ایک شعر اور اس کی تقطیع کا مسئلہ

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک شعر ذہن میں آیا ہے، معنی کے حوالے سے مجھے تو ٹھیک لگتا ہے، اگر کوئی مسئلہ ہو تو ضرور بتائیے۔ بڑا مسئلہ اس کی تقطیع کا آن پڑا ہے۔۔۔ شعر ہے:
خیالِ ترکِ محبت ہی دسترس میں نہیں
ہم اپنے بس میں نہیں آپ اپنے بس میں نہیں

دوسرا شعر جو کہنے کی کوشش کر رہا ہوں اور جس سے مطمئن نہیں ہوں، وہ یہ ہے:
کرے تو قید مگر یہ بھی جان لے صیاد
ہمیں جھکانے کی طاقت کسی قفس میں نہیں ۔۔۔

اطمینان نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے معانی و مفاہیم کے حوالے سے میں الجھن کا شکار ہوں۔۔۔
خیر، یہ تو ایک مسئلہ ہوا، کہ یہ اشعار معانی کے حساب سے درست ہیں یا نہیں، دوسرا مسئلہ تقطیع کا ہے ، میری تقطیع میں کیا مسئلہ ہےِ؟
وزن جہاں تک میں سمجھا ہوں ’’فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن‘‘ ہے۔۔۔ یوں اعشاری نظام میں دیکھا جائے توتقطیع یوں ہے:
2 1 2 2 2 2 2 2 2 2 2 2 :
خی(2) ا (1) ل ت (2) رک (2) مح (2) بب (2) ت ہ (2) دس (2) تر(2) س م (2) نھ (2) ی (2) ۔۔۔ تقطیع سے پہلے ہی الفاظ ختم ہو گئے۔۔۔
میں یہاں کیا غلطی کر رہا ہوں جس کی وجہ سے تقطیع غلط ہو رہی ہے، یا پھر بحر کو ہی غلط سمجھا ہوں۔۔۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔۔
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
محترم مزمل شیخ بسمل بھائی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ دونو اشعار شاید اس بحر میں ہیں

مفاعلن ۔۔۔ فَعِلاتن ۔۔۔ مفاعلن ۔۔۔ فَعِلن

خیالِ تر ۔۔۔کِ محبت ۔۔۔ ہی دسترس ۔۔۔ میں نہیں
ہ مپ نے بس ۔۔۔ میں نہیں آ ۔۔۔پ اپنے بس ۔۔۔ میں نہیں

کرے تو قی ۔۔۔ د مگر یہ ۔۔۔ بھی جان لے ۔۔۔ صیاد (فَعلان)
ہمیں جھکا ۔۔۔ نے کی طاقت ۔۔۔ کسی قفس ۔۔۔ میں نہیں​
 
اس میں تقطیع کا تو کوئی مسئلہ نہیں جناب شاہد شاہنواز صاحب۔


خیالِ ترکِ محبت ہی دسترس میں نہیں
ہم اپنے بس میں نہیں آپ اپنے بس میں نہیں

اور

کرے تو قید مگر یہ بھی جان لے صیاد​
ہمیں جھکانے کی طاقت کسی قفس میں نہیں ۔۔۔​

ایک مصرعے کا وزن:
فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن ۔۔۔ اس میں آخری فاعلتن کے مقابل مفعولن، مفعولات، یا فاعلتان بلااِکراہ جائز ہے۔
ارکان بندی روایتی نظام سے کیجئے یا نئے نظام سے جملہ مصرعے اس بحر پر پورے اتر رہے ہیں۔
فن شعر کے دیگر امور بعد میں دیکھیں گے، غزل تو مکمل ہونے دیجئے۔

محمد بلال اعظم ، مزمل شیخ بسمل ، الف عین ، فاتح صاحبان۔
 
تقطیع تو دو اور دو چار ہے بلال اعظم کی۔
معانی کے لئے بعد میں آتا ہوں۔ فی الوقت یہ بات کہونگا کہ پہلے شعر کے پہلے مصرعے میں ”ہی“ کی جگہ ”بھی“ زیادہ درست ہے۔
خیالِ ترکِ محبت بھی دسترس میں نہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ابتدائی صورت اس غزل کی کچھ یوں ہے:

خیالِ ترکِ محبت بھی دسترس میں نہیں
ہم اپنے بس میں نہیں، آپ اپنے بس میں نہیں

کرے تو قید مگر یہ بھی جان لے صیاد
ہمیں جھکانے کی طاقت کسی قفس میں نہیں

اڑا کے لے گئی سب کچھ منافرت کی ہوا
نظر نظر میں نہیں ہے، نفس نفس میں نہیں

بگڑتی جاتی ہے تیرے مریض کی حالت
خیال بس میں نہیں ہے، لہو بھی نس میں نہیں

سوال یہ نہیں میرا کرم ہوا ہے تو کیا
بتاؤ ظلم وہ کیا ہے جو اس برس میں نہیں

وہ ایک جلوہ دکھاتا ہے، لے کے جاتا ہے
کسی بھی شخص کا دل اپنی دسترس میں نہیں

فریب رنگ سے کھایا چمن چمن پھرتے
خمارِ خوشبوئے لیلیٰ کسی مگس میں نہیں

کشش جو چاند میں دیکھی ہے ستاروں میں کہاں
جو بات گل میں ہے شاہد، وہ خار و خس میں نہیں۔۔

دیکھتے ہیں اس کی انتہائی صورت میری اپنی ترامیم اور آپ کے مشوروں کے بعد کہاں تک پہنچتی ہے۔۔۔
معانی و مفاہیم اور تقطیع کے ساتھ ساتھ ہوسکتا ہے تلفظ کی بھی غلطیاں ہوں۔۔۔ نشاندہی کی درخواست ہے۔۔۔

الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
مزمل شیخ بسمل بھائی
فاتح برادر
 
خیالِ ترکِ محبت بھی دسترس میں نہیں​
ہم اپنے بس میں نہیں، آپ اپنے بس میں نہیں​
ایک سوال ذہن میں اُٹھا ہے، سوچا پوچھ لوں​
خیال اُسی وقت خیال کا روپ اپناتا ہے جب وہ دسترس میں ہو، تو پھر فنی اعتبار سے مصرع اولیٰ ؟​
ہاں البتہ اگر بات ہوتی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا ترک محبت کا اور اُسی پیرائے میں کہا جاتا ، پھر اُس میں دسترس کا سوال نہیں اُٹھ سکتا​
اب مثلا اگر یوں کہا جائے​
تخیلات پہ قابو تو دسترس میں نہیں​
مگر یہ کیا کہ میں اب آپ اپنے بس میں نہیں​
اُستاد محترم دیکھتے ہیں کیا فرماتے ہیں :angel:
 

الف عین

لائبریرین
مطلع تو مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ خیاقل کا دسترس میں نہ ہونا مبالغہ سہی، لیکن نازک مفہوم تو ادا ہو جاتا ہے۔ تقطیع کے حساب سے وہی مصرع گڑبڑ کر رہا ہے جس کی نشان دہی شوکت پرویز نے کی ہے۔ اسے یوں کر دیا جائے تو بہتر
کشش جو چاند میں ہے وہ کہاں ستاروں میں​
معانی کے اعتبار سے​

ہمیں جھکانے کی طاقت کسی قفس میں نہیں​
قفس کا کام جھکانا ہوتا ہے؟​

خیال بس میں نہیں ہے، لہو بھی نس میں نہیں​
نس خلاف محاورہ ہے​

قاور یہ شعر مبہم ہے​
فریب رنگ سے کھایا چمن چمن پھرتے​
خمارِ خوشبوئے لیلیٰ کسی مگس میں نہیں​
 
میں نے کل کتنا کچھ لکھا مگر بجلی نے پوسٹ کرنے کا موقع نہیں دیا۔
جناب الف عین کی رائے پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا، بلکہ میں شاید ویسے نہ کہہ سکتا جیسے آپ کہہ گئے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
خیالِ ترکِ محبت بھی دسترس میں نہیں
ہم اپنے بس میں نہیں، آپ اپنے بس میں نہیں

اڑا کے لے گئی سب کچھ منافرت کی ہوا
نظر نظر میں نہیں ہے، نفس نفس میں نہیں

سوال یہ نہیں میرا کرم ہوا ہے تو کیا
بتاؤ ظلم وہ کیا ہے جو اس برس میں نہیں

وہ ایک جلوہ دکھاتا ہے، لے کے جاتا ہے
کسی بھی شخص کا دل اپنی دسترس میں نہیں
کشش جو چاند میں ہے وہ کہاں ستاروں میں
جو بات گل میں ہے شاہد، وہ خار و خس میں نہیں۔۔

اب تک آپ اساتذہ اور دوستوں نے جو مشورے دئیے ہیں، ان کے مطابق تو غزل کی مندرجہ بالا صورت حتمی قرار پاتی ہے۔۔۔
کیا فرماتے ہیں آپ بیچ اس مسئلے کے؟ ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک شعر
رہیں گل بھی، بادِ صبا بھی، ابرِ بہار بھی​
جو نہ خار ہوں تو کمال پائے نہ باغِ دِل​
۔۔۔ ۔۔
استادِ محترم اسی سے ملتا جلتا اظہارِ خیال پہلے کر چکا ہوں، اگر اس میں بھی کوئی خامی ہو تو مطلع فرمائیے:
سبھی کسی نہ کسی طرح سے ہیں لازمی چاہے خاروخس ہوں
نہیں گلستاں کی انجمن میں فقط گلوں کا جمال کافی
تری نگاہوں میں ساری دنیا کی نعمتوں کا وجود کمتر
مرے تخیل کی آبیاری کو اک خیالِ ملال کافی
۔۔۔۔ ویسے ایک خامی تو مجھے بھی نظر آگئی ہے۔۔۔ پہلے مصرعے میں نہ،کھنچ گیا ہے جس کی اجازت نہیں۔۔۔
 
ایک تو بات ’’نہ‘‘ والی آپ نے کر دی۔
’’خیالِ ملال‘‘ کی ترکیب کو میں نہیں پا سکا۔ ملال تو ایک کیفیت کا نام ہے جو طاری ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال؟ اور پھر ایک ہی مصرع میں تخیل کی آبیاری؟ نعمتوں کا وجود کمتر ؟؟؟ ۔۔ مجھے لگ رہا ہے کہ بحر پر پورا اترنے کے لئے زیادہ الفاظ لانے پڑے۔ گلستاں کی انجمن میں گلوں کا جمال یہ وہی معاملہ ہے۔
اگر بحر چھوٹی ہوتی تو شاید بات کرنی آسان ہوتی۔ اس طرف بھی توجہ فرمائیے گا؛ چھوٹی بحر میں مصرعے چست نکلتے ہیں۔ ہاں لفظوں کی کفایت کرنی پڑتی ہے!۔
 
میں نے کل کتنا کچھ لکھا مگر بجلی نے پوسٹ کرنے کا موقع نہیں دیا۔
جناب الف عین کی رائے پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا، بلکہ میں شاید ویسے نہ کہہ سکتا جیسے آپ کہہ گئے ہیں۔

چاچو!آپ کہیں سیو (محفوظ ) کرتے جایا کیجئے نا ،ایسے تو کتنا سرمایہ ضائع ہو جائے گا ،اور یہ بجلی بھی کم بخت کو ایسے ہی وقت میں جانا ہوتا ہے ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک تو بات ’’نہ‘‘ والی آپ نے کر دی۔
’’خیالِ ملال‘‘ کی ترکیب کو میں نہیں پا سکا۔ ملال تو ایک کیفیت کا نام ہے جو طاری ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال؟ اور پھر ایک ہی مصرع میں تخیل کی آبیاری؟ نعمتوں کا وجود کمتر ؟؟؟ ۔۔ مجھے لگ رہا ہے کہ بحر پر پورا اترنے کے لئے زیادہ الفاظ لانے پڑے۔ گلستاں کی انجمن میں گلوں کا جمال یہ وہی معاملہ ہے۔
اگر بحر چھوٹی ہوتی تو شاید بات کرنی آسان ہوتی۔ اس طرف بھی توجہ فرمائیے گا؛ چھوٹی بحر میں مصرعے چست نکلتے ہیں۔ ہاں لفظوں کی کفایت کرنی پڑتی ہے!۔
درست۔۔۔ خیال اور تخیل ایک ہی بات ہے۔۔۔ لیکن نہیں گلستاں کی انجمن میں فقط گلوں کا جمال کافی ۔۔۔۔ میں گل اور گلستاں دو الگ اسماء نہیں سمجھے جاسکتے؟
 
بالکل سمجھے جا سکتے ہیں! تاہم یہ گنجائش یا رعایت لینے والی بات ہو گی۔ ہم رعایت لیتے بھی ہیں، تاہم ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ رعایت نہ لی جائے یا اس سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے۔ خوب سے خوب تر کی کوشش ہونی چاہئے۔

فارسی میں ایک مثال دیا کرتے ہیں: ’’نمک از کانِ نمک‘‘۔
یہ لسانی طور پر بالکل درست ہے تاہم ذوقِ لطیف پر گراں گزرتا ہے۔
 
Top