ایک سوال اساتذہ سے خصوصاً عروضیوں سے

السلام علیکم!
یہ کچھ اشعار ہیں تہذیب حافی صاحب کے۔۔۔
بظاہر بحر خفیف فاعلاتن مفاعلن فعلن میں معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن دونوں اشعار مصرعہ ثانی فاعلاتن مفاعلن مفعولن کے اوزان پر چلا گیا ہے۔۔۔
کیا ایسا کرنا جائز ہے یعنی اخفا کر کے آخری ہجائے بلند کو ہجائے کوتاہ بنانا؟؟؟

اتنی گرہیں لگی ہیں اس دل پر
کوئی کھولے تو کھولتا رہ جائے

کوئی کمرے میں آگ تاپتا ہو
کوئی بارش میں بھیگتا رہ جائے

تہذیب حافی

یا ان اشعار کے افاعیل کچھ اور ہیں۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین

سید عاطف علی

لائبریرین
و اللہ اعلم میں نے فعلان کا اس طرح استعمال نہیں دیکھا۔۔۔
یہ تو بہت عام ہے بھئی ۔ آپ نے شاید غور نہیں کیا ہوگا ۔ یہ نہ صرف فعلن بلکہ فاعلن مفعولن مستفعلن فعولن ۔ الغرض ہر لُن پہ استعمال ہوتا آیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
فاعلن کو فاعلان میں تبدیل ہونا کہا جائے یا فاعلات میں، بات ایک ہی ہے۔ اسی طرح فعلن کو فعلان. فعلات یا مفعول میں تبدیل کیا جانا بھی ایک ہی بات ہے
 

انیس جان

محفلین
و اللہ اعلم میں نے فعلان کا اس طرح استعمال نہیں دیکھا۔۔۔
آج دیکھ لو
غالب و اقبال کے مصرع ہیں

درد سے میری ہے تجھ کو بیقراری ہائے ہائے
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
 
Top