ایک غزل تنقید و تبصرہ کیلئے،'' غموں کے آئے میں تیزی، فراغ دھیرے سے''


غموں کے آئے میں تیزی، فراغ دھیرے سے
ملے جو پل میں، گئے دل کے داغ دھیرے سے

مجھے خیال ہے کُچھ چین چاہئے تُجھ کو
بھرو ایاغ پہ ساقی ایاغ دھیرے سے

پیام لا کے وہ آمد کا پڑ گیا جھوٹا
اُڑا مُنڈیر سے مایوس زاغ دھیرے سے

مرا خیال رہے، نیند میں خلل نہ پڑے
اگر بُجھاؤ، بُجھانا چراغ دھیرے سے

اُگ آئیں کب تھیں، یہ کیسے، پتہ نہیں چلتا
کدورتوں کے ہیں ملتے سُراغ دھیرے سے

اُگا کے پھول نہ سمجھو پرند آئیں گے
بنا اگر تو بنے گا یہ باغ دھیرے سے

حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کیا کروں اظہر
انہیں قبول کرے گا دماغ دھیرے سے
 
آخری تدوین:
شعری محاسن کے حوالے سے اصلاح تو درکنار جانچنے کی لیاقت بھی مجھ میں نہیں عروضی حوالے سے بھی میں ابھی طالبِ علم کی حیثیت رکھتا ہوں اور خود سیکھنے کی غرض سے کچھ عرض کر دیتا ہوں کہ یہ بھی ایک سیکھنے کا طریقہ ہے
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن
اُڑا مُنڈیر سے مایوس زاغ دھیرے سے
اس مصرع میں منڈیر کا نون مغنونہ نہیں ناطق ہے جو مصرع کو بحر سے باہر کر رہا ہے
اگر بُجھاو، بُجھانا چراغ دھیرے سے
یہ مصرع بھی بحر پر پورا نہیں اترتا
 

الف عین

لائبریرین
فاروق احمد، منڈیر میں نون مغنونہ ہی ہے، ناطق نہیں۔ دونوں مصرعوں میں بحر کی کوئی غلطی نہیں ہے میرے خیال میں۔
البتہ مجھے اس پوری غزل کی ردیف ہی پسند نہیں آئی۔ دھیرے سے کا مطلب ہوتا ہے کہ خاموشی یا احتیاط کے ساتھ کچھ کام کرنے کو کہا جائے۔ جیسے چراغ بجھانے کو کہا جا رہا ہے۔ لیکن کچھ مسڑعوں میں ایسا لگتا ہے کہ سست رفتاری سے مراد ہے، جو در اصل ’دھیرے دھیرے‘ کا محل ہوتا ہے۔ جیسا کہ آخری تینوں اشعار میں استعمال ہے۔؎اس کے علاوہ مطلع واضح نہیں، یا کم از کم میری سمجھ میں نہیں آیا۔
 
Top