہے، تو درست ہے۔ لیکن پوری غزل یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا لکھ دیا؟ کیا یہ غزل؟؟؟
اس کے علاوہ ’زار زار رونا‘ محاورہ ہے، محض ’زار رونا‘ غلط ہے۔
جو باتیں کہہ نہیں پایا کبھی بھی سامنے اُنکے
وہ سب کچھ نیر اپنے سے بھگوتے لکھ دیا میں نے
۔۔ ’نیر‘ سے مراد؟؟ نیر سے مطلب پانی ہوتا ہے ہندی میں، لیکن یہاں اس کا کیا محل؟ اور کیا بھگوتے؟ کیا مراد ان باتوں کو لکھنے سے ہے تو ’لکھ دیا‘ کیوں، باتیں لکھی جاتی ہیں ، کہی جاتی ہیں۔ اگر یہی مطلب ہے جو میں سمجھا ہوں تو اس شعر کو یوں کہا جا سکتا ہے۔
جو کہہ نہ پایا ان سے آج تک ، ان ساری باتوں کو
کئی پنوں/ صفحوں/ورقوں کو اشکوں سے بھگوتے لکھ دیا میں نے

محبت تھی مری کتنے زمانوں سے تڑپتی پر
اُسے بس دو ہی سطروں میں سموتے لکھ دیا میں نے
۔۔۔ دوسرا مصرع اچھا رواں ہے، لیکن پہلا مصرع ساتھ نہیں دے رہا، زمانوں سے تڑپنے کا دو سطروں میں سوونے سے کیا تعلق؟ ہاں یوں ہو تو بات بن جاتی ہے
محبت کا سمندر موجزن صدیوں سے تھا میرا

مرے ماضی کی تختی بے وفائ سے بھری تھی پر
اُسے بھی عشق سے مل مل کے دھوتے لکھ دیا میں نے
۔۔۔ اچھا خیال ہے، لیکن ’پر‘ کھل رہا ہے پہلے مصرع میں،
مرے ماضی کی تختی پر تھی حرف بے وفائی سے
رواں مصرع ہے، لیکن اس میں بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ ’حروف‘ کیوں نہیں، ایک ہی تو حرف تھا، اس سے تختی پر کیسے ہو گئی۔ بہر ھال کچھ بہتری کا سوچو۔

بڑی مشکل سے اظہر نے چھپایا تھا جسے اب تک
اُسے اک صبح کے انجام ہوتے لکھ دیا میں نے
۔۔ درست، بس یہ خامی ہے کہ محاورہ ’انجام ہوتے ہوتے‘ ہے، محض ایک دفعہ ہوتے نہیں۔ لیکن چل سکتا ہے۔
دوسرے اساتذہ کا کیا خیال ہے؟
 
تصورِ، پیار میں گُم، یار سوتے لکھ دیا میں نے
قلم کی نوک سے یوں زار روتے لکھ دیا میں نے
۔۔۔‘تصورِپیار‘ ترکیب غلط ہے، کہ پیار ہندی الاصل لفظ ہے۔، اور اگر تصور اور پیار کے درمیان کوما ہے، تو درست ہے۔ لیکن پوری غزل یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا لکھ دیا؟ کیا یہ غزل؟؟؟

اُستاد محترم،
کوما ہی ہے درمیان میں شائد واضح نہیں ہے


اس کے علاوہ ’زار زار رونا‘ محاورہ ہے، محض ’زار رونا‘ غلط ہے۔
جو باتیں کہہ نہیں پایا کبھی بھی سامنے اُنکے
وہ سب کچھ نیر اپنے سے بھگوتے لکھ دیا میں نے
۔۔ ’نیر‘ سے مراد؟؟ نیر سے مطلب پانی ہوتا ہے ہندی میں، لیکن یہاں اس کا کیا محل؟ اور کیا بھگوتے؟ کیا مراد ان باتوں کو لکھنے سے ہے تو ’لکھ دیا‘ کیوں، باتیں لکھی جاتی ہیں ، کہی جاتی ہیں۔ اگر یہی مطلب ہے جو میں سمجھا ہوں تو اس شعر کو یوں کہا جا سکتا ہے۔
جو کہہ نہ پایا ان سے آج تک ، ان ساری باتوں کو
کئی پنوں/ صفحوں/ورقوں کو اشکوں سے بھگوتے لکھ دیا میں نے

جناب، نیر اُردو زبان ہی کا لفظ ہے جس کے معنی لغت میں آنسو درج ہیں، آگے جو آپ کا حکم

محبت تھی مری کتنے زمانوں سے تڑپتی پر
اُسے بس دو ہی سطروں میں سموتے لکھ دیا میں نے
۔۔۔ دوسرا مصرع اچھا رواں ہے، لیکن پہلا مصرع ساتھ نہیں دے رہا، زمانوں سے تڑپنے کا دو سطروں میں سوونے سے کیا تعلق؟ ہاں یوں ہو تو بات بن جاتی ہے
محبت کا سمندر موجزن صدیوں سے تھا میرا

جی بہتر جیسا آپ فرماءیں

مرے ماضی کی تختی بے وفائ سے بھری تھی پر
اُسے بھی عشق سے مل مل کے دھوتے لکھ دیا میں نے
۔۔۔ اچھا خیال ہے، لیکن ’پر‘ کھل رہا ہے پہلے مصرع میں،
مرے ماضی کی تختی پر تھی حرف بے وفائی سے
رواں مصرع ہے، لیکن اس میں بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ ’حروف‘ کیوں نہیں، ایک ہی تو حرف تھا، اس سے تختی پر کیسے ہو گئی۔ بہر ھال کچھ بہتری کا سوچو۔

مرے ماضی کی تختی پر حروفِِ بے وفائی تھے
کیسا رہے گا؟

بڑی مشکل سے اظہر نے چھپایا تھا جسے اب تک
اُسے اک صبح کے انجام ہوتے لکھ دیا میں نے
۔۔ درست، بس یہ خامی ہے کہ محاورہ ’انجام ہوتے ہوتے‘ ہے، محض ایک دفعہ ہوتے نہیں۔ لیکن چل سکتا ہے۔
دوسرے اساتذہ کا کیا خیال ہے؟


تصورِ، پیار میں گُم، یار سوتے لکھ دیا میں نے
قلم کی نوک سے یوں زار روتے لکھ دیا میں نے

جو باتیں کہہ نہیں پایا کبھی بھی سامنے اُنکے
وہ سب کچھ نیر اپنے سے بھگوتے لکھ دیا میں نے

محبت کا سمندر موجزن صدیوں سے تھا میرا
اُسے بس دو ہی سطروں میں سموتے لکھ دیا میں نے

مرے ماضی کی تختی پر حروفِِ بے وفائی تھے
اُسے بھی عشق سے مل مل کے دھوتے لکھ دیا میں نے

بڑی مشکل سے اظہر نے چھپایا تھا جسے اب تک
اُسے اک صبح کے انجام ہوتے لکھ دیا میں نے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کے بارے میں تم نے غور نہیں کیا، اور نہ دوسرے شعر کے دوسرے مصرع کے بارے میں۔ باقی تو درست کر ہی دیا ہے۔
مطلع میں کاما کا استعمال انگریزی کی طرح غلط ہے، کہ آدھی بات کاما سے پہلے ہو، آدھی بات بعد میں۔ اردو میں ایسا نہیں ہوتا۔
 
Top