ایک غزل ذرا ہٹ کے،'' لگے دم، رہ گیا ہوں''

لگے دم، رہ گیا ہوں
مگر کم رہ گیا ہوں

سُکھانا تو پڑے گا
ذرا نم رہ گیا ہوں

خوشی قصہ پُرانا
فقط غم، رہ گیا ہوں

کمر جھکتی گئی ہے
لئے خم رہ گیا ہوں

اُسی میں مل گیا تھا
وہیں ضم رہ گیا ہوں

قرار واقعی تھا
جو اب لم رہ گیا ہوں

پھٹوں اظہر، اُڑا دوں
کہیں بم رہ گیا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
مختصر بحر میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ بات مکمل نہیں لگتی، سمند تخیل کو کچھ خواہ مخواہ بھی دوڑانا پڑتا ہے!!
لگے دم، رہ گیا ہوں
مگر کم رہ گیا ہوں
۔۔یہ وہی بات ہے جو اوپر لکھی ہے

سُکھانا تو پڑے گا
ذرا نم رہ گیا ہوں
۔۔۔دوسرا مصرع خوب ہے، لیکن پہلے مصرع سے بات ٹائیں ٹائیں فش ہوتی لگ رہی ہے۔ ردیف کو بھی نبھانا پڑے گا
خوشی قصہ پُرانا
فقط غم، رہ گیا ہوں
÷÷درست، لیکن اگر ’ہے‘ بھی آ جاتا تو پہلا مصرع بہتر ہو جاتا۔ مثال کے طور پر
خوشی اب داستاں ہے
وضاحت کے لئے تو ’ہو گئی‘ بھی آنا ضروری تھا۔ مگر بحر کی مجبوری!!

کمر جھکتی گئی ہے
لئے خم رہ گیا ہوں
÷÷÷درست، اگرچہ ’لئے‘ کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔

اُسی میں مل گیا تھا
وہیں ضم رہ گیا ہوں
÷÷’وہیں‘ کیوں؟ محل تو ’اسی کے ساتھ‘ کا تھا۔

قرار واقعی تھا
جو اب لم رہ گیا ہوں
۔۔سمجھ نہیں سکا، یہ کیا قافیہ ہے؟

پھٹوں اظہر، اُڑا دوں
کہیں بم رہ گیا ہوں
÷÷درست

لیکن مکمل غزل کچھ بناوٹی سی لگ رہی ہے، ’رہ گیا ہوں‘ زبردستی کا لگ رہا ہے، بہر حال، میرا مشورہ مانوتو اسے محض مشق کے لئے سمجھ لو،
 
Top