ایک غزل،'' وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے''

وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے
دل میں رہتا کہیں بھی تھا ویسے
میں نے ڈھونڈا جہاں جہاں اُسکو
تھا وہاں بھی، یہں بھی تھا ویسے
دور مجھ سے نظر بھی آتا تھا
وہ ہی سب سے قریں بھی تھا ویسے
اُس کی بابت گمان تھے میرے
اور اُس پر یقیں بھی تھا ویسے
وہ تھا پنہاں ہزار پردوں میں
کیا کہوں وہ مبیں بھی تھا ویسے
آسماں تھا مرے لیئے اظہر
میری چھت بھی زمیں بھی تھا ویسے
 
اچھی کوشش ہے اظہر۔ بعد میں تفصیل سے دیکھتا ہوں۔

بہت شکریہ اُستاد محترم
ایک سوال ایک محترم نے کیا ہے وہ یہ کہ''قوافی کہیں، نہیں ، وہیں، یہیں، کے ساتھ زمیں، قریں اور یقیں وغیرہ نہیں آ سکتا،'' کیا یہ صحیح ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ اُستاد محترم
ایک سوال ایک محترم نے کیا ہے وہ یہ کہ''قوافی کہیں، نہیں ، وہیں، یہیں، کے ساتھ زمیں، قریں اور یقیں وغیرہ نہیں آ سکتا،'' کیا یہ صحیح ہے؟

درست کہا جن نے بھی کہا کیوں آپ نے مطلع میں قوافی ہی ایسے استمعال کیے ہیں۔ آپ مطلع کے قوافی بدل دیں تو پھر ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ابھی مطلع کے قوافی نہیں اور کہیں کا مطلب ہے کہ آپ نے ہ کی بھی قافیے میں شرط لگا لی ہے اور اسطرح قافیہ آ ہیں بنتا ہے یعنی الف یا زبر کی آواز او ر اسکے بعد "ہِیں"، اسکے ساتھ یعنی ہ کی قید کے ساتھ صرف یہیں، وہیں آسکتے ہیں۔

اگر مطلع کا قافیہ بدل کر ہ کی قید اڑا دیں تو پھر قافیہ صرف ایں رہ جائے گا اور پھر اس میں زمیں، قریں، یقیں، مکیں، حسیں، مبیں بھی آسکتے ہیں، ایک مثال دیکھیے احمد مشتاق کی خوبصورت غزل

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے

اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جُگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے
 
درست کہا جن نے بھی کہا کیوں آپ نے مطلع میں قوافی ہی ایسے استمعال کیے ہیں۔ آپ مطلع کے قوافی بدل دیں تو پھر ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ابھی مطلع کے قوافی نہیں اور کہیں کا مطلب ہے کہ آپ نے ہ کی بھی قافیے میں شرط لگا لی ہے اور اسطرح قافیہ آ ہیں بنتا ہے یعنی الف یا زبر کی آواز او ر اسکے بعد "ہِیں"، اسکے ساتھ یعنی ہ کی قید کے ساتھ صرف یہیں، وہیں آسکتے ہیں۔

اگر مطلع کا قافیہ بدل کر ہ کی قید اڑا دیں تو پھر قافیہ صرف ایں رہ جائے گا اور پھر اس میں زمیں، قریں، یقیں، مکیں، حسیں، مبیں بھی آسکتے ہیں، ایک مثال دیکھیے احمد مشتاق کی خوبصورت غزل

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے

اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جُگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے

محترم جناب وارث صاحب،
بے حد شکر گزار ہوں ،اتنا مفصل اور تشفی بخش جواب دینے پر
شاد و آباد رہیے جناب
 
محترم جناب وارث صاحب،
بے حد شکر گزار ہوں ،اتنا مفصل اور تشفی بخش جواب دینے پر
شاد و آباد رہیے جناب

اگر اس طرح سے لکھا جائے تو ٹھیک رہے گا کیا؟

سات پردوں میں بھی مبیں گویا
وہ یہاں تھا بھی اور نہیں گویا
اور کوئی وہاں ملا نہ مجھے
دل کا واحد ہی تھا مکیں گویا
دور مجھ سے نظر بھی آتا تھا
ہو مگر سب سے ہی قریں گویا
اُس کی بابت گمان تھے میرے
اور اُس پر کہ ہو یقیں گویا
جب پکارا تو دوڑ کر آیا
پاس رہتا ہو وہ کہیں گویا
تھا سبھی کچھ مرے لیے اظہر
میری چھت بھی ہو اور زمیں گویا
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب ہے اظہر صاحب، اب کم از کم کوئی قافیوں پر اعتراض نہیں کر سکتا۔

باقی اصلاح ظاہر ہے اعجاز صاحب کا ڈیپارٹمنٹ ہے :)
 

الف عین

لائبریرین
اب قوافی درست ہو گئے ہیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ مطلع میں ایطا ہے، لیکن یہ نشان دہی اصلاح کے لئے چھوڑ دی تھی۔
اظہر، یہاں یہ بتا دیا جائے کہ مطلع میں اس قسم کے قوافی ہوں جس میں کوئی مزید حرف مشترک ہو، تو اس سقم کو ایطا کہتے ہیں۔ نہیں، کہیں میں جیسے ’ہ‘ مزید مشترک ہے۔ قوافی تو درست ہی رہتے ہیں محض مطلع میں ایطا کا سقم پیدا ہو جاتا ہے۔
 
کچھ تبدیلیاں

سات پردوں میں بھی مبیں گویا
وہ یہاں تھا بھی اور نہیں گویا
اور کوئی نہ مل سکا مجھ کو
دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا
اُس کی خوشبو حصار میں رکھتی
دور رہ کے بھی تھا قریں گویا
اُس کی نسبت گمان ہوتا تھا
بس میں کرتا تھا پھر یقیں گویا
اُس نے قربت کی فصل بوئی ہو
پاس میرے یہیں کہیں گویا
اب جو بچھڑا سرک گئی اظہر
میرے پاوں تلے زمیں گویا
 
تھوڑی سی تبدیلی مزید

سات پردوں میں بھی مبیں گویا
وہ یہاں تھا بھی اور نہیں گویا
اور کوئی نہ مل سکا مجھ کو
دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا
اُس کی خوشبو حصار میں رکھتی
دور رہ کے بھی تھا قریں گویا
اُس کی نسبت گمان دب جاتے
اُس پہ کامل ہی تھا یقیں گویا
اُس نے یادوں کے بیج بوئے ہوں
پاس میرے یہیں کہیں گویا
اُس سے بچھڑا تو ایک دم اظہر
ہٹ گئی پاوں سے زمیں گویا
 
ایک تبدیلی اور

سات پردوں میں بھی مبیں گویا
وہ یہاں تھا بھی اور نہیں گویا
اور کوئی نہ مل سکا مجھ کو
دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا
اُس کی خوشبو حصار میں رکھتی
دور رہ کے بھی تھا قریں گویا
دل میں پیدا ہوا گماں کیونکر؟
ڈولنے لگ گیا یقیں گویا
اُس نے یادوں کے بیج بوئے ہوں
پاس میرے یہیں کہیں گویا
اُس سے بچھڑا تو ایک دم اظہر
ہٹ گئی پاوں سے زمیں گویا
 
مطلع میں ایک اور (آخری) تبدیلی:)

وہ نہاں تھا بھی اور نہیں گویا
سات پردوں میں ہو مبیں گویا
اور کوئی نہ مل سکا مجھ کو
دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا
اُس کی خوشبو حصار میں رکھتی
دور رہ کے بھی تھا قریں گویا
دل میں پیدا ہوا گماں کیونکر؟
ڈولنے لگ گیا یقیں گویا
اُس نے یادوں کے بیج بوئے ہوں
پاس میرے یہیں کہیں گویا
اُس سے بچھڑا تو ایک دم اظہر
ہٹ گئی پاوں سے زمیں گویا
 

الف عین

لائبریرین
وہ نہاں تھا بھی اور نہیں گویا
سات پردوں میں ہو مبیں گویا
//’نہیں بھی‘ کا محل ہے یہاں، یا کم از کم اس طرح کی صورت
وہ نہاں تھا کہ تھا نہیں گویا

اور کوئی نہ مل سکا مجھ کو
دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا
//درست پہلا مصرع کی یہ شکل پر بھی غور کرو
اور کوئی ادھر نہیں آیا

اُس کی خوشبو حصار میں رکھتی
دور رہ کے بھی تھا قریں گویا
//یوں واضح ہوتا ہے
اُس کی خوشبو کے میں حصار میں تھا

دل میں پیدا ہوا گماں کیونکر؟
ڈولنے لگ گیا یقیں گویا
//لگ گیا‘ رواں نہیں، محض لگا‘ کی ضرورت ہے یہاں
یوں لرزنے لگا یقیں گویا
کیسا رہے گا؟

اُس نے یادوں کے بیج بوئے ہوں
پاس میرے یہیں کہیں گویا
//درست، بلکہ اچھا ہے۔ داد قبول کرو

اُس سے بچھڑا تو ایک دم اظہر
ہٹ گئی پاوں سے زمیں گویا
//’ایک دم‘ کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔
اس سے بچھڑا تو یوں لگا اظہر
میں مصرع رواں ہو جاتا ہے، حالانکہ دوسرے مصرع میں گویا میں بھی وہی بات ہے جو ’یوں‘ میں ہے۔ ویسے ’ہٹنا‘ بھی محاورہ نہیں، سرکنا، یا نکل جانا محاورہ ہوتا ہے۔
 
وہ نہاں تھا بھی اور نہیں گویا
سات پردوں میں ہو مبیں گویا
//’نہیں بھی‘ کا محل ہے یہاں، یا کم از کم اس طرح کی صورت
وہ نہاں تھا کہ تھا نہیں گویا

اور کوئی نہ مل سکا مجھ کو
دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا
//درست پہلا مصرع کی یہ شکل پر بھی غور کرو
اور کوئی ادھر نہیں آیا

اُس کی خوشبو حصار میں رکھتی
دور رہ کے بھی تھا قریں گویا
//یوں واضح ہوتا ہے
اُس کی خوشبو کے میں حصار میں تھا

دل میں پیدا ہوا گماں کیونکر؟
ڈولنے لگ گیا یقیں گویا
//لگ گیا‘ رواں نہیں، محض لگا‘ کی ضرورت ہے یہاں
یوں لرزنے لگا یقیں گویا
کیسا رہے گا؟

اُس نے یادوں کے بیج بوئے ہوں
پاس میرے یہیں کہیں گویا
//درست، بلکہ اچھا ہے۔ داد قبول کرو

اُس سے بچھڑا تو ایک دم اظہر
ہٹ گئی پاوں سے زمیں گویا
//’ایک دم‘ کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔
اس سے بچھڑا تو یوں لگا اظہر
میں مصرع رواں ہو جاتا ہے، حالانکہ دوسرے مصرع میں گویا میں بھی وہی بات ہے جو ’یوں‘ میں ہے۔ ویسے ’ہٹنا‘ بھی محاورہ نہیں، سرکنا، یا نکل جانا محاورہ ہوتا ہے۔
جی اُستاد محترم تمام تجاویز احسن ہیں، گویا اب صورتحال یوں بنی

وہ نہاں تھا کہ تھا نہیں گویا
سات پردوں میں ہو مبیں گویا
اور کوئی ادھر نہیں آیا
دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا
اُس کی خوشبو کے میں حصار میں تھا
دور رہ کے بھی تھا قریں گویا
دل میں پیدا ہوا گماں کیونکر؟
یوں لرزنے لگا یقیں گویا
اُس نے یادوں کے بیج بوئے ہوں
پاس میرے یہیں کہیں گویا
اس سے بچھڑا تو یوں لگا اظہر
ہٹ گئی پاوں سے زمیں گویا
 
Top