ایک صوفی کا خط آرٹسٹ کے نام

تم دوسروں کے برعکس، وجود کو اپنے وجدان کی آنکھ سے دیکھتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تم وہ کچھ دیکھتے ہو جو دوسرے نہیں دیکھ پاتے، اور اس امر کا ادراک کر جاتے ہو جو دوسروں سے مخفی رہتا ہے۔ اور فنون کی انواع و اقسام کے لحاظ سے تمہاری شخصیت بھی مختلف قسم کے مظاہر میں نظر آتی ہے۔ چنانچہ اگر تم اشکال سے مناسبت رکھتے ہو تویہ دنیا تمہیں مختلف جسموں، مختلف شکلوں اور مختلف رنگوں کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ اگر موسیقی سے تعلق رکھتے ہو تو یہ دنیا مختلف نغموں، آوازوں کے اتار چڑھاؤ اور تراکیب پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ اور اگر تم اداکاری سے تعلق رکھتے ہو تو دنیا ایک اسٹیج کی صورت میں بیشمار کرداروں اور مناظر پر مشتمل ایک کھیل اورایک تھیٹر دکھائی دیتا ہے۔
وجود ایک سمفنی(Symphony) ہے، گویا ایک طویل نغمہ ہے جس میں ایک موسیقار کے اشاروں پر مختلف قسم کے سازوں سے مختلف آوازیں ایک خاص زیر و بم کی صورت میں ایک آرکسٹرا پیش کرتی ہوں۔ یا پھر وجود ایک وسیع کینوس ہے جس پر ہر قسم کا رنگ مخصوص قسم کے برشوں کے ساتھ جلو ہ گر ہوکراس قدر مفاہیم پیش کرتا ہے کہ جنکا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی ہے کہ یہ وجود ایک طویل دورانیے کاگویا کوئی کھیل(Drama)ہے جس میں لاتعداد کردار باری باری مختلف مناظر میں آتے ہوں اور اپنا اپنا کردار ادا کرکے اور ڈراما رائٹر کے لکھے ہوئے مکالمات کی ادائیگی کرکےپسِ پردہ چلے جاتے ہوں اور دیکھنے والوں کو کسی اور ہی دنیا میں لیجاتے ہوں جس میں وہم اور خیال حقیقت بن کر دکھائی دیتا ہے۔
یہ آرٹسٹ لوگ حقیقت کا ادراک کرنے میں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی مخصوص زبان، یا کسی مخصوص لگے بندھے منطقی قاعدوں اور ریاضی کے اصولوں کے پابند نہیں ہوتے۔ کیونکہ جن لوگوں میں یہ مذکورہ رحجانات پائے جاتے ہیں انکو تو حقیقتِ وجود کی معرفت میں اکثر اوقات ،خالی ہاتھ ہی واپس لوٹتے ہوئے دیکھا جاتا رہا ہے۔ جہاں تک تمہاری بات ہے، تو تم چونکہ ایک مختلف سمت سے حقیقت پر نظر ڈالتے ہو، ایک ایسی سمت جسکی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ لگے بندھے سانچوں اور بندھنوں سے آزاد ہوتی ہے اور ان مفاہیم کا ادراک کرتی ہے جنکو زبان و بیان کے کسی مخصوص سانچے میں ڈھالا نہیں جاسکتا۔
جو شخص آرٹ پر گہرائی کے ساتھ غور کرے، تو جان لے گا کہ یہ ایک غیر لغوی (Non Linguistic) فلسفہ ہے۔ اور اس بناء پر آرٹ دراصل فلسفے کا معاون و مددگار ہے ان آفاق کو واضح کرنے میں جو ابھی مفکر کی عقل پر طلوع نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی ادراک(cognition) کےزینے میں، اعلیٰ درجے کے فنکار، بڑے بڑے فلسفیوں سے زیادہ بلندی پر فائز نظر آتے ہیں۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود، سوال یہ ہے کہ کیا آرٹسٹ لوگ حقیقت کے ادراک کو پہنچ گئے؟ یا یہ کہ ناراسائی میں یہ بھی فلاسفرز اور ماہرینِ طبیعات کی طرح ہیں اور فرق صرف یہ ہے کہ ان کی زبان یعنی ذریعہ اظہار، فلسفیوں اور سائنسدانوں سے مختلف ہے؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آرٹ اور آرٹسٹوں کے ساتھ جو معاملات گذرتے ہیں ان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ حقیقت کے ادراک میں یہ لوگ بھی فلسفہ اور طبیعین کی طرح وادئِ حیرت میں سرگرداں و پریشاں ہیں، اگرچہ دونوں کا ذوق جداگانہ رہا ہو۔ جب ہم بڑے بڑے فنکاروں کی زندگیوں میں لایعنی اور مہمل قسم کی بوالعجبیاں دیکھتے ہیں تو یہ دراصل اسی جان لیوا قسم کی حیرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ چنانچہ سچا اور جینؤن آرٹسٹ یہ جانتا ہے کہ وہ جس شئے یا جس حسن کو اپنے آرٹ سے بیان کرنے کے درپئے ہے، اسکے اظہار پر ابھی تک قادر نہیں ہوسکا۔ چنانچہ اگر تم اس سے پوچھو کہ تمہارا بہترین فن پارہ کونسا ہے تو جواب میں وہ یہی کہے گا کہ میری بہترین پینٹنگ وہ ہے جو میں ابھی تک بنا نہیں پایا، یا میرا بہترین نغمہ وہ ہے جو ابھی تک میں کمپوز نہیں کرپایا ، یا میرا بہترین کھیل اور اداکاری کی معراج ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔ آرٹسٹ یہ بات کہہ جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان سے پہلے بھی بیشمار فنکار اس دنیا سے یہی خیال لئے رخصت ہوئے کہ اس غایت و کمال کو پہنچ سکیں جسکی طلب میں ہیں۔اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک ہی تجربے کو اسکے نتائج سے کچھ سیکھے بغیر دہراتے جانا محض خودفریبی ہے۔لیکن وجدان ۔۔۔۔۔۔۔جسکی منطق عام منطق سے جدا ہوتی ہے۔۔۔انہیں اس بات میں مشغول کئے رکھتا ہے۔
اب پڑھنے والا یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ اس بات کا یہاں ذکر کرنے کی کیا وجہ تھی؟ اور یہ جو کچھ ہم نے کہا ، اس کا دین سے کیا تعلق ہے؟ تو ہم یہ کہیں گے کہ:
دین فلسفے سے ماوراء ہے، ریاضی سے ماوراء ہے اور آرٹ سے بھی ماوراء ہے۔ اور دین ہی وہ چیز ہے جو بندوں پر معرفت کے آفاق کو طلوع کرتی ہے اور انکو انکی اپنی چنی گئی راہوں کی تنگی سے نکال کر، وسعت اور اطلاق کے میدانوں میں لے آتی ہے۔
مجھ سے ایک مرتبہ ایک بائیں بازو (leftist) والے نے۔۔۔ہماری باہمی گفتگو کے آخر میں جب اسے یہ گمان گذرا کہ میں دین کو اس طرح سے نہیں دیکھتا جس طرح دوسرے لوگ دیکھتے ہیں،۔۔۔یہ سوال کیا کہ "تمہارے نزدیک دین کیا ہے؟"۔ میں نے جو فی الفور جواب دیا۔۔۔ اور جسے بہت سے لوگ ایک عجیب بات کہیں گے۔۔۔وہ یہی تھا کہ "دین ایک آرٹ ہے۔" اور میں اس بات پر پھر اصرار کرتا ہوں کہ دین جو کہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان چلنے والے معاملے کا نام ہے، جسکا آغاز احکام کو بجالانے اور ممنوعات سے باز رہنے سے ہوتا ہے، لیکن اسکی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک یہ آرٹ میں نہ ڈھل جائے اور انسان وجدان اور کیفیات کی حدود سے ماوراء پہنچ کر ادراکِ مطلق سے سرفراز ہوتا ہےاور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں باریاب ہوکر وہ کچھ جان پاتا ہے اور وہ کچھ دیکھ پاتا ہے جو کسی کے حاشیہ ِ خیال میں بھی نہیں ہے اور جس کو عبارات و تعبیرات بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ اور یہ سب ما بعد الطبیعات اور مابعد الفلسفہ کی طرح مابعد الفن ہے۔ ۔۔۔۔۔۔
(مصنف : الشیخ الصوفی السید عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
نہایت معلوماتی شراکت، جناب غزنوی صاحب۔
ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ مصنف نے لکھا ہے:
"دین فلسفے سے ماوراء ہے، ریاضی سے ماوراء ہے اور آرٹ سے بھی ماوراء ہے۔ اور دین ہی وہ چیز ہے جو بندوں پر معرفت کے آفاق کو طلوع کرتی ہے اور انکو انکی اپنی چنی گئی راہوں کی تنگی سے نکال کر، وسعت اور اطلاق کے میدانوں میں لے آتی ہے۔"
جب کہ انہوں نے دوسری جگہ پر بائیں بازو والے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ "دین آرٹ ہے"

کیا یہ بات تضاد کے زمرے میں نہیں آتی جناب؟
 
نہایت معلوماتی شراکت، جناب غزنوی صاحب۔
ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ مصنف نے لکھا ہے:
"دین فلسفے سے ماوراء ہے، ریاضی سے ماوراء ہے اور آرٹ سے بھی ماوراء ہے۔ اور دین ہی وہ چیز ہے جو بندوں پر معرفت کے آفاق کو طلوع کرتی ہے اور انکو انکی اپنی چنی گئی راہوں کی تنگی سے نکال کر، وسعت اور اطلاق کے میدانوں میں لے آتی ہے۔"
جب کہ انہوں نے دوسری جگہ پر بائیں بازو والے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ "دین آرٹ ہے"

کیا یہ بات تضاد کے زمرے میں نہیں آتی جناب؟
اسکا حل شائد آخری پیراگراف میں موجود ہے کیونکہ وہاں انہوں نے لکھا ہے کہ :
دین جو کہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان چلنے والے معاملے کا نام ہے، جسکا آغاز احکام کو بجالانے اور ممنوعات سے باز رہنے سے ہوتا ہے، لیکن اسکی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک یہ آرٹ میں نہ ڈھل جائے اور انسان وجدان اور کیفیات کی حدود سے ماوراء پہنچ کر ادراکِ مطلق سے سرفراز ہوتا ہےاور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں باریاب ہوکر وہ کچھ جان پاتا ہے اور وہ کچھ دیکھ پاتا ہے جو کسی کے حاشیہ ِ خیال میں بھی نہیں ہے اور جس کو عبارات و تعبیرات بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ اور یہ سب ما بعد الطبیعات اور مابعد الفلسفہ کی طرح مابعد الفن ہے۔ ۔۔۔ ۔۔۔
(مصنف : الشیخ الصوفی السید عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
یعنی یہ معاملہ فکسڈ نہیں ہے بلکہ ارتقاء پذیر ہے۔۔۔اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان ایک آرٹسٹ کی طرح اس معاملے کو دیکھتا ہے، برتتا ہے اور ارٹسٹ کی طرح اس میں سے گذرتا ہے۔۔۔لیکن اسکے بعد ترقی کرتے کرتےیہ آرٹ کی حدود سے بھی ماوراء ہوجاتا ہے۔۔۔۔واللہ اعلم۔۔میری سمجھ میں تو یہی جواب آسکا ہے جناب :)
 
تحریراپنے اند بہت گہرائی اور وسعتِ فکر لئے ہوئے ہے
بہت سی با
نہایت معلوماتی شراکت، جناب غزنوی صاحب۔
ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ مصنف نے لکھا ہے:
"دین فلسفے سے ماوراء ہے، ریاضی سے ماوراء ہے اور آرٹ سے بھی ماوراء ہے۔ اور دین ہی وہ چیز ہے جو بندوں پر معرفت کے آفاق کو طلوع کرتی ہے اور انکو انکی اپنی چنی گئی راہوں کی تنگی سے نکال کر، وسعت اور اطلاق کے میدانوں میں لے آتی ہے۔"
جب کہ انہوں نے دوسری جگہ پر بائیں بازو والے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ "دین آرٹ ہے"

کیا یہ بات تضاد کے زمرے میں نہیں آتی جناب؟
آپ نے میرے منہ کی بت چھین لی میں بھی کافی دیر سے یہ ہی بات سوچ رہا تھا :)
 
اسکا حل شائد آخری پیراگراف میں موجود ہے کیونکہ وہاں انہوں نے لکھا ہے کہ :

یعنی یہ معاملہ فکسڈ نہیں ہے بلکہ ارتقاء پذیر ہے۔۔۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان ایک آرٹسٹ کی طرح اس معاملے کو دیکھتا ہے، برتتا ہے اور ارٹسٹ کی طرح اس میں سے گذرتا ہے۔۔۔ لیکن اسکے بعد ترقی کرتے کرتےیہ آرٹ کی حدود سے بھی ماوراء ہوجاتا ہے۔۔۔ ۔واللہ اعلم۔۔میری سمجھ میں تو یہی جواب آسکا ہے جناب :)
مگر پھر بھی تشنگی رہ گئی مجھے جیسے کم فہم کو یہ محسوس ہوا کہ فاضل مصنف اپنی بات کی پوری طرح وضاحت نہیں کر سکا
 
Top