ایک دن

شمشاد

لائبریرین
بانو قدسیہ کی “ایک دن“

ٹرین حیدر آباد کے سٹیشن پر کھڑی تھی۔

اس کے ڈبے میں سے وہ رنگین اور نازک صراحیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ جن کی مٹی کا رنگ نارنجی اور بیل بوٹوں کا نمونہ خالص سندھی تھا۔ دو امریکن میمیں ہاتھوں میں دو دو صراحیاں تھامے دوکاندار سے سودا کر رہی تھیں۔ اُن کے لکیردار فراک گھٹنوں سے نیچے تنگ اور بغلوں تلے بہت زیادہ کھلے تھے۔ آستینیں غائب تھیں اور گرمی سے جُھلسی گردنوں اور سینوں کا کھلا حصہ بہت سرخ نظر آ رہا تھا۔

معظم نے ان کے ہاتھوں میں تھامی ہوئی صراحیوں کو بڑی للچاہٹ سے دیکھا اور اس کا جی چاہنے لگا کہ کاش وہ بھی ایک نازک صراحی زرقا کے لیئے خرید لے۔ زرقا خود بھی تو ایک ایسی صراحی تھی ممولے سی گردن، پھیلے ہوئے کولہے اور نازک نازک بازو اور پتلے سے ہاتھ - اس کا دہن اتنا لطیف اور ننھا تھا کہ اس پر ذرا سی مسکراہٹ بھی دباؤ ڈال دیتی۔

اس وقت ان ہی ہونٹوں سے نکلی ہوئی اک چھوٹی سی ‘ہاں‘ اُسے میلوں کا سفر کرنے پر مجبور کر رہی تھی لیکن صراحی خریدنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ٹکٹ خریدنے کے بعد اس کے پاس بمشکل اتنے پیسے بچے تھے جن کے سہارے وہ زرقا کے ہاں بس ٹیکسی میں پہنچ سکتا تھا - زرقا کے ہاں ٹیکسی میں پہنچنا بھی تو بہت ضروری تھا۔ کیونکہ رانی اور ککو ہمیشہ نیچے کھیلا کرتی تھیں۔ جب وہ اوپر جا کر سب کو بتائیں گی کہ معظم بھائی یہ لمبی ٹیکسی سے اترے ہیں تو زرقا ایک بار گردن اٹھا کر فخر سے سب کی طرف دیکھے گی اور دل ہی دل میں کہے گی ٹیکسی مت کہو ہوائی قالین کہو - شہزادے ہمیشہ باد پا قالینوں پر سفر کیا کرتے ہیں! پھر اس کے نازک ہونٹوں پر مسکراہٹ کا بوجھ پڑ جائے گا اور وہ سر جھکا کر بندر روڈ کی رونق کو کھڑکی میں سے دیکھنے لگے گی۔

معظم کا کتنا جی چاہتا تھا کہ ایک بار ان نازک ہونٹوں پر اتنا دباؤ ڈالے اتنا دباؤ ڈالے کہ زرقا دوبارہ گھوم کر بندر روڈ کی دور تک پھیلی ہوئی رونق نہ دیکھ سکے۔ اور اس کی آنکھوں کی ساری سرد مہری، بیگانگی اور اجنبیت معظم معظم پکار اُٹھے - لیکن زرقا ہمیشہ اس کے قریب رہ کر بھی دور دور رہتی تھی - بالکل اسی طرح ناشتے کے ٹرے لئے سفید شملے والے بیرے ہوٹلوں سے گزرتے تھے اور دور رہتے تھے۔ بدقسمتی سے وہ چار انڈے جو وہ لیکر سفر پر روانہ ہوا تھا کچے نکلے۔ ان کے ساتھ اُسے ناشتہ کرنا تھا لیکن جب انڈے لائین کے قریب منڈلانے والے ایک کتے نے چاٹ لیئے تو اس نے انتقام کے طور پر چائے سے بھی پرہیز کیا۔

سماسٹہ سٹیشن پر گاڑی کافی دیر تک رکی رہی اور عین اس کے ڈبے کے سامنے مٹھائی والا تالیاں بجا بجا کر پوریاں بیلتا رہا۔ لیکن اس کی جیب میں جتنے پیسے تھے انہیں وہ کراچی کے لیئے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ ان پیسوں کے ساتھ اسے زرقا کے ہاں ٹیکسی پر پہنچنا تھا اسی لیئے وہ ہر سٹیشن پر اس بے اعتنائی سے کھڑکی کی طرف پیٹھ کر لیتا جیسے ابھی کل کا کھانا بھی ہضم نہ ہوا ہو !

امریکن عورتوں نے نازک صراحیاں خریدیں سفر کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیئے دو ایک رسالے لیئے اور پھر کینوس کے جوتے لچکاتیں اپنے ڈبے کی طرف چلی گئیں۔ معظم کے ساتھ والی سیٹ پر ایک عورت تیسری بار ناشتہ کر رہی تھی۔ اس کا دو سالہ بچہ کیک کو تُوڑ کر فرش پر بکھیر رہا تھا اور اس کا شوہر اخبار پڑھتے ہوئے کوئی بارھویں مرتبہ کہہ رہا تھا۔

“ دیکھو بھوکی نہ رہنا - کہو تو کچھ اور منگوا دوں! “

وہ عورت مسلسل کچھ نہ کچھ کھا رہی تھی لیکن شوہر کے اس سوال پر وہ ہر بار کہتی - “توبہ! گھر جیسا آرام سفر میں کہاں۔ زندگی عذاب ہو گئی ہے نہ کچھ ڈھنگ کا کھانے کو ملا ہے نہ کام کی چائے نصیب ہوئی ہے - کوئی کھائے تو کیا؟“
 

شمشاد

لائبریرین
ڈیزل انجن نے لمبی سی ہوک بھری پھر گارڈ کی سیٹی سنائی دی۔ اور گاڑی آہستہ آہستہ رفتار پکڑنے لگی۔ وہ دروازے والی کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سامنے لائنوں کا جال بچھا تھا۔ گاڑی ان بھول بھلیوں میں اپنی لائن تلاش کرتی ڈگا ڈگ ڈگا ڈگ بھاگ رہی تھی۔ پھر یک لخت اس کی پشت کی جانب کسی دوسری ٹرین کے گزرنے کا ہنگامہ خیز شور اُٹھا۔ پرانی وضع کا انجن دھواں اڑاتا اپنی شافٹ فٹافٹ ہلاتا آناً فاناً نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ ڈبوں میں بیٹھے ہوئے مرد عورتیں بچے اس کی پہچان سے بہت پہلے رخصت ہو گئے اس نے گردن موڑی اور سامنے پھیلی ہوئی جھاڑیوں، لائین پر پھیلے ہوئے پتھروں اور اکا دکا درختوں کہ دیکھنے لگا۔

وہ سوچ رہا تھا کہ اب کی بار اُسے زرقا کے ساتھ کوئی فیصلہ کن بات کر کے ہی لوٹنا ہو گا۔

بادلوں میں بسنے والی اس لڑکی کے ساتھ ملکوتی محبت کے کئی سال گزر چکے تھے۔ وہ روحانی خط لکھ لکھ کر تھک چکا تھا۔ زرقا کی پرستش کرتے ہوئے اُسے اتنی مدت بیت چکی تھی کہ اب اُس کا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح اس بُت کو انسانی سطح پر لا کر پیار کرے۔ اس کے وجود کو محسوس کرے گرم چائے کی طرح - سگریٹ کے دھوئیں کی مانند - اپنے ملگجے تکیئے کی طرح۔

گاڑی کھٹا کھٹ کراچی کی سمت بھاگی جا رہی تھی !

اور معظم سوچ رہا تھا کہ اس دفعہ اُس کا رویہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہت مختلف ہو گا۔ اس بار آنکھیں جھپکا جھپکا کر ممی ممی کہنے والی گڑیا کو عورت بن کر اُس کے قریب آنا ہو گا یا پھر اس کے دل کے سنگھاسن سے اتر کر گم شدگی کے اندھیروں میں ڈوب جانا ہو گا۔

× × × × × × × ×
“ وہ آئی پیلی ٹیکسی - - - - - “ ککو چلائی۔

“ اونہہ - مجو بھائی کوئی پیلی ٹیکسی میں آئیں گے وہ تو بڑی ٹیکسی میں آئیں گے آٹھ آنے میل والی میں۔“
رانی بولی۔
“ اچھا؟ “
“ اور کیا؟ “
“ کچھ شرط لگاتی ہو - ؟ “ ککو نے پوچھا۔
“ ہاں - لگا لو - “
“ اگر مجو بھائی پیلی ٹیکسی میں آئے نا تو تم مجھے اپنی پیلے پھولوں والی فراک دے دینا - “
“ کون سی ؟ - وہ نایئلون والی؟ “ رانی نے سوال کیا۔
“ ہاں - “
“ واہ - وہ تو ابھی پرسوں زکی آپا بوری بازار سے لائی ہیں - “
“ پھر کیا ہے؟ شرط تو اچھی چیز کی لگاتے ہیں نا ؟ “ ککو نے سر ہلا کر کہا۔
“ لیکن زکی آپا نے تو فراک اس لیئے لے کے دی تھی کہ جب مجو بھائی کے ساتھ سمندر کی سیر کو جائیں تو پہنیں گے۔“

رانی نے بڑے فخر سے کہا۔
“ وہ تو میں بھی پہن سکتی ہوں - لیکن خیر ہمیں کیا مجو بھائی تو بیچارے آئیں گے پیلی ٹیکسی میں - “

رانی جل کر بولی - “ اچھا تو پیلی ٹیکسی میں آنے سے کیا ہوتا ہے۔ حبیب بھائی تو ہمیشہ سائیکل رکشا پر آتے ہیں - “
ککو سڑک کے قریب آہنی جنگلے کے ساتھ کھڑی تھی یہ سن کر جھٹ وہ قریب آ کر کہنے لگی۔
“ حبیب بھائی مجو بھائی سے اچھے ہیں اچھے ہیں اچھے ہیں “
رانی فلیٹ میں چڑھنے والی بڑی سیڑھیوں پر بیٹھی اپنا پھولوں والا ربن ٹھیک کر رہی تھی اس نے غصے میں آ کر بالوں میں سے ربن کھسوٹ لیا اور چلا کر بولی - “ خاک اچھے ہیں۔ موٹے سے بھدے سے موٹا آلو پلپلا پیسہ لے کر گر پڑا۔“

“ کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے۔ ہمیشہ ہمارے لیئے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں - ضرور - “ ککو نے کہا۔
“ تم ہو ہی لالچی بلی - “
“ بلی ہو گی تُو - “
“ تُو بڈھی شتر مرغ - “ رانی نے چڑ کر کہا۔
“ بس تمہارے تو ذہن پر ہمیشہ شتر مرغ سوار رہتا ہے اور کچھ دیکھا جو نہیں - “
“ کیوں دیکھا کیوں نہیں۔ ابھی تو پچھلے ہفتے میں چڑیا گھر گئی تھی - “
ککو فخر سے بولی - “ اور ہمیں حبیب بھائی جب ہم چاہیں لے جاتے ہیں - “
“ یہاں کے چڑیا گھر میں رکھا ہی کیا ہے؛ - تم نے لاہور کا چڑیا گھر دیکھا ہوتا تو کبھی یہاں کے گاندھی گارڈن کا نام بھی نہ لیتیں - “
“ بھلا وہاں اژدہا ہے کیا؟ “ ککو نے جل کر پوچھا۔
“ اژدہا نہیں ہے لیکن پیلی چتّیوں والا چیتا تو ہے۔ یہ بڑی بڑی نارنجی آنکھیں ہیں اُس کی تم دیکھو تو مارے ڈر کے مر جاؤ - جب میں پچھلی دفعہ اماں کے ساتھ لاہور گئی تھی تو مجو بھائی نے مجھے خود دکھایا تھا “ - رانی بولی۔

“ وہاں زیبرا بھی نہیں ہے نہیں ہے نا؟ - “

رانی بحث میں ہار رہی تھی اس لیئے اٹھتے ہوئے بولی - “ زیبرا کون سا ایسا تحفہ ہے۔ یہاں نہ تو اُودبلاؤ ہے نہ سفید مور نہ بندر - یہ بھی کوئی چڑیا گھر ہے۔ ذرا بھی دیکھنے کو ئی نہیں چاہتا - “
ککو کو غصہ آ گیا وہ چمک کر کہنے لگی - “ اس دن تو مان گئی تھیں کہ یہاں کا چڑیا گھر زیادہ اچھا ہے - “

“ اس دن تو تُو اپنی مونگ پھلیاں نہیں دیتی تھی اس لیئے میں نے کہہ دیا تھا۔“
ککو جھلا کر بولی “ تم ہو ہی مطلبی اپنا مطلب ہوتا ہے تو سب کچھ مان جاتی ہو۔“
 

شمشاد

لائبریرین
پیلی چھت والی ایک ٹیکسی بڑی شاہراہ کو چھوڑ کر فلیٹ والی سڑک کی طرف مڑی۔ اُن سے پرے والے بلاک کے پاس لمحہ بھر کے لیئے رُکی اور پھر ان کی طرف بڑھ آئی۔

ککو تالیاں پیٹیتی ہوئی چلائی “ دیکھا - - - - - دیکھا - - - - - دیکھا - - - - - مجو بھائی ٹیکسی میں آئے ہیں پیلی ٹیکسی میں - - - - - ہاں - - - - - ہاں - - - - - ہاں -“

رانی کو مایوسی تو ہوئی۔ لیکن معظم کے آنے کی اُسے اتنی خوشی ہوئی کہ اُسے اپنی شکست کا احساس بھی نہ رہا۔ معظم نے کار کا پٹ کھولا اپنا اٹیچی اور کمبل اٹھایا اور باہر نکل آیا۔

“ ہیلو رانی - - - ککو - “

دونوں بچیاں سلام کر کے آگے بڑھیں رانی تو معظم سے چمٹ گئی لیکن ککو ٹیکسی کا میٹر پڑھنے لگی۔

“ دو روپے چار آنے - “

پھر اس نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا - “ مجو بھائی اس بار تو آپ پورے چھ مہینے بعد آئے ہیں - ہے نا “

“ ہاں کچھ دیر سے ہی آیا ہوں - “

“ صبح آپ کا تار ملا تھا- میں تو تب سے باہر بیٹھی ہوں - “

ککو کرائے کی تفتیش کر کے لوٹی تو آتے ہی بولی۔ “ آج ہمیں چھٹی تھی مجو بھائی لاسٹ سیٹرڈے - “

“ اور دوسرے لوگ کہاں ہیں؟ “ معظم نے بظاہر بے پروائی سے پوچھا۔
“ وہ دیکھئے دیکھ رہی ہیں نیچے “

معظم نے چہرہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔
تیز گلناری رنگ کے پردے ایک طرف کو کیئے زرقا، لیلی اور شیریں کھڑی تھیں۔ لیلی اور شیریں کی دو دو چوٹیاں سامنے سینے پر لٹک رہی تھیں اور زرقا کی لمبی بوجھل چوٹی اس کے پہلو سے نکل آئی تھی۔ معظم خوب جانتا تھا طویل بالوں کا یہ سلسلہ جسم کے کس حصے پر جا کر ختم ہوتا ہے۔
× × × × × × × ×
 

شمشاد

لائبریرین
فلیٹ کے سامنے پیلی ٹیکسی کے پہنچنے سے تھوڑی دیر پہلے وہ تینوں بہنیں اپنے اپنے کپڑے درست کرنے میں مشغول تھیں۔ دُبلی پتلی لیلی نے اپنی زرد کاٹن کی قمیص دیوان پر پھینکتے ہوئے کہا - “ توبہ رواج بھی کیا چیز ہے جب تک دل نہ اُوب جائے کوئی پیچھا ہی نہیں چھوڑتا - ان قمیصوں کا تھی کیا فیشن چلا ہے - “

شیریں قالین پر بیٹھی تھی وہ لیلی کی طرف چہرہ اٹھائے بغیر کہنے لگی۔ “اب تو ہر سڑک پر ہر لڑکی یہی پیلے کرتے پہنے نظر آتی ہے مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے سارے کراچی میں ایک ہی سیندھوری لڑکی گھوم رہی ہے۔“

لیلی ہنس کر بولی - “ ابھی یہاں کیا دیکھا ہے تم نے لاہور میں تو یہ عالم ہے کہ کسی پر ریشمی کپڑا نظر تک نہیں آتا۔ ہمارے کالج کی تمام لڑکیاں ان ہی رنگین کاٹنوں میں نظر آتی ہیں۔ کسی نے سیاہ کالر لگا لیا ہے تو کسی نے سیاہ بٹن - “
“ لیکن گلا تو بوٹ شیپ ہی اچھا لگتا ہے “ شیریں نے استری کا بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔ لیلی نے اپنی زرد قمیص کے پاس بیٹھ کر وثوق سے کہا۔ “ اور آستینیں بھی چھوٹی ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ “

ان دونوں سے ذرا پرے دیوان پر زرقا خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے اس کے سارے کپڑے گڈمڈ دھرے تھے۔ کھلی کھڑکی میں سے سمندری ہوا کے تیز جھونکے آ رہے تھے اور کھڑکی میں لٹکے ہوئے گلناری رنگ کے لمبے لمبے پردے اِدھر اُدھر لہرا رہے تھے۔ زرقا کی لمبی گاوُ دم چوٹی نیچے تکیے پر بل کھا کر لیٹی ہوئی تھی اور ماتھے کے ارد گرد باریک بال ہوا سے لرز رہے تھے۔ اس کے گٹنے تلے معظم کا تار دبا تھا جس میں اس کے آنے کی اطلاع درج تھی۔ وہ اس تار کہ بڑی ترکیب سے اماں کے کمرے میں سے کھسکا کر لائی تھی اور اب گھٹنے تلے پڑے ہوئے اس تار کا اسے یوں احساس ہر رہا تھا جیسے کسی کا دھڑکتا ہوا دل اس کی ران تلے آ گیا ہو۔

دوسری منزل کے اس فلیٹ میں تین کمرے تھے۔ جگہ چھوٹی تھی لیکن موزیک کے پکے فرش اور ڈسٹمپر کی ہوئی دیواروں نے اس ننھے سے فلیٹ کو بڑی صاف ستھرگی عطا کر رکھی تھی۔ بلاک کی سیڑھیاں عین ان کے دروازے کے سامنے اوپر کی طرف مڑتی تھیں۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھلتا تو ڈرائنگ روم نظر آتا۔ اسی میں ایک جانب کھانے کی بڑی میز اور نازک ٹانگوں والی چھ کرسیاں پڑی تھیں۔ ایک طرف چمکتی پالش والا تین تختوں والا سائیڈ بورڈ تھا۔ جس پر برتنوں کی جگہ اماں جان کا پاندان ان کی سلائی کی ٹوکری اور گھریلو حساب کی کاپی دھری رہتی تھی۔

کمرے کے ڈرایئنگ روم والے حصے میں ایک صوفہ دھرا تھا جس پر بوسیدہ سبز رنگ کا پھولوں والا کپڑا منڈھا تھا۔ سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی پر نارنجی اور اندر کی طرف جانے والے دروازے پر گہرے نیلے رنگ کے پردے لٹکے ہوئے تھے۔ گلدانوں میں پلاسٹک اور کاغذ کے مصنوعی پھول آراستہ تھے۔ کھڑکی کے سامنے بڑا سا دیوان تھا جس پر گہرے سبز رنگ کا غلاف چڑھا تھا اور اوپر کے چھوٹے بڑے تکیئے بے ترتیبی سے دھرے تھے۔ سارا گھر لڑکیوں سمیت ٹیکنی کلر تھا۔

اس ڈرایئنگ روم میں اندر کی طرف دروازے کھلتے تھے۔ جس کمرے میں لیلی شیریں اور زرقا رہتی تھیں اس کی کھڑکی سڑک کی جانب کھلتی تھی۔ ساتھ والے کمرے میں اماں، ککو اور گڈی رہتی تھیں۔ یہ کمرہ قدرے بڑا تھا لیکن اس میں کوئی کھڑکی نہ تھی جو سڑک کی جانب کھلتی ہو، اسی لیئے رانی اور ککو کو ہمیشہ فلیٹ سے اتر کر سڑک پر کھیلنا پڑتا۔

اماں جی کے کمرے کے سامنے چھوٹا سا برآمدہ اور پھر صحن تھا جس کے سامنے دائیں جانب باورچی خانہ اور بائیں طرف سٹور اور غسلخانہ تھا۔ باورچی خانے کے ساتھ دوسرے فلیٹ سے علیحدہ کرنے والی کھپچیوں کی پارٹیشن تھی۔ اس دیوار کے دو تین تختے بالکل ڈھیلے تھے اور ذرا سا دھکا لگنے پر اکھڑ جایا کرتے تھے۔ لیلی اکثر ڈھونڈ کر ہتھوڑی لاتی ڈیڑھ انچ کے کیل منگوائے جاتے اور اکھڑے ہوئے تختوں کو جوڑا جاتا۔ عین سامنے اونچی دیوار تھی جس کے ساتھ ساتھ متوازی وہ بار بندھی تھی جس پر دن بھر سمندری ہوائیں گیلے کپڑے اڑاتی رہتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
سٹور کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس میں جب کبھی ضرورت پڑتی ایک آدھ چارپائی بھی ڈال دی جاتی۔ اور یہ ضرورت عام طور پر زرقا کو ہی پیش آتی۔ اس کی دونوں بہنیں جب اتنی باتیں کرتیں کہ اس کے سر میں درد ہونے لگتا تو وہ چپکے سے اپنا چھوٹا اٹیچی اٹھاتی اور خاموشی سے اسٹور کی راہ لیتی۔ اٹیچی اٹھانا اس لیئے ضروری تھا کہ اس میں معظم کے خطوط تھے۔ گو لیلی اور شیریں ان خطوط سے واقف تھیں۔ لیکن پھر بھی وہ انہیں ان کی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ سٹور میں دیواروں کے ساتھ لنٹل کی دو دو سلیں لگی ہوئی تھیں اور ان پر گھر بھر کے صندوق رکھے تھے۔ لکڑی کے صندوق، چمڑے کے یخدان، فائبر کے سوٹ کیس اور بید کے مستطیل بکس۔ ان کے درمیان اتنی کھلی جگہ تھی جہاں زرقا اپنی چھوٹی سی چارپائی بچھا کر لیٹ سکتی تھی۔

یہاں چارپائی پر لیٹ کر بیس واٹ کے مدھم بلب میں معظم کے خط پڑھ کر اسے عجیب طرح کا سکون ملتا۔ اسے لگتا جیسے مجو دنیا کے تمام مردوں سے مختلف ہے۔ وہ گوشت پوست کا بنا ہوا مرد نہیں، ہجر کا ایک شعر خیام کی ایک رباعی ہے۔ اک حسین پھول ہے جو لمس سے ہمیشہ مرجھا جایا کرتا ہے۔

معظم کے خط مقطر اور ہلکے پھلکے جذبات سے اس قدر پُر ہوتے گویا وہ زرقا کے قرب کا ذرا بھی تمنائی نہیں اور اگر اسے اس چیز کی تمنا ہے بھی تو اس تمنا میں ہوس کا شائبہ تک نہیں۔

زرقا کو اسی چیز کی مدتوں سے تلاش تھی۔ وہ مرد کی نظر میں عقیدت اور پرستش دیکھنا چاہتی تھی۔ اسے ان نظروں میں جسم کی والہانہ طلب سے نفرت تھی۔

اس وقت بھی کھڑکی کے ساتھ بچھے ہوئے دیوان پر بیٹھی زرقا یہ سوچ رہی تھی کہ معظم ہفتے بھر کے لیئے کراچی آئے گا۔ یہ ہفتہ کتنی مسرت میں کٹے گا - لیکن اس سے بڑی مسرت اس وقت حاصل ہو گی جب میں سٹور میں چارپائی بچھا کر پہروں اس ہفتے کو ذہن میں دہرایا کروں گی۔ ہولے ہولے اس ہفتے کا ہر ایک لمحہ میرے دل کی لوح پر ہمیشہ کے لیئے ثبت ہو جائے گا اور پھر اس کو کوئی بھی میرے دل سے کھرچ نہ سکے گا۔

لیلی نے شیریں کو آنکھ مار کر کہا - “ آپا پھر گم ہیں - “
شیریں نے کپڑوں کی تہہ لگاتے ہوئے آہستہ سے کہا - “ گم نہ ہوں تو اور کیا ہوں - “
لیلی اس کے قریب آ کر نیچی تپائی پر بیٹھ گئی اور بولی - “ جانتی ہو کیا سوچ رہی ہیں - “
“ تو آؤ پھر اپنی باتیں کریں - “ شیریں نے بات کی۔
“ اور یہ جو سن رہی ہیں “ دفنگ دفے کی مدد سے لیلی بولی۔

زرقا کو یہ دفنگ دفے کی زبان نہ آتی تھی۔ ویسے بھی جب کبھی لیلی اور شیریں یہ زبان استعمال کرتیں تو زرقا چِڑ کر کمرے سے نکل جاتی۔ لیکن آج وہ اس کھڑکی کے پاس سے ہلنا نہ چاہتی تھی۔ اس نے چہرہ سڑک کی جانب پھیر لیا اور سوچ میں ڈوب گئی۔

“ بھلا آپا کا بیاہ کس سے ہو گا “ لیلی نے ف کی بولی میں پوچھا۔

“ تمہیں کیوں فکر ہے بڑی بی ؟ - “ شیریں نے اسی زبان میں جواب دیا۔
لیلی بڑی بی کا لفظ سنتے ہی بھڑکی اور کہنے لگی - “ اب ہم کالج میں داخل ہو گئے ہیں۔
اب ہماری عزت کیا کرو - “
“ ہو تو فسٹ ایئر فول ہی نا - “ شیریں شوخی سے بولی۔
“ شیریں! - “ لیلی غرائی۔
شیریں نے مسکین صورت بنا کر ہاتھ باندھ کر کہا - “ اگر جان کی امان پاؤں تو ایک بات عرض کروں “
“ کہو - لیکن ایسی کوئی بات نہ ہو جس سے ہماری بے عزتی کا پہلو نکلتا ہو “ شیریں نے مسکرا کر کہا۔ “ ہمیں یہ کہنا تھا لیلی بیگم کہ بس سال بھر کے وقفے پر اتنا ناز کرتی ہو۔ ہم بھی سال بھر میں کالج میں ہوں گے۔ ایسی کون سی بڑی بات ہے۔ - “
زرقا نے منہ پھیر کر ان لڑتی جھگڑتی میناؤں کی طرف دیکھا تو شیریں خاموشی سے قمیص استری کرنے لگی اور لیلی نے سوئی میں دھاگہ پرونا شروع کر دیا۔

“ آپا معظم بھائی آتے ہی ہوں گے اب تو - “ لیلی نے بھیگی بلی بن کر پوچھا۔
آہستہ سے زرقا نے ہاں کہہ کر پھر منہ کھڑکی کی طرف پھیر لیا۔

لیلی نے شیریں کو آنکھ ماری اور اپنی بولی میں لینے لگی - “ بڑا زبردست انتظار ہو رہا ہے۔“
“ مجو بھائی بھی تو چھ ماہ سے تشریف نہیں لائے۔ انتظار تو خود ہونا ہی ہوا - “ شیریں نے ہولے سے کہا۔
“ اگر مجو بھائی جیت گئے تو حبیب بھائی کا کیا بنے گا؟ “ لیلی نے پوچھا۔
شیریں نے مسکرا کر کہا “ وہی جو ہیرو کی موجودگی میں بیچارے ولن کا بنا کرتا ہے “
دونوں چوٹیوں کو سینے پر ٹھیک سے لٹکا کر لیلی نے بڑی آہستگی سے شیریں سے کہا - “ اگر خدانخواستہ کوئی جنگ ونگ ہو گئی تو - “
“ نہیں بڑی بی تم بے فکر رہو۔ “
“ پھر وہی بڑی بی - بڑی بی ہو گی تُو - - - - تُو - - - - - - “

سڑک پر آنے والی پیلی ٹیکسی جب موڑ کاٹ کر پہلے بلاک پر رُکی تو زرقا جلدی سے دیوان پر سے اٹھی اور کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو گئی اور معظم کا تار دیوان پر ننگ دھڑنگ بچے کی طرح سوتا رہ گیا۔

اسے یوں اٹھتے دیکھ کر لیلی اور شیریں اس کے پہلو میں کھڑی ہو گئیں۔ ان کی دو دو چوٹیاں سامنے سینوں پر آ ٹکیں اور زرقا کی لمبی بوجھل چوٹی اس کے پہلو سے نکل آئی۔ معظم اٹیچی اور کمبل نکال کر باہر نکلا تو لیلی اور شیریں نے بڑے تپاک سے ہاتھ ہلائے اور لیلی شیریں سے بولی - “ ایک ابا جی ہیں سولہ سولہ خط ڈالو تو بھی کبھی نہیں آتے ایک مجو بھائی ہیں کہ ادھر رقعہ ملتے ہی گاڑی پکڑ لیں - “ شیریں بولی “ کوئی ایسا سات سمندر پار بھی تو نہیں - “

لیلی اور شیریں اپنی باتیں کیئے جا رہی تھیں۔

اور زرقا غور سے معظم کو دیکھ رہی تھی۔ رانی اس کے بازو کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ ککو ڈرائیور سے باتیں کر رہی تھی۔ معظم کا چہرہ اس کی طرف اٹھا ہوا تھا۔ جیسے سورج مکھی کا پھول سورج کی طرف تکے جا رہا ہو۔
یہ تصویر اس کے دل کی لوح پر ہمیشہ کے لیئے ثبت ہو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
لالو نے جلتی سگریٹ عین سڑک کے بیچ میں پھینک دی اور جھلا کر بولا - “ ماں کہہ تو رہا ہوں نوکری نہیں ملتی نہیں ملتی - “
ماں نے سر پر دوپٹہ ٹھیک کیا اور تڑپ کر بولی - “ اتنا بڑا کرانچی شہر ہے اور تو کہتا ہے نوکری نہیں ملتی - “
“ کراچی شہر کو کیا کروں ماں یہاں سب کہتے ہیں پہلے جہاں کام کرتے تھے اس صاحب کی چٹھی دکھاؤ پھر نوکری دیں گے۔“

لالو اور اس کی ماں ماڑی پور کی اس بستی کے قریب بیٹھے تھے جہاں قطار در قطار ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے کچے کوٹھے اور فٹ پاتھ کے مسکن تھے۔ لالو کی جیب میں ادھ جلے سگرٹوں کے کچھ ٹوٹے تھے۔ جب ماں کوئی کڑی بات کہتی تو وہ اپنی سبز دھاری دار قمیص کی جیب ٹٹولتا ایک ٹوٹا سلگا لیتا اور جب یہ ٹکڑا اس کی انگلیوں کی پوریں جلانے لگتا تو وہ اس جلتے ٹکڑے کو سڑک کے بیچ میں پھینک دیتا۔

لالو کی ماں لیمپ پوسٹ کے ساتھ پشت لگائے فٹ پاتھ پر بیٹھی تھی۔ اس کی چادر پر جابجا پیوند تھے اور چہرے پر بھوک، افلاس اور در در کی خاک کی چھاپ تھی۔

“ میں تو پہلے ہی کہتا تھا ماں کہ لاہور ٹھیک ہے، وہاں اپنی بولی سمجھنے والے بہت تھے پر تجھے تو کراچی کی پڑی تھی۔ تیری تیزیوں نے مار ڈالا ماں ! - “

ماں نے زمین کو پیر کے انگوٹھے سے کرید کر کہا - “ اچھی بھلی وہ کویت والوں کی جگہ تھی تُو نے خواہ مخواہ کام چھوڑ دیا - “
“ کیا بھلی تھی؟ اتنا تو کام تھا - “
“ کھانے کو تو مل جاتا تھا لالو - “ ماں نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔
“ ہاں تجھے تو ریشمی کپڑے بھی مل جاتے تھے بیبیوں کے پر مجھے کیا ملتا تھا۔ صبح سے رات تک برتن مانجھتا ہر کام کرتا - اور تنخواہ کی باری ماں جی کا منہ پُھلا کر کہنا بس خان صاحب کویت سے آنے والے ہیں سب حساب چکا دوں گی۔ -“

ماں جھلائی بیٹھی تھی بپھر کر بولی - “ تو کیا برا کرتی تھیں۔ تجھے پیسے ملتے تو تو منڈوہ دیکھ کر برباد کر دیتا ان کے پاس رقم اکٹھی ہو رہی تھی۔ ہونے دیتا - “
لالو کو بھی غصہ آ رہا تھا وہ اٹھتے ہوئے بولا - “ ماں! کمائی میں کرتا ہوں کہ تُو - “
“ تُو ہی کرتا ہے بیٹا تُو ہی۔ اگر میں اس ٹانگ سے معذور نہ ہوتی تو تجھے کبھی میں تکلیف نہ دیتی۔ جب تک انہوں نے ساتھ دیا میں نے تیری خدمت کی بیٹا ! - “
“ تو بول اب تُو کیا چاہتی ہے ماں - “
لالو کی ماں بولی - “ تُو بیگم صاحبہ سے معافی کیوں نہیں مانگ لیتا۔ لالو - “
بستی کی طرف جاتے ہوئے لالو کہنے لگا - “ ماں تم مجھے دس لاکھ روپیہ دو تو بھی معافی نہ مانگوں “ ماں نے بڑبڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا - “ ہاں تُو بھلا کیوں معافی مانگنے لگا۔ تجھے تو بالوں میں ڈالنے کو خوشبودار تیل مل جاتا ہے۔ بس میں بیٹھ کر سیر کرنے کو پیسہ مل جاتا ہے۔ ہوٹلوں میں کھانے کو روٹی مل جاتی ہے - بھلا تُو کیوں معافی مانگنے لگا؟ “

لالو واپس آ کر ماں کے قریب کھڑا ہو گیا اور قہر بھری نظروں سے اسے دیکھ کر بولا - “ ماں ! تُو میری ہر بات کو کیوں ٹوکتی ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ میں تجھے گلے کا تعویذ بنائے ہر طرف لیئے پھرتا ہوں۔ تجھے تو لڑنے جھگڑنے سے کبھی فرصت ہی نہیں ملتی۔ جی تو چاہتا ہے تجھے سمندر میں دھکا دے کر ہمیشہ کے لیئے آزاد ہو جاؤں - “
ماں رونے لگی اور گھٹنے پر سر رکھ کر بولی - “ تو دھکا دے کیوں نہیں دیتا۔ میں کون سی سکھ کی سیج پر پڑی ہوں۔ دن پورے کر رہی ہوں۔ تُو مجھے بیگم صاحبہ کے گھر ہی رہنے دیتا تو یہ زندگی کے چار دن تو آرام سے کٹ جاتے “
“ اب چلی جا اُن کے پاس تجھے منع کس نے کیا ہے “ لالو غرایا۔
“ تُو چلے تو میں بھی چلوں لالو - “
“ میری کیا شرط ہے - وہ تیری ایسی سگی ہیں تجھے کیوں دھکے دیں گی؟ “
“ کیا منہ لیکر جاؤں؟ - ہر بار جب جاتی ہوں دس بیس کی مدد کر دیتی ہیں، کوئی حد ہوتی ہے خیرات مانگنے کی - “
لالو کا اوپر والا ہونٹ اور اوپر کی طرف اٹھا اور اس نے آہستہ سے کہا -
“ ایک بات بتاؤں ماں !“
پُرامید آنکھوں سے ماں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا - “ ہاں بتاؤ ؟ “
“ ماں ! کلفٹن کے کنارے گھونکھے اور سپیوں والوں کے تختے لگے ہیں تُو بھی وہاں بیٹھ جا - بڑا مسافر اترتا ہے وہاں “
“ تو میں وہاں بیٹھ کر کیا کروں رے ؟ “
“ انہیں دعائیں دیا کرنا وہ تیری جھولی بھرا کریں گے - “ لالو بولا۔
ماں نے منہ پرے کر کے تھوکا اور گالیاں بکتی ہوئی بولی - “ جا بے حرامزادے - اپنی روند پر جا - تیری منزل کھوٹی ہوتی ہے کیوں مجھ دکھیاری کے ساتھ مسخری کر رہا ہے۔ ان آنکھوں نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ تیری طرح بےغیرتی نہیں کی۔ اگر آج تیرا باپ زندہ ہوتا لالو - - - - - - - تو - - - - - - - تو - - - - - - “
اُس نے گھٹنے پر سر رکھ دیا اور پھر اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی لکیروں میں آنسوؤں کی چھوٹی چھوٹی ندیاں رواں ہت گئیں۔

ماڑی پور سے آنے والی بس رُکی تو لالو بھاگ کر پچھلے دروازے سے اس پر سوار ہو گیا۔ پچھلی لمبی سیٹ کے آخری کونے پر اس کا دوست پھتو بیٹھا تھا۔ لالو کو سوار ہوتے دیکھ کر اس نے بائیں آنکھ ماری اور زور سے کہا - “ کیوں شاہ جی ہماری ٹکٹ بھی آپ ہی لیں گے نا ؟ “
لالو نے اند والی جیب میں سے سُرخ ریشمی رومال نکالا اور نقدی پر نظر ڈالتے ہوئے نعرہ لگایا۔
“ ہم ہی لیں گے پیارے تُو فکر کیوں کرتا ہے آج ہفتہ ہے کل خدا نے چاہا تو سنڈے لگے گا - بے فکر رہ ! “
 

شمشاد

لائبریرین
حبیب صاحب پھر سائیکل رکشا پر تشریف لائے تھے۔
جب رکشا فلیٹ کے سامنے کھڑی ہوئی تو ککو اور رانی سڑک کے کنارے کھڑی اپنی ایک سہیلی سے باتیں کر رہیں تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی ککو بھاگ کر ان کے پاس آ کھڑی ہوئی اور جلدی سے بولی - “ بھائی جان آج آپ بہت دیر سے آئے ہیں - پتہ ہے دس بج گئے ہیں “
“ آج ہم نے اتوار منایا تھا ککو - - - - خوب سوتے رہے “
ککو نے حریص بن کر کہا - “ آپ نے تو کل وعدہ کیا تھا کہ آج کلفٹن لے چلیں گے - “
“ ہاں لے چلیں گے لیکن ایک شرط پر - “ حبیب نے ککو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
“ شرط ؟ - - - کیسی شرط - “
“ اگر تمہاری آپا بھی ساتھ چلیں تو - “ حبیب نے آہستہ سے کہا۔
“ وہ تو چلیں ہی گی - “
یہ کہہ کر ککو سوچ میں پڑ گئی۔ ابھی کل ہی تو معظم بھائی آئے تھے اور اُس کے آنے کے بعد سے زرقا آپا ایک لمحے کے لیئے بھی باورچی خانے سے نہ نکلی تھی۔ لیلی اور شیریں کے تو مزے ہو گئے تھے۔ آرام سے صحن کے پرانے تخت پر بیٹھی مجو بھائی کے ساتھ ٹکے ٹکے کی باتیں کر رہی تھیں۔ لالو کے جانے کے بعد سارا کام ان دونوں کو ہی کرنا پڑتا تھا۔ زرقا آپا تو بس جھاڑ پونچھ کر دیا کرتی تھیں اور وہ بھی ہر جھاڑ پونچھ کے بعد دس دس منٹ صابن سے ہاتھ دھوتی تھیں۔ لیکن مجو بھائی کے آنے کے بعد وہ تھیں اور تیل کا چولہا - وہ تھیں اور پیاز لہسن !
کبھی چائے بن رہی ہے - کبھی کافی کبھی کوکو !

شاید زرقی آپا نہ جائیں۔ شاید چلی بھی جائیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کل کا پورا دن اس امید میں گزر گیا تھا کہ آج اتوار ہو گا اور کلفٹن چلیں گے۔ لیکن اگر زرقی آپا نہ گئیں تو حبیب بھائی نہ جائیں گے اور اگر حبیب بھائی نہ گئے تو بھلا ہمیں کون سمندر کنارے لے جائے گا - یہ سوچتی ہوئی ککو دو دو سیڑھیاں ایک ساتھ الانگتی حبیب صاحب کے ساتھ فلیٹ ہیں داخل ہو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
باورچی خانے سے برتنوں کے بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ جب کبھی زرقا نعمت خانے میں سے کچھ لینے کے لیئے دروازے تک آتی، تو مجو کی گفتگو کا تانتا ٹوٹ جاتا۔ سیاہ قمیص سفید شلوار چُنا ہوا دوپٹہ پہنے زرقی کا جسم اس کی تمام توجہ بٹور لیتا۔ گالوں تک لٹکی ہوئی آوارہ سی لٹ اور کولہوں تک بل کھاتے بالوں کی لمبی سی ایک چوٹی کچھ ایسی نظروں میں سماتی کہ لیلی اور شیریں کی باتیں ذہن سے نہ ٹکراتیں اور وہ سگریٹ کے دھوئیں سے چھلے بنانے میں مشغول ہو جاتا اور سوچتا چوبیس گھنٹوں میں کائنات کا رنگ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ ابھی کل انجن کا شور تھا ٹرین کی گڑگڑاہٹ تھی اور بے معنی سے سٹیشن تھے اور اب زندگی کی ہر حرکت معنی خیز ہو گئی ہے۔

ایک چیتے جیسی لڑکی کا روپ بھی کیا شے ہے کہ پہاڑ کی آغوش میں کہیں گریز پا ہے شور تو ہے لیکن دکھائی نہیں دیتا۔ لیلی نے اس کی بے توجہی سے چڑ کر کہا - “ توبہ اللہ ! کوئی بیسویں دفعہ پوچھ چکی ہوں کہ لاہور میں آج کل کونسی اچھی فلم لگی ہے لیکن آپ تو شاید بہرے ہو گئے ہیں مجو بھائی “

جب مجو بھائی نے اس پر بھی توجہ نہ دی تو وہ دونوں دفنگ دفنگ کی بولی میں مجو بھائی اور زرقا آپا پر تبصرہ کرنے لگیں۔

زرقا دہی کا کٹورا نعمت خانے میں سے نکال کر جا چکی تھی جب اس کا سایہ بھی اوجھل ہو گیا تو مجو بھائی نے دھویں کا چھلا ہوا میں چھوڑ کر آہستہ سے لیلی کی گردن پر ہاتھ رکھا اور پھر جلدی سے اپنی گرفت سخت کر کے بولا - “ بول لڑکی یہ کیا دفنگ دفنگ باتیں کر رہی تھی “
“ ہائے اللہ گردن چھوڑیئے مجو بھائی - “ لیلی بلبلائی۔
شیریں کھکھلا کر ہنس دی اور تالی بجا کر بولی - “ گردن اس وقت چھوڑیئے گا مجو بھائی جب زبان لٹک جائے -“
لیلی کا سر سینے پر لٹکا ہوا تھا دونوں چوٹیاں گھٹنوں سے چھو رہی تھیں اور منہ سرخ ہو گیا تھا پھر بھی وہ تڑپ کر گویا ہوئی - “ ابھی تیری باری آ جائے گی شیریں - ہائے بتاتی ہوں مجو بھائی ہائے بتاتی ہوں خدایا - توبہ میری - “
مجو نے گردن چھوڑ دی تو لیلی چھلانگ لگا کر دو قدم دور ہو گئی اور شیریں سے کہنے لگی “ کہو بڑی بی بتا دوں تمہاری بات مجو بھائی کو؟ “
 

شمشاد

لائبریرین
شیریں بولی - “ بتا دو - لیکن میں بھی زرقی آپا کو وہ بات بتا دوں گی۔“
مجو اپنی جگہ سے اٹھا تو لیلی ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور جلدی جلدی بولی۔ “ ہائے مجو بھائی خدا کے لیئے گردن میں درد ہو رہا ہے۔ بخدا ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یہ تو بدتمیز ہے پکی بدتمیز - “
شیریں نے منہ چڑا کر کہا - “ اور مجو بھائی یہ تمیزدار ہے - مراۃ العروس کی اصغری - جی “
باہر ہنگامے کی آوار سن کر زرقا ہاتھ میں کچے چاولوں کا طشت لیئے دہلیز پر آ کھڑی ہوئی اس کا چہرہ گرمی کے باعث تمتمایا ہوا تھا۔ کنپٹیوں کے قریب پسینے کے ننھے ننھے قطرے ابھر آئے تھے اور آج وہ سیاہ قمیص میں اور بھی دبلی اور کہیں زیادہ سفید نظر آ رہی تھی۔ ٹھٹھکی ہوئی زرقا کو دیکھ کر مجو نے لیلی سے کہا “ تمہاری آپا کو تو ہمارے آنے کی رتی بھر خوشی نہیں ہوئی - “
شیریں جھٹ اپنی زبان میں بولی “ لو جی اب ہمیں درمیان میں رکھ کر باتیں ہوں گی ہم بھی کوئی رانی ککو ہیں کیا؟“
زرقا نے ملکہ کی طرح بڑی کڑی نظر سے شیریں اور لیلی کی طرف دیکھا۔ تو لیلی جھٹ سے بولی - “ مجو بھائی شیریں کہتی ہے آپا کو خوشی نہ ہوتی تو وہ بھلا کل سے باورچی خانے میں ہوتیں؟ “
زرقا کی ناک کی پھننگ گلابی ہو گئی اور وہ نظریں جما کر چاول چننے لگی۔
“ بھلا ہم کیونکر جانیں! کل کے آئے بیٹھے ہیں اور ایک بھی سیر کا پروگرام نہیں بنا۔ کوئی لاہور والوں کو سیر کرائے یہاں کی تو مانیں - “
زیر لب زرقا بولی - “ لاکھوں بار تو دیکھ چکے ہیں لوگ یہاں کی چیزیں - “
“ بھول بھی تو جاتے ہیں - کیوں لیلی ؟ “ مجو نے کہا۔
“ بالکل ! - “ شیریں نے قدرے شوخی سے جواب دیا۔
لیلی نے لمحہ بھر کے لیئے سوچا اور پھر کہنے لگی - “ آپا تو کبھی باہر نہیں جاتیں مجو بھائی “
“ کیوں “
“ ہمیشہ کہتی ہیں کہ مجھے تو ہر جگہ سے مچھلی کی بو آتی ہے - “
زرقا نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا - “ تو اور کیا جھوٹ ہے۔ سمندر کنارے جاؤ تو کچی مچھلیوں کی مہک کسی ریستوران میں جاؤ تو تلی ہوئی مچھلیوں کی باس ہاں ! - “
“ تو اس کے معنی ہوئے اس بار کلفٹن کا پروگرام کینسل ؟ - “
سب چلیں گے تو چلی جاؤں گی میں بھی - “
زرقا نے آہستہ سے کہا اور چاولوں کی تھالی لیئے اندر سٹور کی طرف چلی گئی۔
شیریں نے معنی خیز نظروں سے لیلی کو دیکھا اور اپنی ہفے ہفا کی زبان میں بولی “ اب کس آسانی سے مان گئیں اور بیچارے حبیب بھائی مہینے سے منتیں کر رہے ہیں تو ملکہ صاحبہ آج مانتی تھیں نہ کل - “

اس بار مجو جلدی سے شیریں کی طرف بڑھا وہ ستون کے پیچھے ہو گئی اور مجو کے بازو ستون کے گرد حاہل ہو گئے۔ لیلی اور شیریں کے زور کا قہقہہ لگاتے وقت جب شیریں غافل ہوئی تو اس کی چوٹی مجو کے ہاتھ آ گئی۔ چوٹی کو جھٹکا دے کر مجو بولا - “ یہ حبیب مرزا کی کیا بات ہے شیریں ابھی بتاؤ ورنہ - - - - ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا - “
اسی لمحے لیلی چلائی - “ ہائے بڑی لمبی عمر ہے حبیب بھائی کی۔ کتنے بھلے وقت تشریف لائے ہیں - “
مجو نے شیریں کی چوٹی چھوڑ دی تو وہ منمنائی - “ میرے لیئے تو فرشتہ رحمت بن کر نازل ہوئے ہیں - “

حبیب مرزا کے ہاتھ میں دو لفافے تھے۔ اور اُن کی آمد سے چھوٹے سے صحن میں مٹھائی کی ہلکی ہلکی خوشبو آنے لگی تھی۔ انہیں دیکھ کر مجو نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور جلدی سے کہا - “ السلام علیکم مرزا “
“ مزاج شریف؟ “ میرزا نے ذرا تکلف اور سرد مہری سے پوچھا۔
“ عین نوازش ہے۔ اپنی سنائیے؟“
“شکر ہے اس پروردگار کا !‌ کب آئے آپ؟“
زرقا حبیب مرزا کو دیکھ کر ایک بار پھر چولہے کی طرف لوٹ گئی۔ حبیب میرزا نے مٹھائی کے دونوں لفافے تخت پوش پر رکھ دیئے۔ اور ایک بار باورچی خانے کی طرف نظر دوڑا کر دوبارہ پوچھا۔
“ کب تشریف لائے قبلہ ؟“
“ بس جی کل ہی آیا ہوں - یعنی - کل بعد دوپہر“
“ خوب تو ابھی تکان اتر رہی ہے گویا - “
لیلی جھٹ بولی - “ سفر بھی تو شیطان کی آنت ہے اور گرد ہوتی ہے کوئی راہ میں توبہ توبہ“
مجو نے باورچی کانے کا رُخ کرتے ہوئے کہا - “ گرد سے مجھے یاد آیا۔۔۔۔۔ ذرا میرے وہ کپڑے دھلوا دیجیئے گا مہربانی سے - آپ سے کہہ رہا ہوں شیریں بیگم“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لیئے باورچی خانے میں وارد ہو گیا۔ زرقا دیگچی میں کفگیر پھیرنے لگی تھی لیکن رُک گئی۔ اس نے لمبی لمبی پلکیں اٹھائیں اور ہولے سے مسکرائی۔ اس مسکراہٹ میں اس کی روح تک شامل تھی۔
مجو نے ایک چوکی کو اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ “ یہ چوکی لے جاؤں؟“

زرقا کی مسکراہٹ اور بھی واضح ہو گئی اور سیپ جیسے سفید دانت جگمگانے لگے۔ اس نے بڑے مبہم انداز میں سر کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا اور اس کی طرف تکتی رہی۔

“ وہ آپ کے حبیب میرزا تخت پوش پر آ بیٹھے ہیں “ مجو نے اس کے قریب جھکتے ہوئے کہا پھر اُس نے چوکی اٹھانے سے پہلے زرقا کا دوپٹہ فرش سے اٹھا کر اس کی گود میں ڈال دیا۔ زرقا ایک دم سمٹ کر دیگچی میں کفگیر چلانے لگی اور معظم چوکی پکڑ کر باہر آ گیا۔ آج زرقا کو تنہا یوں باورچی خانے میں دیکھ کر اچانک اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ اسے معاً مرزا صاحباں کے معروف کے بول یاد آ گئے تھے۔ اور وچ مرزا یار پھرے کے یاد آتے ہی وہ مسکرا دیا اور اپنے جی ہی جی میں بولا - “ اب خدایا اس میرزا سے میری مراد حبیب میرزا نہیں ہے - “
چوکی لا کر وہ باورچی خانے کی طرف رخ کر کے بیٹھ گیا۔ حبیب مرزا خاموش تھا اور اس کی آنکھوں میں سوچ تھی۔

شیریں نے لیلی سے - اپنی مخصوص بولی میں کہا۔ “ چپ چپ بیٹھے ہیں ضرور کوئی بات ہے - “
لیلی نے اس کی بات پر پردہ ڈالنے کی خاطر جلدی سے بات کی “ آپ کو ہی چوکی لانی تھی۔ مجو بھائی آپ مجھے کہہ دیتے - “ پھر اپنی زبان میں شیریں کو جھڑک کر بولی - “ بیوقوف ! تجھے پہلے بھی سمجھایا ہے مٹھائی والے کے سامنے اس زبان میں باتیں نہ کیا کر میرا خیال ہے یہ خوب سمجھتا ہے - “
شیریں ڈھٹائی سے کہنے لگی - “ تو کونسی بُری بات کہی ہے میں نے بڑی بی ؟ - “

ان دونوں کی بکواس بند کرنے کی خاطر مجو نے حبیب میرزا سے کہا - “ یہاں تو ابھی خاصی گرمی ہے لاہور میں موسم خوشگوار ہو چکا ہے۔“
“ کراچی میں بس دس پندرہ دن گرمی پڑتی ہے۔ اور آپ اتفاق سے اس وقفے میں آئے ہیں۔ کل سے ہوا بند ہے - “

ککو حبیب میرزا کے پاس مٹھائی کے لفافوں کے پاس بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اب کلفٹن جانے کا پروگرام بنے تو کیونکر بنے۔ پھر جب چند منٹ بعد اس نے دیکھا کہ اس پروگرام کے متعلق حبیب میرزا بھی خاموش ہو گئے ہیں تو وہ اٹھی اور لیلی اور شیریں کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ وہ دونوں مسلسل اپنی باتیں کیئے جا رہی تھیں۔
“ شیریں باجی - شیریں باجی ؟ - “
“ کیا ہے “ شیریں نے چڑ کر پوچھا اور پھر لیلی سے بولی۔ “ مزہ رہے گا اگر ابا جی اب کویت سے آ پہنچیں اور پھر سین بندھے فلموں والا - “
“ شیریں باجی - “ ککو پھر منمنائی۔
لیلی نے جھڑک کر کہا - “ تم سے کتنی بار کہا ہے جب بڑے بات کر رہے ہوں تو خاموش رہا کرو - “ پھر وہ شیریں سے بولی - “ توبہ کرو سین، کیا بندھے وہ چپ چاپ حبیب میرزا کے حق میں ووٹ دے دیں - “
“ عقلمندی بھی یہی ہے - “
“ شیریں باجی - “ ککو نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
“ کیا بات ہے۔ کہو - دوپٹہ کیوں کھینچ رہی ہو - “
ککو حریص بچے کی طرح شرمساری کے ساتھ بولی - “ حبیب بھائی کہہ رہے ہیں کہ کلفٹن چلیں گے ----- “
“ واقعی؟“ شیریں نے پوچھا۔
“ ہاں ------ “
“ تو پھر تو خوب مزہ رہے گا۔ اتوار کو بور ہونے سے بچ جائیں گے ----- “
شیریں نے خوش ہو کر کہا،
“ لیکن --------- لیکن حبیب بھائی کہتے ہیں اگر زرقا آپا جائیں تو ۔۔۔۔ “
لیلی نے یکدم اپنی زبان میں چڑ کر کہا --------- “ ان کی ایسی ذلیل باتوں پر تو مجھے غصہ آتا ہے۔ اور یہ ککو کے ذریعے عرض کرنے کی کیا ضرورت تھی -------- “
شیریں بولی۔ “ بھئی محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ------ “
“ نہیں جی بالکل نہیں -------- معاف کیجیئے حبیب بھائی آپ بات کر رہے ہیں قطع کلام معاف یہ ککو آپ کا پیام دے رہی ہے مجھے ------- “
حبیب میرزا نروس ہو گئے اور کروٹ بدل کر بولے ------ “ ہیں صاحب کونسا پیام ؟ “
“ یہی کہ اگر زکی آپا ساتھ چلیں گی تو کلفٹن چلیں گے ------ “
حبیب میرزا کا چہرہ گلابی ہو گیا اور وہ جلدی سے کہنے لگا ------ “ لو اس میں پیام کی کونسی بات ہے۔ میں تو کہتا ہوں اگر سب چلیں تو لطف آتا ہے۔ اگر تم نہ جاؤ تب بھی بات نہ بنے گی۔ “
آہستہ سے لیلی بولی ------ “ خیر ! ------ “
“ یعنی ٹھیک تو کہہ رہا ہوں۔ وہ کسی پکنک میں شامل نہیں ہوتیں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
شیریں نے ہولے سے لیلی سے کہا ------ “ اور مزہ پھر کیا خاک آتا ہے تم اچھی بھلی جانتی بھی ہو کیا بات چھیڑ دی “
لیلی نے بلند بانگ کہا ------ “ آپا ! زکی آپا۔ سنیے ذرا ------ “
زکی آپا سیاہ دھاریوں والی چست قمیص میں بوسکی کے تھان سا سڈول جسم لیئے باورچی خانے کے دروازے میں برآمد ہوئیں۔
“ ہوں ؟ ------ “
“ حبیب بھائی کہہ رہے ہیں کلفٹن کے لیئے ------ “ شیریں نے شہد میں گُھلی ہوئی آواز میں کہا۔
“ تو پھر چلی جاؤ ------ “
“ آپ نہ جائیں گی کیا؟ “ لیلی نے پوچھا۔
“ میرے سر میں درد ہے ------ “
“ ہائے آپا چلی چلو جی ------ ہائے آپا ------ “ ککو منت بھرے لہجے میں بولی۔
“ تم سب چلے جاؤ نا ------ “ زکی نے تکلف سے کہا۔
معظم کو احساس ہوا جیسے زکی اُس سے تنہائی میں ملنے کی راہ نکال رہی ہے۔
اس لیئے اس نے جلدی سے کہا ------ “ میں تو جا نہیں سکتا مجھے تو ابھی ابھی انور سے ملنا ہے وہ خواہ مخواہ گلہ کرے گا۔ آپ سب میری وجہ سے نہ ٹھریئے گا “
ککو کو جی ہی جی میں خوب علم تھا کہ اگر مجو بھائی نہ گئے تو آپا نہ جائیں گی اور اگر آپا نہ گئیں تو ۔۔۔۔۔۔۔ تو کوئی نہ جا سکے گا !
اس نے بڑے اصرار سے کہا ------ “ مجو بھائی تو آپ جلدی سے مل آئیے نا انور بھائی سے ہم شام کو چلے جائیں گے کھانے کے بعد------ “
حبیب بھی محسوس کر رہا تھا کہ مجو کے بغیر زکی نہ جائے گی۔ ویسے بھی زکی کو گھر پر چھوڑ کر جانے کے لیئے وہ تیار نہ تھا۔ کوئی بھی انور کے پاس اتنی دیر بیٹھا نہیں رہ سکتا خاص کر جب اچھی طرح علم ہو کہ زکی گھر اکیلی بیٹھی ہے اور سب سیر پر گئے ہیں !
اس نے جلدی سے کہا۔ “ دوپہر کو وہاں ویسے بھی لطف نہیں آتا۔ میں مٹھائی لے آیا ہوں وہاں چل کر چائے پیئیں گے ------ “
“ پہلے اماں سے تو مشورہ کر لیں۔ خواہ مخواہ کے خیالی پلاؤ پک رہے ہیں ------ “
لیلی نے غسلخانے کا رُخ کرتے ہوئے کہا۔
“ واقعی ! ------ “ حبیب میرزا بولے۔
غسلخانے میں ڈبے کے ساتھ جسم پر پانی ڈالنے کی آوار بند ہو چکی تھی۔ لیلی نے پٹ کے ساتھ چہرہ لگا کر اونچے سے کہا ---- “ اماں ----- “
“ ہاں ------ “ اندر سے بھاری آواز آئی۔
“ اماں حبیب بھائی آئے ہیں “
“ تو بٹھاؤ انہیں، مجو کو بتا دو وہ ان سے باتیں کرے گا۔“
“ اماں باہر جانے کا پروگرام بن رہا ہے آپ جلدی نکلیں ہاں ------ “
“ اچھا اچھا آ رہی ہوں دو منٹ آرام سے نہا تو لینے دیا کرو ------ “
تھوڑی دیر بعد اماں نہا کر نکلیں تو ان کی گلابی اور سفید جلد سے انگریزی صابن کی خوشبو بھباکے بن کے پھوٹ رہی تھی۔ ماتھے کے ارد گرد کھچڑی پکے بالوں کی جھالر بھیگی ہوئی تھی۔ موٹی گردن پر چھوٹا سا جوڑا ڈھیلا ہو کر لٹک رہا تھا۔ انہوں نے سفید ململ کی قمیص پہن رکھی تھی اور موٹا سا سفید پیٹ اس کے پیچھے پیلا سا نظر آتا تھا۔
کھڑاویں بجاتی وہ آ کر تخت پوش پر بیٹھ گئیں۔ “ ارے شیریں ! وہ میرا پاندان تو لانا ------ “
“ اماں ! اماں جی حبیب بھائی کہہ رہے ہیں کہ سب کلفٹن چلیں ------ “
اماں نے اس کی طرف تیکھی نظروں سے دیکھ کر کہا ------ “ اچھا تو سوچتے ہیں اس بارے میں ------ لیکن کیا پہلے کبھی نہیں گئی وہاں ------ ندیدی !“
حبیب میرزا نے مٹھائی کے لفافے اماں کی طرف سرکاتے ہوئے کہا ------ “ جی میرا ارادہ تھا کہ وہاں چل کر کچھ اتوار منایا جائے چائے وائے کا شغل ہو ------ “
اسی اثنا میں رانی بھاگتی بھاگتی اندر آئی اور آتے ہی بولی ------ “ مجو بھائی ! مجو بھائی ! “
“ کیوں ------ کیوں ------ کیوں ؟“ مجو نے پوچھا۔
“ آپ کا فون ہے مجو بھائی ------ “
“ آپ نے فون کب لگوایا اماں ------ “
“ اماں نے فون کب لگوایا اماں ------ “ رانی نے نقل کے انداز میں کہا۔
اماں نے افسردگی سے کہا ------ “ ارے ہمارے ہاں فون کہاں یہ پاس والوں کے گھر فون آیا ہو گا۔“
“ چلو بھئی رہبری کرو گی ؟ “ مجو نے رانی سے پوچھا۔
“ یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں، ابھی وہاں وارد ہو جاتے ہیں۔“
“ ارے یہاں سے نہ جا کم بخت دو سیڑھیاں اترے گا مجو تو تھک نہیں جائے گا۔“
اماں چلائیں۔
لیکن رانی نے سٹور سے دیوار تک جانے والی پارٹیشن کا تختہ اس اثنا میں ادھیڑ لیا اور دوسری طرف جانے کی راہ بن گئی۔
دوسرے لمحے دھاری دار نائٹ سوٹ پہنے مجو چیتے کی طرح ساتھ والے فلیٹ میں داخل ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ٹرام میں بیٹھ کر مجو سوچ رہا تھا کہ انور بھی کیا چیز ہے؟ خوب جانتا تھا کہ میں آیا ہوا ہوں۔ یہ بھی جانتا تھا کہ میں اُسے کس سلسلے میں فوراً ملنا چاہتا ہوں لیکن پھر بھی وکٹوریہ روڈ کے اس ریستوران میں انتظار کرنے کے بجائے وہ منوڑا چلا گیا۔ اور اگر اُسے انتظار نہ کرنا تھا تو بھلا فون کرنے کی کیا ضرورت تھی ------
“ ابھی منوڑا پہنچو ------ میں تمہاری راہ دیکھوں گا ------ “ انور نے فون پر کہا تھا۔
“ بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا منوڑا ------ میں اتنی دور سے آیا ہوں اور تم نے مجھے ملنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔“
یہ سُن کر انور نے فون بند کر دیا تھا۔
پہلے تو مجو کے جی میں آئی کہ وہ انور کے تعاقب میں نہ جائے۔ لیکن پھر اُسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں کل دس روپے باقی ہیں۔ اور گھر پر کلفٹن جانے کا پروگرام بن رہا تھا۔ اس معاملے میں وہ حبیب میرزا کا کفیل نہ ہونا چاہتا تھا۔ انور کمبخت کو بھی ہمیشہ اپنی ہی سوجتی ہے۔ لمحہ بھر کے لیئے کسی اور کے آرام کا خیال ہی نہیں آتا !
کمبخت انور ! اور انور کا چہرہ معظم کے ذہن میں چکر لگانے لگا۔

درمیانے قد کا آدمی ------ رنگ نہ سانولا نہ صاف، عجب مٹی، چونے، اور بجری کے مرکب سے بنی ہوئی رنگت تھی۔ چہرے پر موٹے موٹے شیشوں کی عینک تھی جس کے پار آنکھیں نظر ہی نہ آتی تھیں۔ دائیں طرف سے مانگ نکالتا تھا لیکن بال اس قدر کم اور ماتھا اس قدر چوڑا تھا کہ مانگ بے نکلی سی لگتی تھی۔ کراچی میں ایک بدیسی فرم کا نوکر تھا اور اچھی خاصی تنخواہ پاتا تھا۔ لیکن قمیص ہمیشہ بغیر استری کے پہنتا تھا۔ اس جیسے کئی آدمی اس کراچی میں آباد تھے۔ لیکن معظم کے لیئے انور انور ہی تھا۔

اور آج ------ آج کلفٹن جانے کا پروگرام بن رہا تھا اور اس کے پاس صرف دس روپے تھے۔

گڑگڑاتی شور مچاتی ٹرام بندر روڈ پر ہٹکورے لیتی جاتی تھی۔ اس سے پہلے وہ کراچی دو بار آیا تھا لیکن ٹرام میں چڑھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ اس بار بھی وہ خالہ کے فلیٹ سے چل کر بہت دور تک بندر روڈ پر پیدل ہی چلتا آیا تھا۔ اُسے یوں لگتا تھا، فلیٹ کی ایک کھڑکی میں سے گلناری پردے کے پیچھے سے دو لمبی لمبی آنکھیں اُسے دیکھ رہی تھیں۔ ان آنکھوں کی دور مار روشنیوں میں وہ کسی سائیکل رکشا، بس یا ٹرام میں سوار نہ ہونا چاہتا تھا۔

ٹرام میں گھس کر اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑا کر ہمسفروں کا جاہزہ لیا وہاں کوئی بھی لاہور کا باشندہ نہ تھا۔ کراچی کے متوسط اور غریب طبقے کے لوگ سوار تھے۔ ایک سے ایک لمبی کار فراٹے بھرتی قریب سے گزر رہی تھی اور زیادہ تر ان میں بدیسی ملکوں کے سرخ و سپید چہرے بے نیازی سے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ ٹیکسیاں وکٹوریائیں اونٹ گاڑیاں، گدھا گاڑیاں، سائیکل رکشائیں اور موٹر سائیکل رکشائیں سبھی اس کراچی شہر میں بغیر شرمائے ایک دوسرے کے ساتھ رواں دواں تھیں۔

جس ٹرام میں وہ سوار ہوا تھا وہ بولٹن مارکیٹ کے قریب جا کر رُک گئی اور اسے اتر کر بس لینا پڑی۔ ساڑھے دس کا وقت ہو چلا تھا۔ اور اسے رہ رہ کر انور پر غصہ آ رہا تھا۔ جو خوامخواہ انفردیت دکھانے کی خاطر منوڑا جا بیٹھا تھا۔ اگر اس کی جیب میں دس سے زائد روپے ہوتے تو وہ پیر کے روز انور سے ملتا اور وہ بھی اس کے دفتر میں۔ لیکن اب تو اس کی عزت کا سوال تھا۔

بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ معظم پچھلی لمبی سیٹ پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا اگر انور نے مجھے پیسے نہ دیئے تو کراچی کے قیام کا کیا بنے گا۔ اس کے مستقبل کا کیا بنے گا اور شام کو کلفٹن کے پروگرام کا کیا بنے گا۔

فضا میں چمڑے اور باسی پانی کی خوشبو تھی۔ دور سے ہی سمندر میں ٹھہرے ہوئے دو لمبے چوڑے جہاز نظر آ رہے تھے، ان کے گرانڈیل وجود پر سورج کی تیکھی کرنیں اور بھی اجاگر ہو رہی تھیں۔ اور معظم کو احساس ہو رہا تھا جیسے یہ ماحول لاہور سے قطعی مختلف ہو۔ بس سے اتر کر وہ سیدھا اس طرف بڑھا جہاں سے موٹر لانچ اور عام بیڑے منوڑے جاتے تھے۔ ابھی وہ جنگلے تک پہنچا ہی تھا کہ اس کے سامنے لوگوں سے لدا پھندا ایک بیڑا رخصت ہو گیا۔ وہ دونوں کہنیاں پکے جنگلے پر ٹکا کر دوسرے بیڑے کا انتظار کرنے لگا۔

موٹر لانچ والے امیر مسافروں کو ورغلا رہے تھے۔ عام بیڑے والا زنانی اور مردانی سواریاں بانٹ بانٹ کر بٹھانے میں مشغول تھا۔ ٹھہرے پانی پر جھاگ کے بلبلے، کاغذوں کے ٹکڑے اور گلے سڑے پتے ڈولتے پھر رہے تھے۔

بیڑے والے کا دبلا پتلا سیاہ جسم دھوپ میں چمک رہا تھا۔ اس کی نیلی آنکھیں سمندر کی لہروں کا عادی چہرہ اور ہوا میں اڑتے ہوئے بالوں نے اُسے بحری قزاق کی شکل دے رکھی تھی۔ معظم سے کچھ دور ہٹ کر ایک امریکی جوڑا سالم لاؤنچ لینے کے بعد اس میں اتر رہے تھے۔ میاں بیوی نے ایک سے کپڑے پہن رکھے تھے۔ آدھی آستینوں کی گہری پیلی قمیصیں اور چھوٹی چھوٹی نیلی نکریں۔ قمیصیں کولہے تک بھی نہ پہنچتیں تھیں۔ عورت کے بال بالکل چھوٹے چھوٹے تراشے ہوے تھے اور اس نے بھی شوہر کی طرح گلے میں کیمرہ اور تھرموس لٹکا رکھی تھی۔

جب چھک چھک پھک پھک کرتی پانی کے چھنٹیے اڑاتی لاؤنچ کچھ دور چلی گئی تو وہ دونوں امریکی میاں بیوی دو توام بھائی نظر آنے لگے اور آہستہ آہستہ یہ پیلا سا دھبہ اور موٹر لاؤنچ کا سبز جھنڈا موڑ کاٹ کر سمندر کی نیلی سطح پر دور ہوتا چلا گیا۔

جب بیڑے والے نے آخری نعرہ لگایا “ اب لاؤنچ چلے گی ------ “ تو معظم سیڑھیاں اتر کر بیڑے میں بیٹھ گیا۔

بیڑے والے کے ساتھی نے موٹی سی رسی جنگلے سے کھولی اور بیڑے کو آہستہ سے دھکا دیا۔ معظم نے سگریٹ سلگایا اور خاموشی سے بندرگاہ میں رُکے ہوئے خوبصورت جہازوں کو دیکھنے لگا۔ اس کی پشت کی جانب ایک کراچی والی اپنی نووارد سہیلی سے کہہ رہی تھی؟ “وہ دیکھا تم نے جہاز؟ کتنا بڑا ہے۔ یہ سفید والا تو نیوی کا جہاز ہے۔ “
“ نیوی؟ وہ کیا ہوتی ہے آپا ؟ ------- “
“ ارے نیوی نہیں جانتیں؟ ہماری بحری فوج۔ منوڑا تو دراصل ان نیوی والوں نے بسا رکھا ہے ------ ارے وہ دیکھو ------ وہ نیوی والوں کی کشتی ------ یہ کسی جہاز کو لینے چلے ہیں ------ “
“ کہاں؟ ------ کہاں؟ “
“ وہ دیکھو ------ سفید لاؤنچ “
معظم نے بھی کنکھیوں سے اس لاؤنچ کی طرف دیکھا۔ لوہے کے بڑے سے بوائے کے قریب نیوی کی لاؤنچ چھینٹے اڑاتی گزر گئی۔ اس لاؤنچ میں ایک آدمی تو بالکل ایسا سوار تھا جیسے دیکھ کر نیوی کٹ سگریٹ پر بنے ہوئے کپتان کی شکل یاد آتی تھی۔

“ آپا ------ آپا یہ لوہے کے بڑے سے ٹماٹر کیا تیرتے پھر رہے ہیں؟ “
معظم نے چہرہ موڑ کر سوال پوچھنے والی کی طرف دیکھا اور وہ اپنی کم علمی پر شرما کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ آپا نے بڑے فخر سے کہا ------ “ ارے یہ بوائے ہیں۔ جہازوں کو راستہ دکھانے کے لیئے “
“ تو لہروں میں بہہ نہیں جاتے کیا؟“
“ بہہ کیسے جائیں --- نیچے اتنے موٹے موٹے زنجیروں سے بندھے لنگر جو ہوتے ہیں ------ “

معظم ایک نیلے رنگ کے بڑے سے جہاز کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے بھی مڑ کر بوائے پر نظر ڈالی۔ حد نظر تک بندرگاہ سے کچھ فاصلہ پر بوائز کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ لوہے کے بڑے بڑے کنڈے تھے اور نیچے سے یہ لوہے کی بھاری بھر کم زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ نیوی والی لاؤنچ سمندر کی طرف بہت دور جا نکلی تھی اور اب یوں لگتا تھا جیسے پانی کی سطح پر ایک رومال کا ٹکڑا ڈوبنے سے پہلے تیر رہا ہے۔ سمندر میں بہت آگے بادبانی کشتیاں غوطے کھاتی نظر آتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر معظم کا جی چاہا کہ کاش کسی چاندنی رات میں وہ اور زرقا ایک ایسی ہی کشتی میں بیٹھ کر سمندر میں بڑھتے چلے جائیں۔ گہرے پانی کی سیاہ سطح پر چاندنی جیسی لہریں ابھریں اور پارے کے چھینٹے کشتی کے کناروں سے ہو کر ان کی گود میں آ گریں۔ زرقا خوف اور وفورِ جذبات سے گھبرائی ہوئی اس سے چمٹی بیٹھی ہو اور دور دور تک ماہی گیر کے نغمے کے سوا اور کوئی شور نہ ہو ------ صرف پانی کا مدھم ساز اور ماہی گیر کی بھری بھری آواز ------“

“ وہ نیوی والا لاؤنچ کہاں گیا آپا؟ ------ “ اسی پنجابی لڑکی نے دوبارہ پوچھا۔
“ سمندر میں جہاز لینے گیا ہے شاید؟ “
“ کیوں جہاز کیوں لینے گیا ہے، جہاز خود نہیں آ سکتا کیا؟ “
“ آ تو سکتا ہے لیکن دستور یہی ہے کہ غیر ملکی جہازوں کو بندرگاہ کی نیوی کے پائیلٹ لائیں۔“

جہازوں کو بندرگاہ سے نکالنے والا ایک دقیانوسی پرانا جہاز تھوڑی دور آہستہ آہستہ جا رہا تھا۔ اُس کے ماتھے پر دھکا لگانے کی بڑی سی گدی بندھی تھی۔

مسافروں کا لاؤنچ آباد جزیرے پر جا پہنچا۔ بیڑے والے نے جلدی سے نکل کر بیڑے کی رسی جنگلے سے باندھی اور مسافر اترنے لگے۔ سیڑھیاں چڑھ کر معظم نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی لیکن انور کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ البتہ پُل کے پاس لوگ جھکے ہوئے سمندر کے دو تیراکوں کو دیکھ رہے تھے۔ انور کی تلاش میں معظم بھی ان لوگوں کی طرف بڑھا۔ دو تین نوجوان لڑکے سمندر میں تیر رہے تھے۔ تماشائی پُل پر سے اکنی دونی پھینکتے اور وہ ڈبکی لگا کر اسے ڈھونڈ لاتے اور یہی اکنیاں دونیاں ان کی مشقت کا محنتانہ بن جاتیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
معظم نے غور سے سارے تماشائیوں کو دیکھا۔ انور کی نوعیت کا ایک بھی شخص اسے نظر نہ آیا۔ اس نے دوسرا سگریٹ سلگایا اور آہستہ آہستہ منوڑا کی اُس سڑک پر چلنے لگا جو سمندر کی طرف سے اوپر جاتی تھی۔

منوڑا کے بازار سے پہلے جہاں بقول کراچی والوں کے بہت سے بوائے پڑے ہوئے تھے، معظم تھوڑی دیر کے لیئے رکا۔ اسے خیال آیا کہ حبیب میرزا کو گھر چھوڑ کر آنا عجیب حماقت تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ زرقا کی محبت مجھے ایک ایسے سمندر میں تنہا چھوڑ گئی ہے جہاں ایک بھی تو بوائے نہیں، ایک بھی تو لائٹ ہاوس نہیں جو راہ دکھائے۔ اس سمندر میں ٹامک ٹوہیاں مارتا میرا جہاز کہاں سے کہاں نکل آیا ہے اور ابھی تک زرقا کسی لاؤنچ پر چڑھ کر مجھے بچانے ہی نہیں آئی۔ وہ تو ساحل کا وہ پکا جنگلہ بن گئی ہے جس سے کشتیوں کے رسے بندھتے ہیں، جس کے سہارے ایک عالم اترتا چڑھتا ہے لیکن جو جہاز کے خیر مقدم کو اپنی جگہ چھوڑ کر آگے نہیں بڑھتا ------ زرقا کی اس ادا پر اسے غصہ آ گیا اور اس غصے کو انور پر اتارنے کے لیئے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا جلدی جلدی سمندر کی طرف بڑھنے لگا۔

تھوڑی سی چڑھائی چڑھ کر جب سمندر کی ریت نے اس کے پیروں کو چھوا تو اسے انور کی شکل نظر آئی۔ وہ سمندر کنارے بنے ہوئے معمولی سے ریستوران کی طرف جا رہا تھا۔ معظم نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بڑے زور سے آواز دی ------
“ انور ------ ! انور ------ ! !“
لیکن سطح سمندر پر ٹوٹتی لہروں کے شور میں یہ آوار دب گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
روغن اتری کرسیاں ایک طرف کرتا انور ریستوران کے اندر داخل ہو گیا۔ اور معظم اس کے تعاقب میں لپکا۔

سمندری ہوائیں یہاں کی ہر چیز اُڑائے لیئے جا رہی تھیں۔ صرف کاونٹر کے نیچے شیشے کی بند الماری میں پڑے ہوئے کیک، رسک اور نمکین بسکٹ محفوظ تھے۔ ورنہ ریستوران کے بوسیدہ پردے، لوگوں کے کپڑے اور ساحل کے قریب پھیلی ہوئی ریت کے ذرے سب تیزی سے اڑے جا رہے تھے۔ انور کیبن کی کھڑکی کے سامنے بیٹھنے ہی والا تھا کہ معظم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

“ یہ کیا تُک ہے حرامی، سیدھی طرح کسی ریستوران میں نہیں مل سکتے تھے کیا ------؟“

“ مزاج شریف ؟“ انور نے ہاتھ مصافحے کے لیئے بڑھا کر کہا۔

“ یہ اپنی حرمزدگیاں رہنے دے اور سیدھی طرح میری بات کا جواب دے “

“ بیٹھئے تو سہی جنابِ من ------ یہاں کھڑکی کے سامنے گو لوہے کی سلاخوں کا جنگلہ ہے لیکن آپ کو قید کا احساس نہ ہو گا۔ سامنے سمندر کی تیز ہواؤں کا لطف اور اُمڈتی لہروں کا منظر صاف نظر آتا ہے ------ “

“ تجھے ہو کیا گیا ہے ؟“ معظم نے پوچھا۔

“ مجھے !“ ------ “ انور نے سلاخوں والی کھڑکی کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا ------ “ مجھے ؟ “

“ ہاں تجھے ------ “

“ کسی دانشور نے کہا ہے دنیا میں دو طرح کے بیوقوف ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کبھی محبت نہیں کرتے اور ایک وہ جو ایک بار محبت کرنے کے بعد دوسری بار بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، میرا شمار اس دوسری قسم میں ہوتا ہے ------ “

معظم نے رومال سے لوہے کی کرسی جھاڑی اور اس پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ---- “ لیکن یہ بے وقوفی آخر کس شوق میں کی ہے ------ “

انور نے بڑے آرام سے سگریٹ سلگایا، دو ایک کش لیئے اور پھر بولا ----- “ اس کاروباری شہر میں جہاں زندگی لین دین، حساب کتاب اور جمع کھاتا بن گئی ہے وہاں ایسی بیوقوفی ضروری ہوتی ہے ------ “

اسی اثنا میں ریستوران کا مالک آ گیا اور انور نے کہا ------ “ قبلہ چائے بھجیئے سٹرونگ سی ------ دیکھئے یہ پنجاب سے آیا ہے اسے کوئی شکایت نہ ہونے پائے ------ “

“ بے فکر رہیے “ ------ مالک جانے لگا۔

“ دیکھیئے سٹرونگ چائے ہو ------ زبان جلانے والی ------ لب سوز“

“ فکر نہ کیجیئے صاحب ------ “ مالک چلا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سلاخوں والی کھڑکی میں سے سمندر صاف نظر آ رہا تھا۔ دن کی کڑکتی دھوپ میں دور سمندر کی سطح پر بھاپ اڑاتا ایک چھوٹا سا جہاز نقطہ بن کر کھڑا تھا۔ اور اسے دیکھ کر معظم کو احساس ہوتا تھا جیسے وہ نقشے کی کاپی پر بنایا ہوا جہاز ہے۔ ایسا جہاز جسے دیکھ کر ماسٹر جی کہا کرتے تھے دیکھو جب تم سمندر کنارے ہوتے ہو تو پہلے جہاز کی مستول نظر آتے ہیں، پھر چمنی ۔۔۔۔۔ پھر اس کا جنگلہ اور دھڑ نظر آتا ہے۔ اگر دنیا گول نہ ہوتی تو سارا جہاز ایک ہی بار نظر آ جاتا !

“ اور آپ کیا سوچ رہے ہیں حضرت ؟“ انور نے اسے کھڑکی سے دور افق کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

“ میں سوچ رہا ہوں کہ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن تمہاری بات میں ذرا سی ترمیم مطلوب ہے۔ بیوقوف دراصل تین قسم کے ہوتے ہیں۔ دو قسمیں تو تم نے بیان کیں اور تیسری قسم اُن عاشقوں کی ہے جو بغیر کچھ حاصل کیئے چاہتے چلے جاتے ہیں۔“

“ محبت میں کچھ حاصل کرنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ “ انور نے چمک کر پوچھا۔

معظم نے سگریٹ کے ٹکڑے کو پیروں تلے مسلا اور پھر دونوں بازو اپنے اور انور کے درمیان دھری ہوئی میز پر رکھ کر بولا ------ “ تم ابھی نوگرفتار ہو۔ محبت کی اس سٹیج پر خالی محبت کا نشہ ہی بہت ہوتا ہے۔ ہولے ہولے جب نظر کی منزلیں طے ہو جائیں گی، مسکراہٹوں کے خزانے ختم ہو جائیں گے، میٹھی میٹھی باتوں کا خمار اتر جائے گا تو محبت ہِل من مزید کا نعرہ لگائے گی۔ محبت کی آگ ایسی ہے جس میں کچھ نہ کچھ جھونکتے ہی رہنا پڑتا ہے ------ “

“ بالکل ! ------ انسان اپنا خونِ جگر جلاتا ہے، اپنے آنسوؤں کی شمع روشن کرتا ہے “

انور نے جوش میں آ کر کہا۔

“ ابھی تم محبت کی پگڈنڈیوں پر نکلے ہو، شاہراہ پر پہنچو گے تو تمہیں علم ہو گا۔ مجھے تو اس شاہراہ پر چلتے پانچ سال ہو چکے ہیں۔ اور اب ۔۔۔۔۔۔ اب خط لکھتے لکھتے طبیعت تھک گئی ہے۔ پرانی یادوں کے سہارے جینا مشکل ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ بہت مشکل ۔۔۔۔۔۔“

“ عجیب احمق آدمی ہو تم بھی یار ------ زرقا تمہیں چاہتی ہے تم زرقا کو چاہتے ہو، رشتہ دار ہو، ملنے ملانے میں کوئی چیز حائل نہیں ------ “

“ میں میل ملاقات کو اپنے لیئے دارورسن کی آزمائش سمجھتا ہوں۔“ معظم نے کرب سے بھرے لہجے میں کہا۔ اتنی ساحل کنارے لہریں نہ تھیں جتنی سلوٹیں اس کے ماتھے پر پڑ گئیں۔

ہوٹل کا مالک ایک گندی سی ٹرے میں ہاف سیٹ چائے اور کیک کے چند ٹکڑے لے آیا۔ گجراتی ٹی سیٹ کی پیالیوں میں بال آ چکے تھے اور ان کی اندرونی سطح پر چیچک کے داغ اُبھر آئے تھے۔ چائے کا ذائقہ جوشاندے کی مانند تھا اور لگتا تھا جیسے سمندر کے ساحل پر پانی اُبلنے میں ہی نہیں آتا۔

“ عجب چیز نکلی یہ چائے ؟“ معظم نے کہا۔

“ سمندر کنارے کی چائے ہے صاحب۔ ذرا سوچو اس منوڑے پر ایک بھی گھر آباد نہ ہو۔ تم اور میں ایک کشتی پر تھکے ہارے یہاں آئیں اور یہاں پہنچ کر یہ پیالہ چائے کا ہمیں ملے ------ ہم دونوں ہی اس پر جھپٹ پڑیں ------ بولو اب ذائقہ کیسا ہے !“

“ نہایت اچھا روح پرور اور سکون بخش ! ------ “

انور نے کیک اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ------ “ لو کیک کھاؤ۔ نہایت نفیس ہوتا ہے، یہاں کے لوگ اس میں گھی مکھن نہیں ڈالتے ان کا کوئی اپنا ہی فارمولا ہے۔ لیکن ہے بیحد اعلی ------ “

“ نہیں شکریہ ------ “ معظم نے ماچس جلائی لیکن سمندری ہوا میں ماچس کا شعلہ ٹھہر نہ سکا اور اس نے میز تلے جھک کر سگریٹ سلگایا اور بولا ------ “ میری محبت کے سامنے میرا وجود بھی اس شعلے کی طرح ہے۔“

انور نے ہنس کر کہا ------ “ جیسے یہ کوئی نئی بات ہے۔ ہر انسان اپنے آپ کو جھکڑ اور آندھی سے مقابلہ کرتے محسوس کرتا ہے۔ لیکن بعد میں حقیقت کی آنکھ کھلنے پر اُسے دکھ ہوتا ہے کہ وہاں جھکڑ تھا نہ آندھی۔“

معظم نے میز پر رکھے ہوئے ہاتھ کو بھینچ کر ہولے سے مکا مارا اور بڑے جوش سے بولا ------ “ میں اس رومان سے تھک گیا ہوں، اب میرا بند بند دکھنے لگا ہے۔ ------ انور! میرا جی چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ میرا جی چاہتا ہے کہ زرقا کو سینے سے لگا کر اپنے اتنے قریب کر لوں کہ ۔۔۔۔۔۔ کہ میرا جسم اُس کے وجود میں تحلیل ہو جائے ------ “

“ میں اتنے قرب کا قائل نہیں ------ “

“ میں نے بھی خطوں میں کبھی اس تمنا کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن ------ “

“ تم نے اس کا ذکر کبھی زرقا سے نہیں کیا؟“ انور نے پوچھا۔
“ وہ ہمیشہ اپنی بہنوں میں گھری رہتی ہے۔“
“ تو کسی خط میں ہی لکھ دیتے۔“
“ سنسر ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے ----- “
“ تو سیدھی طرح اماں جی سے بات کیوں نہیں کرتے؟ کہ اب تابِ انتظار نہیں۔“
“ میری امی نے خط لکھا تھا ------“
“ پھر ؟ ------ “ انور نے پوچھا۔
“ دراصل زرقا کی ماں یعنی میری خالہ کچھ جانچ تول رہی ہیں۔ وہ ابھی کسی فیصلے پر پہنچ نہیں پائیں۔ ایک طرف حبیب میرزا ہے ----- اور ۔۔۔۔۔ “
انور نے جلدی سے کہا۔ “ یار یہ حبیب میرزا کیا چیز ہے؟“
“ میں خود سوچ رہا ہوں ------ “
“ پتہ نہیں میں اسے کیا سمجھوں، سلائی یا کھمبا ؟“
“ میرا واقف ہے ۔۔۔۔۔۔ “
“ خیر ایسا دبلا پتلا بھی نہیں ------ “ معظم نے کہا۔
“ تم خود کون سے پستے والے پٹھان ہو ------ “
“ کیا مطلب؟“
انور نے ہنس کر کہا۔

“ میرا نام عبدالرحمان
پستے والا میں ہوں پٹھان“

“ اور تو کیا ہے “ معظم نے بے تکی بات کی۔
“ خیر میرا تو اس سلسلے میں ذکر کرنا ہی فضول ہے۔ دوڑ تو تم دونوں میں ہو رہی ہے۔ بیچاری لڑکی گھوڑوں کی ریس میں ٹٹو پر داؤ لگا بیٹھی ------“
“ بخدا انور مذاق کی بات نہیں، میں بیحد سنجیدہ ہو رہا ہوں ------ “
“ اور یہاں کسے مذاق سوجھ رہا ہے کم بخت ؟ اپنی بھی تو جان پر بنی ہے ورنہ کون منوڑہ آتا ؟“
معظم نے مسکرا کر پوچھا ------ “ کیوں کیا وہ یہاں آئے گی؟“
“ ایک روز آئی تھی بس اسی دن سے ہر اتوار منوڑے کو سلام کرنے آتا ہوں ------ “
 

شمشاد

لائبریرین
معظم نے کرسی کی پشت سے سر لگا لیا اور آہ بھر کر بولا ---- “ محبت کی یہ سٹیج بڑی پیاری ہوتی ہے۔ اس میں خود کشی کرنے کا خیال آتا ہے، ٹرین تلے مر جانے کا سودا بھر جاتا ہے۔ ستاروں سے محبت ہوتی ہے، پھولوں کی خوشبوئیں دل کو لبھاتی ہیں ------ لیکن کوئی بھی تو نہیں مرتا ------ کیونکہ محبت ہمیشہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتی ہے۔ کم از کم محبت کی اس خمار آور منزل پر سبھی مرنے کے خواب دیکھتے ہیں کوئی جان نہیں دے سکتا، مجھے تم پر رشک آ رہا ہے انور ------ “

انور نے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر کہا ------ “ اور میں تمہیں دیکھ کر حسد کی آگ میں جلا جا رہا ہوں ------ بھلا ایسی محبوبہ آج کہاں ملے گی جو شادی کا مطالبہ نہ کرے؟ جو مرد کو اپنی بدی کے شکنجے میں جکڑنا نہ چاہے؟“

“ لیکن ایسی محبوبہ کا فائدہ بھی کیا ہوتا ہے آخر؟“ معظم نے پوچھا۔

“ فائدہ! ارے جاہل محبت کیا فائدے کے لیئے کی جاتی ہے؟ اور اگر سوچو تو فائدہ دراصل ایسی ہی محبوبہ کا ہوتا ہے جو محبت کے گرد ہمیشہ نور کا ہالہ بنائے رکھتی ہے۔ وہ اس خمار میں حقیقت کی تلخی کو شامل نہیں ہونے دیتی۔ ایسی محبوبہ مل جائے تو مرد ہمیشہ جوان رہتا ہے، ہمیشہ آزاد رہتا ہے، اس کی توند نہیں بڑھتی، اس کا ماتھا پیچھے کو نہیں پھیلتا۔“

معظم نے زنگ آلود سلاخوں والی کھڑکی میں سے سمندر پر نظریں جما دیں۔ سمندر محوِ رقص تھا۔ لہریں گھٹ گھٹ کر جپھیاں ڈال رہی تھیں۔ دھکے مار رہی تھیں۔ معظم اپنی نرم رو محبت کی تال پر ناچتا تھک چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ رقص ختم ہو جائے اور وہ تھک کر زرقا کی بانہوں میں سو جائے بالکل کسی معصوم بچے کی طرح جو ماں کی چھاتی پر سر رکھ کر میٹھی نیند سو جاتا ہے، اس کے گریبان میں ناخن گاڑ دیتا ہے۔

انور نے چائے کا بِل ادا کرتے ہوئے کہا، “ سمندر کی طرف چلو گے؟“

“ مجھے دیر ہو رہی ہے، میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا انور ------ “

“ اور اس نیلے ساگر کے درشن کیئے بغیر ہی لوٹ جاؤ گے؟“

“ مجھے ایسے حسین نظاروں سے اب دلچسپی نہیں رہی۔ میں بلا واسطہ چاہنے سے تنگ آ گیا ہوں“

“ کیوں؟ ------ “

“ میں تمہیں کہہ چکا ہوں کہ میری محبت اب اس سٹیج سے نکل چکی ہے جب انسان چاند تاروں سے عشق کرتا ہے، میرا تو جی چاہتا ہے کہ اب کسی کا ہاتھ ہاتھ میں ہو تو پھر سمندر کے پانی میں اترتا ہی چلا جاؤں ------ اترتا ہی چلا جاؤں ------ اور وہ ہاتھ اور جسم میرے قریب ہوتا جائے۔“

انور نے کہا “ ابھی لوٹ جائیں گے، مجھے سمندر کو سلام تو کر لینے دو ------ آؤ چلیں ------ “

وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ معظم کو گھر لوٹ جانے کی جلدی تھی۔ وہ حبیب میرزا کو عین باورچی خانے کے سامنے تخت پوش پر بیٹھا چھوڑ آیا تھا۔ لیکن اسے انور سے ابھی پیسے بھی لینا تھے اور وہ اس وقت انور کو ناراض کرنا نہ چاہتا تھا۔

ریستوران سے باہر نکل کر انور اور معظم نے اپنی جوتیاں اتار کر ہاتھوں میں پکڑ لیں۔

ساحل کنارے کراچی والی آپا شلوار اونچی کیئے اپنی پنجاب سے آئی ہوئی بہن کا ہاتھ تھامے گیلی ریت پر کھڑی تھی۔ کچھ لوگ ساحل سے دور بیٹھے مٹھائی کھانے میں مشغول تھے اور دو لڑکے لنگوٹ باندھے ہاتھ میں ہاتھ دیئے لہروں کے تعاقب میں بھاگے جا رہے تھے۔ اتنی صبح تفریح کرنے والوں سے ساحل قریباً پاک نظر آتا تھا۔ وہ دونوں آہستہ آہستہ اترتے ہوئے سبزی مائل نیلے پانی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ سنہری ریت پر لہروں کی آمدورفت نے لکیریں ڈال رکھی تھیں۔

“ اندر چلو گے؟ ------ “ انور نے پینٹ کے پائینچے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
“ نہیں “
“ کیوں ؟ ------ “
“ عمر گزر گئی ہے ایسی حرکتیں کرتے۔ اب جی نہیں چاہتا “
“ بھلا کتنا عرصہ ہو گیا ہے سروس میں ------ “
“ پانچ سال سے لڑکے دماغ چاٹ رہے ہیں۔ نہ انہیں کچھ آتا ہے نہ ان کے پروفیسر کو !“ معظم نے اپنے آپ سے کہا۔

انور نے اس کی بانہہ میں بانہہ ڈال کر کہا ------ “ بقراط بننے کی کوشش نہ کرو۔ اگر میں تمہاری طرح اتنے لمبے وقفوں کے بعد کراچی آتا تو میں پہلے سمندر دیکھنے آتا۔ کیونکہ مجھے پورا یقین ہو چکا ہوتا کہ اس وقفے میں سمندر ضرور کہیں اور چلا گیا ہو گا ------ “

“ تمہاری اور بات ہے ------ “
“ کیوں “
معظم نے مسکرا کر کہا ------ “ تم ابھی نوگرفتار ہو اور ایسے دور میں ہو جب ہر چیز طلسماتی نیرنگیاں دیکھاتی ہے۔“

انور نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا ------ “ تم واقعی ٹھیک کہتے ہو۔ میں تو جیسے خواب میں چلتا پھرتا ہوں۔ ہر اتوار میں یہاں آتا ہوں اور مجھے گھر سے یہ احساس کھینچ کر لاتا ہے کہ شاید سمندر یہاں سے دور چلا گیا ہو، جیسے وہ کہیں دور چلی گئی ہے۔“

معظم مسکرایا، اس کی مسکراہٹ سے اس کی اکتاہٹ عیاں تھی۔

“ تمہیں چاہے جتنی بھی جلدی ہو میں پانی میں اترے بغیر نہ جانے دوں گا۔ کیونکہ معظم اس پانی سے مجھے وہ یاد آتی ہے۔ اس روز وہ پانی میں درو تک چلی گئی تھی اور میں جان بوجھ کر پیچھے رہ گیا تھا۔ تاکہ ۔۔۔۔۔۔ تاکہ جب لہر اس کے پاؤں چھو کر میرے پاس آئے تو ۔۔۔۔۔۔۔ “
معظم جلدی سے بولا ------ “ دیکھا ۔۔۔۔۔۔ محبت ہل من مزید کی قائل ہے۔ فقط نظر سے کام نہیں چل سکتا انور اس کے لمس کا شوق لہروں کو بوسے دیتا ہے۔“

“ خدا کے لیئے بقراط نہ بن اور ہر چیز کا تجزیہ کرنے نہ بیٹھ جایا کر۔ آ پانی میں چلیں آ ! ۔۔۔۔۔“

سیلی گدگدی ریت پر وہ دونوں ہولے ہولے آگے بڑنے لگے۔ لہروں کا شور اتنا شدید ہو گیا تھا کہ جب کوئی لہر قریب آتی تو دونوں ایک دوسرے کی بات نہ سن پاتے۔ پانی پہلے گھٹنوں کو چھو کر لوٹ رہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ جب لہر کے چھینٹے گھٹنوں تک پہنچنے لگے تو انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کے باوجود سمندر کے زور کو محسوس کیا۔

“ چلو اب واپس چلیں “ ------ انور نے کہا۔
“ چلو “ معظم بولا ۔۔۔۔۔۔ “ اب تم کچھ سمجھدار ہو گئے ہو“
“ لیکن اُس طرف سے چلیں گے وہ لائٹ ہاؤس کے نیچے سے وہاں جہاں چٹان سی نظر آتی ہے۔ میں ہمیشہ وہیں سے لوٹتا ہوں ------ “
“ مجھے ایک بجے گھر پہنچنا ہے ------ “

“ ابھی کل آئے ہو اور اب یوں تیزیاں دکھا رہے ہو جیسے لاہور کی ٹرین پکڑنا ہو، تمہیں اجازت ہے جاؤ لیکن میں منوڑا کے پیر کو سلام کیئے بغیر اس جزیرے سے لوٹ نہیں سکتا “ انور بولا۔

“ واہ رے مجاور ! ------ مجھے تیری شخصیت کے اس پہلو کا علم نہ تھا۔“ معظم نے طنز کی۔ انور ریت پر چلتے ہوئے بولا ------ “ تم شاید یہاں کے پیر کی روایت سے ناواقف ہو ------ سمندر چاہے کتنا بھی شہ زور کیوں نہ ہو جائے۔ چاند راتیں کتنی بھی سمندر کو ورغلائیں لیکن پانی کبھی منوڑا کے جزیرے پر نہیں چڑھتا۔ بھلا ایسی شخصیت کو سلام کیئے بغیر میں کیونکر لوٹ سکتا ہوں؟“

“ ہمارے شہر میں داتا کا مزار ہے لیکن میں تو وہاں کبھی سلام کرنے نہیں گیا۔ مجھے تیری مزار پرستی پر شبہ سا ہونے لگا ہے۔“ معظم نے کہا۔

لاہور میں تو ہمیشہ میرے ساتھ رہا کرتا ہے؟ اسی لیئے میں کبھی داتا کے حضور نہ جا سکا۔“ انور نے کہا۔

انور اور معظم سنہری ریت پر قدم بڑھاتے چڑھائی کی طرف چلنے لگے۔ سامنے قطب مینار جیسا اونچا لائٹ ہاؤس نظر آ رہا تھا۔ شام کو یہاں سے بندرگاہ پر آنے والے جہازوں کی رہبری میں گھومتا گیس سا جلنے لگتا۔ ساتھ ہی سگنل ٹاور تھا جو دور کھڑے جہازوں سے باتیں کر رہا تھا۔ دونوں کے پاؤں ریت سے اٹے تھے اور ان کے تلوں میں گدگدی سی ہو رہی تھی۔ منوڑے کے پیر کا مزار گھاٹی سے اوپر ذرا سی ہموار جگہ پر تھا اور یہاں سے سمندر کا رقص صاف نظر آتا تھا۔

بڑی عقیدت سے انور نے سر پر چھوٹا سا رومال باندھا، بمشکل پیچھے چھوٹی سی گرہ دی پھر اس نے مٹکے میں آبخورہ ڈال کر پانی نکالا اور کلی کر کے دونوں ہاتھ فاتحہ کے لیئے اٹھائے۔ معظم کی نگاہیں مزار پر جمی تھیں۔ یہ مزار پنجاب کے مزاروں سے اس لیئے مختلف تھا کہ یہاں کی ہر چیز صاف ستھری اور بڑی آراستہ تھی اور پتہ نہیں وہ کون سی چیز یہاں تھی جو بار بار اسے سندھی کڑھائی یاد دلا رہی تھی۔ خوبصورت نائیلون کا فرش، ریت کے اتنے قرب کے باوجود گرد سے بالکل پاک تھا۔ ایک ذرہ بھی فرش پر نظر نہ آتا تھا۔ چھت کے ساتھ ساتھ اور مزار کے جنگلے کے اردگرد کاغذی پھولوں کی نہایت نازک چادر سائبان کی طرح منڈی تھی۔ اسی کاغذی پھولوں کی چادر نے ساری جگہ کو دلہن کی سی آراستگی اور کنواری لڑکی کی سی نزاکت بخش دی تھی۔ پنجاب میں مزاروں پر عموماً موتیے اور گیندے کے پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی تھیں۔ جابجا سرخ گلاب کی ٹوٹی ہوئی پتیاں نظر آتی تھیں اور جب یہ پھول باسی ہو جاتے ہیں تو ان کا رنگ بھورا اور خوشبو باسی ہو جاتی ہے ------ معظم کو اسی خوشبو سے چڑ تھی۔ اسے ہر مزار پر جا کر موت کا سایہ اپنے اردگرد منڈلاتا نظر آتا تھا۔

معظم محض انور کو خوش کرنے کی غرض سے اس مزار پر آیا تھا۔ لیکن یہاں کی پاکیزگی، طہارت اور حسن کو دیکھ کر اس کے جی میں ہوک سی اٹھی، اس نے دونوں ہاتھ جنگلے پر رکھ دیئے اور سر کو سینے پر نیہوڑا کر جی ہی جی میں بولا ---- اے منوڑے کے پیر! میں اپنی زندگی سے تھک گیا ہوں۔ میں اس تھوتھی محبت سے تنگ آ گیا ہوں جو برسوں سے اہرام بن کر میرے دل میں جا گزیں ہے۔ مجھے اس کرب سے نجات دلا۔ اے نازک چادر والے! میں اُس خلوت کے لمحے کا منتظر ہوں جب زرقا کے اور میرے درمیاں کچھ بھی حائل نہ رہے ۔ میں جذباتی خط لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں۔ میں کراچی کے چکر لگا لگا کر عاجز آ گیا ہوں ------ اب یا تو مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔“

اور پھر اچانک اسے یوں لگا جیسے انور اس کے قریب کھڑا اُس کی دعا کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس نے مندی ہوئی آنکھیں کھول کر انور پر نظر ڈالی، وہ بدستور ہاتھ اٹھائے رومال باندھے دعا مانگنے میں مشغول تھا۔ معظم نے سر جھکا کر ایک بار پھر منوڑے والے پیر سے لو لگانا چاہی لیکن سمندر کی ایک لہر کی طرح عقیدت کا مجسمہ ساحل کو چوم کر لوٹ چکا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
حبیب میرزا ان آدمیوں میں سے تھا جو سوچتے ہیں کہ اگر تنا ہلایا جائے تو پھل خود بخود زمین پر آ گرتا ہے۔ اپنی واقفیت کے اولین عہد سے لے کر آج تک حبیب میرزا نے اپنی تمام توجہ اماں جی پر مرکوز رکھی تھی۔ اس توجہ کا فوکس کبھی نہ دھندلایا۔ اور کبھی اماں جی کو لمحہ بھر کے لیئے احساس نہ ہو پایا کی حبیب میرزا ان کی لڑکی زرقا کے لیئے یہاں آتا ہے۔ دراصل اماں جی نے کراچی کے قیام کے یہ چند سال جیسے بیوگی میں کاٹے تھے۔ خان صاحب کویت چلے گئے۔ تو پہلی بار انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا اور بڑی شدت سے ہوا۔ ان کے ارد گرد پانچ لڑکیوں کا جمِ غفیر یوں پھنکارا جیسے ان کی ناموس کو ڈسنے آ رہا ہو۔ اس ناموس اور عزت کے بُت کی انہوں نے ساری عمر پرستش کی تھی اور جونہی انہیں لگا کہ بچیاں لمبے کرتے، چُنے ہوئے دوپٹے، اونچی ایڑی کی جوتیاں اور کویت سے آئے ہوئے نقلی زیور پسند کرنے لگی ہیں تو وہ مسلح سپاہی کی طرح اپنی بچیوں پر پہرہ دینے بیٹھ گئیں۔ کبھی کبھار ان کی بیجا مداخلت سے تنگ آ کر بڑی بچیاں اگر اونچے بول پڑتیں۔ تو وہ جھٹ قلم اور کاغذ اٹھا کر خان صاحب کو خط لکھنے بیٹھ جاتیں۔

“ خان صاحب جی‌! ------ میں کہتی ہوں مجھے ریشمی کپڑا نہیں چاہیے، مجھے فریج اور کار کی ضرورت نہیں، سونا وونا اکٹھا کرنا چھوڑیئے۔ لڑکیاں سیانی ہو گئی ہیں ------ دو کانچ کی چوڑیاں پہنا کر انہیں اپنے گھر روانہ کیجیئے ------ کیوں میری چھاتی کا بوجھ بڑھاتے جاتے ہیں آپ ؟“

لیکن جب لڑکیاں دوہری بکل مار پائینچوں میں پاؤں چھپا کر ان کے سامنے بیٹھا کرتیں تو ان کے سارے وسوسے ختم ہو جاتے۔ اور وہ سوچتیں کہ اگر اس بار خان صاحب آ گئے تو میں لڑکیاں لے کر ان کے ساتھ کویت چلی جاؤں گی۔ سونا وہاں اس قدر سستا ہے کہ اگر چار چار چوڑیاں بھی ایک ایک کے ہاتھ آ گئیں تو زرقا کے فرض سے بخوبی سبکدوش ہو جاؤں گی ------

کراچی میں رہنے کے باعث زرقا کی شادی ان کے لیئے ایک معمہ بن گئی تھی۔ اگر کبھی وہ لاہور میں ہوتیں تو برادری کے تمام لڑکے دیکھ بھال کر کبھی کا زرقا کو رخصت کر چکی ہوتیں ------ یہاں تو لے دے کے ایک معظم اور حبیب میرزا ہی نظر آتے تھے۔

معظم میں اور کوئی خرابی تو اماں جی کو نظر نہ آتی تھی لیکن تنخواہ بے حد قلیل تھی! آخر تین سو روپے میں زرقا کیا کرے گی؟ کویت سے آیا ہوا ریشم پہننے کی عادی زرقا تو عمر بھر ایک ریشمی تار کو ترس جائے گی!

اماں جی کو علم تھا کہ زرقا اور معظم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ زرقا اور معظم میں خط و کتابت بھی جاری ہے، لیکن ساتھ ہی انہیں اپنی نگرانی پر ناز تھا۔ وہ خوب جانتی تھیں کہ فیصلہ ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پسند و ناپسند کے بس میں نہیں۔ شروع مہینے میں جب رات کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلتی، دیوار پر لگی ہوئی تصویر پر سامنے والے سینما گھر کی بتیوں کی رنگ برنگی روشنی پڑتی اور انہیں خان صاحب کی نیکیاں یاد آتیں تو وہ اپنی زرقا کو اپنے ہاتھوں دلہن بنا کر معظم کے ساتھ رخصت کر دیتیں لیکن جب مہینے کے آخر میں خرچ کی کمی واقع ہوتی اور خان صاحب کی ہمدردی پر اماں کو شبہ ہونے لگتا تو وہ حبیب میرزا کو اپنا داماد بنانے کے خواب دیکھتیں۔

میرزا نے جس روز زرقا کو پہلی بار دیکھا وہ ایک ریستوران میں فرائی مچھلی پر ٹماٹر کی چٹنی لگا کر کھا رہا تھا۔ سارے ہوٹل میں سمندری مچھلی کی بُو باس پھیلی ہوئی تھی۔ سمندری ہوا سے ریستوران کے داخلی دروازے کا پردہ پھڑپھڑا رہا تھا۔ پھر اچانک عقبی نشستوں سے جہاں کیبن بنے ہوئے تھے یوڈی کلون اور میکس فیکٹر کے میک اپ کی خوشبو اٹھی۔

حبیب میرزا نے خدا جانے کیوں چھری کانٹا پلیٹ میں دھر دیا اور مڑ کر دیکھنے لگا۔

پانچ چوزوں کہ ہانکتی اماں جی باہر چلی آ رہی تھیں۔ لیلی اور شیریں آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ اور چھوٹی دونوں لڑکیاں روٹھے روٹھے چہرے لیئے ریستوران میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو گھورنے میں مشغول تھیں۔ سب سے آخر میں زرقا تھی۔

اس نے نقاب اٹھایا ہوا تھا۔ چہرے پر پاؤڈر کی نامعلوم سی تہہ اور لپ سٹک کے غیر قدرتی رنگ کا جماؤ تھا۔ ایک ہی نظر میں زرقا کا چہرہ پُرجمال، برقعہ، لپ سٹک پاؤڈر سب کچھ حبیب میرزا کو اس قدر اچھا لگا کہ اس نے مچھلی کا قتلہ پلیٹ میں چھوڑا اور جلدی سے بِل ادا کر کے ان کے پیچھے باہر نکل آیا۔ اس سے پہلے بھی حبیب میرزا نے ایک بار اپنے دفتر کی ایک لڑکی سے جی ہی جی میں والہانہ عشق کیا تھا۔ لیکن وہاں نوبت تعاقب تک نہ پہنچی تھی۔

اگر اس دن اماں جی لڑکیوں کو بس میں لے کر غائب ہو جاتیں اور پھر اُسے کبھی نظر نہ آتیں تو شاید عشق بھی اس کے ذہن میں ہی دم توڑ دیتا۔

لیکن چند دن بعد اسے اماں جی بنک میں مل گئیں۔ وہ کسی چیک کے سلسلے میں آئی ہوئی تھیں۔ بنک والے انہیں رقم ادا کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ کوئی ٹیکنیکل سی مشکل تھی لیکن ادھر اماں جی رقم وصول کرنے پر مصر تھیں۔ ادھر بنک والا ادائیگی سے معذوری ظاہر کر رہا تھا۔ حبیب میرزا اماں جی کے پاس پہنچا اور بڑی ہچکچاہٹ سے بولا ------ “ شاید آپ کو کچھ مشکل پیش آ رہی ہے؟“

اتنے مصروف بنک میں جہاں ہزاروں لوگ نفسانفسی کا شکار ہو رہے تھے، حبیب میرزا کی نظرِ کرم ان کے لیئے بڑی تسکین دہ ثابت ہوئی۔ انہوں نے چیک میرزا کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ “یہ کویت سے آیا ہے جی، ہر مہینے میں چیک بھنوانے آتی ہوں لیکن آج خدا جانے یہ کیوں اسے کیش کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔“

حسن اتفاق سے حبیب میرزا کی مینجر سے اچھی واقفیت تھی۔ اس نے چیک اماں جی سے لیا اور انہیں ایک سٹول پیش کر کے اندر چلا آیا۔ جب وہ چیک کی بجائے اماں جی کو پیسے دے چکا تو اس کی واقفیت کویت والوں سے ہو چکی تھی ------ اور یہ واقفیت خاک اس کے کام نہ آتی اگر اس نے اس دن ریستوران میں زرقا کو نہ دیکھا ہوتا !

اماں جی نے ایک بوتل نما صراحی حبیب میرزا کو دکھاتے ہوئے کہا ------ “ ابھی کل ہی کویت سے آئی ہے۔“

حبیب میرزا نے صراحی کو ہاتھ میں لے کر بڑے غور سے اس کا جاہزہ لیا اور پھر بڑے وثوق سے کہا ------ “ ایسی ہی سوڈا بھرنے والی بوتل پچھلے دنوں میں نے ایک امریکن کے ہاں دیکھی تھی۔“

“‌‌ آپ سوڈا پیئیں گے تو میں بنا دوں “ شیریں نے پوچھا۔

“ نہیں بھائی اب کھانا کھانے کا وقت ہے کہ سوڈا پینے کا ؟ ------ “

زرقا کھانا پکانے کے بعد غسلخانے میں منہ ہاتھ دھو رہی تھی۔ لیلی صحن والے برآمدے میں لمبے میز پر برتن لگانے میں مشغول تھی۔ فضا میں کچے ٹماٹر، اچار اور پلاؤ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔

“ تم کھانا کھا لو حبیب ------ معظم تو خدا جانے کب آئے گا ؟“ اماں بولیں۔

“ نہیں جی ابھی بھوک نہیں لگی اور پھر پروفیسر صاحب آ لیں تو سب کھائیں گے “ حبیب نے خوش اخلاقی سے کہا۔

زرقا نے اس خوشامدی پر ایک نظر ڈالی اور لمبی ہیل والے سیلیپر بجاتی اندر چلی گئی۔ اسے حبیب میرزا کو دیکھ کر خواہ مخواہ کی کوفت ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی اُسے رہ رہ کر یہ بھی غصہ آ رہا تھا کہ معظم ساڑھے سات سو میل کا سفر محض انور سے ملنے کی خاطر طے کر کے آیا ہے؟ کراچی پہنچے ابھی اسے بمشکل تمام اکیس گھنٹے ہوئے تھے اور ابھی سے یہ بے نیازی؟ ابھی سے یہ بے رخی؟ اس سے پہلے تو معظم نے کبھی ایسے نہ کیا تھا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اسے یوں لگا کہ سر میں درد ہو رہا ہے۔ اس نے سفید دوپٹہ آنکھوں پر رکھا اور پلنگ پر لیٹ گئی۔

لیلی نے اپنی تھوتھنی سی ناک فضا میں اٹھا کر کہا ------ “ حبیب صاحب ! آج آپا نے وہ غضب کے شامی کباب بنائے ہیں کہ آپ کبابوں کے ساتھ انگلیاں بھی کھا جائیں گے ۔“

“ صاحب ہم تو ہمیشہ کے قائل ہیں ------ لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ اماں جی جیسے پسندے تو وہ دس بار پیدا ہوں تو بھی نہ پکا سکیں گی۔“

اماں نے مسکرا کر حبیب کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا۔ “ اب تو کبھی باورچیخانے میں گھس کر بھی نہیں دیکھا۔ کبھی خان صاحب سے پوچھنا۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ میرے ہاتھ کا پکا ہوا مرغ مسلم کھا کر ہی انہوں نے مجھ سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا ------ “

رانی لیلی کے پاس کھڑی صافی سے چمچے کانٹے صاف کر رہی تھی۔ ان نے کوئی بارھویں مرتبہ کہا ------ “ ہائے لیلی آپا ایک کباب دے دو، سچ ! ککو کو پتہ بھی نہ لگنے دوں گی ------ “

“ عجب ندیدی سے پالا پڑا ہے۔ کہہ جو دیا سب کے ساتھ کھانا ہاں ------ “

لیلی نے ڈانٹ بتائی پھر اس نے حبیب میرزا کی طرف رُخ کر کے پوچھا ------ “ کیا وقت ہوا ہے حبیب بھائی “ “ڈیڑھ بجنے لگا ہے ------ قریباً “ اسے جواب ملا۔

“ تم کھانا کھا لو حبیب، بچیوں کے لیئے بھی ڈال دیتی ہوں۔ میں مجو کے ساتھ کھا لوں گی۔ “ اماں بولیں۔ “ میں بھی مجو بھائی کے ساتھ ہی کھاؤں گی امی ------ “ لیلی بولی۔

“ ہمیں تو شوق سے کھلا دیجیئے “ شیریں نے ہاتھوں کی چوڑیاں بجا کر کہا اور پھر اپنی زبان میں لیلی سے مخاطب ہوئی ------ “ انتظار کریں زکی باجی کریں، ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے۔ “
 

شمشاد

لائبریرین
ککو نے ابھی سے کلفٹن جانے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ وہ ہاتھ پیر دھو کر چھوٹی سی پیڑی پر غسلخانے کے سامنے بیٹھی اپنے ناخنوں پر گہرے سرخ رنگ کا پالش لگا رہی تھی۔ روز وہ بارہ بجے کھانا کھانے کی عادی تھی لیکن آج کلفٹن کا سنکر اُسے کھانا بھول چکا تھا۔ پالش کے دھبے ناخنوں کے علاوہ ہاتھوں پر بھی اتر آئے تھے۔ لیکن وہ اپنی آرائش سے خوش تھی۔ پالش کا برش بوتل میں ڈالتے ہوئے اس نے چلا کر کہا ------ “ آپا شیریں ------ شیریں آپا مجھے وہ موتیوں والا فراک نکال دیں ! “

“ کونسا فراک؟“ شیریں نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔

“ وہی آپا نیلے والا ------ “

“ ہائے کونسا نیلے والا ؟ مجھے تمارے کپڑوں کی فہرست تو یاد نہیں ------“

بڑی احتیاط سے پنجوں کے بل چلتی ہاتھوں کو جسم سے دور رکھے ککو شیریں کے پاس پہنچ کر بولی۔

“ آپا ! ------ وہ جو ابا جی پچھلے سال لائے تھے ریڈی میڈ آپا۔ جس پر موتی لگے ہیں۔“

شیریں خفگی سے کہنے لگی۔ “ وہ کوئی سمندر پر جانے والا فراک ہے۔ سارا خراب ہو جائے گا پانی میں ------ “

اماں نے باورچی خانے سے آواز دی ------ “ ارے شیریں زکی کو بلاؤ میں کھانا نکال رہی ہوں، تم سب گرم گرم کھا لو۔ میں مجو کے ساتھ کھا لوں گی۔ “

ککو نے منت بھرے لہجے میں کہا ------ “ آپا قسم لے لو میں پانی میں نہیں جاؤں گی ------ خدا کی قسم “

“ اچھا اچھا دیکھوں گی ------ تم اندر جا کر زکی آپا کو بلا لاؤ۔ کہنا اماں کھانے کے لیئے بلا رہی ہیں۔“

جب ککو زکی آپا کو اندر لینے گئی تو لمحہ بھر کے لیئے حبیب میرزا کی آنکھیں اس کے تعاقب میں گئیں جیسے زکی کو لینے جا رہی ہوں۔ پھر وہ دگنے انہماک کے ساتھ باورچی خانے کے دروازے میں کھڑے ہو کر اماں جی سے باتیں کرنے لگے۔

زکی سر پر دوپٹہ لیئے آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ پردے گرے ہوئے تھے اور اندر ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ یہاں اُسے عجب محرومی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا مجو اس سے بات کرے یا نہ کرے، اُس کی طرف دیکھے نہ دیکھے لیکن گھر پر رہے۔ اُس نے اپنے ہاتھ سے مجو کے لیئے کھانا تیار کیا تھا اور مجو اس وقت انور کے ساتھ بیٹھا تھا۔ زکی کو یوں لگ رہا تھا جیسے اب مجو کو اس میں وہ دلچسپی نہیں رہی۔ مجو وہ نہیں رہا جو آج سے چھ ماہ پہلے تھا۔ ورنہ وہ آج اس وقت یوں باہر نہ جاتا۔ کیا اکیس گھنٹوں میں شوقِ دیدار اس قدر ماند پڑ گیا تھا؟ کیا ایک رات فلیٹ میں گزارنے کے بعد ہی اس کا جی اُوب گیا تھا اور اُسے انور کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔

جب ککو نے زور سے آواز دی تو وہ یوں چونک پڑی جیسے اُسے کسی نے برہنہ دیکھ لیا ہو۔

“ آپا کھانا کھا لو چل کر اماں بلا رہی ہیں “

“ میرے سر میں درد ہے تم کھا لو ------ “

“ تو تم کلفٹن نہیں جاؤ گی آپا ؟“ ککو نے گھبرا کر پوچھا

“ تم سب چلے جانا ------ میں گھر پر رہوں گی۔“

یکدم ککو کا دل ڈوب گیا۔ اس نے جلدی سے کہا ------ “ آپا آپ اسپرو کھا لیں، طبیعت ٹھیک ہو جائے گی“ پھر قریب آ کر بولی “ میں سر دبا دوں آپا ؟ “

ککو کی گھبراہٹ دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے زکی کا سر درد غائیب ہو گیا۔ اس نے ککو کی طرف مسکرا کر دیکھا اور آہستہ سے بولی ------ “ تم جاؤ ککو بڑی دیر ہو گئی ہے کھانا کھا لو ------ “

جب ککو ناخنوں کا پالش چھیلتی باہر نکلی تو پہلی چیز جو اُسے نظر آئی وہ مجو بھائی تھے۔ لیلی پانی کا لوٹا لیئے کھڑی تھی اور وہ نالی پر جھکے ہاتھ دھو رہے تھے۔ ککو اُلٹے پاؤن آپا کے کمرے میں واپس گئی اور پردہ اٹھا کر بولی ------ “ آپا آپا جی مجو بھائی آ گئے ہیں۔ سب کھانے پر آپ کو بلا رہے ہیں جی ------ “

زرقا اُٹھ کر بیٹھ گئی اور بددلی سے بولی ------ “ توبہ، کہہ تو رہی ہوں تم سب کھا لو مجھے بھوک نہیں “

ککو اس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ پہلے تو زرقا کا جی چاہا کہ اٹھ کر چلی جائے لیکن پھر اس کے جی میں آیا کہ مجو کی اس بے نیازی کا بدلہ لینا چاہیئے۔ وہ کہنی ٹکا کر لیٹ گئی اور آہستہ سے بولی ------ “ تُو جاتی کیوں نہیں ککو ؟“

ککو نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر کہا ------ “ آپا ! ------ آپا میری خاطر چلی چلو ۔۔۔۔۔۔ آپا تم نہیں جاؤ گی تو کوئی بھی نہیں جائے گا ------ کوئی بھی کلفٹن نہیں جائے گا آپا ------ “

یہ کہہ کر اس نے سرخ پالش لگے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیئے اور پھسک پھسک رونے لگی۔

زرقا گھبرا کر اٹھی، اُس نے دونوں ہاتھوں میں ککو کا چہرہ لے لیا اور جلدی جلدی بولی “ ہائے اللہ رونے کیوں لگ گئیں، چپ کرؤ ------ چپ کرؤ۔۔۔۔۔۔ ہائے بابا میں چل رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ چل رہی ہوں میں تو !“
 

شمشاد

لائبریرین
لالو نے دونوں ہاتھوں سے جھونپڑی کا دروازہ پٹاخ سے کھولا اور پھر دہلیز میں کھڑے ہو کر بولا ------ “ کیوں ری ماں تو گئی نہیں ابھی تک ------“

“جاؤں کیسے؟ جیب میں ایک کوڑی تک نہیں، بس کا کرایہ ہوتا تو چلی بھی جاتٰی۔“

“ تو چل کر پہنچ جاتی۔ اماں جی تو تو تیرا درد رہتا ہے ------ “

ماں نے چڑ کر کہا ------ “ وہاں کسے میرا درد نہیں تھا۔ کبھی لڑکیوں نے میرے سامنے اونچی آواز نہ نکالی۔ بےچاری زکی بی بی کا بھلا ہو ہمیشہ مائی جی کہہ کر بلاتی تھیں۔ اتنی عزت تو تُو نے بھی نہیں کی میری۔“

لالو نے سگریٹ کا ٹوٹا سلگایا اور غصے سے بولا ------ “ یہی تو میں کہتا ہوں ماں - مجھ سے زیادہ تو وہ تیرے سگے تھے پھر تُو گئی کیوں نہیں؟“

“ ارے لالو کہے تو جا رہی ہوں کہ پلے ایک دمڑی تک نہیں۔ جاتی کیسے ؟“

“ اور کہیں شادی بیاہ ہو تو کیسے پہنچ جاتی ہے چل کر، اب بھی چلی جاتی ناں“

ماں نے منہ کو دوپٹہ سے پونچھ کر کہا ------ “ چلی جاؤں گی لڑکے ! چلی جاؤں گی ------ آج میری ٹانگ میں درد زیادہ تھا، پھر صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں، چلنے کی ہمت کہاں سے آتی !“

“ آج تو وہ مجو میاں بھی آیا ہوا ہے ------ خوش ہو کر زکی بی بی ضرور کچھ نہ کچھ دے دیتی تجھے“

ماں نے مارے غصے کے کچھ نہ کہا اور گھڑے میں سے پانی نکالنے لگی۔ اس کائی جمے گھڑے کو لالو کی ماں کویت والوں کے گھر سے خود لائی تھی۔ اس نے غٹا غٹ پورا کٹورا پانی کا پی لیا اور پھر قہر بھرے لہجہ میں بولی “ تجھ سے میں نے سو مرتبہ کہا ہے کم ذات تیری بھی جوان بہن لاہور میں بیٹھی ہے۔ کسی کا ماں بہن کو بات بنائے گا تو بہن کے آگے آئے گی۔ “

لالو ہنس کر بولا ------ “ ارے اس کی کون سی عزت ہے۔ زیادہ سے زیادہ کس کے ساتھ بھاگ جاے گی ناں ؟“

ماں نے کٹورہ اس کی طرف کھینچ مارا اور گالیاں بکتی ہوئی بولی ------ “ ارے ماں جائی کے لیئے ایسی باتیں کہتا ہے، تجھے زکی بی بی سے کیا۔ وہ فرشتہ ہے فرشتہ۔ میں نے کبھی اُسے مجو میاں سے بات تک کرتے نہیں دیکھا۔ جو کبھی خط پتر آتا ہے تو ہمیشہ اماں جی کو دے دیتی تھی ! “

“ دے دیتی ہو گی ماں ! ------ لیکن میں کہتا ہوں دنیا کی کوئی لڑکی بھی فرشتہ نہیں۔ فلم والیاں کیا پاؤ پاؤ کے آنسو بہاتی ہیں پر ۔۔۔۔۔ پر “

ماں بغیر ادوائین کی چارپائی میں اترتے ہوئے بولی “ ارے لالو ------ تجھے کب عقل آئے گی نامراد ! بہن کو لاہور چھوڑ آیا۔ وہ کنجر تیرا چاچا خدا جانے اسے کس کوٹھے پر چڑھائے گا اور یہاں تجھے منڈوے کی پڑی ہے۔ میں کہتی ہوں کچھ کام ڈھونڈ کام ------ “

“ تو کام سے کیا رکھی کی شادی ہو جائے گی ماں ------ تُو بھی کیسی باتیں کرتی ہے ؟“

ماں تنک کر بولی ------ “ ارے بیس پچیس پر اگر لگ جائے تو ہم یہ جھگی چھوڑ جائیں۔ کرائے کے جنجال سے جان چھوٹے۔ “

لالو نے پوچھا ------ “ اور ماں اب کیا ہم کرایہ ادا کرتے ہیں ؟“

“ یہ دو مہینے سے مصیبت پڑی ہے ورنہ کیا دیتے نہیں تھے کرایہ ۔۔۔۔۔۔ “

ماں نے ماتھا پیٹ لیا اور روتے ہوئے بولی ------ “ تُو تو بس بحث کرنی جانتا ہے اور میں مصیبت میں گھری ہوں۔ خدا جانے اس اس بیچاری رکھی کا کیا فیصلہ ہو گا۔ مر گئی ہے کی جیتی ہے۔ پندرہ دن سے تو خط بھی نہیں آیا ------ “

“ تجھے اتنا درد ہے تو ماں تُو یہ جھگی چھوڑ دے ناں “ ------ “ کویت والوں کے یہاں کیوں نہیں چلی جاتی ------ “

اب ماں لنگڑاتی ہوئی اس کے پاس پہنچی اور اسے جھنجھوڑ کر کہنے لگی ----- “ اچھا تو دے پیسے چلی جاؤں گی صبح خدا قسم چھوڑ جاؤں گی تجھے ------ اب تک مامتا ساتھ لیئے پھرتی تھی۔ اب چھوڑ دوں گی ------ “

“ تو نہ جائے گی ماں تو کل مالگ مکان نکال دے گا تجھے۔ پھر جو جائے گی تو ابھی کیوں نہیں چلی جاتی۔ “

“ جب نکال دے گا تو آپ چلی جاؤں گی، تجھے کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے ؟“

لالو بجھے ہوئے چولہے کی پاس آ کر بیٹھ گیا اور راکھ میں اپنی سگریٹ کا جلتا ہوا ٹکڑا پھینک کر بولا ------ “ ماں آج مجو میاں آئے ہیں وہاں ضیافت ہو رہی ہو گی آج تو چلی جائے تو پیٹ بھر کر کھانے کو مل جائے گا۔

“ میں بھک منگی نہیں ہوں بے “

“ ماں آج وہاں سب غفلت کی نیند سوئیں گے، ہن برس رہا ہو گا وہاں “

“ کیوں ؟ ------ “ اماں نے پوچھا

“ کہا تو ہے مجو بھائی آئے ہیں “

“ پر تجھے کیسے پتہ لگا مجو میاں کا ------ “ ماں نے پوچھا۔

خالی ہانڈی کو چولہے پر سے اتار کر لالو نے نیچے رکھا اور پھر ہنس کر بولا ------ “ بس میں نے دیکھا تھا انہیں ------ “

“ اور بس کے پیسے کہاں سے مل گئے تھے ------ “

“ وہ تو پھتو نے دیئے تھے ------ “ لالو بولا۔

ماں نے دوپٹے کا پلو کھولا اور دونی اس کی طرف پھینک کر کہنے لگی ------ “ دیکھ بے لالو ------ پھتو رکھی کے ہونے والے سسرال کو آدمی ہے۔ تُو اس سے مانگ تانگ کر بس میں سفر نہ کیا کر ------ “

لالو نے دونی اٹھا کر باہر کی طرف جاتے ہوئے کہا ------ “ ماں تُو آج شام یہاں سے چلی جانا ضرور ------ مالک مکان نکال دے گا ہم دونوں کو صبح ------ اور پھر میں آج نہیں لوٹوں گا شام کو ------ “

“ لیکن تو چلا کہاں ہے بے لالو ------ ارے لالو اے ------“

ہونکتی ہانکتی ماں باہر نکلی تو لالو کافی دور جا چکا تھا۔

ماں چلائی ------ “ ارے بتا تو کہاں سر چھپائے گا جا کر ------ “

لالو نے لمحہ بھر کو منہ پھیرا اور اونچی آواز میں لکارا ------ “ تجھے میری فکر کیا ہے۔ تو بس کویت والوں کے یہاں چلی جانا ہاں ------ “
 

شمشاد

لائبریرین
مجو سب سے آخر میں اترا۔

بس گھر گھر کرتی ہوابندر کی طرف چلی گئی۔ سیسہ پلائی میٹل روڈ ہوابندر کے پاس آ کر بہت چوڑی ہو گئی تھی اور یہاں پہنچ کر یوں لگتا تھا بہت لمبے سیمنٹ کے بنے ٹینس لان آپس میں جڑ گئے ہیں۔ بس سے اترتے ہی مجو نے ہوابندر کی جانب رُخ کر کے اپنی گھڑی دیکھی۔ اس جگہ کو دیکھ کر خدا جانے کیوں اُسے لائلپور کا گھنٹہ گھر یاد آ جاتا تھا حالانکہ نہ تو ساخت میں کوئی مماثلت تھی اور نہ ہی بظاہر ماحول کی کوئی ایسی چیز تھی جو ایک دوسرے کی یاد دلائے۔ لیکن مجو اس نتیجے پر پہنچا - کہ چونکہ دونوں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں اس لیئے ایک کو دیکھ کر دوسرے کی یاد آتی ہے۔

گھڑی میں پورے تین بج کر چار منٹ ہوئے تھے۔ ابھی کل قریباً اسی وقت وہ کویت والوں کے ہاں پہنچا تھا۔

ککو اور رانی بھاگ کر چنے والے سے چنے خریدنے میں مصروف ہو گئیں اور حبیب میرزا ان کے پاس اس لیئے کھڑے تھے کہ پیسوں کی ادائیگی کے وقت وہ اپنی چابکدستی دکھا سکیں۔

سمندر کا یہ حصہ منوڑا سے بہت مختلف تھا۔ بہت دور سے سست رو سمندر ساحل کی طرف بڑھتا ہوا نظر آتا تھا۔ سڑک کے اس کنارے جہاں بسیں، ٹیکسی اور رکشا وغیرہ کھڑے کرنے کا انتظام تھا وہاں سے لے کر ساحل کے کنارے تک بتدریج سیڑھیوں کا ایک سلسہ جاتا تھا۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں سمندر ان سیڑھیوں تلے بنے ہوئے محراب دار پلوں میں سے گزرتا تھا۔ لیکن اب ریت کے تودے اردگھرد پھیلے تھے۔ سڑک سے کچھ فاصلے تک بچوں کے کھیلنے کے لیئے سی سو جھولے اور پھسلنے والی پکی گھاٹیاں بنی تھیں۔ لیکن پھر باغ و بہار کا یہ سلسلہ ختم ہو جاتا تھا۔ اور لہریا ریت کے تودے ہر طرف پھیلنے لگتے تھے۔ جو لوگ ان سیڑھیوں پر سے اتر کر ساحل کنارے نہیں جاتے وہ بتدریج اترتی سڑک پر سے ہو کر ساحل کی طرف جا نکلتے ہیں۔ لیکن مجو کے نزدیک وہ راستہ اس قدر رومانٹک نہ تھا۔ شیریں اور لیلی ہولے ہولے سیڑھیاں اترنے لگی تھیں۔ زرقا خدا جانے کس سوچ میں تھی۔ اس کے برقعے کا نقاب اڑ رہا تھا۔ آنکھوں پر لگی سیاہ عینک کے پیچھے وہ آنکھیں کسے دیکھ رہی ہیں اس کا اندازہ مجو لگا نہ سکا۔ کب ککو اور رانی نے چنے خرید لیئے تو وہ دونوں حبیب بھائی کے ساتھ بائیں جانب چلی گئیں۔ سیڑھیوں کے بائیں طرف ایک بہت بڑا مزار ہے اور اس کے طاقچوں میں ہزاروں کبوتر غڑغوں غڑغوں کیا کرتے ہیں۔

ککو اور رانی نے دیوار پر چڑھ کر کبوتروں کو دانہ ڈالا تو پّرے مزار سے اُڑ کر اس طرف آ گئے۔

اماں جی نے حبیب بھائی سے کہا ------ “ آو چلیں، یہ تو شائد کبوتروں کی خاطر آئی ہیں۔“

مجو نے کنکھیوں سے زرقا کی طرف دیکھا وع زیر لب مسکرائی اور پھر اس سے آگے آگے چل دی۔ ان دونوں میں فقط ایک گز کا فاصلہ تھا۔ اگر مجو چاہتا تو بازو پھیلا کر اس کا نقاب کھینچ سکتا تھا۔ لیکن مجو نے آج تک ایسی کوئی شرارت نہ کی تھی۔ اس دونوں میں ازل سے یہ سمجھوتا ہو چکا تھا کہ کوئی چھچھوری حرکت کوئی گھٹیا بات ہمارے درمیان ہو ہی نہ سکے گی۔ ------ مجو اس سوئی سوئی محبت سے جھلا اٹھا تھا۔ سیڑھیاں اترتی کبوتری سی زرقا کو دیکھ کر ایک بار تو اس کے جی میں آئی کہ اسے اپنے بازؤں میں دبوچ لے اور پھر چاہے اماں جی ایک زمانہ اکٹھا کر لیں اسے کبھی اپنے تن سے جدا نہ کرے لیکن پھر اس نے نظریں جھکا لیں اور گلابی مائل بادامی پتھروں کی دیوار دیکھنے لگا جو سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی تھی۔

“ ایک تو کم بخت ان سیڑھیوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا ------ اسی لیئے مجھے کلفٹن زہر لگتا ہے۔“ اماں جی بولیں ------

لیلی پلٹ کر بولی ------ “ ہائے اماں یہی تو کلفٹن کا حسن ہے ------ “

“ میل بھر تو یہ سیڑھیاں ہی ہوں گی ------ “ اماں نے گلہ آمیز لہجے میں کہا ------ “ بھلا سیر کیا رہ جاتی ہے جب ٹانگیں ہی تھک جائیں ------ “

زرقا نے آہستہ سے مجو کہ کہا ------ “ پتہ نہیں آپ کے کندھے پر کالی سی کیا چیز لگی ہوئی ہے ------ “

مجو نے اپنے کندھے پر چپکے ہوئے خزاں آلود پتے کو اتار کر تشکر آمیز نظروں سے اُسے دیکھا اور شیریں سے کہنے لگا ------ “ ہماری فکر تم کو نہیں ہے شیریں صاحبہ ! لیکن یاد رکھیئے مٹھائی کے ہم ہی وارث ہیں۔“

“ توبہ توبہ یہ بچیاں ابھی تک کبوتروں کے پاس ہی کھڑی ہیں۔ ان کی تو ساری شام کبوتروں کے ساتھ ہی کٹ جائے گی ------ ککو اور ------ رانی “ اماں جی چلائیں۔

زرقا سانس لینے کے لیئے جنگلے کے ساتھ کمر لگا کر رک گئی تو لیلی نے پلٹ کر اس کر طرف دیکھا اور پھر نعرہ لگایا ------ “ مجو بھائی کیمرہ نہیں لائے آپ؟“

“ نہیں تو ------ “

اس نے اور حبیب میرزا نے بیک وقت زرقا پر نظر ڈالی۔ اس کا جسم دیوار کے کنگرے اور کٹاؤ کے ساتھ یوں بل کھا گیا تھا جیسے اس میں کوئی ہڈی نہ ہو۔ مجو نے چہرہ پرے کر لیا اور اس کا بند بند دُکھنے لگا۔

زرقا نے برقعے کے بٹن کھول رکھے تھے اور سیاہ بادبان کے کنارے اس کے سفید چہرے کے گرد پھڑپھڑا رہے تھے۔ کالی اور گرے دھاریوں والی قمیص ہوا کے باعث اور بھی جسم سے چمٹ گئی تھی اور رسی نما چنت کا دوپٹہ گلے میں یوں لٹک رہا تھا جیسے موتیے کا لمبا ہار ہو۔

“ حبیب میاں ذرا ان بچیوں کے کان کھینچ کر لاؤ، بدبختیں جب آتی ہیں۔ کبوتروں کے پاس ہی رہ جاتی ہیں “ حبیب نے ایک نظر زرقا پر ڈالی اور اُلٹے پاؤں ککو اور رانی کو لینے واپس چلا گیا۔

کوئی فرلانگ بھر لمبی بتدریج اترتی سیڑھیوں کا سلسلہ ختم ہوا اور وہ ہوادار دلان میں پہنچے تو ابھی حبیب میرزا اور بچیاں پہلی سیڑھیاں اتر رہی تھیں۔ اس دالان میں دونوں جانب بنچیں پڑھی تھیں اور بائیں ہاتھ چند ایک مچھیرے بیٹھے اپنے جال مرمت کر رہے تھے۔ سامنے سمندر تھا۔ سمندر کی ریت تھی، ریت کی لہریں تھیں۔

زرقا اس دیوار کے پاس جا کھڑی ہو گئی جو عین سمندر کی جانب تھی۔ اماں جی بنچ پر بیٹھی سانس درست کر رہی تھیں۔ لیلی اور شیریں زرقا کے پاس پہنچیں اور دیوار پر سے نیچے جھانک کر ان میں سے ایک نے کہا ------ “ آؤ آپا سیپیاں اور گھونگھے دیکھیں ------ “

مجو مٹھائی کا لفافہ سنبھالے کچھ ہی دور کھڑا تھا۔ اس نے سوچا زرقا ان دونوں سے کچھ ایسی بڑی تو نہیں لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ الگ تھلگ رہتی ہے گویا کچھ سوچ رہی ہو۔ ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج فضا کی پنہائیوں میں اکیلی غوطہ زن ہو ------ یونہی اسے خیال آیا اگر زمانے کے انقلاب نے اسے میری بیوی نہ بنایا اور یہ حبیب میرزا کی دلہن بن گئی تو ------ تو شاید یہ کونج پھر کبھی ڈار سے نہ مل سکے گی۔ اس کا ساتھی اس سے دور دور اڑا کرئے گا اور یہ پھڑپھڑاتی، سینہ پُھلاتی، ہانپتی کانپتی اس سے پرے پرے اڑتی رہے گی۔ اڑتی رہے گی اور ایک دن اس کے پر جواب دے جائیں گے اور یہ دھرتی کے کسی بے آب و گیاہ علاقے میں ہمیشہ کے لیئے معدوم ہو جائے گی تنہا ------ اکیلی بے یارومددگار ------ ! “
 

شمشاد

لائبریرین
کلفٹن کا رتیلا ساحل کافی لمبا اور چوڑا ہے۔ سمندر بڑی ہو سست رفتاری سے ساحل کے قدم چومنے آتا ہے اور ہلکے سے لمس کے بعد لوٹ جاتا ہے۔ یہاں منوڑا کی مستانہ لہروں کا شور نہیں، یہاں دور دور تک پھیلی ہوئی استرحت کرتی ابرق جیسی ریت ہے۔ اس رتیلے ساحل کنارے کچھ چائے کے سٹال ہیں کچھ بوسیدہ میزیں ہیں، پرے تختوں پر سمندر کے گھونگھے سیپیاں سنکھ اور خوبصورت پتھر بکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھونگھوں کی مالائیں، گجرے، کان پھول، چھوٹے چھوٹے شیشے کے بکسوں میں جگمگا رہے تھے۔

مجو شیریں اور لیلی کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا ------ انسان کس قدر زبردست واقع ہوا ہے۔ جو تحفے سمندر کی لہریں لا کر ساحل کنارے چھوڑ جاتی ہیں، انسان نے ان کی بھی قیمتیں مقرر کر دی ہیں۔

لیلی نے ٹوپس کی ایک سفید جوڑی ہتھیلی پر رکھ کر شیریں سے کہا ------ “ ہائے یہ بالکل نیا نمونہ بنایا ہے۔ پچھلی دفعہ تو ایسے ٹوپس یہاں نہ تھے۔“

دوکاندار نے ان لڑکیوں کو اپنے مال میں دلچسپی لیتے دیکھا تو سیپیوں کے سارس بطخوں والا ایک بڑا طباق دکھاتے ہوئے بولا ------ “ بی بی جی ------ دیکھئیے محنت کی ہی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ یہ سارس کا جوڑا دیکھئیے کیا چھوٹی چھوٹی سپیوں سے چونچ بنائی ہے دیکھو تو سہی ------ “

“ قیمت کیا ہے ؟“ مجو نے لیلی اور شیریں کے کندھوں میں سے سر نکال کر پوچھا۔

“ پانچ روپے حضور صرف پانچ روپے ----- “

“ توبہ مجو بھائی فضول چیز ہے بالکل ------ چار دن کی شو ہوتی ہے بالکل- پھر تو اتنے بوسیدہ لگتے ہیں یہ بگلے شگلے کہ توبہ ------ “ لیلی نے کہا۔

لڑکیوں کی پسند بھانپ کر مجو نے سیپیوں کے بنے ہوئے تین جوڑی کان پھول علیحدہ کیئے اور دوکاندار سے قیمت پوچھنے لگا تو زرقا بھی آن پہنچی۔

“ یہ ٹاپس کس کے لیئے خریدے جا رہے ہیں ؟ “ زرقا نے پوچھا۔

“ تم تینوں کے لیئے ! ------“

“ ہم دونوں تو خیر لے لیں گی لیکن زکی آپا کے کانوں کی طرف تو دیکھئے “ ------ شیریں بولی، زرقا نے شرما کر منہ دوسری طرف کر لیا تو مجو کو اُس کے کان میں کچھ چمکتی چیز نظر آئی اور بس۔

“ زکی آپا کے کانوں میں جا ٹاپس اس وقت ہیں ایک ایک کی قیمت دس ہزار ہے ------ “

“ دو ہزار ! توبہ میری “ مجو نے کان کو ہاتھ لگا کر کہا۔

“ سچ مجو بھائی اباجی نے کویت سے بھیجے تھے۔ ------ تین تین ہیرے ایک ایک ٹاپس میں ہیں۔ سچ “ شیریں نے تفصیل سمجھائی ------

زرقا نے دوکان سے درو ہٹتے ہوئے کہا ------ “ توبہ چپ بھی کرؤ۔ جو لینا ہے لو اور پھر چلیں۔ “

لیلی اور شیریں نے اپنے اپنے ٹاپس کانوں میں ڈال لیئے اور سمندر کی طرف بھاگ گئیں۔ ان کے اڑتے ہوئے برقعے سمندری ہوا میں کالے بادبانوں کی طرح لہرائے۔ سمندر کی ہوا جیسے بچھڑی ہوئی سہیلی کی طرح ان سے ملی اور وہ کشاں کشاں ساحل کی طرف لپکتی گئیں ------

زرقا کے قدم من من کے ہو گئے۔ اسے احساس ہوا پیچھے آنے والے اماں جی اور حبیب میرزا کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی ہیں۔ لہو کی گردش تیز ہو گئی اور کانوں کی لوئیں سرخ سرخ ہونے لگیں۔ ایسے ہی لمحوں کی یاد میں اس نے کئی راتیں سٹور میں اکیلے ہی لیٹے لیٹے کاٹ دی تھیں۔ پچھلے خط میں مجو نے ان تینوں بہنوں کو مخاطب کر کے لکھا تھا کہ کیا میں کراچی آؤں؟ تو اس کے جواب میں زرقا صرف ہاں لکھ سکی تھی۔ لیکن اس ہاں میں جیسے یار کو مہماں کرنے کا سارا خلوص اور نیک نیتی پنہاں تھی۔
 
Top