ایک تھا بادشاہ! عطاءالحق قاسمی

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک تھا بادشاہ!


کسی ملک میں ایک بادشاہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ رہتا تھا۔ اگرچہ وہاں عوام بھی رہتے تھے لیکن وہ دراصل ملک میں نہیں، رحم دل بادشاہ کے دل میں رہتے تھے۔ چنانچہ ان کی جگہ بادشاہ خود کھاتا پیتا تھا، ان کی جگہ کپڑے بھی خود پہنتا تھا اور ان کی جگہ شادیاں بھی خود ہی کرتا تھا۔ بادشاہ نے اپنے عوام کو ان تمام فکروں سے آزاد رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت بےفکرے ہو گئے تھے۔ بادشاہ کے مشیروں کو بھی عوام سے بہت محبت تھی۔ اور چونکہ عوام بادشاہ کے دل میں رہتے تھے اس لئے مشیر عوام سے اپنی اس محبت کا اظہار بادشاہ ہی سے کرتے۔
عوام سے اس بے پناہ محبت ہی کا نتیجہ تھا کہ مشیروں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ بادشاہ سلامت آپ کے دل میں رہنے والے عوام کے لئے آپ کا شاہی محل چھوٹا ہے۔ اسے آپ کے دل کی طرح بڑا ہونا چاہئیے۔ درویش منش بادشاہ خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے اس پر راضی نہ تھا مگر عوام کی محبت نے اسے مشیروں کا مشورہ ماننے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ ایک وسیع و عریض خطے میں نئے شاہی محل کی بنیاد رکھی گئی اور ہزاروں عوام نے دن رات ایک کر کے چند مہینوں میں “اپنے لئے“ ایک نیا گھر بنا لیا۔ چنانچہ بادشاہ سلامت اپنے کروڑوں عوام کو دل میں بسائے اس گھر میں منتقل ہو گئے۔
اپنے عوام سے بادشاہ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ مشیروں نے اسے زمین اور زمین کے نیچے موجود ہر چیز پر ٹیکس لگانے کا مشورہ دیا تو بادشاہ سوچ میں پڑ گیا کیونکہ ٹیکس اگرچہ عوام پر لگنا تھا مگر ٹیس تو بادشاہ کے دل ہی میں اٹھنا تھی۔ تاہم عوام دوست بادشاہ نے عوام کی خاطر یہ تکلیف برداشت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ عوام پر بھاری ٹیکس عائد کر دیئے گئے۔
ایک دن ایک مشیر بادشاہ کے پاس آیا اور کہا “بادشاہ سلامت! کچھ عدالتیں فیصلے صحیح نہیں دیتیں۔ قاضیوں کو شاہی اصطبل میں گھوڑے خرخرے کرنے پر مامور کیا جائے۔“ نیک دل بادشاہ نے اس مشورے کو ناپسند کیا اور کہا “ قاضی بھی ہماری رعایا ہیں اور ہم اپنے رعایا سے حسنِ سلوک کے قائل ہیں۔ البتہ قاضیوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ کسی اہم فیصلے سے پہلے ہم سے مشورہ کر لیا کریں۔ ہمارے دروازے ان کے لئے ہمیشہ کُھلے ہیں۔“ بادشاہ کی اس دانش مندی سے عدالتوں کی کارکردگی واقعی بہتر ہو گئی اور لوگ انصاف پسند بادشاہ کو دعائیں دینے لگے۔
بادشاہ کو چاپلوسی اور خوشامد سے شدید نفرت تھی۔ چنانچہ جب کوئی اس کہتا کہ حضور آپ ہمارے نجات دہندہ ہیں۔ آپ کی وجہ سے ہمیں ظالم سلطان سے چھٹکارا حاصل ہوا تو بادشاہ کو ناگوار گزرتا۔ چنانچہ وہ ایسے ظاہر کرتا جیسے اس کی بات نہیں سن سکا۔ وہ اسے اپنی بات دہرانے کو کہتا اور ایسا تین چار بار ہوتا۔ کچھ بدگمان قسم کے لوگ سمجھتے تھے کہ بادشاہ ایسا اس لئے کرتا ہے تاکہ اپنی تعریف تین چار بار سن سکے۔حالانکہ بادشاہ کا مقصد خوشامد کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔
مخالفوں کی اس بدگمانی کے غلط ہونے کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ بادشاہ نے پورے ملک میں اعلان کروایا تھا کہ ان کی تعریف کوئی نہ کرے کیونکہ یہ خوشامد کی ذیل میں آتی ہے۔ ایسا اس نے احتیاطاً کیا تھا ورنہ کوئی شخص ویسے بھی اس کی تعریف نہیں کرتا تھا کہ جانتا تھا بادشاہ کو تعریف پسند نہیں۔ تاہم اس اعلان کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگ بند کمروں میں بھی بادشاہ کی تعریف نہیں کرتے تھے۔ بادشاہ بھیس بدل کر اکثر رات کو گشت پر نکلتا اور سراغ لگانے کی کوشش کرتا کہ کہیں کوئی اس کی تعریف تو نہیں کر رہا۔ ایک رات اسے ایک مکان سے بچوں کے رونے کی آواز سنائی دی۔ مکان کا دروازہ کھلا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک عورت بچوں کے آنسو پونچھ رہی تھی اور کہہ رہی تھی “ہمارا بادشاہ اتنا اچھا ہے کہ ہم بھوکے پیاسے ہیں لیکن پھر بھی فریاد کرنے کو جی نہیں چاہتا۔“ بادشاہ نے صبح ہوتے ہی اس بڑھیا اور اس کے بچوں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے یہ گوارہ نہ تھا کہ کوئی بند کمرے میں بھی اس کی تعریف کرے۔
بادشاہ آذادیء اظہار کا بہت بڑا علمبردار تھا۔ اس نے اس سلسلے میں کوئی قدغن نہیں لگائی چنانچہ سابقہ سلاطین کے خوشامدی دانشور بھی کھلم کھلا سابقہ سلاطین پر تنقید کرتے تھے اور ان کی اتنی برائیاں بیان کرتے تھے کہ نئے بادشاہ کے لئے دل سے دعائیں نکلتی تھیں۔

عطاءالحق قاسمی
از ‘ہنسنا رونا منع ہے‘
 
Top