ایک غزل تنقید، تبصرہ اور رہنُمائی کیلئے،'' چلتے چلتے شام ہوئی''

چلتے چلتے شام ہوئی
دن نے کالی چادر لی

ساتھ ہی اُس کے جھانکا تھا
اُس کے سنگ ہی آس گئی

کچھ تو سمجھ میں آ جاتا
سُن لیتا تو باتیں ہی

اُس نے مانگی کیا کرتا
جان تھی پاس تو جاں دے دی

دُکھ کا مارا گُذرا جو
سُنتے ہیں کے اُس نے پی

میں کیا جانوں موسم کیا
جیسا بھی ہو گُزرے بھی

جانے کیا کیا بول رہا ہے
ہونٹ تو اظہر اپنے سی​
 

الف عین

لائبریرین
چلتے چلتے شام ہوئی
دن نے کالی چادر لی
۔۔محاورہ چادر تان لی ہوتا ہے۔ اگر کچھ بدلا جا سکے تو۔

ساتھ ہی اُس کے جھانکا تھا
اُس کے سنگ ہی آس گئی
÷÷خوب
کچھ تو سمجھ میں آ جاتا
سُن لیتا تو باتیں ہی
÷÷سن لیتا باتیں اپنی
کہنے سے واضح ہو جائے

اُس نے مانگی کیا کرتا
جان تھی پاس تو جاں دے دی
÷÷جاں دو بار اچھا نہیں لگ رہا،
جاں تھی پاس میں، دے ہی دی
کیا جا سکتا ہے

دُکھ کا مارا گُذرا جو
سُنتے ہیں کے اُس نے پی
۔۔’کے‘ یا ’کہ‘؟ کوئی خاص شعر نہیں، نکالا جا سکتا ہے
میں کیا جانوں موسم کیا
جیسا بھی ہو گُزرے بھی
÷÷درست

جانے کیا کیا بول رہا ہے
ہونٹ تو اظہر اپنے سی
÷÷پہلا مصرع وزن سے باہر ہے، ’ہے‘ زائد ہے
جانے کیا تو بول رہا
اظہر اپنے ہونٹ کو سی
ہو سکتا ہے
 
چلتے چلتے شام ہوئی
دن نے کالی چادر لی
۔۔محاورہ چادر تان لی ہوتا ہے۔ اگر کچھ بدلا جا سکے تو۔
شعر یوں کہا جائے تو محترم اُستاد
دن کو چلتے شام ہوئی
چادر کالی تان ہی لی


ساتھ ہی اُس کے جھانکا تھا
اُس کے سنگ ہی آس گئی
÷÷خوب
کچھ تو سمجھ میں آ جاتا
سُن لیتا تو باتیں ہی
÷÷سن لیتا باتیں اپنی
کہنے سے واضح ہو جائے
اور اگر یوں کہا جائے تو جناب
آنکھوں میں ہی راز چھپے تھے
سُن لیتا تُو باتیں ہی


اُس نے مانگی کیا کرتا
جان تھی پاس تو جاں دے دی
÷÷جاں دو بار اچھا نہیں لگ رہا،
جاں تھی پاس میں، دے ہی دی
کیا جا سکتا ہے
یہ اگر یوں تبدیل کر دوں شعر جناب
کھیل کہاں تک کھیلے گا
مہلت تُجھ کو لمبی دی


دُکھ کا مارا گُذرا جو
سُنتے ہیں کے اُس نے پی
۔۔’کے‘ یا ’کہ‘؟ کوئی خاص شعر نہیں، نکالا جا سکتا ہے
اس شعر کو بھی تبدیل کر دیتا ہوں جناب یوں دیکھئے تو
بس کی تیرے بات نہیں
گھونٹ ہیں خوں کے، بیٹھا پی


میں کیا جانوں موسم کیا
جیسا بھی ہو گُزرے بھی
÷÷درست
ایک نیا شعر دیکھئے گا
ہجر، حرارت طاری ہے
سنبھلے کیسے میرا جی


جانے کیا کیا بول رہا ہے
ہونٹ تو اظہر اپنے سی
÷÷پہلا مصرع وزن سے باہر ہے، ’ہے‘ زائد ہے
جانے کیا تو بول رہا
اظہر اپنے ہونٹ کو سی
ہو سکتا ہے
یوں کہا جائے تو ؟
کیا کیا بولے جاتے ہیں
اظہر ہونٹوں کو تُو سی


گویا اب صورتحال کچھ ایسی بنی

دن کو چلتے شام ہوئی
چادر کالی تان ہی لی


ساتھ ہی اُس کے جھانکا تھا
اُس کے سنگ ہی آس گئی

آنکھوں میں ہی راز چھپے تھے
سُن لیتا تُو باتیں ہی


کھیل کہاں تک کھیلے گا
مہلت تُجھ کو لمبی دی


ہجر، حرارت طاری ہے
سنبھلے کیسے میرا جی


بس کی تیرے بات نہیں
گھونٹ ہیں خوں کے، بیٹھا پی


میں کیا جانوں موسم کیا
جیسا تیسا گُزرے بھی

کیا کیا بولے جاتے ہیں
اظہر ہونٹوں کو تُو سی
 

الف عین

لائبریرین
دن کو چلتے شام ہوئی
چادر کالی تان ہی لی
۔۔درست ہو گیا

آنکھوں میں ہی راز چھپے تھے
سُن لیتا تُو باتیں ہی
۔۔پہلا مصرع؟ ایک رکن زائد ہےآنکھوں میں تھے راز چھپے‘ ہو سکتا ہے
کھیل کہاں تک کھیلے گا
مہلت تُجھ کو لمبی دی
÷÷درست
ہجر، حرارت طاری ہے
سنبھلے کیسے میرا جی
÷÷سمجھ میں نہیں آیا
بس کی تیرے بات نہیں
گھونٹ ہیں خوں کے، بیٹھا پی
÷÷نہیں، بات نہیں بنی

میں کیا جانوں موسم کیا
جیسا تیسا گُزرے بھی
÷÷درست
کیا کیا بولے جاتے ہیں
اظہر ہونٹوں کو تُو سی
صیغہ اب بھی گڑبڑ ہے، دوسرے مصرع میں ’تو‘ ہے، تو پہلے میں
کیا کیا بولے جاتا ہے
ہونا چاہئے
 
دن کو چلتے شام ہوئی
چادر کالی تان ہی لی
۔۔درست ہو گیا

آنکھوں میں ہی راز چھپے تھے
سُن لیتا تُو باتیں ہی
۔۔پہلا مصرع؟ ایک رکن زائد ہےآنکھوں میں تھے راز چھپے‘ ہو سکتا ہے
کھیل کہاں تک کھیلے گا
مہلت تُجھ کو لمبی دی
÷÷درست
ہجر، حرارت طاری ہے
سنبھلے کیسے میرا جی
÷÷سمجھ میں نہیں آیا
بس کی تیرے بات نہیں
گھونٹ ہیں خوں کے، بیٹھا پی
÷÷نہیں، بات نہیں بنی

میں کیا جانوں موسم کیا
جیسا تیسا گُزرے بھی
÷÷درست
کیا کیا بولے جاتے ہیں
اظہر ہونٹوں کو تُو سی
صیغہ اب بھی گڑبڑ ہے، دوسرے مصرع میں ’تو‘ ہے، تو پہلے میں
کیا کیا بولے جاتا ہے
ہونا چاہئے
جی بہت بہتر جناب یوں دیکھئے تو

دن کو چلتے شام ہوئی
چادر کالی تان ہی لی

ساتھ ہی اُس کے جھانکا تھا
اُس کے سنگ ہی آس گئی

آنکھوں میں تھے راز چھپے
سُن لیتا تُو باتیں ہی

کھیل کہاں تک کھیلے گا
مہلت تُجھ کو لمبی دی

پاس نہیں ہے دور ہے تُو
سنبھلے کیسے میرا جی


میں کیا جانوں موسم کیا
جیسا تیسا گُزرے بھی

کیا کیا بولے جاتا ہے

اظہر ہونٹوں کو تُو سی​
 
آخری تدوین:
Top