ایک غزل تنقید کے لیے

کاشف سعید

محفلین
السلام و علیکم،

احباب سے تنقید اور اصلاح کی درخواست ہے۔

روز جیتا ، مرتا ہوں
آفتاب جیسا ہوں

سمندر پی آیا ہوں
کہنے کو تو دریا ہوں

خود کو گھیرے رہتا ہوں
میں جبھی تو تنہا ہوں

میں ازل سے پُورا ہوں
اور ازل سے پیاسا ہوں

تپتا سا میں صحرا ہوں
اور خود میں پھیلا ہوں

تجھ کو ساتھ لے کر میں
تنہا پھرتا رہتا ہوں

جیسا چھوڑا تھا تُو نے
آج بھی میں ویسا ہوں

جانے کیسا گھاؤ ہوں
بھرنے پر بھی رِستا ہوں

کندھے مل گئے ہیں تو
اپنے قد سے اونچا ہوں

دُور ہوتے ہو تم کیوں؟
کیا میں بے حد اُجلا ہوں؟

تم ہو صبح کے قاصد
میں تو ڈھلنے والا ہوں

آگ اوڑھ لوں میں تو
پانی ڈھونڈ رہتا ہوں

جس جگہ تُو چُھوٹا تھا
میں وہیں پہ ٹھہرا ہوں

کل بھی میں تمھارا تھا
آج بھی تمھارا ہوں

انتظار ہے اپنا
اچھا اب میں چلتا ہوں
شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
یہ مصرع تو تقطیع نہیں ہوتا درست
سمندر پی آیا ہوں

اور یہ بے معنی ہے
پانی ڈھونڈ رہتا ہوں

باقی مصرعوں میں بھی کچھ روانی چاہتے ہیں
 

کاشف سعید

محفلین
الف عین صاحب،

اصلاح کا شکریہ۔ سمندر والا مصرع یوں کر لیا ہے:

پی لیا سمندر بھی

پانی والے کا سمجھ نہیں آیا کیا کروں۔ میں کہنا چاہ رہا تھا کہ اگر کوئی چیز چاہیے ہو تو اُس کی ضرورت بڑھا لیتا ہوں۔

باقی مصرعوں میں بھی ، اگر وقت کے ساتھ سمجھ میں اضافہ ہوا ، تبدیل کر لوں گا۔ ابھی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔
 
Top