ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور رہ نُمائی کیلئے،'' درد ہو، جانکنی کا عالم ہو''

درد ہو جانکنی کا عالم ہو
وہ ملیں جان پھر کوئی دم ہو

کوئی غم اب بُرا نہیں لگتا
اب جو غم ہو، بہت بُرا غم ہو

زیست کی اور بھی بڑھا مشکل
چاہتا کون ہے کہ اب کم ہو

خامیاں دور کر، بنا پھر سے
دیکھ ماٹی ابھی بھی کچھ نم ہو

کچھ بھی ہو شکر ہی کرے اظہر
کاش ایسا نہ ہو کہ برہم ہو​
 

الف عین

لائبریرین
درست تو ہے۔ لیکن مطلع واضح نہیں۔
یہ مسرع رواں کیا جا سکتا ہے
زیست کی اور بھی بڑھا مشکل

خامیاں دور کر، بنا پھر سے
دیکھ ماٹی ابھی بھی کچھ نم ہو
اس شعر میں ’مٹی‘ کی جگہ ’ماٹی‘ کیوں؟
یہاں ’نم ہے‘ بہتر ہوتا شاید، ورنہ کہیں ’شاید‘ یا ’مبادا‘ کا استعمال کیا جائے
 
درست تو ہے۔ لیکن مطلع واضح نہیں۔
یہ مسرع رواں کیا جا سکتا ہے
زیست کی اور بھی بڑھا مشکل

خامیاں دور کر، بنا پھر سے
دیکھ ماٹی ابھی بھی کچھ نم ہو
اس شعر میں ’مٹی‘ کی جگہ ’ماٹی‘ کیوں؟
یہاں ’نم ہے‘ بہتر ہوتا شاید، ورنہ کہیں ’شاید‘ یا ’مبادا‘ کا استعمال کیا جائے
جی بہت بہتر اُستاد محترم میں تبدیلیاں سُرخ میں ظاہر کئے دیتا ہوں

درد ہو جانکنی کا عالم ہو
ایسا کیا ہے کہ جس کا ماتم ہو

کوئی غم اب بُرا نہیں لگتا
اب جو غم ہو، بہت بُرا غم ہو

اور بھی زیست کی بڑھا مشکل
چاہتا کون ہے کہ اب کم ہو

ہجر کو شادمان رہنے دے
وصل کے بھاگ میں تو ماتم ہو


خامیاں دور کر، بنا پھر سے
مٹی امکان ہے کہ کچھ نم ہو

جسم کو ڈھانپنا ہی مقصد ہے
پھر وہ کھدر ملے، یا ریشم ہو


اُس کا آنا مریض چاہے گا
کچھ ضروری نہیں کہ مرہم ہو


ساتھ اُسکا ہو ، شام ہو اظہر
اور لو بھی دیئے کی مدھم ہو
 
'مٹی' کی 'ی' گرانا ہی ہے تو اس طرح دیکھیں:
مٹی شاید ابھی تلک نم ہو
اور اگر یوں کہ لوں تو؟


درد ہو جانکنی کا عالم ہو
ایسا کیا ہے کہ جس کا ماتم ہو

کوئی غم اب بُرا نہیں لگتا
اب جو غم ہو، بہت بُرا غم ہو

اور بھی زیست کی بڑھا مشکل
چاہتا کون ہے کہ اب کم ہو

ہجر کو شادمان رہنے دے
وصل کے بھاگ میں تو ماتم ہو

خامیاں دور کر، بنا پھر سے
خاک شائد ابھی بھی کچھ نم ہو


جسم کو ڈھانپنا ہی مقصد ہے
پھر وہ کھدر ملے، یا ریشم ہو

اُس کا آنا مریض چاہے گا
کچھ ضروری نہیں کہ مرہم ہو

ساتھ اُسکا ہو ، شام ہو اظہر
اور لو بھی دیئے کی مدھم ہو​
 
Top