ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کیلئے،۔؛؛ کچھ نہ کچھ ہو تو مرے ہاتھ، نہ خالی جاؤں؛؛

کچھ نہ کچھ ہو تو مرے ہاتھ، نہ خالی جاؤں
میں کہ لایا تھا سوال اور سوالی جاؤں

بدنصیبی کو جو تبدیل نہیں ہونا ہے
تھام رکھی تھی کسی زعم میں جالی، جاؤں

مختلف سوچ، خطا ایسی بڑی بھی تو نہیں
تان لوں سب پہ میں بندوق کی نالی، جاؤں

ظلم ہے یوں ہی مصاحب کو معطل کرنا
پھر سے ہو جائے جو منصب پہ بحالی جاؤں

ساقیا بھول کے آ جاؤں پلا دیتے ہو
سر پہ بوتل ترے توڑوں میں یہ سالی جاؤں

ہیں یہ اشجار بھی اولاد کے جیسے اظہر
زندگی بھر جو ہو مقدور میں پالی جاؤں​
 
ایک تبدیلی :lol:

کچھ نہ کچھ ہو تو مرے ہاتھ، نہ خالی جاؤں
میں کہ لایا تھا سوال اور سوالی جاؤں

بدنصیبی کو جو تبدیل نہیں ہونا ہے
تھام رکھی تھی کسی زعم میں جالی، جاؤں

مختلف سوچ، خطا ایسی بڑی بھی تو نہیں
تان لوں سب پہ میں بندوق کی نالی، جاؤں

ظلم ہے یوں ہی مصاحب کو معطل کرنا
پھر سے ہو جائے جو منصب پہ بحالی جاؤں

ساقیا تُو تو پلانے کے بہانے ڈھونڈھے
سر پہ بوتل ترے توڑوں میں یہ سالی جاؤں

ہیں یہ اشجار بھی اولاد کے جیسے اظہر
زندگی بھر جو ہو مقدور میں پالی جاؤں​
 

الف عین

لائبریرین
یہ آج کل ردیفوں میں کیوں تجربے کر رہے ہو۔ اس میں ساری کوشش ردیف نباہبے میں ہی صرف ہو جاتی ہے، چاہے خیالات کیسے بھی آئیں، بلکہ لائے جائیں!!
کچھ نہ کچھ ہو تو مرے ہاتھ، نہ خالی جاؤں
میں کہ لایا تھا سوال اور سوالی جاؤں
÷÷پہلا مصرع بدلو، ہتھ میں ہونا چاہئے، جیسے
کچھ تو ہو ہاتھ میں میرے بھی، کہ خالی جاؤں؟

بدنصیبی کو جو تبدیل نہیں ہونا ہے
تھام رکھی تھی کسی زعم میں جالی، جاؤں
÷÷زعم کی جگہ کچھ اور لاؤ تو بہتر ہے شاید

مختلف سوچ، خطا ایسی بڑی بھی تو نہیں
تان لوں سب پہ میں بندوق کی نالی، جاؤں
۔۔ہائے ردیف، یار بندوق بنفس نفیس تانی جاتی ہے، اس کی نالی نہیں!!!

ظلم ہے یوں ہی مصاحب کو معطل کرنا
پھر سے ہو جائے جو منصب پہ بحالی جاؤں
÷÷یہ بھی مھض قافیہ استعمال کرنے کی خاطر!!

ساقیا تُو تو پلانے کے بہانے ڈھونڈھے
سر پہ بوتل ترے توڑوں میں یہ سالی جاؤں
۔۔ اس کو تو نکال ہی دیا جائے، ابتذال سے بچو۔

ہیں یہ اشجار بھی اولاد کے جیسے اظہر
زندگی بھر جو ہو مقدور میں پالی جاؤں
۔۔یہ کیا قافیہ ہے؟ ’پالے جاؤں؟‘ مراد ہے؟ اگر پاکے بھی ہو تو اشجار پالے نہیں جاتے، پالتو جانور پالے جاتے ہیں۔
 
Top