غزل
گلے کیسے ملوں تم سے مجھے تو ڈر لگے ہے
تمہارے ہاتھ میں تو پھول بھی خنجر لگے ہے
اسی کی رہنمائی میں لٹے منزل بھی پائی
خود اپنا دل کبھی رہزن کبھی رہبر لگے ہے
چکائ ہے بہت ہم نے وفاداری کی قیمت
یہ الزام جفا بھی دیکھئے ہم پر لگے ہے
سمجھ میں آ گئی ہے جب سے رشتوں کی حقیقت
مجھے سینے میں اپنے دل نہیں پتھر لگے ہے
ہمارے نام سے مت جوڑ تو اپنا مقدّر
بتا تو ہی کہ ہم میں کون سا گوہر لگے ہے
کرو احسان ہم پہ جان لے لو تم ہماری
تمہاری دوستی سے دشمنی بہتر لگے ہے
عجب رشتہ ہمارا زندگی سے جڑ چکا ہے
لگے ہے بے وفا ہم کو کبھی دلبر لگے ہے
خدا کو بھول کے جب بھی جہاں میں کی گئی ہے
محبت در حقیقت صنعتِ آذر لگے ہے
تم آئے ہو جو محفل میں اجالا ہو گیا ہے
تمہارا جسم ہم کو نور کا پیکر لگے ہے
شہنواز نور