محمد اظہر نذیر
محفلین
مے کشو چین سے بیٹھو کہ کلال ایک نہیں
تنگ ساقی بھی ہیں، پیمانہ نہال ایک نہیں
میں تری سوچ کے پیکر میں تھا ڈھلنے آیا
دیکھ تو چاک پہ رکھا ہوں، کُلال ایک نہیں
یوں تو کہنے کو وہ ساتھی ہی تھا تنہائی کا
بیچ میں سات رہے ہجر، وصال ایک نہیں
میں پریشاں ہوں کہ اس ترک تعلق کا سبب
پوچھنے بیٹھا تو ہونٹوں پہ سوال ایک نہیں
ایک ہی چال پہ بیٹھا ہے ملک دُشمن کا
کیا کروں ہاتھ میں گھوڑا ہے تو چال ایک نہیں
رہ گیا لے کہ وہ اپنا سا ہی منہ، تھا جو صیاد
اُس نے ڈالے متعدد تھے وہ جال، ایک نہیں
میں نے دیکھے ہیں وہ رُخسار شفق شرماتے
اُس کے گالوں سا مگر ہو جو گُلال ایک نہیں
گُل سے، خوشبو سے میں تتلی سے ملاؤں کیسے
ان مثالوں میں سے اُسکی تو مثال ایک نہیں
دے کے اظہر بھی اذاں دیکھو مؤذن ٹہرا
بیچ لاکھوں کے، مگر کیا کہ بلال ایک نہیں