محمد اظہر نذیر
محفلین
غموں کے آئے میں تیزی، فراغ دھیرے سے
ملے جو پل میں، گئے دل کے داغ دھیرے سے
مجھے خیال ہے کُچھ چین چاہئے تُجھ کو
بھرو ایاغ پہ ساقی ایاغ دھیرے سے
پیام لا کے وہ آمد کا پڑ گیا جھوٹا
اُڑا مُنڈیر سے مایوس زاغ دھیرے سے
مرا خیال رہے، نیند میں خلل نہ پڑے
اگر بُجھاؤ، بُجھانا چراغ دھیرے سے
اُگ آئیں کب تھیں، یہ کیسے، پتہ نہیں چلتا
کدورتوں کے ہیں ملتے سُراغ دھیرے سے
اُگا کے پھول نہ سمجھو پرند آئیں گے
بنا اگر تو بنے گا یہ باغ دھیرے سے
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کیا کروں اظہر
انہیں قبول کرے گا دماغ دھیرے سے
آخری تدوین: