ایک غزل اصلاح کے لئے ۔۔۔۔۔۔ نہ در پہ دی کبھی دستک نہ دی صدا میں نے

استاد محترم جناب الف عین سر، اساتذہء کرام اور احباب محفل
السلام اعلیکم
ایک غزل اصلاح اور مشوروں کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
مطلع سے ابھی مطمئن نہیں ہوں لیکن جیسا بھی ہے پیش ہے۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَعلن

نہ در پہ دی کبھی دستک نہ دی صدا میں نے
یوں تجھ سے جوڑ کے ناطہ دکھا دیا میں نے

بنا کے شکل تری ایک سادہ کاغذ پر
لگا ہے کر دیے زندہ کئی خدا میں نے

تمھارے حسن کو یوں دی گئی تھی شاباشی
لکھے تھے شعر ہر اک نقش پر جدا میں نے

بدن کی سوندھی سی مٹّی سے، اُس کی خوشبو سے
"شبِ وصال معطّر ہو"، کی دعا میں نے

وہ میرے چاند کی آغوشِ خود فراموشی
میں تشنہ کام تھا بانہوں میں بھر لیا میں نے

وہاں ہے پیڑ گھنے سائے کا جہاں پہ کبھی
زمیں میں گاڑ دئیے تھے کئی خدا میں نے

نہ جانے کیا تھا مری شکل ہی دکھائے گیا
رکھی جو سامنے شیشے کے اک خطا میں نے

جو ایک لمحہ مقیّد ہے آنکھ میں، اُس کے
فنائے عمر کی، تا عمر کی دعا میں نے

نشانیاں تری کیں ختم گوشے گوشے سے
یوں آسمان میں بھر دی ہے اک خلا میں نے

تھی روزگار، رفاقت کی پہلی شرط اگر
تو ایسے دورِ تعارف میں کیا جیا میں نے

متاعِ حسنِ رفاقت کی پیشکش کاشف
انا میں چھوڑ کے کر دی ہے انتہا میں نے

سیّدکاشف
 

La Alma

لائبریرین
بہت خوب .

یوں آسمان میں بھر دی ہے اک خلا

تھی روزگار، رفاقت کی پہلی شرط اگر
مجھے لگتا ہے یہاں پر کچھ تذکیر و تانیث کا مسئلہ ہے .خلا اور روزگار بطور مذکر استعمال ہوتے ہیں .
آخری دو اشعار میں رفاقت کی تکرار ہے ، پہلے والے کو قرابت کیا جا سکتا ہے .
 

الف عین

لائبریرین
المیٰ کی ایک بات سے متفق ہوں۔ دو اشعار میں تسلسل سے ایک ہی لفظ استعمال کرنا اچھا نہیں۔ ان دونوں اشعار میں زیادہ فاصلہ کر دیں۔
البتہ ان کی صیغے والی بات سے متفق نہیں۔ خلا کو مؤنث ہی باندھا ہے۔اور روزگار کے ساتھ تو کوئی صیغہ نہیں، ’تھی‘ تو پہلی شرط کے لیے ہے۔
اب میری رائے۔
؎مطلع میں اور ایک اور شعر میں ’یوں‘ کا محض ’یُ‘ تقطیع ہونا کانوں کو اچھا نہیں لگتا۔ کچھ ایسے جوڑ کے۔۔۔۔ کیا جا سکتا ہے مطلع میں۔
یوں آسمان میں بھر دی ہے اک خلا
کو بھی
پھر آسمان میں بھر دی ہے اک خلا
کیا جا سکتا ہے۔


تمھارے حسن کو یوں دی گئی تھی شاباشی
۔۔حسن کو شاباشی نہیں دی جاتی۔یہاں داد یا مدحت کا محل ہے۔

یہ دو اشعار ابلاغ کی کمی کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ سکے۔
نہ جانے کیا تھا مری شکل ہی دکھائے گیا
رکھی جو سامنے شیشے کے اک خطا میں نے

جو ایک لمحہ مقیّد ہے آنکھ میں، اُس کے
فنائے عمر کی، تا عمر کی دعا میں نے

باقی درست ہے
 

La Alma

لائبریرین
البتہ ان کی صیغے والی بات سے متفق نہیں۔ خلا کو مؤنث ہی باندھا ہے۔

سر کیا خلا کا استعمال دونوں صورتوں میں جائز ہے؟ میں تو آج تک اسے مذکر ہی سمجھتی آئی ہوں .
ایک اردو انسائیکلوپیڈیا کی رو سے،

["خَلا {خَلا} (عربی)
خ ل و، خَلا
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم مستعمل ہے۔ 1707ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر)"]

اس پر آپ کی مزید رہنمائی درکار ہے تاکہ اشکال رفع کیا جا سکے .
 

الف عین

لائبریرین
سر کیا خلا کا استعمال دونوں صورتوں میں جائز ہے؟ میں تو آج تک اسے مذکر ہی سمجھتی آئی ہوں .
ایک اردو انسائیکلوپیڈیا کی رو سے،

["خَلا {خَلا} (عربی)
خ ل و، خَلا
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم مستعمل ہے۔ 1707ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر)"]

اس پر آپ کی مزید رہنمائی درکار ہے تاکہ اشکال رفع کیا جا سکے .
میں تو صرف اعجاز عبیدی انسائیکلو پیڈیا کا حوالہ دیتا ہوں۔ اس کی رو سے تو خلا مؤنث ہے۔ بول چال کی زبان کے مطابق۔
 
استاد محترم جناب الف عین سر
اصلاح کے بعد غزل حاضر ہے. ایک دو اشعار ابھی بھی درست کرنا باقی ہیں. آپ کی توجہ کا منتظر ہوں. جزاک اللّہ

نہ در پہ دی کبھی دستک نہ دی صدا میں نے
کچھ ایسے جوڑ کے ناطہ دکھا دیا میں نے

بنا کے شکل تری ایک سادہ کاغذ پر
لگا ہے کر دیے زندہ کئی خدا میں نے

تمھارے حسن کو تعریف اس طرح کی تھی
لکھے تھے شعر ہر اک نقش پر جدا میں نے

بدن کی سوندھی سی مٹّی سے، اُس کی خوشبو سے
"شبِ وصال معطّر ہو"، کی دعا میں نے

وہ میرے چاند کی آغوشِ خود فراموشی
میں تشنہ کام تھا بانہوں میں بھر لیا میں نے

وہاں ہے پیڑ گھنے سائے کا جہاں پہ کبھی
زمیں میں گاڑ دئیے تھے کئی خدا میں نے

نصیحتاً وہ مری شکل ہی دکھائے گیا
رکھی جو سامنے شیشے کے اک خطا میں نے

جو ایک لمحہ مقیّد ہے آنکھ میں، اُس کے
فنائے عمر کی، تا عمر کی دعا میں نے

نشانیاں تری کیں ختم گوشے گوشے سے
پھر آسمان میں بھر دی ہے اک خلا میں نے

تھی روزگار، رفاقت کی پہلی شرط اگر
تو ایسے دورِ تعارف میں کیا جیا میں نے

متاعِ حسنِ رفاقت کی پیشکش کاشف
انا میں چھوڑ کے کر دی ہے انتہا میں نے​
 
آخری تدوین:
Top